شریک مطالعہ

597

نعیم الرحمن
شاعر، مصنف، گیت نگار، فلم ساز، اسکرین پلے اور ڈائیلاگ نگار سمپورن سنگھ کالرا بھارتی سنیما، ثقافت و ادب کی بلند قامت شخصیت ہیں جو گلزار کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ گلزار 18 اگست 1934 کو پاکستانی شہر دینہ جہلم میں پیدا ہوئے اور صرف تیرہ سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ بھارت ہجرت کر گئے۔ لیکن دینہ کبھی بھی گلزار کے خوابوں سے دور نہیں ہوا۔ گلزار نے فلمی کیریئرکا آغاز فلم ساز بمل رائے کے اسسٹنٹ کی حیثیت سے کیا۔ وہ بھارتی ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ ان کاشمار اردو اور ہندی کے بہترین شعرا میں کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری اور افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو کر قارئین کی بھرپور داد حاصل کرچکے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی نظموں کے تراجم پر مبنی ان کے دومجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ وہ بھارت میں بچوں کے بہترین ادیب بھی ہیں۔ گویالی جنڈ گلزار ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں‘ انہیں ساہتیہ اکیڈمی اورپدما بھوشن ایوارڈ بھی ملے۔ فلم ’’سلم ڈاگ میلنیئر‘‘ کے لیے تحریرکردہ گیت پر آسکر ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ اور دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔
84 ویں سالگرہ سے قبل گلزار نے ’’دو لوگ‘‘ تحریر کر کے ناول نگاری کی دنیا میں بھی قدم رکھ دیا۔ اس کے ساتھ نظموں، افسانوں اور انٹرویوپر مبنی ایک مجموعہ ’’قدم زیرو لائن پر‘‘ بھی شائع ہوا ہے۔ ’’دو لوگ‘‘ کا موضوع تقسیمِِ ہندکے بعد ہجرت سے جنم لینے والا المیہ ہے۔ گلزار ’’دو لوگ‘‘ کے پیشِ لفظ میں لکھتے ہیں۔ ’’دو لوگوں کی اتنی بڑی ہجرت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، لیکن ہم لوگ اُن زخموں کو دَبا کر بیٹھ گئے اور بات نہیں کی۔ نہ فلمیں بنائیں، نہ تبصرے کیے،ن ہ مُڑ کے جائزہ لیا۔ کچھ علاقائی زبانوں میں لکھا گیا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ پشتیں گزر گئیں لیکن وہ بھڑاس اب تک سینوں میں سُلگتی ہے۔ اپنی زمین سے اُکھڑے لوگ ابھی تک بسے نہیں۔ دو لوگ ایسے کچھ لوگوں کی کہانی ہے جو کیمبل پور سے نکل کر ہندوستان پہنچے اور اب تک بھٹک رہے ہیں۔ کچھ دوستوں کو یہ ناول مختصر لگے گا لیکن یہ نوویلا نہیں ہے۔ اس کے سارے اَنگ پورے ناول کے ہیں۔‘‘
ہاتھوں نے دامن چھوڑا نہیں، آنکھوں سے سگائی ٹوٹی نہیں
ہم چھوڑ توآئے اپنے وطن، سرحد کی کلائی چھوٹی نہیں
ناول کے سرِورق پردرج شعر اس کے موضوع کا عکاس ہے۔
ملک تو بٹا، لوگ بھی بٹ گئے وہ ایک لوگ تھے اب دو لوگ ہوگئے۔
مستنصر حسین تارڑ اپنے تعارف میں لکھتے ہیں کہ ’’نثر کا ماجرہ کچھ یوں ہے۔ ناول نگار اپنے ہاتھوں سے اپنی ایف آئی آر لکھتا ہے۔ اقبالِ جرم کرتا ہے، سزا کا طلب گار ہوتا ہے۔ سیاہ کو سیاہ کہتا ہے اور سفید کو سفید کہتا ہے، وہ شاعری کی مانند کسی گرے ایریا میں پناہ نہیں لیتا۔ گلزار نے شاعری میں بھٹکتے ہوئے بالآخر دو لوگ کی صورت تاریخ کے تھانے میں اپنی رپٹ درج کروا دی ہے۔ ذاتی طور پرپیش ہوگئے ہیں۔ یعنی شاعری کے کوچۂ یار سے نکلے تونثرکے سُوئے دار کی جانب چل پڑے ہیں۔ ایک ناول تو ہر ادیب اپنی حیات کے مشاہدوں اور تجربات کے نچوڑ سے لکھ سکتا ہے۔ اُس کا اصل امتحان تو دوسرا ناول ہوتا ہے جب سب کچھ نچڑ چکا ہوتا ہے اور اس کے باوجود وہ ایک نئی سراسر تخلیاتی شراب اپنے میں ڈوب کر کشید کر لے۔ مجھے گلزار کے دوسرے ناول کا ابھی سے انتظار ہے۔‘‘
1946 کے موسم سرما میں جب تقسیم اٹل ٹھیرنے کی خبریں آرہی تھیں، شر نارتھیوں سے بھرا ایک ٹرک کیمبل پور سے بارڈر کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ شر نارتھی‘ جوخود معلوم واحد مقام سے اکھڑ چکے، اب جڑوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ جانے انہیں اپنا گھر تلاش کرنے میں اورکتنی زندگیاں لگیں گی۔ ’’دو لوگ‘‘ 1947 کی تقسیم کے بارے میں ہے۔ ایک ایسا قیامت خیز سانحہ جو گلزار پر بیتا۔ وہ ایک سر زمین تھی، دو حصوں میں بٹ گئی اور اس کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹا نہیں جا سکتا تھا اور جس نے شب بھر میں لاکھوں افراد کو رفیوجی بنا دیا۔ لگ بھگ ایک سے ڈیڑھ کروڑ لوگ، مرد، عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے ایک ایسی تقدیرکے سبب بے گھر ہو گئے تھے جس کا انتخاب انہوں نے خود نہیں کیا تھا۔ اس تقسیم کے ہم راہ خون کی جو ہولی کھیلی گئی، اس میں تقریباً بیس لاکھ افراد کی جانیں گئیں۔‘‘
جینئس گلزار نے 125 صفحات کے ناول میں جیتے جاگتے کردار تخلیق کیے ہیں۔ کئی کہانیاں جو ایک دوسرے سے جڑی ہیں‘ جن کا مرکز گلزار کا پسندیدہ خطہ پنجاب ہے، تقسیم کا خونریز دور‘ جب لاکھوں افراد بے گھر اپنی جڑوں سے جدا ہونے پر مجبور ہوئے۔ 71 سال میں ان میں سے بیشتر انتقال کر گئے۔ اُن کے بچے دادا اور پر دادا کے بتائے زخموں سے چُور ہیں۔ وہ اب تک ان زخموں کوبھلا نہیں سکے۔ گلزار نے ناول کی بنیاد کچھ حقائق اور حقیقی کرداروں پر رکھی ہے۔ زبان پران کی گرفت مثالی اوربیانیہ انتہائی دلچسپ ہے۔ تقسیم کے المیہ کو انہوں نے اپنے ڈرامائی ذہن سے تشکیل دیا ہے جو قاری پر اپنی گرفت شروع سے آخر تک قائم رکھتا ہے۔
برٹش راج کا شہر کیمبل پور‘جو اکتیس سال بعد اپنے پرانے نام اٹک سے جانا گیا‘ ناول کے مرکزی کردار ’’فوجی‘‘ کا آرمی سے کوئی تعلق نہیں۔ پرانے بازار سے خریدی ملٹری یونیفارم پہنے رہتا ہے۔ اسی وجہ سے ’’فوجی‘‘ نام سے مشہور ہے۔ اس کا مذہب نہیں بتایا گیا۔ دوسرے حصے کے اختتام پر اس کے مسلمان ہونے کا علم ہوتا ہے۔ فوجی کا بہترین دوست لکھبیرا سنگھ روڈ سائیڈ پر ڈھابہ چلاتاہے۔ مقامی گورنمنٹ اسکول کا وائس پرنسپل ماسٹر فضل اور ماسٹرکرم سنگھ گہری دوستی کے بندھن میں بندھے ہیں۔ ماسٹر کرم، فضل کے علم اور تجزیے کا قائل ہے اور ہر معاملے میں اس کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔ ماسٹر فضل کی کلاس میں طلبا آزادی کے لیڈر سبھاش چندر بوس کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ جس پر اینگلو انڈین پرنسپل اسٹیفن مینن جھوٹے الزام میں ماسٹر فضل کو گرفتار کرا دیتا ہے۔ اسے اسکول سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ سر عام اس کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسائے جاتے ہیں۔ کرم سنگھ اس کے اوپر لیٹ کر کچھ کوڑے خود کھاتاہے۔ مسلم، ہندو اور سکھ عوام میدان میں گھس کر ماسٹر فضل کو آزاد کراتے ہیں۔ جاب سے محرومی کے بعد ماسٹر فضل کے لیے گزر بسربھی مشکل ہوجاتی ہے۔ تو اس کے دوبیٹوں کی تعلیم کا ذمہ کرم سنگھ خاموشی سے اپنے سر لے لیتاہے اورفضل کوکچھ ٹیوشن دلواتاہے۔
ٹرک ڈرائیور کا اپنے ٹرک کے نمبر پینتیس چھتیس ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ لکھبیرا اس کا پارٹنر ہے۔ وہ ہمیشہ مختلف گاؤں اور قصبوں سے تقسیم کے متعلق خبریں لاتاہے۔ جو اکثر غلط ہوتی ہیں۔ لیکن آخر کار اس کی لائی خبریں درست ثابت ہوتی ہیں۔ حالات کے تحت ہندو، سکھ اسی ٹرک کے ذریعے ہندوستان کا رُخ کرتے ہیں۔ راستے میں جنسی درندگی کا شکار دو بہنیں کو بھی شریک سفر کر لیا جاتا ہے۔ سفر کے دوران دو مسلح سکھ ان سے پیٹرول حاصل کرنے کی خاطر گولی چلاتے ہیں۔ جس سے لکھبیرا مر جاتا ہے۔ فوجی ٹرک سنبھال کر آگے روانہ ہوتا ہے۔ لیکن دو ٹائرخراب ہونے پر یہ سفر ادھورا رہ جاتا ہے۔ مسافر پیدل روانہ ہو تے ہیں۔ کئی مشکل اور تکلیف دہ مراحل سے گزرکریہ بے گھرشرنارتھی لوگ الگ الگ ہندوستان پہنچتے ہیں۔ تقسیم کی کہانیاں اور ناول عموماً بارڈر عبور کرنے پر ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن دو لوگ میں گلزار نے نئے باب میں نئے ملک میں ان افراد کو درپیش مشکلات بھی بتائی ہیں۔ شر نارتھیوں کے ساتھ نئے ملک میں بھی وہی گزری۔ یوں دو لوگ ایک ہی انجام سے دو چارہوئے۔ انتہائی شاندار‘ ناول کا بہترین اختتام بھی کیا گیا ہے۔
***
1947 کی تقسیم نے ادیبوں کی ایک پوری نسل کی تحریروں کو متاثر کیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ گلزار تقسیم کی الم ناکیوں کے چشم دید گواہ ہیں اور یہ وہ موضوع ہے جس کی جانب وہ اپنی تحریروں میں بار بار لوٹ آتے رہے ہیں۔ ’’قدم زیرو لائن پر‘‘ میں اسی موضوع پر گلزار کی بہترین تحریروں کو یکجا کر دیا گیا ہے جن میں فکشن، نان فکشن، نظمیں اور ایک انٹرویو شامل ہے۔ ان تحریروں کو جو چیز بٹوارے پر باقی تحریروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ گلزار کی جُز رس نگاہ صرف 1947 کے واقعات پر ہی نہیں رُک جاتی بلکہ اس بات پر بھی مرکوز ہوتی ہے کہ وہ واقعات کیسے ہماری زندگیوں کو اب تک متاثرکیے چلے جارہے ہیں۔ یہ مجموعہ پاک و ہند کی آزادی کی سترہویں اور گلزار کی چوراسی ویں سالگرہ کے موقع پر سامنے آیا ہے۔ یہ برصغیرکے چند بہترین معاصر ادیبوں میں سے ایک کی جانب سے ایک شان دار مجموعہ ہے جس میں نہ صرف برصغیر کی تاریخ میں پیش آنے والے ایک عظیم بھونچال کو موضوع بنایا گیا ہے بلکہ یہ مجموعہ ہمیں بر وقت یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ جو لوگ ماضی کی غلطیوں کو فراموش کردیتے ہیں، ان غلطیوں کو دُہرانا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
کتاب کا انتساب’دینہ‘ ضلع جہلم پاکستان کے نام ہے جہاں گلزار پیدا ہوئے۔
صاحبِ طرز و اسلوب ادیب شکیل عادل زادہ ’’خانہ بدر‘‘ کے زیرِ عنوان پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’گلزار کے بارے میں کوئی کیا کہے، ایک عجوبہ روزگار، نادرہ کار شخص۔ سر بہ سر، سرتاپا ایک تخلیق کار، ایک بے شمار فنکار۔ اُن پر بہت لکھا اور کہا گیا ہے اور جو لکھا اور کہا گیا ہے وہ بہت کم لگتا ہے۔ وہ اب 80 سال سے اوپر ہوچکے ہیں اورکام کر رہے ہیں اور مسلسل چونکا رہے ہیں۔ شعر ہو یا کہانی، وہ کچھ ایسا مختلف، جدا اور سوا کر دیتے ہیں کہ بے اختیار انہیں پیارکرنے کو جی چاہتا ہے۔ فنون کے ہر شعبے میں تخلیقی قدرت پہلی شرط ہے، قوتِ اظہار دوسری۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں تبھی کوئی بات بنتی ہے۔ نت نئے خیالوں کی کثرت اور فراوانی گلزار پہ بے پناہ ہے، اظہار و بیان کا سلیقہ مستزاد۔ کہتے ہیں، اظہار و بیان کی ہُنرمندی کو بھی ایک تخلیقی جُستجو اور تسلسلِ ریاضت چاہیے جو اوّل و آخر گلزار کے قریباً تمام قلم پاروں سے آشکارا ہے۔ جُز رسی اور نکتہ طرازی اُ ن کا طرۂ امتیاز ہے۔ ایک انٹرویو، چند نظموں اور چند کہانیوں پر مشتمل یہ مختصرکتاب دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس بیانیے میں بہت آنسو، بڑا کرب ہے۔ انہیں کوئی ایسا ہی قلم کار تخلیق کر سکتا تھا، شدتِ احساس، فکر و خیال، مثال آفرینی وندرت کاری میں جو گلزار کا مثیل ہو‘ دُدردُور تک ایسا کوئی نظر نہیں آتا۔
ابتدا میں شامل نظموں سے واضح ہے کہ ’’دینہ‘‘ گلزار کے تخیل سے کبھی جدا نہیں ہوا۔ کچھ لائنیں دیکھیں۔
بس اک وقفہ ٹھٹھرکر رہ گیا تھا
چھڑی کوکھٹکھٹایا پھر زمیں پر
بڑھا کر ہاتھ بولے
’’چلودینہ چلیں گے‘‘
میں زیرو لائن پر آ کر کھڑا ہوں
مرے پیچھے مری پرچھائیں ہے، آوازدیتی ہے
وہاں جب مٹی چھوڑو گے
چلے آنا تمہارا گھر یہیں پر ہے
تمہاری جنم بھومی ہے! وطن ہے
دینہ کے نام سے بھی ایک نظم ہے اور دیگرکئی نظموں میں بھی گلزارنے اپنی جنم بھومی کو یاد کیا ہے ۔گیارہ کہانیاں میں پہلی ’’راوی پار‘‘ ہے۔ جس کا کردار درشن سنگھ ماں باپ کے لاشیں چھوڑ کر نو مولود جڑواں بیٹوں اوربیوی کو لے کربہ مشکل ٹرین کی چھت پر جگہ حاصل کرتا ہے۔ کچھ دیر بعد پتا چلتاہے کہ ایک بچہ مرچکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسے پھینک دو، لیکن ماں تیارنہیں ہوتی۔ ٹرین جب دریاسے گزرتی ہے لوگوں کے کہنے پر درشن سنگھ بچے کو ٹوکری سے اٹھا کر پھینکتا ہے تب اس بچے کی چیخ سنائی دیتی ہے۔ جبکہ مردہ بچے کو ماں سینے سے لگائے ہے۔ ایسی ہی دس درد ناک کہانیاں اور ہیں جو ایک حساس دل کو تڑپا دیتی ہیں۔ گلزار کا یہ ناول اور مجموعہ دونوں تقسیم کے موضوع پربہترین تحریروں پرمبنی ہیں۔

حصہ