ہم نئے عزم سے بنیاد سحر رکھتے ہیں

1946

خولہ نگہت
(طالبہ ،قر آن انسٹیٹیو ٹ کیمپس (2
نبی کریم ؐ نے فر مایا :
” اسلام اور حکو مت و ریا ست دو جڑ وا ں بھائی ہیں ۔ دو نو ں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہو سکتا ۔ پس اسلام کی مثا ل ایک عمارت کی ہے اور حکو مت گویا اسکی نگہبان ہے ۔ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ وہ گر جاتی ہے اور جسکا نگہبان نہ ہو وہ لو ٹ لیا جاتا ہے ۔”
اور یہی پاکستان کا مقصد بھی تھا کہ ہندو ستان کے مسلما نو ں کے لیے ایک ایسی ریا ست تشکیل دی جائے جہا ں مسلما ن بغیرکسی مشکل یا ر کا وٹ کے اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطا بق گزار سکیں ۔ ایک ایسی ریاست کا قیام جہا ں صرف اسلامی تعلیمات کا بول بالا ہو ۔مگر حصول آ زادی کے ۷۱ سال بعد آج بھی ہم وہیں کھڑے ہیں ۔ وہ تمام تر مقا صد فرا مو ش کر بیٹھے ہیں اور وہ قر بانیاں بھلا چکے ہیں جو ہمارے اسلاف نے یہ ملک بنانے کے لیے دی تھیں ۔ اگر ہم سے پوچھا جائے کہ پاکستان اور ہندوستان میں کیا فرق ہے تو شاید ہی کوئی فرق نکا لا جا سکے کیو نکہ پاکستان کی نئی نسلو ں کے ذہن کو ہندوستان ایک غیر محسو س انداز میں بدل رہا ہے تا کہ اس نسل کی قیا م پاکستان سے رو گر دانی کی راہ ہموار کی جاسکے اور اس کو شش میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں ۔
اگر ملکی حا لا ت کا جائزہ لیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ ملک کے نظر یہ اور قو می نصب العین سے الگ ہونے کی وجہ سے ہم اقتصا دی بد حا لی ، سیاسی بد نظمی ،
دا خلی و خا رجی استحکام اور اخلاقی گرا وٹ کا شکار ہو چکے ہیں اور ملک کی بنیا دوں کو کمزور کر کے اسکی سلامتی کو خطرات سے دو چار کر دیا گیا ہے ۔ جگہ جگہ لسا نی ، نسلی اور علا قائی تعصبات کی گرم بازاری ہے اور اسکی بنیاد پر حقوق کی جنگ بر پا ہے اور اس اجتما عی گناہ کے وبال میں ملک پر بد امنی ، خونریزی اور افرا تفری کا
عذا ب مسلّط ہے ۔ دہشت گردی اور امن و امان کی ابتر صو رتحال نے پوری قوم کا سکون غارت کر رکھا ہے ۔ معا شی بد حا لی کی وجہ سے ملک کا بچہ بچہ قر ض کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔ لا قا نو نیت اور سیاسی بد نظمی کی وجہ سے معا شی ترقی کا عمل رُک چکا ہے اور قوم مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے ۔ اسلام دشمن طا قت مسلما نو ں کے باہمی اختلا فات کو نمایا ں کر کے انہیں باہم لڑ انے میں مصروف ہیں ۔ اخلاقی قدروں کے زوال نے معا شرے کی بنیا دو ں کو کھو کھلا کر کے رکھ دیا ہے ۔ بد دیا نتی ، رشوت ، ظلم و نا انصا فی نے ملک کو تباہی و بر بادی کے اندھیرو ں کی طرف پہنچا دیا ہے ۔
دور حا ضر کے تجر بات کی روشنی میں اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریا ست کا قیام ہی اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت تھی اور اب بھی اسی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ مگر جب مسلمان ہوتے ہوئے ہم خود اللہ رب العا لمین پر ایمان کا دعو یٰ تو کریں مگر زندگی یا ملکی معا ملات غیر الہیٰ قا نو ن کے مطا بق کریں تو اللہ تعا لیٰ کو اس چیز کی ضرورت نہیں ۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعا لیٰ ہے :
اِ نَّ اللّٰہَ لَا ےُغَیِّرُ مَا بِقَو مِِ حَتّٰی ےُغَیِّرُو ا مَا بِاَ نفُسِھِم ۔ وَ اِ ذَا اَ رَا دَ اللّٰہُ بِقَو مِِ سُو ءََ فَلَا مَرَ دَّ لَہ ۔ وَ مَا لَھُم مِن دُو نِہ مِن وَّ ال
” بے شک اللہ نہیں بد لتا کسی قو م کی حا لت جب تک وہ خود اپنی حا لت کو نہ بدلے اور جب اللہ کسی قوم کی برائی چاہتا ہے پھر اسے کوئی روک نہیں سکتا اور اسکے سوا انکا کوئی مدد گار نہیں ہو سکتا ۔ ”
( سورہ الرعد ، آ یت نمبر ۱۱ )
انسا ن جب تک خود کو شش نہ کرے تب تک اللہ بھی اسکا ساتھ نہیں دیتا جیسا کہ مو لانا ظفر علی خا ن کا شعر ہے :
خدا نے آج تک اس قو م کی حا لت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حا لت کو بدلنے کا
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خود اپنے ملک کو اس صور تحال تک پہنچا دیا ہے اور یہ بر با دی خو د ہماری غفلتو ں اور کو تا ہیو ں کا نتیجہ ہے ۔ ہم در اصل مملکت کے نظر یہ کو فرا موش کر کے اور نعمت آ زادی کی نا شکری کر کے اپنے رب کی نا را ضگی سے دو چار ہیں ۔ اس وقت بھی پاکستان کو جن بنیا دی مسا ئل کا سامنا ہے انکا اصلی اور بنیا دی سبب اس نظر یہ سے انحراف ہے جسکی بنیاد پر یہ وطن معر ض وجود میں آ یا ۔
جس بات کی مو جو دہ دور میں سب سے زیا دہ ضرورت ہے وہ یہی ہے کہ اپنے ملک کو اسکے اصل کی طرف لایا جائے ۔ ان قربانیوں اور مشکلا ت کو یاد کیا جائے جن سے ہمارے آ باؤ اجداد گزرے صرف اسلئے کہ مسلمانو ں کو ایک الگ وطن میسّر آ جائے جس میں وہ اللہ کے نظا م کو قا ئم کر کے امن و سلا متی والے فلا حی
معا شرے میں زندگی گزار سکیں جس طرح رسول اکرم ؐ اور انکے صحا بہ کرامؓ نے غزوۂ تبوک ، غزوۂ بدر اور غزوۂ احد کے مو قع پر صرف اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنی جان و مال صرف کی تاکہ کفار کی لگائی ہوئی رکا وٹو ں اور غفلت کے اند ھیر و ں کو ختم کیا جا سکے ۔
اللہ نے یہ عظیم نعمت ہمیں عطا کی ہے ۔ ہمارا عزم ہے کہ ہم قیا م پاکستان کی اصل بنیا دو ں کو از سر نو تعمیر کریں گے ۔ تمام تر خرا بیو ں اور تنز لی کے با وجو د ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہماری جدو جہد کو کامیابی عطا فر مائیں گے ۔
ان اندھیرو ں سے کہو اپنا ٹھکا نہ کرلیں
ہم نئے عزم سے بنیاد سحر رکھتے ہیں

دو کتابیں

ناموسِ رسالتؐ
مغرب اور آزادیِ اظہار،
قادیانیت (کے موضوع ) کے حوالے سے محمد متین خالد کا نام اس قدر معروف ہے کہ ان کے تعارف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ انھوں نے مسئلہ ختم نبوت اور فتنۂ قادیانیت پر مختلف زاویوں سے معرکہ آرا تصانیف وتالیفات پیش کی ہیں۔ زیر نظر کتاب اگرچہ اپنے مندرجات اور مباحث کے اعتبار سے بہت متنوع اور وسعت کی حامل ہے، اس کے باوجود انھوں نے بیسیوں موضوعات کو ناموسِ رسالتؐ سے منسلک کر کے پیش کیا ہے۔ سرورق پر موضوعِ کتاب کی توضیح ان الفاظ میں دی گئی ہے: ’اسلام اور ناموسِ رسالتؐ کے خلاف مغرب کے تعصّب، دہرے معیار اور بھیانک سازشوں پر مبنی تحقیقی دستاویز___ ناقابلِ تردید حقائق، تہلکہ خیز واقعات، ہوش ربا انکشافات‘‘۔
مؤلف نے بڑی محنت کے ساتھ مختلف کتابوں، رسالوں اور اخبارات (کی خبروں اور کالموں) سے ایسے واقعات، تبصرے اور لکھنے والوں کے مشاہدات اور بعض اداروں کی رپورٹیں جمع کر دی ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی تنگ نظری، تاریک خیالی، اندھے تعصّب اور دہرے معیار کا اندازہ ہوتا ہے اور اس کی نام نہاد روشن خیالی، روا داری اور عدم برداشت کے دعوؤں کی حقیقت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مصنف نے یہودیوں اور انتہا پسند ہندوؤں کی مسلم دشمنی کو بھی تذکرۂ مغرب سے منسلک کیا ہے۔ مغربیوں کی دیگر خرابیوں (کرپشن، بددیانتی، فریب کاری، بدعہدی، نام نہاد آزادیِ اظہار، ہم جنسیت، اور قتل وغارت گری) کا تذکرہ بھی کتاب میں شامل ہے۔
کتاب ایک مسلسل مضمون کی شکل میں ہے۔ زمانی ترتیب کے بغیر، مصنف کو جو مواد میسر آتا گیا، وہ کتاب میں جمع کرتے گئے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک مفید کتاب ہے۔
سفرِ سعادت
مؤ لف نے اپنے حرمین شریفین کے دو اسفار کی اس روداد ( ’عقیدت ومحبت کا سفر‘) کو غیر معمولی اہتمام اور کاوش کے ساتھ نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیا ہے۔
سرکاری ملازمت سے سبک دوشی(2005ء) کے بعد سفر عمرہ (2011ء) اور سفر حج وعمرہ (2013ء) کی یہ روداد، بہاول پور سے شروع ہوتی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’حج کے لیے رقم نہیں تھی زادِ راہ تو ایک طرف، درخواست جمع کرانے کے لیے لاکھوں روپے کہاں سے آئیں گے، لیکن انسان جب نیت کر لے تو اللہ رحمان ہے، رحیم ہے، وہی اسباب اور راستے کھول دیتا ہے‘‘۔ (ص11)
مؤلف کا اسلوب روداد نویسی عام سفر ناموں سے خاصا مختلف ہے۔ مثلاً: مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرے کی روداد مختصراً بیان کرنے کے بعد، وہ حال سے ماضی کی طرف پلٹتے ہیں۔ وادی بے آب وگیاہ میں حضرت ہاجرہؓ کی آمد ، آب زم زم، بیت اللہ پر اَبرہہ کے حملے، مختلف زمانوں میں خانہ کعبہ کی تخریب وتعمیر، اس کے ساتھ خانہ کعبہ کا مفصل تعارف (حطیم، میزابِ رحمت، اندرونی منظر اور چھت، رکنِ یمانی، ملتزم، غلافِ کعبہ، حجرِ اسود ) میقات، دارِارقم، نہر زبیدہ، دارالندوہ، جنت المعلّٰی ___ ان سب کی تفصیل بیان کرنے کے بعد، وہ مختلف ممالک کے حجاج کرام سے ملاقاتوں اور تبادلۂ خیال کی روداد بیان کرتے ہیں۔ یہ تاثرات بھی بہت دل چسپ ہیں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر پھر اسی طرح حرم نبویؐ، مدینہ کے قابلِ ذکر مقامات ومساجد کی رودادِ زیارت۔
سفر نامے میں نئی پرانی نادرونایاب تصاویر دی گئی ہیں اور مختلف مواقع اور مقامات کی دعائیں بھی۔ آیاتِ قرآنی اور ان کے ترجمے کا بھی اہتمام ہے۔ یہ ایک اچھی رہنما کتاب بھی ہے۔ مؤلف کا ذوق جمال قابلِ داد ہے۔ اسلوب سیدھا سادہ اور دل نشین ہے۔

غزل

جلیل عالی

پھر کیا عجب عذاب جو سر سے ٹلا نہیں
جب شہر میں کسی کو دماغِ دعا نہیں
ہمسایگی کا جبر ہے رہنا ہے ساتھ ساتھ
سو دیکھ دوستی کے سوا راستہ نہیں
اک معرکے کی بو ہے فضا میں بسی ہوئی
ہے کون کس کے ساتھ کسی کو پتا نہیں
چارہ کہاں ہے ناؤ نکالے بغیر بھی
یہ جانتے بھی ہیں کہ موافق ہوا نہیں
موسم کے رنگ کیسے کھلیں اس کی آنکھ میں
کمرے کی کھڑکیاں جو کبھی کھولتا نہیں
جوبن گیا ہے اس کی بھی اپنی ہی شان ہے
پر ہم جو چاہتے تھے بنانا بنا نہیں
عالی اسی کی دھن ہے پریشاں غزل غزل
اک شعر جو کہ ہم سے کہا جا سکا نہیں

حصہ