غلام کا غصہ غلام پر

600

وسعت اللہ
اَنا اور خود داری دو الگ الگ کیفیات ہیں، مگر ہم انھیں اکثر خلط ملط کردیتے ہیں۔ حالانکہ خودداری خودشناسی سے جنم لیتی ہے اور اَنا اندر چھپی جہالت سے۔ خودداری پیغمبرانہ وصف ہے اور اَنا پرستی فرعونیت۔ خود داری بینا، اور اَنا نابینا۔
جب ہم کہتے ہیں کہ کسی کی اَنا کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے تو غالباً ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کسی کی خودداری کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔ انا کو ٹھیس لگنا تو صحت مند عمل ہے، انا ٹوٹے گی تو خودداری کو باہر آنے کا موقع ملے گا۔
مگر یہ اصطلاحی کنفیوژن ہماری لسانی و نفسیاتی رگوں میں اتنا سرایت کرگیا ہے کہ اس کے اثرات روزمرہ زندگی پر نمایاں ہیں۔ چونکہ ہمارے روزمرہ میں صحت مند ذہنی و جسمانی متبادلات بہت کم ہیں لہٰذا گھوم پھر کے ستّر فیصد روزمرہ سیاسی گفتگو کے مدار میں ہی چکر لگاتے لگاتے ہر شب تھک کے سوجاتا ہے۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ اب سے پہلے جب مرکز یا صوبوں میں مخلوط حکومت سازی کے لیے بھاگ دوڑ ہوتی تھی تو عموماً اکثریتی پارٹی کا سربراہ چھوٹی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بنفسِ نفیس ان کے مراکز تک جایا کرتا تھا، تاکہ ہم آہنگی یا خیرسگالی کا تاثر دیا جا سکے… بھلے وہ نائن زیرو ہو یا منصورہ، گجرات ہاؤس ہو کہ ولی باغ، بگٹی ہاؤس ہو کہ مینگل ہاؤس یا کسی آزاد امیدوار کا ڈیرہ۔
مگر 25 جولائی کے بعد سے پہلی تبدیلی یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ اکثریتی پارٹی کے لیڈر کا اپنے گھر تک محدود رہنا اور ہر آنے والے یا لائے جانے والے سیاسی و انتخابی مہمان کا استقبال کرنا اور تصویر کھنچوانا۔ بیرونی ممالک کے سفرا اور بریفنگ دینے والے بیوروکریٹس کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر جب آزاد منتخب ارکانِ اسمبلی سے لے کر سکہ بند سیاسی جماعتوں کے منتخب اراکین کے وفود کے لیے بھی صرف یک طرفہ دیدہ و دل فرشِ راہ ہو تو لگتا ہے گویا عالم پناہ کی رسمِ تاجپوشی سے پہلے پہلے بنگال تا گجرات اور کشمیر تا دکن پھیلے چھوٹے بڑے رجواڑوں اور باج گزار و مال گزار علاقہ جات کے منصب دار صاحبِ عالم کو ہدیہ پیش کرنے تشریف لا رہے ہیں، یا پھر 1911ء کے دلی دربار میں جارج پنجم کی آمد آمد کا کورنشی ماحول رچا ہوا ہے۔
ہم تو یہ دیکھ دیکھ کر بڑے ہوئے کہ ایسی جماعت جسے سادہ اکثریت بھی حاصل نہ ہو اُس کا سربراہ اور ہم نوا اکثریت کے حصول تک محوِِ سفر اور ’’ کبھی اِس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا ‘‘ کی تصویر بنے رہتے تھے۔ مگر نئی سیاسی تہذیب یہ ہے کہ بندہ اپنی نشست پر براجمان ہے اور نمبر خود آکر سلامی دے رہے ہیں۔ یہ کرم ہے کہ کرامت، اللہ جانے۔
مگر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل کو شاید یہ نیا کلچر ہضم ہونے میں وقت لگے گا۔ سردار صاحب اسلام آباد میں چار روز قیام پذیر رہے کہ جسے ضرورت ہو بلوچستان ہاؤس چلا آئے۔
یہاں تک آ تو گئے آپ کی محبت میں
اب اور کتنا گناہ گار کرنا چاہتے ہیں
یہ انا ہے کہ خودداری، میں نہیں جانتا۔ دوسری جانب عمران خان جنھیں اس وقت مستحکم حکومت کے قیام کے لیے شمر ہو کہ حر، ہر ایک کے حمایتی ووٹ کی ضرورت ہے، اس کے باوجود وہ بلوچستان ہاؤس تک چل کے نہیں گئے بلکہ منتظر رہے کہ روایتی بلوچ سردار بنی گالا آکر سلام و نذر گزارے۔ یہ انا ہے کہ خودداری مجھے نہیں معلوم۔
مجھے تو ڈی چوک کے طویل دھرنے کی وہ ایک رات بھی یاد آرہی ہے جب بیچ تقریر کے شیخ رشید نے کان میں کچھ کہا اور خان صاحب خطاب ادھورا چھوڑ کے کہیں روانہ ہوگئے۔ جب چند گھنٹوں بعد دھرنے میں واپس لوٹے تو مسرت کی سرخی ملگجے اندھیرے میں بھی تمتما رہی تھی۔ یہ انا تھی کہ خودداری، مجھے نہیں معلوم۔
صاف ستھری سیاست جیسے الفاظ اب کتابوں میں ہی ملتے ہیں۔ ہماری آج کی دنیا سے ان لفظیات کا کوئی لینا دینا نہیں۔ آج جب کوئی کہتا ہے کہ اصولوں پر سمجھوتا نہیں ہوسکتا، تو عملاً مراد یہی ہوتی ہے کہ جو بھی سمجھوتا ہوگا بے اصولی پر ہوگا۔
مجھ جیسے کوڑھ مغزوں کو تو یہ تک پلے نہیں پڑ رہا کہ اگر پچیس جولائی فراڈ ہے تو پھر چند حلقوں کی ری کاؤنٹنگ کا مطالبہ ہی کیوں؟ سب فراڈ ہے تو جہاں جہاں چانس نظر آرہا ہے وہاں وہاں حکومت سازی یا ساجھے داری کی آس کیوں؟ اے این پی بلوچستان کی صوبائی حکومت کا حصہ بننے میں کیوں دلچسپی لے رہی ہے اور خیبرپختون خوا میں انتخابی فراڈ کے خلاف بڑی بڑی ریلیاں کیوں نکالنا چاہتی ہے؟ سب فراڈ ہے تو پیپلزپارٹی متحدہ اپوزیشن میں کیوں ہے اور سندھ میں کیوں حکومت بنا رہی ہے؟ سب فراڈ ہے تو شہبازشریف پنجاب میں حکومت سازی کو حسرت بھری نگاہ سے کیوں دیکھ رہے ہیں اور سب فراڈ ہے تو پھر وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں حصہ لینا کیوں حلال ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ بکرے کا سر حلال اور دھڑ حرام؟
جو کام آج آپ کررہے ہیں کل یہی کام عمران خان کررہے تھے تو ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ کا الاپ چل رہا تھا۔ فضا میں ہر طرف یہ فقرے اڑ رہے تھے کہ اسمبلیوں کو بے غیرت کہنے والو اسمبلیوں سے الاؤنس کیوں وصول کررہے ہو؟ 2013ء میں دھاندلی ہوئی ہے تو پھر پرویز خٹک استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو استعفیٰ جمع کرانے کا ڈراما کرنے والے خیبر پختون خوا اسمبلی میں اپنے ارکان کو مستعفی ہونے کا حکم کیوں نہیں دیتے؟
1977ء کے الیکشن بھٹو نے کرائے تو آپ نے کہا یہ فراڈ ہے، ہم نہ اسمبلیاں مانتے ہیں نہ بھٹو کو، ناجائز حکومت گھر جائے یا پھر تازہ انتخابات کرائے۔ ظاہر ہے یہ مطالبہ پی این اے کا ایک اصولی مؤقف تھا۔ آج بھی وہ جماعتیں حیات ہیں اور ان میں سے بیشتر 2018ء کے انتخابی نتائج کو بھی جائز نہیں سمجھ رہیں، تو پھر دھاندلی کا مجرم کون ہے؟ جیسے بھٹو کا نام لیا تھا ویسے کھل کے نام لو ناں۔ تب تو ازسرِنو انتخابات سے کم آپ کسی فارمولے پر راضی نہ تھے۔ آج بھی وہی اصولی مؤقف اپناؤ ناں۔ مگر آپ ایسا کیوں کریں گے! 1977ء میں بھی آپ نے وہی کیا جو بتایا گیا، اور آج بھی آپ وہی کریں گے جو بتایا جائے گا۔ شو روم کتنا ہی بدل جائے گودام تو وہی ہے ناں۔
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
اسی طرح لچک اور ثابت قدمی نے بھی اپنی جگہ اور معنی بدل لیے ہیں۔ جہاں ثابت قدمی دکھانے کی ضرورت ہے وہاں انتہائی لچک دار رویہ دیکھنے کو مل رہا ہے، اور جہاں لچک دکھانا ہے وہاں ماش جیسی اکڑ دکھائی جا رہی ہے۔
پیپلزپارٹی اور نون لیگ دیگر جماعتوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر وسیع تعاون پر رضامند ہیں، مگر پنجاب میں شہبازشریف کو حکومت سازی کے لیے اپنے 6 ارکانِِ اسمبلی دان کرنے سے پیپلز پارٹی انکاری ہے۔ اس انکار کے پیچھے دلیل کیا ہے، ذرا اس کا لیول ملاحظہ کیجیے۔
’’ڈان اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے جو 6 ارکان پنجاب اسمبلی میں منتخب ہوئے ہیں، ان میں سے 4 کا تعلق رحیم یار خان سے ہے۔ یہ چاروں شہبازشریف سے صوبائی سطح پر عددی تعاون کرنے کے کٹر مخالف ہیں، کیونکہ 2015ء میں مسلم لیگ (ن) نے رحیم یار خان ڈسٹرکٹ کونسل میں پیپلز پارٹی کے حمایتی ارکان کی اکثریت کے باوجود کونسل پر اپنا چیئرمین مسلط کردیا۔ بتائیے کہاں کا غصہ کہاں نکالا جارہا ہے۔ اسے کہتے ہیں حالات کی نزاکت کا ادراک اور سیاسی بصیرت۔
ایک ترک کہاوت ہے: غلام کا غصہ غلام پر ہی نکلتا ہے۔

حصہ