ظہیرخان
جس طرح ہر مرد کی قسمت میں کم از کم ایک عدد عورت ضرور ہوتی ہے(سوائے شیخ رشید کے) اسی طرح ہر مرد کی قمیض میں کم از کم ایک عدد جیب ضرور ہوتی ہے۔ کچھ شوقین حضرات ایک سے زائد جیب رکھ کر اپنی ’’اعلیٰ جیبی‘‘ کا ثبوت دیتے ہیں۔ اب یہ ان کے ذوق و شو ق پر منحصر ہے کہ وہ کتنے جیب رکھ کر اپنے شوق کی تکمیل اور ظرف کی تسکین کرتے ہیں۔ ایک زمانہ میں سفاری سوٹ کا بہت رواج تھا۔ سفاری سوٹ کی قمیض جسے بش شرٹ بھی کہتے ہیں اس میں چار جیبیں ہوا کرتی تھیں۔ دو عددExtra Large سائز دامن کے ساتھ اور دو عدد Large سائز اوپر سینہ کی طرف… اب بندہ اتنی جیبیں رکھ کر کرے گا کیا؟… بہت ممکن ہے کچھ نفاست پسند حضرات بازار جاتے وقت ہاتھ میں کوئی تھیلا جسے پڑھے لکھے مہذّب حضرات شاپنگ بیگ کا نام دیتے ہیں، ساتھ لے جانا معیوب سمجھتے ہوں لہٰذا سفاری سوٹ کی انہیں چار جیبوں کو بطور شاپنگ بیگ استعمال کرتے ہوں۔ مثلاً ایک بڑی جیب میں، جو کافی کشادہ ہوتی ہے دو کلو سبزی اور دوسری میں دو کلو گوشت بآسانی آسکتا ہے، رہ گئیں اوپر کی جیبیں تو ان میں دوسری اشیاء مثلاً گرم مصالحہ، چائے کی پتّی وغیرہ ٹائپ کی چیزیں رکھی جاسکتی ہیں۔
آج کا دور شلوار قمیض کا دور ہے۔ قمیض کے اوپری حصّہ میں دل کے قریب یا یوں کہہ لیجیے کہ دل کو ڈھانپے ہوئے ایک جیب جو بہت نمایاں ہوتی ہے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ حاملِ جیب حضرات اس میں نقدی کے ساتھ کچھ ضروری کاغذات ، موبائیل اور ساتھ میں قلم بھی رکھتے ہیں۔ کچھ ذہین اور ٹیکنیکل حضرات قلم رکھنے کے لیے باقاعدہ قلم سائز کی ایک پتلی سی سائڈ جیب یا یوں کہہ لیجیے کہ سروس جیب بنواتے ہیں جسے ہم ان کا قلم دان بھی کہہ سکتے ہیں، یہ بڑی جیب سے متّصل ہوتی ہے اس میں ان کا چمکتا ہوا قلم اگلے پر رعب ڈالنے میں کافی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ کچھ حضرات ان سے بھی زیادہ ذہین بلکہ سُپر ذہین ہوتے ہیں وہ سروس جیب ایک نہیں بلکہ دو بنواتے ہیں دونوں ایک دوسرے سے متّصل ہوتی ہے ایک قلم کے لیے دوسری مسواک رکھنے کے لیے۔ اس طرح جب وہ کسی محفل میں جلوہ افروز ہوتے ہیں تو ان کی شخصیت بہت نمایاں ہوتی ہے۔
میرے ایک دوست نے مجھ پر یہ انکشاف کیا کہ وہ اپنی شلوار میں بھی خاص طور پر جیب بنواتے ہیں جس کا منہ کمر بند کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس میں ZIP ہوتی ہے اور جیب نیچے کی جانب لٹکتی رہتی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ بھائی اس میں آپ رکھتے کیا ہیں…کہنے لگے …موٹر سائیکل کے لائسنس کی کتاب، چابیوں کا گچّھا ، موبائیل، نیل کٹر (Nail Cutter) اور کچھ نقدی وغیرہ اور آگے فرمانے لگے…یار ظہیر یہ وہ محفوظ مقام ہے جہاں جیب کترا تو کیا اس کا باپ بھی نہیں پہنچ سکتا۔ دراصل اس سے قبل دو مرتبہ میری جیب کٹ چکی ہے لہٰذا میں جیب کتروں سے بہت ہوشیار رہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ سب تو درست ہے مگر یہ تمہاری جیب ہے یا عمرو عیّار کی زنبیل اور دوسری بات جب تم پیدل چلتے ہو تو یہ تمہارے جسم سے ٹکراتی نہیں ۔ کہنے لگے ٹکراتی تو ہے مگر اس کے ٹکرانے سے جسم میں ہلکی ہلکی جو گدگدی ہوتی ہے اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ دوسری بات یہ اپنے ہونے کا احساس ہر دم دلاتی رہتی ہے۔
ایک اور ہمارے دوست ہیں لاجواب طبیعت کے مالک، تھوڑ ی سی گرمی کی شدّت میں کمی واقع ہوئی اور ان کے جسم پر کوٹ نظر آیا۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائی ابھی تو سردی بہت دور ہے آخر یہ کوٹ… چہ معنی دارد…؟ کہنے لگے کہ کوٹ پہننے کا مقصدکچھ اور نہیں بلکہ صرف اسلیے کہ اس میں جیب کی تعداد بہت ہوتی ہے، باہر بھی جیب اندر بھی جیب غرضیکہ جیب ہی جیب۔ اور میں ٹھہرا کاروباری آدمی، ہروقت کسی نہ کسی چیز کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک بڑی جیب تومیری ڈائری کے لیے مختص ہے، دوسری میں کچھ ضروری کاغذات، بل وغیرہ اور ساتھ میں اسٹیپلر اور ربڑ بھی رکھ لیتا ہوں۔ اوپر کی جیب میں موبائیل، قلم، پینسل اور ایک چھوٹی قینچی بھی ہوتی ہے اور اندر کی جیبیں نقدی اور چک بک رکھنے کے کام آتی ہے۔ میں نے کہا اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اپنا آفس اپنے ساتھ لیے پھرتے ہو۔ کہنے لگے بس یہی سمجھ لو…
خواتین ان جیبوں کی جھنجھٹوں سے آزاد ہیں نہ ان کی قمیض میں جیب ہوتی ہے اور نہ شلوار میں، گھر سے نکلتے وقت ایک بڑا سا خوبصورت سا پرس بھلے اس میں بیس روپیہ ہی کیوں نہ ہو،بازئوں سے لٹکایا اور نکل پڑیں بازار کی طرف چہل قدمی کے لیے۔
دراصل ان جیبوں کا تذکرہ کرنے کا ایک خاص مقصد تھا جو اب لکھ رہا ہوں۔ جیب اردو زبان کا لفظ ہے اور مؤنّث ہے۔ جیم مکسور ہے یعنی جیم کے نیچے زیر ہے۔ اس کا تلفّظ ’’سیپ‘‘ کی طرح نہیں بلکہ ’’سیب‘‘ کی طرح ہے یعنی یائے مجہول ہے۔عربی زبان کا ایک لفظ ہے۔ ’’ جَیب ‘‘ جو مذکّر ہے جیم مفتوح ہے یعنی اس کے اوپر زَبرہے اور اس کا تلفّظ ’’کیف‘‘ کی طرح ہے۔ اس کے معنٰی ہیں…گریبان، پیرہن، تھیلی جو اہلِ عرب گریبان کے نیچے لگاتے تھے۔ یہ لفظ جہاں جس طرح استعمال ہوا وہاں ویسا ہی معنی دے گیا۔ قرآنِ کریم میں سورۃ نمل اور قصص میں اﷲ تعالیٰ نے لفظ ’’ جَیب ‘‘ بمعنی گریبان استعمال کیا ہے۔ جہاں حضرت موسیٰ سے ہم کلام ہیںکہ… ’’اے موسیٰ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو چمکتا ہوا نکلے گا۔‘‘
اردو شاعری میں ہمارے شعرا کرام نے بھی لفظ ’’ جَیب ‘‘ استعمال کیا ہے۔ مرزا غالبؔ کی مشہور غزل کا ایک شعر ہے…
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جَیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
یقینا مرزا نے عالمِ دیوانگی میں اپنا گریبان چاک کیا ہوگا(جیسا کہ ہمارے شاعروں کا وتیرہ ہے) اور اب چونکہ ان کا جسم لہو لہان ہے اور ان کا پیراہن جسم سے چپک رہا ہے اسلیے گریبان کو رفو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس شعر سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں لفظ ’’ جَیب ‘‘ بمعنی گریبان استعمال ہوا ہے۔
ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ اکثر احباب مصرعۂ ثانی میں ’’ہمارے جیَب‘‘ کے بجائے ’’ہماری جیب‘‘ پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ یہ غلط ہے… کالی داس گپتا رضا کا ’’دیوانِ غالب‘‘ جو بہت مستند ہے اسمیں ’’ہمارے جَیب‘‘ ہے۔
خواجہ میر درد کا بھی ایک شعر جس میں انہوں نے لفظ ’’ جَیب ‘‘بمعنی گریبان استعمال کیا ہے تحریر کیے دیتا ہوں…
ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا
اِدھر گُل پھاڑتے تھے جَیب روتی تھی اُدھر شبنم
شیخ امام بخش ناسخؔ نے بھی اپنے ایک شعر میں لفظ ’’ جَیب ‘‘ استعمال کیا ہے…
لایا وہ ساتھ غیر کو میرے جنازے پر
شعلہ سا ایک جَیبِ کفن سے نکل گیا
’’جَیبِ کفن‘‘ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟ میری ناقص عقل کے مطابق شاعر کی مراد ’کفن کا پیرہن‘ سے ہے اسلیے کہ کفن میں نہ تو گریبان ہوتا ہے اور نہ ہی تھیلی جو اہلِ عرب استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ کفن میں سوئی دھاگے کا استعمال نہیں ہوتا۔ اس شعر سے ظاہر ہے کہ یہاں ’’ جَیب ‘‘ بمعنی پیرہن استعمال ہوا ہے۔
مجھے یہ مضمون لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ دراصل جو احباب غالب کا شعر غلط پڑھتے اور لکھتے ہیں انہیں جیب اور جَیب کا فرق بتانا مقصود تھا۔ بات کا آغاز جیب سے کیا جو تھوڑی طوالت اختیار کرگیا جسے آپ نے برداشت کرلیا…میں ممنون ہوں۔
ابھی ہیں دور منزلیں ابھی سفر طویل ہے
ڈاکٹر عبدالقدیر اصغر