دوسرا جہاں

631

سیدہ عنبرین عالم
انیلا کو کوئی بات مشکل سے ہی سمجھ میں آتی۔ ہر چیز میں بحث کرتی، سوالات کرتی۔ امی تو انیلا سے عاجز تھیں، کہتی تھیں کہ کسی بچے نے اتنا سر نہیں کھایا جتنا یہ کھاتی ہے، مگر ابو انیلا کا بہت خیال رکھتے، اُس کے ہر سوال کا تفصیل سے جواب دیتے، کسی سوال کے جواب میں کبھی ڈانٹتے نہیں تھے،کہتے تھے کہ انیلا میری سب سے ذہین بچی ہے اور ذہین بچے جب ہر چیز پر غور کرتے ہیں تو سوال بھی کرتے ہیں۔
ایک دن امی تینوں چھوٹے بھائی بہنوں کو لے کر خالہ کے گھر گئیں۔ ابو نے کہا کہ انیلا کو (جو سب سے بڑی ہے) میرے پاس چھوڑ جائو، اسے ریاضی کی تھوڑی مشقیں کرا دوں گا۔ امی دونوں باپ بیٹی کا کھانا تیار کرکے چلی گئیں۔ ابو تین گھنٹے انیلا کو ریاضی کی مشقیں کراتے رہے، حتیٰ کہ دونوں تھک گئے۔ دونوں نے کھانا کھایا اور پھر ابو اپنے اور انیلا کے لیے چائے بناکر لے آئے۔
’’ابا! مجھے چائے بنانی آتی ہے، آپ نے مجھے کیوں بنانے نہیں دی؟‘‘ انیلا نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ میری بیٹی ابھی بہت چھوٹی ہے، اس کا ہاتھ جل گیا تو میں کیا کروں گا؟‘‘ ابو نے پیار بھرے انداز میں کہا۔
’’کہاں چھوٹی ہوں! پانچویں جماعت میں آگئی ہوں، امی تو مجھ سے انڈا، چائے، منے کا دودھ، دادی ماں کا دلیہ وغیرہ بھی بنوا لیتی ہیں‘‘۔ انیلا نے اپنے بڑے ہونے کا ثبوت دیا۔
’’ہاں بیٹا! امی کے ساتھ کام کیا کرو، وہ بہت خوش ہوں گی، اُن کے دل سے دعا نکلے گی تمہاے لیے۔ غور کیا کرو کہ امی کیسے کام کرتی ہیں، ویسے کیا کرو‘‘۔ ابو نے سمجھایا۔
انیلا سننے کے بجائے گہری سوچ میں ڈوب چکی تھی۔ ’’ابا! یہ دل سے دعا کیسے نکلتی ہے؟ دعا تو منہ سے دی جاتی ہے یا دماغ سے سوچ کر وہی دعا دیتے ہیں‘‘۔ اس نے پوچھا۔
ابو ہنسنے لگے ’’بیٹا! دل ہی تو سارے کام کرتا ہے، قرآن کہتا ہے کہ ہم سوچتے بھی دل سے ہیں، اور دل ہی اللہ کی طرف یکسو ہو تو آدمی مومن بنتا ہے‘‘۔ انھوں نے سمجھایا۔
’’مگر دل تو صرف خون پمپ کرتا ہے، میری کتاب میں تو یہی لکھا ہے‘‘۔ انیلا نے بحث شروع کردی۔
’’اچھا ایک بات بتائو، جب دادا جی کا انتقال ہوا تھا تو آپ کیوں رو رہی تھیں؟ آپ کو نہ کسی نے مارا، نہ بھائی نے کوئی چیز چھینی‘‘۔ ابو نے پوچھا۔
انیلا تھوڑی دیر سوچتی رہی، پھر بولی ’’کیونکہ دادا جی پھر کبھی نہیں آئیں گے، وہ ہمیشہ کے لیے چلے گئے تھے، جب کوئی ہمیشہ کے لیے جائے گا تو رونا تو آئے گا‘‘۔
’’مگر آپ کا کیا نقصان؟ آپ کو تو کھانا، پانی، کپڑے سب مل رہا ہے، پھر کیوں رونا؟‘‘ ابو نے پوچھا۔
’’مجھے دُکھ ہورہا تھا ناں، دل بیٹھا جارہا تھا کہ دادا جی ہمیشہ کے لیے چلے گئے‘‘۔ انیلا نے کہا۔
’’یہ بات…!‘‘ ابو مسکرائے ’’آپ کے دل میں دادا جی کی محبت تھی، اور اُن سے جدا ہونے پر آپ کے دل کو ٹھیس پہنچی تھی اس لیے آپ رو رہی تھیں‘‘۔ انھوں نے بتایا۔
’’مگر دل میں تو صرف خون اور کچھ شریانیں ہوتی ہیں، محبت اور دکھ وغیرہ تو نہیں ہوتے، اور ٹھیس دل کو پہنچے تو آنسو آنکھ سے کیسے نکلتے ہیں؟ صرف دل کو تکلیف ہونی چاہیے۔ براہِ راست دل کا رابطہ آنکھ سے کیسے بن جاتا ہے؟‘‘ انیلا نے پھر ایک سوال داغا۔
’’بیٹا! افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بچوں کو صرف مادّی علوم دیے جاتے ہیں، انھیں روح اور روحانی علوم کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے اسی لیے ہمارے بچوں میں مادیت پرستی کا عنصر بہت بڑھ گیا ہے‘‘۔ ابو نے تاسف سے کہا۔
’’روح کیا ہوتی ہے ابا؟ اور روحانی علوم کس اسکول میں ہوتے ہیں؟‘‘ انیلا نے پوچھا۔
ابا تھوڑی دیر سوچتے رہے ’’بیٹا یوں سمجھو کہ جو ہمارا جسم ہے، بالکل ایسا ہی ایک دوسرا جسم ہے، دوسرے جسم میں بھی ایک دل ہے۔ جیسے ہمارے مادّی جسم کے دل کا کام خون پمپ کرنا ہے، ایسے ہمارے دوسرے جسم یعنی روح میں بھی ایک دل ہے، اس دل کا کام جذبات پمپ کرتا ہے۔ خوشی، غم، محبت، نفرت یہ سب روح کے دل میں ہوتا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر انسان ایک گناہ کرے تو اس کے دل میں کالا دھبہ لگ جاتا ہے، اور جب وہ گناہ کرتا جاتا ہے تو آہستہ آہستہ پورا دل کالا پڑ جاتا ہے۔ آپ نے کیا کبھی کالا دل دیکھا ہے انیلا؟‘‘ انھوں نے سوال کیا۔
’’فزیکلی تو کسی بھی صحت مند انسان کا دل کالا نہیں ہوتا، چاہے وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو۔ میرے خیال میں یہاں روح کے دل کی بات ہورہی ہے‘‘۔ انیلا نے جواب دیا۔
’’بالکل صحیح، آپ نے قرآن میں پڑھا ہوگا، اللہ فرماتا ہے کہ ان کے دل ہیں مگر یہ سوچتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں مگر سنتے نہیں‘‘۔ ابو نے کہا۔
’’جی پڑھا ہے۔ ابوجہل اندھا نہیں تھا، سب کچھ دیکھتا بھالتا تھا مگر اسے یہ نظر نہیں آرہا تھا کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی فائدے کے صرف اللہ کے لیے تکلیف اٹھا رہے ہیں، اُسے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد، اخلاص اور سچائی نظر نہیں آرہی تھی حالانکہ وہ بہت عقل مند تھا، جبھی تو قریش کا سردار تھا‘‘۔ انیلا نے بات آگے بڑھائی۔
’’ہاں میرا بیٹا! اس کے مادی جسم کی آنکھیں تو کام کررہی تھیں، مگر اس کی روح کی آنکھیں اندھی تھیں، اچھائی اور برائی میں فرق نہیں کرسکتی تھیں، اُس کی روح کے کام بہرے تھے جو اللہ کے کلام کو پہچان نہیں پارہے تھے، اس کی روح کا دل اتنا کالا پڑ گیا تھا کہ اللہ کے کلام کا نور بھی اسے جِلا نہ بخش سکا‘‘۔ ابو نے کہا۔
’’مگر ابا سوچتے تو دماغ سے ہیں، تو یہ روح والے جسم میں سوچنے کا کام دل سے کیوں ہوتا ہے؟ اللہ کہتا ہے کہ ان کے دل ہیں مگر سوچتے نہیں‘‘۔ انیلا نے سوال کیا۔
’’کیونکہ روح کے جسم میں سب کچھ دل ہی محسوس کرتا ہے اور اس کا ری ایکشن دیتا ہے، بیٹا اگر ایک فلسطینی دماغ سے سوچے گا تو ٹینکوں کے آگے پتھر لے کر تھوڑی جائے گا، لیکن جب فیصلہ دل سے ہوگا تو پھر غلیلوں سے ڈرونز پر حملے ہوں گے، بھوکے پیٹ گولیوں کے آگے بھی سینہ سپر ہوں گے، اور مائیں اپنے بیٹوں کے سینوں پر بم بھی باندھیں گی۔ بیٹا اللہ سے معاملہ عشق کا معاملہ ہے اور عشق میں دماغ کا کوئی کام نہیں ہوتا، آپ پورا قرآن اٹھاکر دیکھ لیں، کہیں ایسا نہیں ہوگا کہ روح کے جسم کے ساتھ دماغ کا ذکر ہو، یہ خالص دل کی لگی ہے بیٹا! روح کا تعلق براہِ راست اللہ سے ہوتا ہے تو اللہ کے دوستوں کی روح کا دماغ بھی اللہ کے ہاں سے آپریٹ ہوتا ہے، جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ’’نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں…‘‘ اسی طرح میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مومن کی فراست سے ڈرو، وہ دل کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔ مومن کو دماغ کی ضرورت نہیں ہوتی، اُس کا رابطہ اللہ سے اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق ہر کام کرتا ہے، وہ اللہ سے رابطے میں رہتا ہے‘‘۔ ابا نے سمجھایا۔
’’ٹھیک ہے ابا! سمجھ گئی‘‘۔ انیلا نے سر ہلاتے ہوئے کہا ’’یعنی دوسرے جسم کا ہر عضو انسان کے مادّی جسم کی طرح ہے، بس روح میں دماغ نہیں ہے، اچھے انسانوں کی روح کو اللہ کنٹرول کرتا ہے اور برے انسانوں کی روح کو شیطان، پھر انسان کا اختیار؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں بیٹا! روح کے پاس اگر ایک اچھا خیال اللہ کی طرف سے آگیا ہے تو اپنے جسم یعنی مادی جسم سے وہ کام کرانا یا نہ کرانا انسان کا اختیار ہے، کوئی زبردستی نہیں‘‘۔ ابو نے بتایا۔
’’ابا! اگر اللہ کہتا ہے کہ وہ کنکریاں تم نے نہیں، ہم نے پھینکی تھیں، تو کیا مطلب؟‘‘ انیلا نے پوچھا۔
’’یہ بھی روح کا کام ہے، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس قدر پاک تھی کہ مکمل طور پر اللہ کے کنٹرول میں چلی گئی تھی، یعنی وہ اس قدر اللہ کے عشق میں گرفتار تھے کہ انھوں نے اپنا انسانی اختیار تک استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک حدیث ہے کہ اللہ سچے مومن کا ہاتھ، پیر اور منہ بن جاتا ہے، یعنی پھر مومن کا جسم بھی روح کی طرح اللہ کے اختیار میں چلا جاتا ہے اور اس سے وہی کچھ وقوع ہوتا ہے جو اللہ کی رضا ہے، یہ بہت اونچا درجہ ہے، اس درجے کے لوگ چاہیں تو بھی گناہ نہیں کرسکتے، ان کی فوراً پکڑ ہوتی ہے‘‘۔ ابو نے سمجھایا۔
’’ٹھیک ہے، یعنی جیسے کوئی کالا جادو والا ہے تو وہ شیطان کی اس قدر گرفت میں چلا گیا ہے کہ اس سے صرف برائی کا ہی صدور ہوگا، وہ اپنے اختیار میں نہیں ہے‘‘۔ انیلا نے پوچھا۔
’’لیکن یہ اس کی غلطی ہے کہ شیطان سے اس قدر اخلاص کا مظاہرہ کیا کہ شیطان نے اپنے کام کے لیے صرف اسی شخص پر بھروسا کرلیا۔ سزا تو ملے گی، ضرور ملے گی‘‘۔ ابا نے جواب دیا۔
’’اگر ہر انسان کے مادی جسم کے ساتھ ایک اور مکمل جسم ہوتا ہے تو کیا ہماری مادی دنیا یعنی سیارہ زمین کے ساتھ بھی کوئی ایسی دنیا آباد ہے، روح کی دنیا؟‘‘ انیلا نے پوچھا۔
’’بیٹا یہ کیسا سوال ہے؟‘‘ ابو مسکرائے۔ ’’میرا خیال ہے کہ دوسرا جہان ضرور ہے، جہاں سب روحیں جمع ہیں اور وہاں سب کے اصل چہرے نظر آتے ہیں۔ وہاں کوئی بیوٹی پارلر سے میک اَپ کروا کر تو خوب صورت نہیں ہوسکتا، جس کی پاک روح ہوگی وہی خوب صورت نظر آئے گا، اُس جہاں میں جو کامیاب ہوگا وہی اصل کامیاب ہے، اور جو وہاں ناکام ہے وہی درحقیقت ناکام ہے، وہی اصل دنیا ہے بیٹا! یہ دنیا تو دھوکا ہے، مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے جیت جانے کی ریس کا نام ’’دنیا‘‘ ہے‘‘۔ انھوں نے جواب دیا۔
’’ابا! کیا واقعی ایسا ممکن ہے کہ ایسی دنیا ہو جو نظر ہی نہیں آتی؟‘‘ انیلا نے سوال پوچھا۔
’’دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو نظر نہیں آتا، کئی گیسیں ہیں اور جیسا ہم نے بات کی دکھ، خوشی، نفرت، محبت کچھ نظر نہیں آتا، مگر یہ چیزیں ہیں۔ ہمارے بچوں کو جو مادی تعلیم دی جارہی ہے اُس میں اُن کے ذہن میں بٹھا دیا گیا ہے کہ جو چیز نظر نہ آئے اور محسوس نہ ہو، وہ موجود ہی نہیں ہے۔ جب کہ ہمارا قرآن شروع ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ ’’یومنون بالغیب‘‘ یعنی اس پر ایمان رکھو جو نہ نظر آتا ہے، نہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کے بغیر تو ہم اللہ پر بھی ایمان نہیں رکھ سکتے‘‘۔ ابا نے جواب دیا۔
’’اللہ کو کیا ضرورت تھی ایک ایسی دنیا بنانے کی، جو نظر ہی نہیں آتی؟‘‘ انیلا نے پوچھا۔
’’بیٹا وہ اصل دنیا ہے، یہ مادی دنیا تو اُس کا پَرتو ہے، اور صرف امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ ہم مر جائیں گے تو اصل دنیا میں ہی واپس جائیں گے۔ یہ دنیا تو اس قدر بے کار ہے کہ اِس دنیا میں ہم جو مادی جسم استعمال کرتے ہیں، وہ بھی یہیں دفن ہوجائے گا، گل سڑ کر کچرا ہوجائے گا۔ اصل وہ اعمال ہیں جو ہم نے انجام دیے، انہی کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا‘‘۔ ابو نے کہا۔
’’اچھا بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک جسم بالکل ناکارہ ہوجاتا ہے، یعنی ایک آدمی کا ہر عضو بیمار ہے اور وہ بالکل محتاج ہے، ایسی صورت میں ایسے شخص کا دوسرا جسم یعنی روح کس ساخت میں ہوگی؟ کیا روح کی کارکردگی بھی خراب ہوجائے گی؟‘‘ انیلا نے سوال کیا۔
’’اس بات کا دارومدار اس شخص کی ذہنی کیفیت پر ہے، اگر وہ بیماری آنے پر کفر بکنے لگتا ہے، مایوس ہوگیا ہے، اللہ سے تعلق توڑ لیا ہے، ایسی صورت میں روح بھی تباہ و برباد ہوجائے گی۔ لیکن اگر وہ صابر و شاکر ہے، اللہ پر بھروسا کرتا ہے، اللہ کی رضا میں راضی ہے تو اُس کی روح پاکیزہ، چمک دار اور بہت مضبوط ہوگی۔ اس کی دنیا برباد ہو تو ہو، مگر وہ آخرت میں مکمل طور پر کامیاب و کامران رہے گا‘‘۔ ابا نے سمجھایا۔
’’اور مرنے کی صورت میں اصل میں ہمارا دوسرا جسم جو نظر نہیں آتا، یعنی روح ہی نکل کر اصلی دنیا میں پہنچ جاتی ہے، اس روح میں ہمارے سارے اعمال، سارے خیالات، سارے نظریے اور عقائد ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر ہمارا فیصلہ ہوگا‘‘۔ انیلا نے بتایا۔
’’بالکل درست سمجھی میری بیٹی، تُو ہے ہی سمجھدار‘‘۔ ابو نے لاڈ سے انیلا کو پچکارا۔
’’ابا حضرت مریمؑ کے جسم میں دو روحیں ڈال دی گئیں، ایک ان کی، ایک حضرت عیسیٰؑ کی‘‘۔ انیلا نے کہا۔
’’حضرت عیسیٰؑ کا دنیا میں آنا بھی کوئی کمال بات نہیں ہے، یہ اللہ کی قدرت کے لحاظ سے بہت معمولی کام تھا، یہ ایسے ہی ہے جیسے بغیر بیج کے آم اُگ گئے۔ آپ نے قرآن میں پڑھا ہوگا کہ جنت میں تمام پھل ہیں، مشروبات ہیں، مگر کہیں یہ نہیں پڑھا ہوگا کہ فرشتے کھیتی باڑی کررہے ہیں یا دیگیں پکا رہے ہیں۔ وہاں سب کچھ خودبخود آئے گا تو دنیا میں یہ کیوں ممکن نہیں کہ ایک بچہ بغیر مادی اسباب کے صرف روح کے ذریعے پیدا کردیا جائے! جو یہ کہتا ہے کہ اللہ ہر شے پرقادر ہے وہ تو ہر بات پر یقین کرے گا‘‘۔ ابو نے کہا۔
’’جی ہاں، اصل میں مادی اسباب فراہم ہوں تو بھی اللہ ہی بچے میں روح ڈالتا ہے، ورنہ تو بچے مُردے پیدا ہوتے، اصل کام تو روح ڈالنے اور بچے کا جسم بنانے کا ہے، جو اللہ رب العزت ہی کرتا ہے، تو ایک حضرت عیسیٰؑ کو پیدا کردینا کون سی بڑی بات ہے!‘‘ انیلا نے کہا۔
’’بیٹا یہ سب فیصلے اللہ کرتا ہے کہ کس کا کس طرح امتحان لینا ہے۔ ہر طرح سے وہی ہر شے پر قادر ہے۔ کامیابی، ناکامی، دولت، غربت، بیماری، صحت سب لکھا ہوا ہے، اس لیے جھوٹی چیزوں کے پیچھے بھاگ کر اپنی آخرت تباہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔ ابو نے سمجھایا۔
’’اللہ ہم سب کو دوسرے جہاں کی کامیابی عطا کرے‘‘۔ انیلا نے دعا کی۔

حصہ