صحیح فیصلہ

377

سیدہ عنبرین عالم
سمیع 18 سال کا ہوچکا تھا، اس کا انٹر کا رزلٹ بھی آگیا تھا، اب وہ انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری کررہا تھا۔ اس کے سامنے ایک تابناک مستقبل بانہیں پھیلائے کھڑا تھا۔ نہ پیسے کی کمی تھی اور نہ ذہانت کی، مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ دو مہینے سے اس کی دائیں ٹانگ میں بہت درد رہنے لگا تھا، چلنا پھرنا دشوار ہوگیا تھا۔ وہ ٹالتا رہا کہ کھیل کود میں کوئی چوٹ وغیرہ لگ گئی ہوگی، مگر نوبت یہاں تک آگئی کہ وہ اپنے بستر تک سے نہیں اٹھ پا رہا تھا، اس کی امی نے کہا کہ ڈاکٹر کو دکھا لینا بہتر ہے۔ وہ امی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گیا تو انھوں نے ایکسرے اور کئی ٹیسٹ لکھ دیئے۔ سمیع کہنے لگا ’’امی! اس لیے میں ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتا، چھوٹی سی بات کا فسانہ بنا دیتے ہیں، اب اتنے ٹیسٹ کرائو۔‘‘
مگر سمیع کی امی نے اُس کے تمام ٹیسٹ کرائے اور نتیجہ نہایت ہولناک آیا۔ سمیع ایک پراسرار بیماری کا شکار ہوگیا تھا۔ اس کی نسیں اکڑ کر سکڑ رہی تھیں جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ پائوں ناکارہ ہورہے تھے، دائیں ٹانگ بے کار ہوچکی تھی اور تین سال کے اندر اندر باقی اعضا بھی کام چھوڑ دیتے اور سمیع بالکل معذور ہوجاتا۔ سمیع کے ماں باپ نے کوئی ڈاکٹر نہیں چھوڑا، پیر فقیر سے لے کر مزاروں اور تعویذوں تک ہر طریقہ اپنایا، مگر سمیع کے اعضا ایک کے بعد ایک بے کار ہوتے گئے۔ تعلیم کیا جاری رکھتا، وہ تو اپنے ہاتھ سے پانی تک نہ پی پاتا۔ تمام بہن بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں، اب گھر میں امی، ابو اور سمیع رہ گئے تھے۔ امی سمیع کی دن رات خدمت کرتی تھیں۔ وہ تو خود سے باتھ روم تک نہ جا پاتا۔ ابو ریٹائر ہوگئے، جو جمع پونجی تھی سمیع کے علاج پر خرچ ہوچکی تھی۔ اب نہایت قلیل آمدنی میں تینوں کا گزارہ ہورہا تھا۔
ایک دن سمیع کی بڑی بہن آسیہ باجی اپنے شوہر کے ساتھ ملاقات کے لیے آئیں۔ اُس وقت ابو سمیع کو گود میں بٹھاکر نہلا رہے تھے۔ آسیہ باجی رو پڑیں اور اُن کے شوہر بھی افسردہ ہو گئے۔ ’’ہائے میرا جوان بھائی، اس کی عمر تھی کہ ماں باپ کی خدمت کرتا اور آج ابو اس کو نہلا دھلا رہے ہیں، کس کی نظر لگ گئی۔‘‘ آسیہ باجی نے کہا اور رونے لگیں۔ جب ابو فارغ ہوکر آ کے بیٹھے تو آسیہ باجی کے شوہر نے مشورہ دیا کہ صوبے کے چیف منسٹر سے بات کریں کہ وہ سرکاری طور پر اس کے لیے ایک فل ٹائم اٹینڈنٹ کا انتظام کریں، کیونکہ سمیع تو ابھی صرف 21 سال کا ہے، تمام عمر پڑی ہے، ماں باپ کب تک ساتھ دے سکیں گے! ابو کو یہ مشورہ اچھا لگا، حالانکہ انھیں اندازہ تھا کہ سرکار سے عوام کے فائدے کا کوئی کام کروانا بہت مشکل ہے، لیکن وہ اتنے پریشان تھے کہ سوچا کوشش کرنے میں کیا حرج ہے!
دوسرے روز سمیع کو وہیل چیئر پر ڈال کر لے گئے اور تین گھنٹے تک چیف منسٹر کے آفس میں بیٹھے رہے۔ لیکن وہ دفتر ہی نہیں آئے۔ تنگ آکر وہ واپس آگئے۔ چار روز مسلسل وہ دفتر کے چکر لگاتے رہے لیکن چیف منسٹر کسی نہ کسی تقریب میں چلے جاتے اور دفتر نہ آتے۔ آج آیئے، کل آیئے، پرسوں آیئے کرتے کرتے دو مہینے گزر گئے۔ سمیع کے والد کی حالت خراب ہوگئی روز روز کے چکروں میں۔ آخر تیسرے مہینے کے آخر میں ایک روز گاڑی آکر رکی، ملازم نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو چیف منسٹر صاحب نکل کر اپنے دفتر میں گئے، ان کے سیکریٹری کو سمیع پر رحم آگیا اور اُس نے اسے اور اُس کے ابو کو چیف منسٹر کے روم میں بھیج دیا۔ وزیراعلیٰ صاحب فون پر گفتگو میں مصروف تھے اور فون ان کے کان سے ملازم نے لگا رکھا تھا۔ فون سے فارغ ہوئے تو ملازم نے سگریٹ ان کے منہ میں ڈالی اور لائٹر دکھایا، پھر ملازم نے سامنے رکھا ہوا پین ان کو اٹھا کر دیا اور فائل کے صفحے کھول کر دینے لگا تاکہ وزیراعلیٰ صاحب دستخط کرسکیں۔ ’’تم نے فائل پڑھ تو لی تھی ناں؟‘‘ وزیراعلیٰ نے سیکریٹری سے پوچھا… ’’جی سر! بے فکر ہوجائیں‘‘۔ سیکریٹری نے جواب دیا۔
’’جی جناب! آپ کا کیا مسئلہ ہے؟‘‘ وزیراعلیٰ صاحب نے نظر اٹھاکر دیکھا تو اُن کی طرف سے سیکریٹری نے سمیع اور اس کے والد سے سوال کیا۔
’’کوئی مسئلہ نہیں‘‘ سمیع نے کہا۔ ’’میں اپنے لیے سرکاری اٹینڈنٹ الاٹ کروانے آیا تھا، مگر مجھ سے زیادہ معذور تو آپ ہیں۔ آپ نے سگریٹ جلانے، پین اٹھانے، فائل پڑھنے اور گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لیے اٹینڈنٹ رکھے ہوئے ہیں تو ہم جیسے معذوروں کے لیے سرکاری اٹینڈنٹ کہاں سے آئیں گے! ناحق آپ کو تکلیف دی، خدا حافظ‘‘۔ اس نے کہا اور اپنی وہیل چیئر کو چلانے کی کوشش کرنے لگا۔ ابو اسے باہر لے گئے۔
’’حرام خور، مفت کا ملازم چاہیے تھا کم بخت کو، ہم محنت کرتے ہیں تو ہم کو ملازم ملتے ہیں، ان سب کو حرام خوری منہ کو لگی ہوئی ہے، لعنت ہے‘‘۔ وزیراعلیٰ صاحب بڑبڑائے۔
…٭…
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کے وقت اپنی سلطنت میں پیدل گشت کررہے تھے، ہر جگہ چھپ کر جاتے تاکہ مجرم پکڑ سکیں، اور اگر کوئی تکلیف میں ہو تو اس کی تکلیف دور کرسکیں۔ چلتے جاتے ہیں۔ ایک جگہ بچوں کے رونے کی آواز آتی ہے۔ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر جاتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ خالی پتیلی میں پتھر اُبل رہے ہیں اور ماں بچوں کو تسلی دے رہی ہے کہ کھانا پک رہا ہے۔ حضرت عمرؓ نے وجہ دریافت کی تو عورت نے بتایا کہ وہ بیوہ ہے اور انتہائی مفلس ہے۔ حضرت عمرؓ کانپ گئے۔ ’’عمر کی ریاست میں ایسے بے کسی میں مبتلا یتیم اور بیوہ‘‘۔ فوراً گئے اور اپنی کمر پر گندم کا بورا لاد کر لائے، ملازم نے کہا کہ یہ بورا میں اٹھا کر لے چلتا ہوں، فرمانے لگے ’’کیا قیامت کے روز تم میرا بوجھ اٹھا سکو گے؟‘‘
…٭…
درج بالا دو حصوں میں اسلامی طرزِ حکومت اور موجودہ حکمرانوں کے طرزِ حکومت کا موازنہ کیا گیا۔ مگر مسئلہ وہاں پیدا ہوجاتا ہے جہاں اسلام سے ہی نفرت کی جائے۔ پھر اسلامی طرزِ حکومت کہاں سے نافذ ہوگا! ایک مخصوص طبقہ مسلسل اسلامی طرزِ حکومت کا بدخواہ ہے اور ایسی منظرکشی کرتا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی حکومت آگئی تو ڈنڈے مار مار کر برقع پہنایا جائے گا، سارے بینک بند کردیئے جائیں گے، زبردستی نمازیں پڑھوائیں گے اور ساری دنیا کے خلاف جہاد شروع ہوجائے گا۔
میرا دُور کا بھی جماعت اسلامی سے واسطہ نہیں تھا، بس قرآن کے درس کی دعوت دی گئی، میں نے جانا شروع کردیا، اور اس کے بعد میں نے صرف محبت دیکھی۔ ہر طرح سے میرا خیال رکھنا، حتیٰ کہ کھانا تک میرے گھر بھیج دیتے کہ میں کہاں اتنی سخت بیماری میں کھانا پکائوں گی۔ دوائیں منگا کر دینا، اور ہر طرح کی مدد دستیاب تھی۔ بس کچھ میری ہی عادت احسان لینے کی نہیں ہے ورنہ جماعت سے بہتر لوگ آج تک نہیں دیکھے، یہ لوگ چاہیں بھی تو کوئی زیادتی نہیں کر پائیں گے، کیونکہ یہ اللہ سے بہت ڈرتے ہیں۔
اگر ہم اسلام پسندوں کو چھوڑ دیں تو ہمارے پاس تین آپشن رہ جاتے ہیں (1) لبرلز (ایمان کے دشمن)، (2) خوارج (جان کے دشمن)، (3) جمہوریت کے نام لیوا (مال کے دشمن)۔ آپ غور کیجیے یہ تینوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کہنے کو تو لبرلز میں شمار ہوتی تھیں مگر انہوں نے کئی خوارج کو ’’گمشدہ افراد‘‘ قرار دے کر ان کے کیس لڑے اور انھیں رہائی دلائی، جبکہ جمہوریت کے نواب زادے زرداری کے ایماء پر انہی خوارج کو رہائش اور علاج کی سہولیات فراہم کی جاتی رہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن متحد ہیں، مگر پاکستان کے لوگ نہ اپنے دشمنوں کو پہچان رہے ہیں، نہ اُن کے خلاف متحد ہوکر کوئی بچائو کا قدم اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت نہ صرف ہمارے عقائد و نظریات کی اساس پر حملہ کیا جارہا ہے بلکہ ہمارے اموال اور جانیں بھی بری طرح سے لوٹی کھسوٹی جارہی ہیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قائداعظم کو اس پاکستان میں متنازع بنادیا جائے گا اور مولانا ابوالکلام آزاد کی غزلیں گائی جائیں گی۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے پر 270 ارب ڈالر پھونکے گئے، جو استعمال صرف لاہور میں ہوگی اور قرضہ پورا پاکستان ادا کرے گا۔ مودی زیادہ عقل مند نکلا کہ صرف 57.5 ارب ڈالر میں اتنے ڈیم بنا ڈالے کہ دو چار سال میں پاکستان ریگستان میں تبدیل ہوجائے گا۔ آپ جتنی مرضی مودی کو گالیاں دیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ اپنی قوم سے بے حد مخلص ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو اتنا قرضہ دے دیا گیا۔ سچ بتایئے، کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ ڈالروں کی بوریاں جہازوں سے اتر رہی ہوں، پیسہ جمع ہونے بینک جارہا ہو، پھر ادائیگیاں ہورہی ہوں؟ کچھ نہیں ہوتا، یہ سب اعداد وشمار کا گورکھ دھندا ہے، جس کی بنیاد پر پاکستانی عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ سب کچھ کمپیوٹر میں ہو جاتا ہے۔ یہ پیسہ کب آیا، کہاں خرچ ہوا کچھ پتا نہیں چلتا، البتہ سود در سود میں گردن پھنستی جاتی ہے۔ یہ قرضہ بھی اس تسلی کے ساتھ دیا جاتا ہے کہ اس سے کوئی ایسا کام نہ ہو جس سے عوام کو فائدہ پہنچے۔ کبھی کسی ڈیم، اسپتال، یونیورسٹی یا زرعی اصلاحات میں یہ پیسہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، بلکہ اس پیسے کو ایسی جگہ لگانا ہوتا ہے جہاں سے کوئی اقتصادی یا لمبی مدت کا فائدہ نہ ہو، بس پیسہ خرچ ہوجائے اور یہودی سود کے شکنجے میں ایک قوم کو کس سکیں۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ بھوکے مرتے لوگوں کے درمیان سے موٹر وے گزار دو، دوا کے لیے سسکتے عوام کے لیے اورنج ٹرین بنا دو۔ لوگ ویسے ہی جاہل اور مفلوک الحال رہیں گے، بس عیاشی کے نام پر کچھ اور قرض ان کے سر پر اور ان کی نسلوں پر چڑھ جائے گا۔
اسی پیسے سے فیکٹریاں لگ سکتی تھیں، کسانوں کو آسان قرضے فراہم کیے جا سکتے تھے، تعلیم سستی کی جاسکتی تھی۔ مگر کیا کریں، جیسے عوام ویسے حکمران…یہ اصول میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا۔ ہمارے عوام کو گدھے اور کتے کھلا کھلا کر ایسا ناخلف بنادیا گیا ہے کہ وہ صحیح حکمران چننے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے، وہ اپنے جیسے لوگوں کو چنتے ہیں تاکہ دودھ میں ملاوٹ، جعلی دوائیں بنانے اور بجلی چرانے سے انھیں کوئی روکنے والا نہ ہو۔ ہم سب چھوٹے چور ہیں، بڑے چوروں کو منتخب کرتے ہیں تاکہ مل جل کر خوب لوٹ مار مچائیں، کوئی کسی کو نہ روکے، نہ ٹوکے۔
اچنبھے کی بات ہے کہ 20 ہزار ناٹو کنٹینر خیبر پختون خوا سے غائب ہوجاتے ہیں۔ کوئی دس بارہ موٹر بائیک نہیں بلکہ جہازی سائز کے ہتھیاروں سے بھرے ہوئے کنٹینر، اور امریکا واویلا بھی نہیں مچاتا۔ جیسے اسامہ بن لادن کو سیٹلائٹ سے ڈھونڈا تھا ویسے اپنے کنٹینر بھی نہیں ڈھونڈتا۔ یعنی یہ اسلحہ جہاں پہنچنا تھا، وہیں پہنچا، فکر کی کوئی بات نہیں… کہاں پہنچا؟… بلوچ لبریشن آرمی، تحریک طالبان پاکستان، داعش وغیرہ، بلکہ ایم کیو ایم کو بھی یہی اسلحہ سپلائی ہوتا تھا۔ زرداری دور میں ناٹو سپلائی روکنے والے عمران خان اپنی حکومت کے دوران پختون خوا سے ناٹو سپلائی کیوں نہیں روک سکے؟ اب تو دھرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
جہاں یہ تخریبی کارروائیاں جاری ہیں، وہیں کبھی ختمِ نبوت پر حملہ ہوتا ہے، کبھی ممتاز قادری کو پھانسی ہوتی ہے، جب کہ را کے ایجنٹ کلبھوشن یادوکو انتہائی شفقت سے پالا پوسا جارہا ہے۔ کبھی نصاب میں تبدیلی کرکے ہماری نسل سے ایمان کو ختم کیا جارہا ہے۔ زرداری کے غنڈے عزیر بلوچ وغیرہ ایران سے ٹریننگ حاصل کرکے پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ پھر کرپشن کا یہ عالم کہ نوازشریف اربوں ڈالر بھارت ٹرانسفر کرتے ہیں… اللہ کی پناہ، کہاں کہاں سے پاکستان پر حملے ہورہے ہیں، کس کس طرح پاکستان کو تباہ کیا جارہا ہے! ہمارے دشمن مسلسل تاک تاک کر نشانے لگا رہے ہیں اور ہم مکمل اطمینان کے ساتھ خواب خرگوش میں پڑے ہیں۔
خوارج، سیاست دانوں اور لبرلز کے تمام انداز ہم نے گوش گزار کردیئے۔ اگر آپ اسلام پسندوں کو دھتکارتے ہیں تو یہی تین مصیبتیں آپ کے گلے کا ہار بنیں گی۔ ہمارے پاس پہلے بھی الیکشن میں دھاندلیاں ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہوں گی۔ ہماری حیثیت اُس چڑیا جیسی ہے جو چونچ میں پانی بھر بھر کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جلائی گئی آگ پر ڈال رہی تھی۔ ہم اگر صحیح لوگوں کو ووٹ دیں گے تو کم از کم اللہ کے آگے سرخرو ہوں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کیا۔ آگے سب فیصلے آپ کے ہاتھ میں ہیں، آپ جس کو چاہیں بادشاہ بنائیں اور جس کو چاہیں فقیر کردیں۔

حصہ