برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

569

قسط نمبر148
(ساتواں حصہ)
۔1970ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی 300 نشستوں پر براہِ راست انتخاب ہوا، جبکہ خواتین کی مختص 13 مزید نشستیں تھیں جن میں عوامی لیگ کی برتری ثابت ہوچکی تھی۔
پنجاب میں کُل نشستیں 82 تھیں جن میں سے پاکستان پیپلز پارٹی نے 62 پر کامیابی حاصل کی، دیگر جماعتوں میں کونسل لیگ نے 7، جمعیت علمائے پاکستان نے 4، کنونشن لیگ نے 2، قیوم لیگ اور جماعت اسلامی نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی، جبکہ پنجاب سے5 آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔ سندھ میں کُل نشستیں 27 تھیں، پاکستان پیپلز پارٹی نے 19 پر کامیابی حاصل کی جبکہ جمعیت علمائے پاکستان نے 3، قیوم لیگ نے 1، جماعت اسلامی نے2، اور آزاد امیدواروں نے بھی 2 نشستوں پرکامیابی حاصل کی۔ سرحد میں کُل نشستیں25 تھیں، قیوم لیگ نے 7، جمعیت علمائے اسلام نے 6، نیپ ولی گروپ نے 3، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے 1 ، 1 نشست حاصل کی۔ بلوچستان میں نشستوں کی کُل تعداد 4 تھی، ان میں نیشنل عوامی پارٹی نے3 اور جمعیت علمائے اسلام نے ایک نشست حاصل کی۔ مشرقی پاکستان میں کُل نشستیں سب سے زیادہ یعنی 162 تھیں جن میں دو کے سوا تمام سیٹوں پر عوامی لیگ نے بھرپور کامیابی حاصل کی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے نورالامین اور اقلیتی نمائندے راجا تری دیو رائے کو ایک ایک نشست پر کامیابی ملی۔
جب نتائج کا اعلان ہوا تو مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں جگہوں پر دو سیاسی جماعتوں کی خوشی دیدنی تھی۔ مشرقی پاکستان میں کیونکہ عوامی لیگ نے سوئپ کردیا تھا، چنانچہ عوامی لیگ کی جانب سے ڈھاکا کے مشہور’’ریس کورس گرائونڈ‘‘ میں ایک عوامی اجتماع کی تقریب ’’نائو‘‘ (کشتی) میں کی گئی جو کہ عوامی لیگ کا انتخابی نشان تھا۔ اس تقریب میں ’’چھ نکات‘‘ پر مکمل عمل درآمد کے لیے اراکینِ اسمبلی سے حلف بھی لیا گیا، جس کے بعد ہی مشرقی اور مغربی پاکستان میں احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔ ان دونوں جماعتوں کی کامیابی کا سب سے کربناک پہلو یہ تھا کہ دونوں جماعتیں ملک گیر حیثیت کی حامل نہیں تھیں۔
بھٹو نے کامیابی کا جشن عوامی لیگ اور جماعت اسلامی کو مطعون کرکے منایا۔ ایک طرف وہ شیخ مجیب کی مخالفت کررہے تھے تو دوسری جانب ان کی تمام تر توپوں کا رخ جماعت اسلا می کی جانب تھا۔ کیونکہ جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت تھی جس نے ملک کے وفاق کو متحد رکھنے کی خاطر دونوں حصوں سے اپنے نمائندے کھڑے کیے تھے۔ لاہور شہر میں کامیابی کا جشن مناتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مولانا مودودیؒ کی رہائش گاہ کے قریب جلوس کو روک کر مولانا کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ کامیابی کے نشے میں مدہوش کارکنان اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے جن میں ’’ٹوٹ گئی گردن، کٹ گئے بازو… ہائے ترازو، ہائے ترازو‘‘ کا نعرہ بھی شامل تھا۔ اسی کے ساتھ ہجوم لکڑی کے بنے ہوئے ترازو کو توڑتا جاتا اور نعرے لگاتا جاتا۔
مولانا مودودیؒ نے اس وقت اپنے کارکنان کو سختی کے ساتھ ہدایت دی کہ ہجوم کے اشتعال انگیز نعروں کا ہرگز کوئی جواب نہ دیا جائے۔ انھوں نے اس موقع پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’نہ اسلام ناکام ہوا ہے، نہ ہی اہلِ اسلام کو شکست ہوئی ہے۔ فی الحقیقت وہ لوگ ناکام ہوگئے ہیں جنھوں نے سوشل ازم کے حق میں رائے دی ہے۔ ناکامی حق کا مقدر نہیں، خواہ بظاہر اس کی ناکامی کے آثار کتنے ہی نمایاں ہوں۔ اسی طرح کامیابی باطل کا مقدر نہیں ہے خواہ اس کی کامیابی کا کتنا ہی چرچا ہو۔‘‘
(وقت نے بہت جلد یہ حقیقت بھی دنیا کو دکھا دی کہ ’’ٹوٹ گئی گردن،کٹ گئے بازو… ہائے ترازو، ہائے ترازو‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کے رہنما کی اپنی گردن پھانسی کے پھندے میں جھول کر دیر تک لٹکتی رہی۔ اور اس رہنما کے دونوں جوان بیٹے یعنی دونوں بازو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔)
19دسمبر 1970ء کو شیخ مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ وہ مستقبل کا آئین اپنے دئیے گئے ’’چھ نکات‘‘ کو سامنے رکھ کر ترتیب دیں گے اور اس سلسلے میں کسی سے مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ اس کا جواب 20 دسمبر1970ء کو مغربی پاکستان کی اسمبلی میں واضح برتری رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس طرح دیا کہ پیپلز پارٹی کے تعاون اور مشاورت کے بغیر بننے والے آئین کو قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی مرکز میں کوئی حکومت چل سکے گی۔ مشرقی پاکستان میں اپنے امیدوار کھڑے نہ کرنے کے حوالے سے بھٹو کا کہنا تھا کہ کیونکہ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی عمر اس وقت محض تین سال ہے لہٰذا انہیں مشرقی پاکستان میں اپنی پارٹی کو متعارف کروانے کا وقت نہیں مل سکا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی، انھوں نے مشرقی پاکستان کے دو مرتبہ دورے کیے تھے، جہاں انتخابی جلسوں سے خطاب بھی کیا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ پیپلز پارٹی مشر قی پاکستان سے اپنے امیدوار کھڑے ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یہی معاملہ شیخ مجیب الرحمن کا تھا۔ اور یہی وہ ترپ کا پتّا تھا جو دونوں جماعتوں نے کھیلا ،اور یہ امر پاکستان کے وفاق کی بساط کو الٹنے کا سبب بنا۔
حالات تیزی کے ساتھ بگڑتے جارہے تھے۔ صدرِ پاکستان جنرل یحییٰ خان 12جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن سے بات چیت کے لیے ڈھاکا پہنچے اور شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ بات چیت کی ابتدا کی۔ یہ بات چیت کسی بھی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی۔27 جنوری 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات کے لیے ڈھاکا پہنچے۔ یہ مذاکرات بھی دونوں کی جانب سے کسی قسم کی لچک پیدا نہ کرنے کی وجہ سے ناکام رہے۔
اسی دوران 30 جنوری 1971ء کو انڈین ایئرلائن کا ایک طیارہ اغوا کرکے لاہور لایا گیا، جس کو تباہ کردیا گیا۔ اس اغوا کی ذمے داری ’’جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ‘‘ نے قبول کی۔ ہندوستان کی جانب سے اس کی ذمے داری پاکستان پر ڈالی گئی۔ ہندوستان نے پاکستانی طیاروں کے اپنی حدود سے گزرنے کی اجازت واپس لے لی، اس طرح مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان فضائی رابطہ منقطع ہوگیا۔ صدرِ پاکستان جنرل یحییٰ خان نے 3 مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس ’’ڈھاکا‘‘ میں طلب کرلیا۔ آئینی بحران کے سبب حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ 15فروری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ ’’ٹرانسفر آف پاور‘‘ میں تاخیرکی جارہی ہے اور حالات کی خرابی کی ذمے دار جیتنے والی پارٹی نہیں ہوگی، ہم نے کامیابی حاصل کی ہے اور ’’ٹرانسفر آف پاور‘‘ ہمارا حق بنتا ہے۔ 15 فروری 1971ء ہی کو ذوالفقار علی بھٹو نے پشاور کے جلسے میں اعلان کیا کہ پیپلزپارٹی کی شرکت کے بغیر بننے والے کسی بھی آئین کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ شیخ مجیب الرحمن کے طرزعمل میں بھی کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور عوامی لیگی غنڈوں نے مشرقی پاکستان میں محبِ وطن غیر بنگالیوں کا قتلِ عام شروع کردیا۔ بے شمار غیر بنگالی قتل ہوچکے تھے۔ ان کی جان و مال اور املاک سب غیر محفوظ ہوچکی تھیں۔ پولیس، رضاکار اور دیگر عسکری اور نیم عسکری جماعتوں نے بھی عوامی لیگ کی کال پر تشدد کا بازار گرم کرکے محبِ وطن پاکستانیوں کو تہِ تیغ کرنا شروع کردیا۔ امن و امان کی صورتِ حال سول انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر تھی۔ اس کا ردعمل مغربی پاکستان میں بھی دیکھنے میں آیا۔ بھٹو نے دھمکی دی کہ اگر اُن کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو کراچی تا خیبر سخت گیر احتجاج کیا جائے گا۔ عوامی لیگ اور اس کا ’’اسٹوڈنٹ ونگ‘‘ چھاترو لیگ، اور عوامی نیشنل پارٹی بھاشانی گروپ جلائو گھیرائو اور قتل و غارت گری میں پوری طرح ملوث پائے گئے۔ پاکستا ن کی غیر بنگالی افواج اور نفری صرف کنٹونمنٹ، ایئرپورٹ، گورنر ہائوس اور محبِ وطن غیر بنگالیوں کے بعض علاقوں تک محدود ہوچکی تھی۔ ہر طرف بنگلہ دیش کے پرچم آویزاں ہوگئے۔ حالات کی خرابی کے پیش نظر جنرل یحییٰ خان نے بروز پیر یکم مارچ1971ء دن کے ایک بجے ڈھاکا میں قومی اسمبلی کے ہونے والے اجلاس کو منسوخ کردیا، جس کے ردعمل میں عوامی لیگ نے 3 مارچ 1971ء کو مکمل ہڑتال کا اعلان کردیا۔ پمفلٹ تقسیم کیے گئے جس کا عنوان تھا ’’چھ پوائنٹ… نہیں، اب صرف ایک پوائنٹ… وہ ہے آزادی‘‘۔ مشرقی پاکستان میں موجود سول بیوروکریسی سمیت تمام اداروں نے شیخ مجیب الرحمن کی حمایت کی۔ یہاں تک کہ ایسٹ پاکستان رائفلز(E.P.R)، ایسٹ بنگال رجمنٹ (E.B.R) اور پولیس کے بنگالی جوانوں اور افسروں و اہلکاروں نے شرپسندوں پر گولی چلانے سے انکار کردیا۔
حوا لہ جات: جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد۔ از میاں طفیل محمد
خصوصی مضمون ’’ مشرقی پاکستان کا تاریخی حادثہ ‘‘ ۔روزنامہ نوائے وقت، اشاعت 16 دسمبر 2017ء
( جاری ہے )

حصہ