معاشرتی ذمے داری اور حسنِ معاشرت

1138

افروز عنایت
ایک ماہ کی اسکول کی تعطیلات عدینہ (پوتی) اپنے والدین کے ساتھ دوحہ میں گزار کر واپس آئی تو ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی اُس نے شہر میں چاروں طرف پھیلے کچرے کے ڈھیر دیکھ کر منہ بنایا۔ ’’اُف کتنا گند ہے۔ آپ کو پتا ہے دادو! وہاں سڑکیں اور پارک، ہر جگہ صاف ستھری تھی، کہیں گندگی نظر نہیں آتی تھی‘‘۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر ایک جگہ لوگوں کا رش دیکھا، ایک موٹر سائیکل والے نے جلد بازی میں کار کو اوورٹیک کرنے کی کوشش میں ٹکر ماری تھی جس سے کار کا سائیڈ کا شیشہ چکناچور ہوگیا تھا اور اب دونوں سواریوں کے ڈرائیور ایک دوسرے سے ’’دست وگریباں‘‘ اور لوگ مجمع لگائے تماش بین تھے۔ سات سالہ عدینہ پھر مجھ سے مخاطب ہوئی ’’دادو! یہاں کے لوگ اچھے نہیں ہیں، لڑتے بھی ہیں۔ دادو ایسا کیوں کرتے ہیں لوگ…؟ دوحہ میں تو لوگ بہت اچھے ہیں‘‘۔ میرے پاس اس معصوم بچی کے سوال کا جواب نہ تھا، اس لیے اُس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور پوچھا ’’بیٹا آپ کو دوحہ بہت پسند آیا؟‘‘ اس کے چاچو عبداللہ اس کی باتوں سے لطف اندوز ہورہے تھے، گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بولے ’’لوگوں کو شاید ’’شہری آگہی‘‘ نہیں ہے‘‘ اس لیے‘‘۔ گھر پہنچے تو وہ اپنے دادا کو بھی چہک چہک کر دوحہ کے سفر کے بارے میں یوں بتا رہی تھی جیسے کہ دادا تو کبھی دوحہ گئے ہی نہیں۔ وہ مسکرا مسکرا کر اس کی باتیں سن رہے تھے۔ بچوں کو آئے ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ دادا کہنے لگے ’’میں ڈبل روٹی لے کر آتا ہوں، ناشتے کے لیے تازہ ڈبل روٹی دکاندار کے پاس آگئی ہوگی‘‘۔ دکان ہمارے گھر سے صرف دو منٹ کے فاصلے پر ہے لیکن پندرہ منٹ ہوگئے عدینہ کے دادا کو گئے ہوئے، میں ابھی بیٹے سے اس سلسلے میں کہنے والی تھی کہ عبداللہ کے سیل پر گھنٹی بجی۔ فون ریسیو کیا، پتا چلا کہ عدینہ کے دادا گر گئے ہیں، انہیں چوٹ لگی تھی۔ فوراً عبداللہ گاڑی لے کر گئے۔ تکلیف اتنی زیادہ تھی کہ دونوں بیٹے انہیں ’’ہڈی جوڑ‘‘ کلینک لے کر گئے، معلوم ہوا کہ بڑا فریکچر ہے جو آپریشن سے ہی صحیح ہوسکتا ہے۔ اتوار کا دن تھا، لہٰذا تکلیف کو دور کرنے کے لیے ادویہ دی گئیں اور اسپتال میں داخل کردیا گیا۔ درد ذرا کم ہوا تو عنایت (عدینہ کے دادا) نے بتایا کہ سڑک پر کیلے کا چھلکا پڑا ہوا تھا جس پر میری نظر نہیں پڑی، اور یہ حادثہ پیش آیا جو خاصا تکلیف دہ اور تمام گھر والوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا۔ یعنی لوگوں کی ذرا سی غفلت اس حادثے کی وجہ بنی۔ اسپتال کا کمرہ جس کا ایک دن کا کرایہ 5500 روپے تھا (یہ شہر کا ایک درمیانے درجے کا اسپتال ہے) اس کی حالت یہ تھی کہ A-C بھی صحیح کام نہیں کررہا تھا بلکہ اس کا پانی اس چھوٹے کمرے میں گر رہا تھا جس سے کسی بندے کے پھسلنے کا خدشہ تھا، باتھ روم میں نہ آئینہ، نہ ہینڈ واش، نہ ٹشو پیپر، نہ گرم پانی۔ ایمرجنسی انٹرکام کا حال کیا بتائیں، کتنی مرتبہ کال کرنے پر اُٹھایا جاتا۔ پھر اٹینڈر رہی سہی کسر پوری کرتا کہ صاحب ابھی آیا، ابھی آیا۔ غرض اس صورتِ حال میں عبداللہ نے تمام رات باپ کے ساتھ اس کمرے میں جاگتے گزاری۔ صبح منتظم اعلیٰ کو شکایت کرنے پر معاملات میں کچھ سدھار آسکا۔ صبح آپریشن کے لیے عبداللہ کو کہا گیا کہ ہر صورت میں رقم کی ادائیگی ایڈوانس کرنی پڑے گی ورنہ آپریشن اگلے دن تک ملتوی کردیا جائے گا۔ گھر میں اتنی رقم موجود نہ تھی لہٰذا عبداللہ گھر آیا، مجھے لے کر پہلے بینک سے پیسے نکلوائے، پھر اسپتال میں ادائیگی کی گئی۔ اس ایک گھنٹے میں عبداللہ اور میری پریشانی تو رہی ایک طرف، نہ جانے ہمارے پیشنٹ (مریض) کی اسپتال میں اکیلے کیا حالت ہوئی ہوگی! خیر جی، اللہ اللہ کرکے آپریشن ہوا اور پانچ دن کے بعد اپنے گھر آکر ہم سب نے سکون کا سانس لیا۔
درج بالا تمام صورتِ حال میں قصور کس کا ہے؟ کیا ہم سب اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ دوسرے کے لیے بالکل نہیں سوچتے کہ ہمارے اس فعل سے دوسرے کو کیا نقصان اور تکلیف ہوسکتی ہے! یا ہمیں اس بات کی آگہی ہی نہیں کہ ہمارا یہ عمل دوسرے کی تکلیف و پریشانی کا باعث بن سکتا ہے! کیا ہم اپنی شہری اور معاشرتی ذمے داریوں اور فرائض سے آگاہ نہیں یا غفلت برت رہے ہیں جس کا خمیازہ نہ جانے کتنے افراد کو بھگتنا پڑتا ہے، یا نہ جانے کتنے اس غفلت و بے حسی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یہ معاشرے کی چند غلطیاں ہیں جن کی نشاندہی میں نے سطورِ بالا میں کی۔ نہ جانے ہم سے دن بھر میں اس قسم کی کتنی کوتاہیاں سرزد ہوتی ہوں گی۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اکثر و بیشتر یہ کوتاہیاں، ناانصافیاں تعلیم یافتہ افراد سے بھی سرزد ہوتی ہیں جو اپنے آپ کو معاشرے کے معززین میں شمار کرتے ہیں، جو اپنے حقوق کے لیے تو لڑنے مرنے پر تیار لیکن اپنے فرائض اور شہری معاونت سے نابلد۔ پچھلے دنوں نیٹ پر ایک عبارت پڑھنے کا اتفاق ہوا کہ ایک غیر مسلم نے اسلامی تعلیم کے مطابق انسانی و معاشرتی بھلائی کے لیے 100 نکات پڑھے تو حیران ہوگیا کہ یہ نکات وہ ہیں جن پر عمل پیرا معاشرہ نہ صرف پُرامن رہ سکتا ہے بلکہ ہر ایک کو تحفظات اور آسانیاں میسر آسکتی ہیں۔ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں، ان تعلیمات سے واقف ہیں لیکن عمل میں کورے ہیں۔ اسلام ضابطۂ حیات ہے۔ انسانیت کی فلاح وبہبود کی نہ صرف آگہی میسر کرتا ہے بلکہ راہیں دکھاتا ہے، جن پر عمل پیرا ہوکر اسلامی معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے اور پاکستان کو ایک پُرامن اور ترقی یافتہ مملکت بنانے میں بھرپور مدد مل سکتی ہے۔ عبادات اور حقوق اللہ میں کوتاہی سے تو صرف بندے کی اپنی ذات کا نقصان ہے، جبکہ معاشرتی ذمے داریوں میں کوتاہی اور حق تلفی سے اللہ کے بندوں کا نقصان ہے اور ان کی راہوں میں مشکلات پیدا ہوتی ہے، جس پر اللہ کی پکڑ اور اللہ کی ناراضی ہے۔ اسی لیے زمین پر رہنے والوں کے لیے آسانیاں اور آرام پہنچانے کی بار بار تاکید فرمائی گئی ہے۔
حدیثِ نبویؐ ہے کہ ’’جو کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی پیدا کرے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
ایک دوسری جگہ ارشادِ نبیؐ ہے کہ ’’اپنے شر سے دوسروں کو محفوظ رکھے، یہ بھی ایک صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اسی طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ کا فرمان ہے کہ ’’لوگوں سے تکلیف کو دور کرکے خود اٹھا لینا حقیقی سخاوت ہے‘‘۔ یہاں تک کہ عبادات میں بھی دوسروں کا خیال رکھنا افضل ہے۔ سنن ابودائود کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں کمزور، بیمار اور بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں، اور جب اپنی اکیلی نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی کرلے‘‘۔ ربّ العزت نے حُسنِ معاشرت کو شب گزاری و تہجد پر فضیلت عطا کی ہے، یعنی ایک بندہ رات دن عبادتِ الٰہی میں مصروف رہا لیکن اُس کے کردار و عمل سے دوسرے بندے کو تکلیف پہنچی تو ربّ العزت کو یہ ہرگز پسند نہیں، بلکہ دوسرے بندے کو نقصان پہنچانا سنگین جرم ہے۔ اگر مسلمان دوسرے مسلمان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا تو کوشش کرے کہ اپنے فعل و عمل سے دوسرے کو نقصان بھی نہ پہنچائے۔ اگر دوسرے کو خوشی نہیں دے سکتا تو کم از کم اسے دُکھ اور رنج بھی نہ دے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں اپنے قول و فعل سے اللہ کے حکم کے مطابق حُسنِ معاشرت کی تعلیم دی ہے جو اس ملک و وطن میں بسنے والوں کے لیے انعامات ہیں اگر ہم اس پر عمل کریں۔ ہر قدم پر ہمیں دینِ اسلام سے رہنمائی ملتی ہے۔ لوگوں سے برتائو، لین دین، گزر اوقات… کون سا ایسا معاملہ ہے جہاں ہم تعلیماتِ اسلامی سے مدد نہیں لے سکتے! صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ ’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، نہ خرید و فروخت میں (دھوکا دینے کے لیے) بولی بڑھائو، نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو، نہ ایک دوسرے سے بے رخی برتو، اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا کرے، اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جائو‘‘ (سبحان اللہ)۔ دینِ اسلام میں ہر صورت میں لوگوں کی بھلائی کو مقدم رکھا گیا ہے۔ بہترین صدقہ درخت لگانا اور کنواں کھدوانا ہے، تو کہیں راستے سے کانٹے ہٹانے پر اجرِ آخرت کی خوش خبری ہے۔ (سبحان اللہ)
درج بالا ان چند احادیث کے حوالے سے اندازہ لگائیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانیت کی بھلائی کا کیا اجر و ثواب ہے۔ دوسروں کو آسانیاں فراہم کرنے پر ربّ العزت بندے کی مشکلات و تکالیف اُس سے دور کرتا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے، آئیے مل کر عہد کریں کہ ہم سب اپنے اپنے طور پر کوشش کریں گے کہ دوسروں کی راہوں میں کانٹے نہیں بلکہ پھول بکھیریں گے، اس عظیم مملکت کو امن کا گہوارہ بنائیں گے، دوسروں کو سُکھ دے کر خود بھی سکون سے رہیں گیپ۔ خدا میری ارضِ وطن کو ہمیشہ سلامت رکھے، آمین۔
خدا میری ارضِ وطن کو دشمنوں کے شر سے بچائے رکھے۔ آمین

حصہ