قربانی

357

مریم شہزاد
ارے واہ ، جلدی آؤ، دیکھو بھیا اور ابو گائے لے کے آئیں ہیں “ابراہیم نے گیٹ سے ہی سب بہن بھائی کو آواز دی جہاں ٹرک سے گائے اتر رہی تھی۔
“ہائیں! گائے آئی ہے؟ واقعی؟” حمنہ نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ پوچھا اور باہر کی طرف دوڑ لگائی ایمن بھی ساتھ ہی ہولی۔
“واہ، واہ کیا زبردست گائے ہے” ابراہیم نے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
“کمال کردیا ابو نے تو اس دفعہ” ایمن نے کہا۔
حمنہ نے ابو کو اندر جاتے دیکھا تو جلدی سے موبائل فون نکالا اور بھیا کو دیتے ہوئے کہا “بھیا، جلدی سے میری ایک اچھی سی تصویر بنا دیں، گائے کے ساتھ، میں فیس بک پر ڈالوں گی”۔
ہا، ہا ہا ہا پتا کیسے چلے گا کہ اس میں سے گائے کونسی ہے” ابراہیم نے حمنہ کو پوز بناتے دیکھ کر کہا۔
حمنہ غصے سے اس کی طرف دوڑی تو ایمن نے اس کو روک لیا۔
“تم تصویر ڈالو سب کو پتا تو چلے ہمارے گھر کتنی خوبصورت گائے آئی ہے”۔
ہائے مجھے تو ابھی سے بار بی کیو کے خواب آنے لگے، اس نے کہا تو ابراہیم نے چڑایا۔
“لڑکیاں نہیں کرتی بار بی کیو، وہ تو ہم کریں گے،”
“اچھا! یہ کیا صرف تمہاری ہے” ایمن غصے سے بولی۔
“ہاں تو اور کیا، کیا تم ٹہلاوگی اس کو گلیوں میں، تم چارہ کھلاؤ گی؟ یہ تو ہماری ہے، کیوں بھیا؟ “اس نے بھیا کو بھی اپنے سا تھ ملانے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی “دم ہے ابراہیم کی بات میں”۔
“اچھا تو ٹھیک ہے، تم بھی کیا یاد کرو گے، تم لوگ تکہ بوٹی بناتے جانا، ہم آرام سے کھاتے جائیں گے” حمنہ نے نوابی سے کہا۔
“اوہو، کیا کہنے ہیں آپ کے، تم بناتے جانا ہم کھاتے جائیں گے، “ابراہیم نے حمنہ کی نقل اتاری” شکل دیکھی ہے اپنی، یہ منہ اور مسور کی دال، ہم”۔
“جی نہیں، یہ منہ اور مسور کی دال نہیں، نہاری اور بہاری کباب” ایمن نے کہا اور چاروں ہنس پڑے۔
دادا ابو اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑے ان کی باتیں سن رہے تھے وہ افسردہ سے ہوگئے انہوں نے چاروں کو اپنے پاس بلایا اور کہا “آپ لوگوں کی باتیں سن رہا تھا، مجھے بہت افسوس ہوا، آپ کومعلوم ہے قربانی کا اصل مقصد کیا ہے؟”
سب خاموش رہے۔
دادا ابو نے ان کو شرمندہ دیکھا تو سمجھایا۔
“بقرعید تو حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کی یاد میں مناتے ہیں، اصل مقصد تو اللہ کو راضی کرنا ہے، قربانی کے جانور کو صرف کھانے پکانے اور بار بی کیو کی نیت سے یا شو مارنے کے لیے نہیں لینا، بلکہ قربانی کی درست نیت کے ساتھ قربان کرنا ہے، غریبوں اور رشتہ داروں کا بھی خیال رکھنا ہے ۔
“اگر ہماری نیت درست ہوگی تو ہم چاہے تکے بنائیں یا نہاری بس اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہماری قربانی قبول کرے”
بچوں نے وعدہ کیا کہ وہ قربانی کی نیت میں اللہ کی رضا کو مدنظر رکھیں گے اور صرف تکہ بوٹی کباب کاہی نہیں سوچیں گے۔

حصہ