گھر ایک جنت

836

عشرت زاہد
رمشا کی آنکھ کھلی تو شام کے پانچ بج رہے تھے، وہ ابھی بستر سے اٹھنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اطلاعی گھنٹی بج اٹھی۔۔۔ انداز بالکل عامر کا تھا۔ ’’ہائے اللہ، عامر آج جلدی آگئے۔۔۔‘‘ اس نے جلدی سے دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھا اورگیٹ کھولا۔ سامنے عامر لدا پھندا کھڑا تھا۔
’’یہ لو اور جلدی سے اچھی سی چائے بنادو، میں تب تک نہا کر آتا ہوں۔‘‘
’’جی اچھا۔۔۔‘‘ اس نے فوراً چائے چڑھائی اور پھل وغیرہ فریج میں رکھے، پھر بسکٹ اور نمکو نکال کر باورچی خانے کی چھوٹی ٹیبل پر رکھے، ساتھ ہی چھوٹی پلیٹ، چمچ، ٹھنڈے پانی کی بوتل اور صاف ستھرا گلاس رکھا، ورنہ آدھا گھنٹہ سلیقے اور صفائی پر لیکچر سننا پڑتا۔ عامر ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو خاصی اہمیت دیتا تھا۔ چائے کے ساتھ پانی ضرور رکھا ہوا ہو۔ اگر ساتھ میں ناشتا ہے تو پھر چمچ اور پلیٹ بالکل خشک ہوں، گیلے نہ ہوں۔ باورچی خانہ ہو یا کمرہ یا گھر، پھیلا ہوا نہ ہو۔ وہ بہت صفائی پسند تھا اسی وجہ سے رمشا جیسی لاابالی لڑکی بھی خاصی سلیقہ مند ہوگئی تھی۔ ویسے تو وہ رمشا کا بہت خیال رکھتا تھا۔ اس کی ہر ضرورت وقت سے پہلے ہی پوری کردیتا تھا، لیکن صفائی میں کوتاہئی دیکھتا تو اس کا موڈ خراب ہوجاتا۔
شادی کے شروع کے دنوں میں ہی اس نے اپنی پسند ناپسند اور گھر کے طور طریقے اچھی طرح سے سمجھائے تھے تاکہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ رمشا کی ساس ایک سیدھی سادی خاتون تھیں، کم گو۔ زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتی تھیں۔ اس وقت بھی عصر سے مغرب تک اپنے کمرے میں تسبیحات اور تلاوت میں مصروف تھیں۔
رمشا نے عامر کے آنے کے بعد اس کو چائے دی تو وہ بولا ’’رمشا! میں نے ایک ہفتے کی چھٹی لی ہے، میں چاہ رہا تھا کہ عاطف کے جدہ سے آنے سے پہلے ہی سارے کام مکمل ہوجائیں، اس کی شادی کے ہنگامے شروع ہوجائیں گے اور بقرعید بھی قریب ہی ہے، اس سے پہلے گھر صاف ستھرا ہوجائے، حالانکہ امی منع کررہی ہیں کہ ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے مگر مجھے یہ رنگ تبدیل کرنا ہے، اس سے کچھ اندھیرا سا لگتا ہے لاؤنج میں۔۔۔ دیکھو میں یہ شیڈ کارڈ لایا تھا، تم بھی ایک نظر دیکھ لو اور مشورہ دو کہ عاطف کے کمرے میں کون سا رنگ ہونا چاہیے؟‘‘
’’جی۔۔۔‘‘ وہ خیالات سے چونکی، کیونکہ وائٹ واش کا سن کر وہ پریشان ہوگئی تھی۔ ’’آپ لائٹ بلو کرالیں عاطف بھائی کے کمرے میں۔‘‘
’’ہاں یہ ٹھیک رہے گا، ویسے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت تو رہے گی مگر کیا کریں جناب کو پینٹ کی بُو سے الرجی جو ہے، لہٰذا آپ کو ایک ہفتے کی چھٹی عنایت کی جاتی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘ رمشا نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’مطلب یہ کہ جناب آپ کو آپ کی امی کے گھر پورا ایک ہفتہ گزارنے کا نادر موقع فراہم کیا جاتا ہے۔‘‘ عامر نے ایک ہاتھ سینے پر رکھ کر اور سر کو قدرے جھکا کر ایک ادا سے کہا تو رمشا دل کھول کر ہنس دی۔
’’جزاک اللہ جناب! آپ کی اس عنایت پر آپ کا بہت شکریہ۔‘‘
’’لیکن کل شام تک تم اپنے کمرے کی تمام چیزیں سمیٹ لینا۔ ڈریسنگ ٹیبل کی چیزیں اور چھوٹی موٹی تمام چیزیں۔۔۔ بعد میں یہ نہ ہوکہ میری لپ اسٹک نہیں مل رہی اور میری وہ سینڈل کہاں ہے؟ امی کو بھی ایک ہفتے کے لیے بھائی جان کے پاس اوپر شفٹ کروا دوں گا، اس طرح سے گھر میں آپ لوگ نہیں ہوں گے تو میں مزدوروں سے آسانی سے کام کروا لوں گا ان شاء اللہ۔‘‘
’’جی ٹھیک ہے، میں سب سمیٹ لوں گی۔‘‘
’’اور ہاں ایک اور بات۔۔۔ تم اپنی امی یا بہن کے ساتھ اپنی ساری خریداری مکمل کرلینا، عید کی بھی اور شادی کی بھی تاکہ ہم سکون سے عاطف کی شادی کی تیاری کرسکیں۔۔۔ کیوں ٹھیک ہے ناں؟‘‘
’’ہاں جناب بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ آپ کی ساری پلاننگ بالکل پرفیکٹ ہے۔‘‘ رمشا نے اپنی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے دائرہ بناکر عامر کو داد دی اور مسکرا کر کپ دھونے لگی۔ ساتھ ہی دماغ میں پلاننگ بن رہی تھی کہ ایک ہفتے میں کیا کیا کرنا ہے۔ پھر کمرے میں آکر دیکھنے لگی کہ کیا کیا کرنا ہے۔ اس کے تو پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ پورے ایک ہفتے اماں کے گھر رہنے کا سوچ کر بانچھیں کھل گئی تھیں۔
ایسا نہیں تھا کہ اسے یہاں کوئی تکلیف تھی۔۔۔ اس کی ساس بھی بہت اچھی تھیں۔ سمجھدار اور خیال رکھنے والی۔ ان کو غصہ کم ہی آتا تھا۔۔۔ بس کوئی بات پسند نہ آتی تو وہ خاموش ہوجاتی تھیں، پھر بعد میں سمجھاتی تھیں کہ یہ اس طرح نہیں بلکہ اس طرح کرتے ہیں۔ گھر کے کاموں میں بھی اس کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ وہ روایتی ساسوں سے بالکل ہٹ کر تھیں۔ اوپر کے پورشن میں عامر کے بڑے بھائی اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتے تھے، جیٹھانی بھی بہت ہنس مکھ اور وقت پر کام آنے والی تھیں۔ ایک بار امی جان اپنا روٹین کا چیک اَپ کروانے کے لیے عامر کے ساتھ اسپتال گئی تھیں۔ رمشا نے آلو قیمہ بنایا اور ٹی وی دیکھنے میں مگن ہوگئی۔ ادھر ہانڈی جل کر راکھ ہوگئی۔ بھابھی کو اوپر بُو آئی تو وہ بھاگ کر آئیں۔ جب رمشا کو پتا چلا تو وہ رونے بیٹھ گئی۔ نیا نیا کھانا بنانا شروع کیا تھا۔۔۔ اور اب تو امی جان کی واپسی کا وقت ہورہا تھا۔ تب بھابھی نے اپنا سالن لاکر دیا اور پتیلی بھی دھوکر رکھ دی تھی۔۔۔ اور ایک دیور جدہ میں ہوتا تھا جس کی اگلے ماہ شادی تھی۔ عامر بھی بہت اچھا شوہر تھا، بس ذرا ڈسپلن والا تھا اور ایک بات کو دہرانا اسے پسند نہ تھا۔ رمشا بھی ان باتوں کا خیال رکھتی تھی۔۔۔ اور یہاں پر بہت خوش اور مطمئن تھی۔ وہ اُن چند خوش قسمت لڑکیوں میں سے تھی جو اپنے سسرال میں بہت خوش ہوتی ہیں، لیکن جو بے فکری امی کے گھر ہوتی ہے وہ تو ظاہر ہے یہاں نہیں تھی۔ وہاں تو سارے بہن بھائیوں کے ساتھ خوب گپ شپ، مستیاں، رات دیر تک جاگنا، کسی بھی رشتے دار کے گھر جاکر وہاں ہلہ گلہ۔۔۔ یہ سب مزے، اور سب سے بڑھ کر صبح دیر تک سونا۔۔۔ بس وہ بہت خوش تھی، اس نے کمرہ سمیٹنا شروع کیا، ساتھ ہی اپنا بیگ بھی تیار کررہی تھی۔
یوں اس نے کل شام تک کرنے والے کام آج ہی مکمل کرلیے تھے، ساتھ ہی عامر کے دو چار شلوار قمیص اور شرٹس بھی استری کرکے ٹانگ دیے تاکہ کوئی پریشانی نہ ہو۔ عامر بھی دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ امی کے گھر جانے کا سن کر کیسے بجلی بھر گئی ہے ہاتھوں میں۔ یہاں کا کام مکمل کرنے کے بعد اس نے امی جان کے کمرے کا رخ کیا، ان کا ضروری سامان اوپر بھابھی کے پورشن میں جاکر امی کے بیڈ روم میں سیٹ کیا۔
جب رات کا کھانا کھانے کے بعد باورچی خانہ صاف کرکے وہ کمرے میں آئی تو عامر کو اپنا منتظر پایا۔ ’’بھئی آپ کی آج کی کارکردگی دیکھ کر آپ کے لیے ایک عدد بونس کا اعلان کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ وہ کیا؟‘‘
’’وہ یہ کہ ہم جو آپ کو کل شام آپ کی امی کے گھر لے جاکر چھوڑنا چاہ رہے تھے اب کل صبح آفس جاتے ہوئے چھوڑ دیں گے کیونکہ اب یہاں کا کام تو سمٹ چکا۔۔۔ کیوں کیا خیال ہے؟‘‘
’’جی جناب بالکل نیک خیال ہے، میں صبح ہی تیار ہوجاؤں گی۔‘‘ اس نے فوراً امی کو میسج کیا کہ وہ کل صبح سے رہنے کے لیے آرہی ہے۔۔۔ اور وہ صبح 9 بجے امی کے گھر موجود تھی۔ عامر اس کو باہر سے ہی چھوڑ کر چلا گیا تھا کیونکہ آفس کا ٹائم بھی ساڑھے نو تھا۔ اس نے اپنا بیگ امی کے کمرے میں رکھا اور دھم سے پلنگ پر لیٹ گئی۔
’’ہیں۔۔۔ یہ کیا؟ آرام سے لیٹو۔۔۔‘‘
’’امی! نمرہ اور احمد کہاں ہیں؟ اور ابو بھی نظر نہیں آرہے اور بھائی جان بھی نہیں۔‘‘
’’نمرہ اور احمد کو تو میں نے بتایا ہی نہیں تھا تمہارے آنے کا، ورنہ دونوں کالج سے چھٹی کرلیتے۔ اب واپس آئیں گے تو ان کے لیے سرپرائز ہوگا۔ تمہارے بھائی جان آفس گئے ہیں، پھر شام میں کلاس بھی ہے آج اس لیے ذرا دیر سے آئے گا رات آٹھ بجے تک، اور تمہارے ابو پنشن لینے گئے ہیں۔‘‘
’’امی ارم آپی کو بھی بلا لیں ناں رہنے کے لیے۔۔۔ مزا آجائے گا۔‘‘
’’ارے بھئی میری وہ بچی کہاں آتی ہے رہنے۔ بھرے گھر میں ذمے داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں، بس تھوڑی دیر کے لیے آجاتی ہے کبھی کبھار۔ تم کچھ کھاؤ گی؟‘‘
’’ہاں امی آپ وہ بل والا پراٹھا بنادیں۔۔۔ کتنے دن ہوگئے آپ کے ہاتھ کا پراٹھا کھائے ہوئے۔‘‘ پھر وہ چائے پراٹھا کھا کر امی کے کمرے میں ہی سوگئی۔ امی اس کے بالوں میں ہلکے ہلکے ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچ رہی تھیں ابھی تک بچپنا نہیں گیا اس کا۔۔۔ پتا نہیں وہاں کیسے گزارا کرتی ہوگی۔ ظہر کی اذان پر امی نے اس کو جگاتے ہوئے بتایا ’’ابو آگئے ہیں مگر تمہیں سوتا دیکھ کر چپ چاپ واپس جاکر اخبار پڑھ رہے ہیں۔۔۔ چلو جلدی سے اٹھو، نماز بھی پڑھ لو۔۔۔ ابو تمہاری پسند کی بہت ساری چیزیں لائے ہیں۔۔۔ تربوز اور وہ براؤن والے چم چم بھی ہیں، تم ہاتھ منہ دھولو۔۔۔‘‘
’’جی امی۔۔۔‘‘ اس نے جلدی سے وضو کیا اور ابو سے ملی۔ ’’ابو آپ تو کچھ کمزور لگ رہے ہیں، طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟‘‘
’’ہاں بھئی طبیعت تو نرم گرم اب چلتی رہے گی۔۔۔ بوڑھے جو ہوگئے ہیں ہم۔ تم سناؤ کیسی ہو؟ عامر اور تمہاری ساس سب ٹھیک ہیں ناں؟‘‘
’’جی ابو سب ٹھیک ہیں۔‘‘
نماز پڑھنے تک نمرہ اور احمد بھی آچکے تھے۔ رمشا آپی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ پھر سب نے مل کر کھانا کھایا۔ امی نے دال چاول، پاپڑ اور ناریل اور پودینے کی چٹنی بنائی تھی۔ یہ رمشا کا پسندیدہ کھانا تھا۔ کھانے کے بعد سب اپنے کمرے میں آرام کے لیے گئے تو رمشا نے امی سے پوچھا ’’امی وہ برابر والی آمنہ خالہ کا کیا حال ہے؟ اور انیلا کیسی ہے؟ آپ کی ملاقات ہوئی کیا اس سے شادی کے بعد۔۔۔؟‘‘
’’ہاں آمنہ تو ٹھیک ہے اور انیلہ بھی امی کے گھر ہی ہے آج کل۔‘‘
’’کیوں خیریت؟‘‘
’’ارے رمشا تم ذرا ارم کو تو فون کرو۔۔۔ پوچھو کب آسکتی ہے؟ اس سے کہنا تھوڑی دیر کے لیے ہی آجاؤ۔‘‘
’’ارے ہاں میں تو بھول ہی گئی تھی۔۔۔‘‘ وہ اٹھ کر پی ٹی سی ایل سے نمبر ملانے لگی۔ ارم کے پاس موبائل نہیں تھا، ان کے میاں کو اس بات سے سخت چڑ تھی کہ بیگم موبائل میں گم ہوجائے اور بچے اور گھر کے کام نظرانداز ہوں۔ وہ جوائنٹ فیملی میں رہتی تھی۔ بہت سارے بڑے اور بچے ایک تین منزلہ مکان میں رہ رہے تھے۔ تین بھائی شادی شدہ، ایک بھائی اور ایک بہن غیر شادی شدہ اور ایک طلاق یافتہ بہن، اور ان سب کے بچے اور ساس تھیں، سسر کا انتقال ہوچکا تھا۔ سب کے کمرے تو علیحدہ تھے مگر کھانا ایک ساتھ ہی پکتا تھا، اس وجہ سے باورچی خانے میں دن بھر رونق لگی رہتی تھی اور گھر کی خواتین کو کم ہی فرصت ملتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ارم امی کے گھر کم کم ہی چکر لگاتی۔
’’السلام علیکم۔۔۔ جی ارم آپی سے بات کرنی ہے، میں ان کی بہن رمشا بول رہی ہوں۔۔۔ جی اچھا میں ہولڈ کررہی ہوں۔‘‘ یہ پی ٹی سی ایل کا فون لاؤنج میں لگا ہوا تھا اور ارم آپی کی ساس اور نند وہیں بیٹھی شاید سر میں تیل لگوا رہی تھیں جن کی باتوں کی آوازیں فون میں آرہی تھیں۔ کافی دیر بعد ارم نے فون اٹھایا۔
’’اچھا رمشا۔۔۔ تم اپنے گھر سے بات کررہی ہو یا امی کے گھر سے؟‘‘
’’میں تو امی کے گھر رہنے آئی ہوں، ایک ہفتہ رہوں گی۔‘‘
’’تمہارے تو مزے ہیں بھئی۔‘‘
’’آپی آپ بھی آجائیں ناں، خوب انجوائے کریں گے بالکل پہلے کی طرح۔‘‘
’’میں رہنے تو نہیں آسکتی، ہاں کچھ وقت نکال کر ملنے آتی ہوں۔‘‘
’’آپی مجھے آپ کے ساتھ بازار بھی جانا ہے۔۔۔‘‘
’’اچھا ناں میں ذرا گھر میں بات کرلوں پھر آتی ہوں۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے امی کو سلام کہنا۔۔۔ اللہ حافظ۔‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح بہت جلدی میں تھیں اور رمشا ہاتھ میں ریسیور لیے سوچتی ہی رہ گئی کہ پتا نہیں کب آئیں گی آپی۔
پھر ہفتے کی دوپہر میں ارم اپنے دو بچوں کے ساتھ ایک رات رکنے کے لیے آگئی تھی۔ دونوں بہنوں نے فوراً ہی بازار کا پروگرام بنا لیا۔ بچے تو نانا نانی اور خالہ کے ساتھ بہت خوش رہتے اور آج تو احمد ماموں بھی گھر میں تھے۔ رمشا کی لسٹ تیار تھی۔ اس نے اپنی ساری چھوٹی موٹی چیزیں یاد کرکے خریدی تھیں۔ آج بہت سکون اور اطمینان سے شاپنگ ہورہی تھی کیونکہ میاں کے ساتھ تو بس جلدی جلدی ایک ہی دکان سے لینا ہوتا تھا۔ زیادہ گھومنا اور بھاؤ تاؤ کرنا عامر کو سخت ناپسند تھا۔ شاپنگ مکمل کرکے کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی ساتھ لے کر یہ لوگ گھر پہنچیں تو کھانا تیار تھا۔ رات کا کھانا کھا کر سب ایک ساتھ ہی امی کے کمرے میں بیٹھ گئے تھے۔ بھائی جان بھی آگئے تھے۔۔۔ سب نے خوب باتیں کیں، دیر تک بیٹھے رہے، بیچ میں آئس کریم کا دور بھی چلا۔ اسکول کی، کالج کی، بچپن کی باتیں۔۔۔ ابو بھی اپنے زمانے کے قصے سناتے رہے اور دادا، دادی کے بارے میں بتاتے رہے۔
(جاری ہے)

حصہ