عید الاضحی اور سوشل میڈیا

786

عید الاضحی کی خوشیاں، حج کی مبارک بادوں کے ساتھ یہ ہفتہ ہرا بھرا رہا۔کراچی میں جانوروں کے بیوپاری پچھلے سال بارش کے باعث ہونے والے خسارے کے چکر میں امسال ویسی ہی پیش گوئی کے تناظر میں کم جانور لائے۔نتیجتاًمارکیٹ میں جانور کم پڑ گیا اور قیمتیں ساتویں آسمان پر چلی گئیں۔لوگ سماجی میڈیا پر قربانی کے مسائل ، مختلف احادیث مبارکہ، فضائل ، کے ساتھ ساتھ جانوروں کے ساتھ سیلیفیاں اور جانوروں کی گھر پر اتارنے کی ویڈیوز خوب شیئر کرتے رہے۔حسب سابق ایک خاص ایجنڈے کے تحت مہنگے قربانی کے جانوروں کے بجائے بھوکوں کو کھانا کھلانا، دکھی انسانیت کی مدد ، ڈیم و دیگر جانب خرچ کرنے کی جانب ابھارا جاتا رہا۔اس کا جواب اس انداز سے دیا گیا کہ ،’’عجیب بات چل پڑی ہے بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس بار قربانی کا جانور نہیں لیا ان پیسوں سے پانی کا کولر لگوا دیا یا کسی غریب کی شادی کا بندوبست کردیا۔قربانی کا اپنا مقام ہے ہر استطاعت رکھنے والے پر واجب ہے اگر دوسری نیکی کرنی ہی ہے تو اپنی گاڑی ،مہنگا فرنیچر یا موبائل کے پیسوں سے کرلیں۔‘‘اسی طرح ایک اور لائن بھی ساتھ ساتھ چلائی گئی کہ قربانی کے گوشت میں غریبوں اور مستحقین کا حصہ بھی ملایا جائے۔اُس کا اسٹائل کچھ یوں تھا کہ ،’’ وہ پانچ لاکھ کا بیل گھما پھرا رہا تھا ،درجنوں غریب لوگوں کے سامنے جن کودو وقت کا کھانابھی میسر نہیں تھا ۔ سوچتا ہوں پل صراط پر وہ قربانی کا جانور کیسے بھاگے گا جب درجنوں غریبوں کی حسرت بھری آنکھیں یاد آئیں گی اس جانور کو۔‘‘
بہر حال یہ تو موسمی منظر نامہ تھا۔سیاسی حالات اسی طرح گرم رہے جیسا پچھلے ہفتے تھے اور اس میں جان ڈالی نو منتخب وزیر اعظم پاکستان عمران خان نیازی کی تقریب حلف بردار ی کی جھلکیوں نے اور اُس کے بعد اُن کے پہلے انقلابی پالیسی خطاب نے۔حلف برداری کی تقریب میں وزیر اعظم کی جانب سے تمام تیاریوں کے باوجود حلف کے الفاظ کی ادائیگی میں مشکلات ہوں یا چشمہ کی تلاش ، پریڈ کے دوران مختلف انداز ہوں سب کسی نہ کسی شکل میں موضوع بنی رہیں۔کسی نے مثبت قرار دیا تو کسی نے تنقید کی اور عمل کی جانب متوجہ کیا۔ایسا نہیں کہ عمران خان صاحب کے ساتھ اس طرح کوئی پہلی مرتبہ ہوا ہو ، ماضی میں بھی اس طرح کے مزاح پر مبنی واقعات ہو چکے ہیں ، جس کی کمپائلیشن بھی سماجی میڈیا پر شیئر ہوتی رہی۔اسمبلی میں داخلہ کے موقع پر واسکٹ اور شناختی کارڈ والا معاملہ تو تازہ تھا ہی ، حلف بردار ی اور پریڈ کے ایکشن نے تو چار چاند لگا دیئے ۔پھر ہوا یہ کہ اتفاق سے حلف برداری کی تقریب کی رات کوئی گیارہ بجے کے قریب کراچی میں بجلی کا طویل بریک ڈاؤن ہو گیا ، جس کے نتیجے میں85%کراچی اندھیرے میں ڈوب گیا اور پاور پلانٹ کی یہ خرابی فجر کے وقت جا کر دور کی گئی۔رات بھر لوگ سوشل میڈیا پر بھڑاس نکالتے رہے کیونکہ کے الیکٹرک کے مالک ابراج گروپ کے چیف ایگزیکٹیو عارف نقوی، عمران خان کے قریبی دوست ہیں اورکہاجاتا ہے کہ تحریک انصاف کے لیے خاصی مالی معاونت بھی کرتے رہے ہیں ( واضح رہے کہ گذشتہ ماہ عارف نقوی کو دبئی میں بینک رپٹ قرار دیا گیا اور اُن کے خلاف سرمایہ کاری کی رقم میں مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات جاری ہیں)۔اس سب کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کی تقریرکو سماجی میڈیا پر بھر پور پذیرائی ملی ۔ یہاں تک کہ تقریر کے لیے بنائے گئے نکات والے صفحات بھی سماجی میڈیا پر شیر کر دیے گئے یہ بتانے کے لیے کہ وزیر اعظم پاکستان نے کس خوبصورتی سے بغیر لکھی ہوئی تقریر قومی احساسات اور ملکی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے کی۔ساتھ ہی اس تقریر کو بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کی 11 اگست کی تقرر سے ملانے کی کوشش کی جاتی رہی۔اسی طرح معروف اینکر و تجزیہ نگار سید طلعت حسین نے تجویز دی کہ ’تقریر کی تیاری کر کے آنی چاہیے یا لکھی ہوئی تقریر کرنی چاہیے ۔‘‘
تنقید کرنے والوں نے کوئی موقع بھی جانے نہ دیا۔اس حوالے سے یہ پوسٹ بہت مقبول رہی کہ ’’عمران خان کی تقریر کو سیرئیس لینے والوں میں اکثریت اْن ہی لوگوں کی ہے جو فیس بک پوسٹس کے کمنٹ باکس میں 4لکھ کر جادو کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘ڈان نیوز نے غیر معمولی تقریر قرار دیا،خورشید شاہ نے مایوسی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل پچھلے ہفتہ قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو کی انگریزی میں کی گئی پہلی تقریر بھی خاصی موضوع بنی رہی۔سب سے زیادہ تو لوگوں نے دعائیہ کلمات کی صورت پاکستان کے اچھے مستقبل اور تقریر میں کہی گئی باتوں کو عمل کی دنیا میں لانے کا کہا، کیونکہ معاملہ یہ بھی رہا کہ ماضی میں عمران خان صاحب کے حوالے سے ’قول و فعل کے تضاد ‘کے خاصے واقعات رہے ہیں جن میں انٹرا پارٹی انتخابات، دھرنے ، لوٹوں کو شامل کرنے کا عمل تقریر میں کیے گئے دعوؤں سے ملتا جلتا نہیں تھا ۔اسی طرح سادگی کی باتوں کو ایک ایک کر کے ویڈیو مثالیں شیئر کر کے خوب دھویا گیا۔جہاں تنقید کے نشتر چلائے جاتے رہے وہاں پی ٹی آئی کے چاہنے والے جواب بھی دیتے رہے ،’’ملک کا دیوالیہ نکال کر تباہ حال حالت میں ملک کو وزیراعظم عمران خان کے سپرد کرکے بہتری کے اقدامات نہ کرنے پر وہی لوگ تنقید اور صلاح و مشورے دے رہے ہیں جن کے دماغ پورے طور پر نہیں پرورش پاسکے اور جس کا ذکر خان صاحب نے اپنی تقریر میں کیا۔‘‘ایک اور سپورٹر نے عمران خان کے ابتدائی ایام حکومت کا خلاصہ اس طرح بیان کیا کہ ’’پہلی تقریر :پاکستان کو مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کا اعلان۔پہلی قرار داد: گستاخانہ خاکوں کے خلاف منظور۔پہلی کابینہ میٹنگ : توہین رسالت پر ہالینڈ سفیر کی طلبی کا فیصلہ ابھی صرف تیسرا دن ہے۔اللہ عمران خان کی مدد کریں ۔مادر وطن کے لیے مبارک ثابت کریں ۔آمین‘‘۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے بھی جماعت اسلامی پاکستان کے آفیشل فیس بک پیج کے ذریعہ اس تقریر کے مثبت رد عمل میں کہاکہ،’’عمران خان نے جس کڑے احتساب کا اعلان کیا ہے، قوم اس کی منتظر ہے۔ ہم چاہیں گے کہ موجودہ حکومت ایسے قانونی اور عملی اقدامات کرے جس سے کرپشن کے تمام راستے بند ہو جائیں اور ملک لوٹنے والوں کو بچ نکلنے کا موقع نہ مل سکے۔جماعت اسلامی مخالفت برائے مخالفت پر یقین نہیں رکھتی، اچھا کام کرنے والے کو ہم کھلے دل سے شاباش دیتے ہیں۔ ہم سیاسی تعصبات سے بالاتر ہو کر پاکستان اور پاکستانی عوام کی بھلائی چاہتے ہیں۔‘‘
اُسی رات معروف تجزیہ نگار و سینئر صحافی سلیم صافی نے ایک ٹی وی شو میں وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات کے حوالے سے ایک اہم بات بتائی جو خود اُنہیں کسی نے بتائی تھی کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ،وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات خود اٹھاتے تھے یعنی سرکاری خزانے سے وہ اخراجات ادا نہیں ہوتے تھے۔یہ بات خاصی وائرل رہی کیونکہ یہ سب کے لیے نئی تھی ، البتہ اس کا جوا ب ایک اور ٹی وی چینل کے اینکر سمیع ابراہیم نے یوں دیا کہ اگر یہ سچ ہے کہ ’’میاں صاحب اگر وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات خود اٹھاتے تھے تو اپنے ٹیکس گوشواروں میں یہ اخراجات کیوں نہیں شامل کیے ۔اگر کریں گے تو اُس کی منی ٹریل بھی بتانی ہوگی ۔یہ بتانا پڑے گا کہ یہ رقم کہاں سے آئی۔‘‘حلف برداری اور تقریر کے علاوہ نئی کابینہ کے اعلان کے بعد بھی خاصے تبصرے جاری رہے ، جن میں نئی بننے والی کابینہ کے اُن افراد کو جن پر ماضی میں کرپشن کے الزامات رہے ہیں،وہ نشانہ بنے رہے ۔ان میں زبیدہ جلال، پرویز خٹک و دیگر شامل تھے۔
پچھلے ہفتے کی طرح اس ہفتہ بھی ٹوئٹر پر ہالینڈ کے خلاف بھی خاصا گرم ماحول بنا رہا اور ’’ کک آؤٹ ہالینڈ ایمبیسیڈر‘‘کے نام سے ٹرینڈ مستقل لسٹ پر چھایا رہا۔تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ مولانا خادم رضوی کے ایمان افروز مختصر کلپس سماجی میڈیا پر خوب وائرل رہے ۔’نماز دن میں پانچ بار فرض ہے لیکن ناموس رسالت ﷺ پر پہرہ دینا ہر ایک سانس پر فرض ہے ۔‘‘اسی طرح ازخود نوٹس لینے والے محترم چیف جسٹس کو مخاطب کر کے کہاگیاکہ ،’’چیف جسٹس صاحب ڈیم کی تعمیر کے لیے دس دس روپے بعد میں اکھٹے کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے ایکشن تولو ہالینڈ امبیسی بند کرواؤ۔ہالینڈ مردہ باد ۔‘‘
اسی طرح ملک کے ایٹم بم کے استعمال کے حوالے سے بھی تجاویز آتی رہیں کہ، ’’اگر ہمارا ایٹم بم حضور خاتم النبیینﷺ کی ناموس کے لیے نہ چل سکا تو میرا ایمان یہ کہتا ہے کہ یہ پاکستان کی حفاظت کے لیے بھی نہیں چلے گا۔۔۔کیونکہ اللہ رب ذوالجلال نے کائنات کی ہر چیز نبی پاک ﷺ کی لیے ہی بنائی ہے!تو پھر سن لو!! جہاں پیارے نبی ﷺ کی توہین کی کوشش بھی ہوگی وہاں کون عزت دار رہے گا؟‘‘نجم سیٹھی کے استعفیٰ ، ایشیا کپ کے تناظر میں بھی ٹوئیٹ کیا گیا کہ ’’ہمین نہیں پتہ کہ پی سی بی میں کیا ہوگا ، ہمیں جواب چاہیے کہ ہالینڈ سے سفارتی تعلقات کب ختم کیے جا رہے ہیں؟‘‘بہر حال اس حوالے سے بھرپور طور پرنبی کریم ﷺ سے محبت کا کھلا اظہار، ہالینڈ مصنوعات پر پابندی، مسلمانوں کو ایک ہونے، سابقہ گستاخ ملعونوں کے عبرت ناک انجام، سندھ اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد، نیدر لینڈ کی ایمبیسی کے باہر احتجاج کرنے، الیکٹرانک میڈیا کی خاموشی،او آئی سی کی تجویز، سیاسی جماعتوں کی خاموشی کے ساتھ ساتھ حکومتی رہنماؤ ں کو بھی ٹیگ کیا جاتا رہا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے روز حکومت پاکستان کا بھرپور رد عمل سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبد القادر پٹیل کی جانب سے ہالینڈ میں ہونے والے خاکوں کے مقابلے کے خلاف قرارداد کے ویڈیو کلپ، تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت کی اسی حوالے سے گفتگو بھی سماجی میڈیا پر شیئر ہوتی رہی۔عامر لیاقت کی سماجی میڈیا پر چونکہ زیادہ وسیع رسائی ہے اس لیے اُن کا بیانیہ خاصا دور تک پھیلا، بہر حال گفتگو اُ ن کی بہت مناسب تھی ۔

حصہ