ہم لائیں ہیں طوفان سے کشتی نکال کر

792

جماعت اسلامی۔۔۔ یوم تاسیس پر خصوصی تحریر

نون۔ الف
جماعت اسلامی کے77 سال ایک عظیم جدوجہد‘ عزم صمیم اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جستجو سے عبارت ہیں۔ جماعت اسلامی تو محض ایک عنوان ہے‘ اس عنوان کے سینکڑوں باب ہیں جو قربانیوں‘ اپنی عہد کی پاسداری اور ظلم و جبر کے نظام کے خلاف مسلسل تگ و دو سے مزین ہیں۔ 26 اگست 1941ء برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا وہ سنہرا دن تھا جب حضرت مجدد الف ثانیؒ کی برپا کی ہوئی تحریک کو ایک مرتبہ پھر ازسرنو ترتیب دیا گیا اور جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی۔ بانی جماعت اسلامی سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 1941 سے بہت پہلے ہی سے اپنی تحریروں اور تقاریر کے ذریعے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو یہ حقیقت باور کروائی کہ انسان کے بنائے ہوئے نظام اور خود تراشیدہ فلسفے و نظریات انسان کو ظلم‘ جبر اور غیر فطری طرز ہائے زندگی کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔ یہ وہ دور تھا جب پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کی آگ سے انسان کو موت‘ بربادی اور تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ اسلام بحیثیت دین‘ محض عبادت و رسوم کی ادائیگی تک محدود کر دیا گیا تھا۔ کمیونزم‘ اشتراکیت‘ سوشل ازم کے خوش کن نعروں نے جہاں دنیا بھر کے لوگوں کو شاد کیا وہیں جید قسم کے سکہ بند علما بھی اسلام کے تصورِ حاکمیت پیش کرنے میں تذبذب کا شکار تھے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس حقیقت کو بھانپ لیا تھا کہ وہ مغربی ممالک میں جو سیاسی‘ معاشی اور ادبی انقلاب رونما ہو رہا ہے وہ صرف مقالوں اور تقاریرکی بہ دولت نہیں ہورہا۔ مغرب نے اپنے افکار کو ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھایا ہے اور اس لادینیت کی یلغار کا مقابلہ بھی ’’عظیم اسلامی تحریک‘‘ کو برپا کرنے سے ہی کیا جاسکتا ہے۔
قیام جماعت اسلامی کے ساتھ ہی 75 جاں نثاروں اور بنیادی اراکین کی علمی‘ فکری اور انقلابی تربیت کا فریضہ بھی ایک عظیم اسلامی تحریک کے لیے ضروری تھا۔
چناں چہ بیک وقت علمی و فکری میدان میں جماعت اسلامی نے اپنے موجودہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مغربی فلسفے کی چکاچوند کو اپنی تحریروں اور عملی جدوجہد سے خیرہ کیا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی بصیرت اور خلوصِ نیت نے انتہائی قلیل مدت میں برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی سے یہ بات عامۃ الناس میں باور کرا دی کہ قلیل تعداد رکھنے کے باوجود اگر کوئی تحریک منظم ہو تو وہ پوری قوم کی رہنمائی کرسکتی ہے۔
اگرچہ جماعت اسلامی کا قیام 1941 میں ہوا تھا مگر جب پاکستان آزاد ہو گیا تو سید مودودیؒ نے 30 اگست 1947 کو لاہور آنے کا فیصلہ کیا اور مہاجرین کی داد رسی اور امداد کے لیے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو فوری ہدایات جاری کیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی اس عظیم جدوجہد میں معاش و روزگار کی تنگی‘ اپنوں کے چرکے‘ مخالفت‘ دشمنوں کی دشنام طرازی سب کچھ آڑے آئی مگر داع�ئ اسلام کے پایۂ استقامت میں معمولی لغزش نہ آسکی۔
جماعت اسلامی کی بنیادی اساس وہ فکر ہے جو سید مودودیؒ نے قرآن و سنت سے اخذ کرکے آسان فہم انداز میں عامۃ الناس کے لیے فراہم کی۔
ایک وہ بھی وقت تھا جب مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم زوروں پر تھی۔ شدی تحریک کا کرتا دھرتا سوامی شرھانند کو1926 میں ایک مسلمان عبدالرشید نے قتل کردیا جس پر ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف یہ تاثر پھیلایا گیا کہ ’’اسلام تشدد کا مذہب ہے۔‘‘ گاندھی نے کہا کہ اسلام تشدد اور تلوار کا نام ہے۔
مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں خطبۂ جمعہ میں درد مندانہ اپیل کی کہ ’’کاش کوئی بندہ خدا اس وقت ان الزامات کے جواب میں اسلام کے نظریہ جہاد کو صحیح انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرسکے۔‘‘
سید مودودیؒ نے محض 24 سال کی اور چھ ماہ کی قلیل مدت میں ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ لکھ کر اسلام کے نظریۂ جہاد کی اصل حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جب کتاب شائع ہوکر منظر عام پر آئی اور علامہ اقبالؒ کی نظر سے گزری تو علامہ اقبالؒ نے اسے اسلام کے فلسفۂ جہاد پر بہترین تصنیف قرار دیا۔ یہی کتاب علامہ اقبال اور مولانا مودودیؒ کے مابین تعارف بنی۔
جماعت اسلامی کی بنیادی دعوت اور اللہ کے دین کو زمین پر غالب کرنے کی جدوجہد کا آغاز مولانا مودودیؒ کی ادارت میں نکلنے والے پرچے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ہو چکا تھا اور اس پرچے کی بہ دولت آپ کی دعوت کا آغاز ہوا۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ یہ تحریک پورے ہندوستان کے علمی حلقوں میں اپنی روشنی بکھیرنے لگی اور جماعت اسلامی کے قیام کے وقت جو 75 تاسیسی اراکین میسر آئے وہ ترجمان القرآن ہی کی بہ دولت تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ایک اسلامی فلاحی ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنانا اگرچہ قلیل ترین تعداد کے ساتھ ناممکن تھا‘ مگر مولانا کی سیاسی بصیرت اور انکی فراہم کردہ علمی و فکری رہنمائی و کثیر لٹریچر نے تمام مشکلات کو انگیز کرتے ہوئے بالآخر ایک طویل ترین دستوری جدوجہد کے بعد تمام دینی و سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر پاکستان کو پہلے اسلامی آئین کا تحفہ دیا۔
بانئ تحریک جماعت اسلامی نے ’’تفہیم القرآن‘‘ قرآن پاک کی تفسیر ایک ایسے رخ سے لکھی کہ جس میں اللہ کے پیغام کو آفاقیت اور معنویت کا آسان پیرایہ دیا گیا۔ عقائد و ایمانیات کے ذکر کے ساتھ عصری افکار اور تحریکات کا جائزہ بھی پیش نظر رہا۔ اس تفسیر کی بہ دولت قرآن اور عام پڑھے لکھے مسلمانوں کے درمیان زبان اور اجنبیت کی دیواریں گراتے ہوئے مسلمانوں کے سینوں میں اتارا۔
جماعت اسلامی نے اپنے قیام سے لے کر آج تک نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان‘ یورپ اور دیگر ممالک سے اپنی دعوت کے ذریعے عظیم اسلامی تغیر برپا کیا۔
75 افراد سے شروع ہونے والی جماعت اسلامی آج لاکھوں کی تعداد میں پہنچ چکی ہے۔ الحمدللہ۔
بنگلہ دیش‘ ہندوستان‘ ترکی‘ سوڈان‘ صومالیہ‘ مشرقی و مغربی یورپ‘ امریکا اور لاطینی امریکا ہر جگہ جماعت اسلامی اپنی دعوت‘ پیغام اور نظریے کے ساتھ موجود ہے۔
ان 78 برسوں کی جدوجہد میں سیاست بھی ہمارا ایک میدان ہے جہاں جماعت اسلامی اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے مسلسل کوشان ہے۔ کبھی کامیابی ملتی ہے‘ کہیں ناکامیاں ہمیں منہ چڑاتی ہیں‘ کبھی راستے طویل ہو جاتے ہیں تو کبھی شاہراہ کئی پگ ڈنڈیوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
مگر جماعت اسلامی چونکہ پہاڑ جیسے حوصلہ مند‘ جو طوفانوں اور اندھیروں کا رخ موڑ دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہے‘ دین کے غلبے کی جدوجہد کو مسلسل آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہے۔
تحریک جماعت اسلامی کا بنیادی وصف ہی ’’قطعیت‘‘ ہے۔
مولانا سید مودودیؒ نے سکھایا کہ ’’انسان خدا کو جنگلوں اور پہاڑوں یا عزلت کے گوشوں میں نہیں پا سکتا۔ خدا اس کو انسانوں کے درمیان دنیاوی زندگی کے ہنگامہ کارزار میں ملے گا اور اس قدر قریب ملے گا کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔‘‘
اور سید مودودیؒ کی یہی تعلیم جماعت اسلامی کے کارکن کو عظیم انقلابی جدوجہد کے لیے تیار کرتی ہے۔ جس کے مظاہر بنگلہ دیش میں سینکڑوں شہادتوں‘ درجنوں پھانسیوں اور معاشی بائیکاٹ کی صورت میں ملتے ہیں۔ اخوان المسلمون کی تمام قیادت تختۂ دار پر جھول کر بھی کلمۃ الحق بلند کرنے سے باز نہیں رہتی۔
الجزائر‘ تیونس‘ ترکی‘ سوڈان‘ روس‘ برطانیہ‘ امریکا‘ یورپ دنیا کے ہر ہر گوشے میں مجدد الف ثانی اور سید احمد شہیدؒ کی برپا کی ہوئی تحریک ’’جماعت اسلامی ‘‘ کے نام سے نوجوانوں ‘ خواتین‘ اسکالرز‘ مزدوروں‘ کسانوں‘ وکلا‘ تاجر برادری‘ انجینئرز‘ ڈاکٹرز‘ مدارس غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا فعال کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
75 افراد اور 76 روپے کے سرمائے سے شروع ہونے والی تحریک ’’جماعت اسلامی‘‘ کی سچائی و حقانیت کی یہی دلیل کافی ہے کہ الحمدللہ آج جماعت اسلامی اسمبلی میں ہو یا نہ ہو سالانہ اربوں روپے کی معاونت سے خدمتِ خلق کے ہر میدان میں ہمہ تن مصروف عمل ہے۔ ہمارے دیے ہوئے نعرے اور سلوگن آج مخالفین کی زبانوں پر گونج رہے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ جب یہ نعرے عامۃ الناس کی آواز بن کر معاشرے میں گونجیں گے تو عوام بالآخر جلد یا بدیر ان نعروں کے اصل خالقوں پر دیوانہ وار اعتماد بھی کریں گے۔

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا مرے بچوں سنبھال کے

حصہ