سید مہرالدین افضل
سورۃ الاعراف آیت 34 تا 53 میں اِرشاد ہوا : ’’ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے، پھر جب کسی قوم کی مدّت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوتی۔‘‘ اور یہ بات اللہ نے آغازِ تخلیق ہی میں صاف فرما دی تھی کہ اے بنی آدم، یاد رکھو، اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنا رہے ہوں تو جو کوئی نافرمانی سے بچے گا اور اپنے رویے کی اصلاح کر لے گا‘ اُس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلے میں سرکشی برتیں گے‘ وہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ اُس سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو بالکل جھوٹی باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی سچی آیات کو جھٹلائے۔ ایسے لوگ اپنے نوشتۂ تقدیر کے مطابق اپنا حصہ پاتے رہیں گے، یہاں تک کہ وہ گھڑی آجائے گی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے پہنچیں گے۔ اُس وقت وہ اُن سے پوچھیں گے کہ بتائو اب کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کو تم خدا کے بجائے پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ’’سب ہم سے گم ہو گئے‘‘۔ اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکرِ حق تھے۔ اللہ فرمائے گا جائو تم بھی اُسی جہنم میں چلے جائو جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہ جن و انس جا چکے ہیں۔ ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہوگا، حتیٰ کہ سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے رب! یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا اِنہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔ جواب میں اِرشاد ہوگا، ہر ایک کے لیے دوہرا ہی عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں ہو۔
اور پہلا گروہ دوسرے گروہ سے کہے گا اگر ہم قابلِ الزام تھے تو تم کو ہم پر کون سی فضیلت حاصل تھی، اب اپنی کمائی کے نتیجے میں عذاب کا مزا چکھو۔ یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے۔ اُن کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اُونٹ کا گزرنا۔ مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے۔ ان کے لیے جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا۔ یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استظاعت ہی کے مطابق ذمے دار ٹھیراتے ہیں۔ وہ اہلِ جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے۔ اُن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ کہیں گے کہ ’’تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پاسکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا ، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے۔‘‘ اْس وقت نِدا آئے گی کہ’’ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں اُن کے اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے۔‘‘
پھر جنت کے لوگ دوزخ والوں سے پکار کر کہیں گے’’ہم نے اُن سارے وعدوں کو ٹھیک پالیا جو ہمارے رب نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی ان وعدوں کو ٹھیک پایا جو تمہارے رب نے کیے تھے؟‘‘ وہ جواب دیں گے ’’ہاں۔‘‘ تب ایک پکارنے والا اُن کے درمیان پکارے گا کہ ’’خدا کی لعنت اُن ظالموں پر جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے تھے اور آخرت کے منکر تھے۔‘‘
ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں (اَعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ’’سلامتی ہو تم پر‘‘ یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہوں گے اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے، ’’اے رب! ہمیں اِن ظالموں میں شامل نہ کیجیو۔‘‘
پھر یہ اَعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ ’’دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے اور کیا یہ اہلِِ جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اِن کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ بھی نہ دے گا؟ آج انہی سے کہا گیا کہ داخل ہو جائو جنت میں، تمہارے لیے نہ خوف ہے نہ رنج۔‘‘
اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اُس میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دیں گے’’اللہ نے یہ دونوں چیزیں اُن منکرین ِ حق پر حرام کر دی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بُھلا دیں گے جس طرح وہ اِس دن کی ملاقات بھولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔‘‘
ہم اِن لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصل بنایا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ اب کیا یہ لوگ اِس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ وہ انجام سامنے آجائے جس کی یہ کتاب خبر دے رہی ہے؟ جس روز وہ انجام سامنے آگیا تو وہی لوگ‘ جنہوں نے پہلے اسے نظر انداز کر دیا تھا‘ کہیں گے ’’واقعی ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے تھے، پھر کیا اب ہمیں کچھ سفارشی ملیں گے جو ہمارے حق میں سفارش کریں؟ یا ہمیں دوبارہ واپس ہی بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پر کام کر کے دکھائیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور وہ سارے جھوٹ‘ جو انھوں نے تصنیف کر رکھے تھے‘ آج ان سے گم ہوگئے۔‘‘
سورۃ ق آیت 16 تا 45 میں ارشاد ہوا : ’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں، (اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔ پھر دیکھو، وہ موت کی جاں کنی حق لے کر آ پہنچی، یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا ۔ اور پھر صور پھونکا گیا، یہ ہے وہ دن جس کا تجھے خوف دلایا جاتا تھا۔ ہر شخص اس حال میں آ گیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا۔ اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔ اس کے ساتھی نے عرض کیا یہ جو میری سپردگی میں تھا حاضر ہے۔ حکم دیا گیا ’’پھینک دو جہنم میں ہر گٹے کافر کو جو حق سے عناد رکھتا تھا، خیر کو روکنے والا اور حد سے تجاوز کرنے والا تھا، شک میں پڑا ہوا تھا اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو خدا بنائے بیٹھا تھا۔ ڈال دو اسے سخت عذاب میں۔‘‘ اس کے ساتھی نے عرض کیا ’’خدا وندا! میں نے اس کو سرکش نہیں بنایا بلکہ یہ خود ہی پرلے درجے کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔‘‘ جواب میں ارشاد ہوا ’’میرے حضور جھگڑا نہ کرو، میں تم کو پہلے ہی انجامِ بد سے خبردار کر چکا تھا۔ میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں۔‘‘
وہ دن جب کہ ہم جہنم سے پوچھیں گے کیا تو بھر گئی؟ اور وہ کہے گی کیا اور کچھ ہے؟ اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی، کچھ بھی دور نہ ہوگی۔ ارشاد ہوگا ’’یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا، جو بے دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا، اور جو دل گرویدہ لیے ہو ئے آیا ہے۔ داخل ہو جاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ۔‘‘ وہ دن حیاتِ ابدی کا دن ہوگا۔ وہاں ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ان کے لیے ہے۔‘‘
ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے بہت زیادہ طاقتور تھیں اور دنیا کے ملکوں کو انھوں نے چھان مارا تھا۔ پھر کیا وہ کوئی جائے پناہ پا سکے؟ اس تاریخ میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو یا جو توجہ سے بات کو سنے۔
ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کر دیا اور ہمیں کوئی تکان لاحق نہ ہوئی۔ پس اے نبی! جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے اور رات کے وقت پھر اس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔
اور سنو، جس دن منادی کرنے والا (ہر شخص کے) قریب ہی سے پکارے گا، جس دن سب لوگ آوازۂ حشر کو ٹھیک ٹھیک سن رہے ہوں گے، وہ زمین سے مُردوں کے نکلنے کا دن ہو گا۔ ہم ہی زندگی بخشتے ہیں اور ہم ہی موت دیتے ہیں اور ہماری طرف ہی اُس دن سب کو پلٹنا ہے جب زمین پھٹے گی اور لوگ اس کے اندر سے نکل کر تیز تیز بھاگے جا رہے ہوں گے۔ یہ حشر ہمارے لیے بہت آسان ہے۔
اے نبیؐ! جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں اُنھیں ہم خوب جانتے ہیں اور تمہارا کام اُن سے جبراً بات منوانا نہیں ہے۔ بس تم اس قرآن کے ذریعے سے ہر اُس شخص کو نصیحت کر دو جو میری تنبیہہ سے ڈرے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘آمین۔ وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔