نہتے کشمیری مسلسل حملوں کی زد میں

393

ایس احمد پیرزادہ
رمضان المبارک کے مقدس ایام گزر جانے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کے سیاسی ایوانوں میں اتھل پتھل اور ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ 19 جون کو اچانک بی جے پی کے جنرل سیکریٹری اور اْمورکشمیر کے انچارج رام مادھو نے دہلی میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ غیر متوقع اعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ اْن کی جماعت، یعنی بی جے پی جموں وکشمیر میں حکومت سے الگ ہورہی ہے۔ اس طرح ریاست میں بی جے پی اور پی ڈی پی کے اس مشرق و مغرب کے غیرفطری اتحاد کا عبرت ناک خاتمہ ہوا۔ نسل پرستی ایک زہر ہے، اور نسل پرستی کے علَم برداروں کی حیثیت اْس زہریلے سانپ جیسی ہوتی ہے جس کی دشمنی سے زیادہ اْس کی دوستی خطرناک ہوتی ہے۔ پی ڈی پی نے 2014 میں ریاست کے حدود و قیود میں بی جے پی کے قدم روکنے کے نام پر الیکشن لڑا تھا، لیکن جب حکومت تشکیل دینے کی باری آئی، تو عوامی توقعات کے برعکس ایک ایسی جماعت سے گٹھ جوڑ کیا جس کے نامۂ اعمال میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جن کے ہاتھوں بھارت میں سیکڑوں فسادات کے دوران ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا ہے۔ جنھوں نے گجرات میں دو ہزار مسلمان کو بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کروایا۔
حکومت سے الگ ہونے سے چند روز قبل بی جے پی نے نام نہاد سیز فائر ختم کرکے کشمیری عوام کے خلاف فوجی آپریشن کا از سر نو آغاز کیا۔ عید الفطر سے دو روز قبل اقوام متحدہ کے کمیشن براے انسانی حقوق نے اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ شائع کی، جس میں کشمیر میں روا رکھی جانے والی بھارتی فوج کی زیادتیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد معروف کشمیری صحافی ودانش وَرڈاکٹر شجاعت بخاری کا نامعلوم افراد کے ذریعے سے قتل کروایا گیا، جس سے یو این رپورٹ بالکل ہی پس منظر میں چلی گئی۔ پھر15جون کو اپنے ہی نام نہاد سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پلوامہ میں ایک کمسن اور نہتے 13 سال کے طالب علم وقاص احمد کو گولی مار کرشہید کردیاگیا۔ عید کے دن برکہ پورہ، اسلام آباد میں نماز عید ادا کرنے والوں پر براہِ راست فائرنگ کرکے ایک نوجوان شیراز احمد کو شہید کردیا گیا، جب کہ 30 دیگر نوجوانوں کو بْری طرح زخمی کردیا گیا۔ زخمیوں میں 9 ایسے نوجوان بھی شامل تھے، جن کو پیلٹ گن کے چھرّوں کا نشانہ بناکر بینائی سے ہی محروم کردیا گیا۔ 18جون کو پھر سے ضلع کولگام کے نواو پورہ علاقے سے تعلق رکھنے والے دوبچوں کے باپ 28 سال کی عمر کے اعجاز احمد بٹ کو جرم بے گناہی میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ جس نام نہاد سیز فائر کا بڑے پیمانے پر ڈھول پیٹا گیا، اْس دوران کیرن سیکٹر سے لے کر کولگام تک 15لوگوں کی جان لے لی گئی۔
تقدس مآب رمضان کے دوسرے جمعۃ المبارک کو سری نگر کی مرکزی وتاریخی جامع مسجد نوہٹہ میں پولیس اور فورسز اہل کاروں نے مسجد کے اندر نہ صرف آنسوآورگیس کی شیلنگ کی، بلکہ عینی شاہدین کے مطابق پیلٹ اور گولیوں کا بھی بے تحاشا استعمال کیا ، جس کے نتیجے میں کئی نمازی زخمی ہوگئے اور مسجد کے اندر افراتفری مچ گئی۔ مسجد کے اندر جہاں رب کے حضور سر جھکائے جاتے ہیں، وہاں سربسجود بندوںکا خون بکھیر دیا گیا۔اسی پر بس نہیں کیا گیا، بلکہ مسجد کے جس حصے میں خواتین نماز ادا کرتی ہیں، وہاں پر بھی شیلنگ کی گئی۔پھر کئی دن تک مسجد کو نمازاور نمازیوں کے لیے بند کرنا پڑا، تاکہ اندر انسانی خون کے داغ دھبوں کو صاف کیاجاسکے۔جو نوجوان رضاکارانہ طور پر مسجد کی صفائی میں پیش پیش تھے، اْن میں ایک22 سالہ قیصر احمد بھی تھے، جنھیں ایک ہفتے بعد، یعنی اگلے ہی جمعہ، یکم جون کو سی آر پی ایف کی ایک تیز رفتار جیپ نے ایک اور نوجوان کے ساتھ کچل ڈالا۔ اُنھیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں چند ہی گھنٹوں بعد وہ حیا تِ جاودانی کا جام پی گئے۔
یہ دلدوزسانحہ اُس وقت پیش آیا جب نماز جمعہ کے بعد نوجوان نوہٹہ میں جمع ہوکر احتجاج کرنے لگے تھے۔ سری نگر کے محلہ فتح کدل کے قیصر احمد کا المیہ یہ تھا کہ اْن کے والدین پہلے ہی اس جہانِ فانی سے رحلت کرچکے تھے۔ وہ اپنی دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ نانیہال ڈلگیٹ میں رہتے تھے۔ ان دو چھوٹی بہنوں کے اکلوتے بھائی اور واحد سہارے کو بڑی بے دردی کے ساتھ چھین لیا گیا۔ یوں ا ن کوتاہ نصیبوں کو دیگر ہزاروں کشمیری بچوں اور بیٹیوں کی طرح حالات کے رحم وکرم پر بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا۔ اس دلدوز سانحے کی جو تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں، اْنھیں دیکھنے سے ہی چنگیزیت اور درندگی کا گھنائونا اور ’’جدید رُوپ‘‘ نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر انجام دینے والی ان حیوانی حرکات کے لیے بھی طرح طرح کے جواز پیدا کیے جاتے ہیں۔ انھیں سنگ بازی کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے یا پھر سڑک حادثہ کہہ کر ان المناک اور غم انگیز وارداتوں کو تاریخ کی بھولی بسری یادیں بنادیا جاتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ صفاکدل میں مئی کے مہینے میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے عادل احمد نامی جس نوجوان کو گاڑی کے نیچے کچل ڈالا تھا، اُس کے بارے میں ریاستی حکام نے پہلے کہا کہ وہ سڑک حادثے کا شکار ہوگئے، لیکن جب وہاں پر موجود ایک نوجوان نے فورسز اہل کاروںکی اس سفاکیت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کی تو انتظامیہ نے ملوث فورسز اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اس سانحے کی ویڈیو بنانے والے نوجوان کو ہی گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا۔اسی طرح جامع مسجد میں قیصر احمد کو کچل دینے والے سی آر پی ایف ڈرائیور کے خلاف کارروائی کرنے کے بجاے مقتول قیصر اور اْن کے ساتھ دیگر دو نوجوانوں کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
سری نگر کی یہ تاریخی جامع مسجد، کشمیری قوم کی روحانی توانائی اور سیاسی بیداری کے لیے بڑی ہی اہمیت کا حامل مرکز ہے۔ یہ مسجد اپنی مرکزیت کے پہلو بہ پہلو عام کشمیریو ں کی اس کے ساتھ دلی وابستگی ہر دور میں ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے۔ اسی لیے ہر دور میں اس کی مرکزیت کو کمزور کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے اور ہتھکنڈے برتے گئے، لیکن کشمیری عوام کا تاریخی جامع مسجد سے والہانہ لگائو اور وابستگی قائم و دائم رہی ہے۔ 2008ء ہی سے وقت کے حکمرانوں نے بالکل مسجد اقصیٰ کے طرز پر اس مرکزی مسجد کو نشانہ بنانے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کرنے شروع کیے ہیں، جن میں جمعہ کے موقعے پر مسجد کے اردگرد فورسز کے سخت حصار اور مسلح اہل کاروں کی تعیناتی کے علاوہ نماز کے بعد نوجوانوں کو اشتعال دلا کر اْنھیں سنگ بازی کے لیے مجبور کرنا، اور پھر اس کی آڑ میں نمازِجمعہ کے مواقع پر مسجد میں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کرنا قابل ذکر ہے۔ 2008ء سے درجنوں مرتبہ اس تاریخی اہمیت کی حامل مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہودی مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں، ان کی اسلام دشمنی اُنھیں ہر آن فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ برسرِ جنگ رکھتی ہے، لیکن عالم اسلام کے اس بدترین دشمن نے کبھی مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز ادا کرنے پر پابندی عائد نہیں کی۔ جن کے زیر تسلط مسجد اقصیٰ ہے، وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس کے بجاے تاریخی جامع مسجد سری نگر کو تالا بند کرنے والے لوگوں کی پہلی صف میں وہ ہند نواز ریاستی سابق حکمران شامل رہے ہیں جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اور اس کی ناکہ بندی کرنے والے مقامی پولیس اہل کار بھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔احتجاج کے دوران جان بوجھ کر وردی پوشوں کا جامع مسجد کے چپے چپے پر موجود رہنا اور پھر احتجاجی مظاہرے شروع ہونے سے قبل ہی شیلنگ اور طاقت کا بے تحاشا استعمال بہرحال احتجاجی نوجوانوں میں اشتعال پیدا کرکے اُنھیں سنگ بازی پر مجبور کرتا ہے ، اور بے گناہ و معصوم انسانی جانوں کا زیاں ہوجاتا ہے۔ کشمیر میں یہ بھارت کی مستقل پالیسی بنتی جارہی ہے کہ جمعہ اور عیدین کے مواقع پر طاقت کا استعمال کرکے نوجوانوں کو اشتعال دلایا جائے اور پھر اْسی کی آڑ میں بندوقوں کے دہانے کھول کر کشمیریوں کی نسل کشی کی جائے۔
تصویر کا یہ رُخ بھی قابلِ غور ہے۔ رمضان المبارک سے قبل بڑے ہی طمطراق سے ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، آل پارٹیز میٹنگ طلب کرکے یہ اعلان کرتی ہیں کہ ایک وفد وزیراعظم نریندر مودی کی خدمت میں جائے گا اور اُنھیں رمضان کے مقدس مہینے کے پیش نظر خیرسگالی کے طور پر سیز فائر کرنے کی استدعا کرے گا۔ بی جے پی کی ریاستی شاخ اس تجویز کی مخالفت کرتی ہے کہ بعد میں یہ اُن کی سیاسی حلیف مجبوبہ مفتی کا سیاسی کارنامہ ثابت ہوجائے اور لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوجائے کہ وزیراعلیٰ نے لڑکر کشمیری عوام کے لیے حکومت ہند کو سیز فائر کے لیے قائل کیا ہے۔ پھر ایک دن اچانک بھارتی وزیر داخلہ مسٹر راج ناتھ سنگھ نے رمضان اور امر ناتھ یاترا کے پیش نظر یک طرفہ سیز فائر کا اعلان کردیا۔ ریاستی سرکار میں شامل لوگوں نے اس پر ایسے خوشی کااظہار کیا کہ جیسے اُنھوں نے کشمیریوں کے لیے کوئی معرکہ سر کرلیا ہو۔ حالانکہ کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اِسے ’’سیز فائر‘‘ کے بجائے ’’حملہ بندی‘‘ قرار دیتے ہیں، کیوں کہ بھارتی فورسز اہل کار اور حکمران ہمیشہ اس قوم کے خلاف حالت جنگ میں تھے۔ یہ افواج سیز فائر کے دوران بھی حالت ِ جنگ میں رہیں اور آج بھی ہیں۔
ایسا نام نہاد سیز فائرکشمیریوں پر کسی احسان کے بجائے ریاست کی اپنی مجبوری تھی کیوں کہ اُن پر لازم ہے کہ وہ دہلی کی خوشنودی کے لیے اس ماہ شروع ہونے والی ’’امرناتھ یاترا‘‘ کو پُرامن طریقے سے انجام تک پہنچائیں۔ یہ یاترا گزشتہ کئی برس سے ’’مذہبی رسم‘‘ کے بجائے ’’سیاسی مہم‘‘ میں تبدیل ہوچکی ہے جب کہ کشمیری عوام ’’یاتر ا‘‘ اور یاتریوں کے لیے ہمیشہ فراخ دلی اور مہمان نوازی کے جذبے سے کام لیتے رہے ہیں۔ ’’یاترا‘‘ کی سیاسی مہم کو انجام تک پہنچانے کے لیے یہاں حکومتی سطح پر جنگی پیمانے پرکام کیا جاتا ہے۔ ریاستی بجٹ کی ایک کثیر رقم ’’یاترا‘‘ کے انتظامات اور حفاظت پر خرچ کی جاتی ہے۔ نام نہادجنگ بندی کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی کہ جنوبی کشمیر کے پُرامن رہنے سے ہی یاتریوں کا آنا جانا ممکن ہوسکے گا۔ اس لیے بستیوں پر فوجی آپریشنوں کے ذریعے کی جانے والی یلغار کو فی الحال محدود پیمانے پرروک دیا گیا، تاکہ ظلم و جبر کے خلاف ہر آن کھڑا ہوجانے والے جنوبی کشمیر کے عوام کو کچھ وقت تک کے لیے خاموش رکھا جاسکے، لیکن اب نئی دہلی کے پالیسی سازوں نے اپنی اس حکمت عملی کو تبدیل کرکے ’سیز فائر‘ ختم کردیا اور ’امرناتھ یاترا‘ کی حفاظت کے لیے این ایس جی کے اسپیشل کمانڈوز کو طلب کیا گیا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اہلِ کشمیر یاتریوں کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کرتے ہیں اور اْنھیں ہر ممکن تعاون فراہم کرتے ہیں۔ دراصل ’امرناتھ یاترا‘ کی آڑ میں کوئی بڑا سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے میدان تیار کیا جارہا ہے، تاکہ بھارت میں 2019ء کے عام انتخابات میں بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرسکے۔
بھارتی فورسز کی ’حملہ بندی‘ سے بے گناہ اور معصوم نوجوانوں پر گولیاں برسانے کا سلسلہ عارضی طور پر رْک سا گیا، لیکن ظلم و زیادتیوں اور دیگر جنگی حربوںکوزمینی سطح پر بدستور استعمال میں لایا جاتارہا ہے۔ یہ کہاں کی جنگ بندی ہوئی کہ جس میںرات کے دوران چھاپے اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا، دور دراز کے علاقوں میں فوجی ناکوں پر عوام کی جامہ تلاشی اور ہراسگی جاری ہیں؟اور کشمیری نوجوانوں کوگاڑیوں کے نیچے کچل دیا جائے؟
حقیقی معنوں میں جنگ بندی ہوتی تو پھر شوپیان کے دیہات میں فوج کی افطار پارٹی سے انکار کرنے پر عوام پر گولیاں نہ برسائی جاتیں اور چار معصوم بچیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ مضروب نہ کیا جاتا۔ جنگ بندی ہوتی تو عسکریت پسندوں کی قبروں کی بے حرمتی نہ کی جاتی، اُن کے گھروں کی توڑ پھوڑ نہ کی جاتی، جیسا کہ شوپیان کے ایک گھر اور آس کے پڑوس میں موجود دیگر درجنوں گھروں میں کیا گیا ہے۔ گھر کے ساز و سامان کو تہس نہس کرنا، قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کرنا، پیسے اور لیپ ٹاپ لوٹ کر لے جانا اور کھانے پینے کی اشیا کو ضائع کر نے یا ناقابلِ استعمال بنانے کی حرکتیں استعماریت اور رذالت کی بدترین شکلیں ہیں۔ پھر ٹھیک اُس وقت جب کشمیری لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف تھے، جنوبی کشمیر میں تین بے گناہ نوجوانوں کو جرمِ بے گناہی میں شہادت کا جام نہ پلایا جاتا۔
یہ کہاں کی جنگ بندی تھی کہ کھڑی فصلوں کو تباہ کیا جائے، میوہ باغات میں موجود درختوں کو کاٹ دیا جائے اور ظلم کی ایسی داستانیں رقم کی جائیں کہ جس کی مثال موجودہ دور کی بدترین جنگوں میں بھی نہیں ملتی۔فوجی او رنیم فوجی دستوں کے سامنے ریاستی حکومت کی بے بسی کس حد تک ہے اس کا اندازہ ڈپٹی کمشنر شوپیان کے حالیہ بیان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو انھوں نے گھروں کی توڑ پھوڑ اور میوہ باغات میں درختوں کو کاٹنے کے واقعات کی روشنی میں دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’فوج خصوصی اختیارات کی وجہ سے حدود پھلانگ رہی ہے۔ ہم نے اْنھیں بار بار کہا ہے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے کیمپوں سے باہر نہ آئیں، لیکن وہ سول انتظامیہ کے حکم ناموں کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ ہم اْن کی حرکتوں کے سامنے بے بس ہیں۔‘‘… گویا بھارتی فوج کو آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نے اس حد تک بدمست بنادیا کہ وہ مقامی حکومت اور انتظامیہ کے بھی کنٹرول میں نہیں رہی ہے۔ وہ کسی بھی حد تک جا کر من مانیاں کررہے ہیں۔
کشمیر میں بھارتی جنگ بندی ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ والی بات تھی۔ دنیا کو چکمہ دیا گیا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ افہام وتفہیم چاہتے ہیں اور اسی لیے نام نہاد جنگ بندی کی خوب تشہیر کی گئی اور دہلی سرکار کے مقامی تنخواہ خوار دن رات ان کے گن گاتے رہتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر عوام کے خلاف وہ تمام کارروائیاں ہورہی ہیں، جنھوں نے عام کشمیری کا جینا حرام کررکھا ہے۔ریاست عملاً ایک پولیس وفوجی اسٹیٹ بن چکی ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کا یہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ظلم و جبر کی انتہا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ اگر بندوقوں کے دہانے دنیا کو دکھانے کے لیے عارضی طورپر تھوڑے وقت کے لیے بند کیے، تو دوسری جانب گاڑیوں کے نیچے معصوم کشمیری بچوں کو کچل کر قتل کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔
اب،جب کہ ریاست جموں وکشمیر میں گورنر راج نافذ کرکے نئی دہلی نے حالات پر براہِ راست کنٹرول حاصل کرلیا ہے، تمام اختیارات فوج کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں، بھارت بھر سے بدنامِ زمانہ پولیس افسران کو گورنر کے مشیروں کے طور پر تعینات کیا جارہا ہے، یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ریاست میں کسی بڑے خونیں کھیل کو کھیلنے کے لیے اسٹیج تیار کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کا جموں وکشمیر میں حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے سے جو اہم مقصد حاصل کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے اور یہاں نسل کشی کرنے کے لیے وہ گورنر کے ذریعے سے براہِ راست معاملات پر کنٹرول حاصل کرسکیں۔ان باتوں کا اشارہ بی جے پی کے ریاستی شاخ سے وابستہ لیڈران اپنے بیانات میں دے چکے ہیں۔بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی ایسے ہی بیانات دیے ہیں، جن میں حق خود ارادیت کے حامی کشمیری عوام کے لیے دھمکیاں تھیں۔ بھارتی راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر اور کانگریس کے سینئر وزیر غلام نبی آزاد نے بھی کشمیریوں کی نسل کشی کے امکان کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔اْن کے مطابق دونوں جماعتیں بی جے پی اور پی ڈی پی کشمیر کو آگ میں جھونک کر راہ فرار اختیار کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں گجرات کے سابق آئی پی ایس افسرسنجیو بھٹ کے اس ٹویٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جس میں انھوں نے لکھا کہ: ’’مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ 2018ء کی ’امرناتھ یاترا‘ 2002ء کی طرح کہیں دوسرا گودھرا نہ بن جائے۔‘‘
یہ محض خدشہ نہیں ہے بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لیے یہاں کوئی ایسا ڈراما رچایا جاسکتا ہے، جس کے ذریعے سے بھارت بھر میں فسادات کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔21 جون کو بھارتی حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دول نے دومرتبہ بی جے پی چیف اُمت شاہ سے دہلی میں کشمیر کے حوالے سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار دونوں کی ملاقات کو عسکری نقطۂ نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ اس ملاقات کا مقصد کشمیر میں فوجی اور عسکری طاقت کے استعمال کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینا بھی ہوسکتا ہے۔ کشمیری عوام کے لیے مشکل حالات پیدا کیے جانے کا خاصا امکان پایا جارہا ہے اور اس حوالے سے تحریک حْریت کے قائدین کو پہلے ہی سے عوام کو باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اپنے نمایندوں کو متحرک کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں، تاکہ کشمیری عوام کے خلاف پردے کے پیچھے تیار ہونے والی سازشوں کا نہ صرف توڑ کیا جاسکے بلکہ اْنھیں ناکام بناکر انسانی جانوں کو بھی بچایا جاسکے۔
کشمیر کی مزاحمتی قیادت کے لیے لازم ہے کہ ناانصافیوں اور زیادتیوں پر خاموش نہ رہے بلکہ ظلم و جبر کے اس آوارہ ہاتھی کی پیش قدمی روکنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کرے۔ اہلِ کشمیر کا ظلم سہہ لینا اور ظلم کے نتیجے میں انسانی جانوں کے زیاں پر صبر کرلینا ، ظالم کے لیے طاقت ور ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ وہ کشمیری قوم کے صبر کو اْن کی کمزوری سے تعبیر کرکے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اور یوں کشمیری نوجوان نسل کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ مہذب دنیا حالات بد سے بدتر ہوجانے سے قبل ہی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سامنے آئے۔ بالخصوص پاکستان کو اپنے درون خانہ سیاسی اتھل پتھل سے باہر نکل کر بحیثیت قوم کشمیر کاز کے لیے کام کرنا ہوگا۔ پاکستان مسئلے کا فریقِ اوّل ہے اور فریق ہونے کی حیثیت پاکستان، کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں اور تشدد سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ پاکستانی حکمران مسئلہ کشمیر سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ پاکستانی عوام کشمیریوں سے آنکھیں موند سکتے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم بے شک پاکستانی دفاتر پر لہراتا ہوگا، لیکن اس سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے کشمیری قوم اپنا گرم لہوپیش کررہی ہے۔
کشمیری عوام کی اجتماعی تعزیب کے بد ترین مظاہروں کے باوجود قانونِ قدرت کے عین مطابق وہ وقت دور نہیں ہے، جب یہ قوم ان تمام مصائب سے نجات حاصل کرلے گی کیوں کہ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں، مگر اس کے لیے بنیادی اور ناقابل التوا شرط یہی ہے کہ اللہ سے رجوع کیا جائے اور حق کے لیے چٹان بن کر کھڑا ہوا جائے۔

حصہ