ثمن کی پریشانی

324

دیاخان بلوچ
پچھلے تین دن سے ایک ہی چیز میری توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی اور وہ یہ تھی کہ دوسری جماعت کے طالب علم بریک ٹائم میں جب لنچ کرتے تو سب کے ساتھ شیئر کرتے سوائے ایک کے۔یہ ننھے منے بچے سارا دن تو ساتھ گزارتے ہیں ،اب نجانے لنچ کرتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ ساتھ بیٹھی ہماری ساتھی کو بھی بھوک لگی ہوگی ۔ہمیں اس کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے۔میری برداشت اس دن ختم ہو گئی جب میں نے ثمن کی پیاری پیاری آنکھوں میں آنسو دیکھے۔میں نے اسے اپنے پاس بلایااور پوچھا کہ وہ رو کیوں رہی ہے؟
ٹیچر کچھ نہیں۔اس نے جواب دیا۔اچھا ،آپ لنچ کیوں نہیں کر رہی ہیں؟ آج لنچ نہیں ہے میرے پاس۔کیوں ؟مما نے نہیں دیا۔اچھا مما نے پیسے دیے ہیں؟نو ٹیچر ،پیسے نہیں ہیں۔بھوک لگی ہے؟میں نے پوچھا۔یس ٹیچر۔اس نے اثبات میں سرہلایا۔میں نے اپنے بیگ سے پیسے نکالے اور اس کی طرف بڑھا دیے۔جائو کینٹین سے جا کر لے آئو جو بھی آپ کو کھانا ہو۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔وہ اداسی جو چند لمحے پہلے چھائی تھی،اب یکسر غائب تھی۔
اس کے جانے کے بعد میں سوچنے لگی کہ یہ آج کل کے بچے کتنے بدل گئے ہیں،انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ جو ہمارے ساتھی ہیں ،دوست ہیں ہمیں ان کو کھانا کھلاناچاہیئے۔اگر آج ان کے پاس کھانا نہیں تو ،کل ہوگا۔کیا ہوجائے گا اگر ہم ان کے مل بانٹ کر کھا لیں گے۔دو لقمے ایک دن کم کھالیں گے تب بھی ہم زندہ رہیں گے،اوران دو لقموں سے کسی اور کا پیٹ بھر سکتا ہے تو کیوں نا ہم یہ پیارا سا کام کر لیں۔یہ سوچ ان میں نہیں تھی،یہ احساس انہیں دلایا نہیں گیا تھا۔میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ان معصوم سے بچوں میں یہ عادت ڈالنی ہے کہ جب بھی کھانا کھائو تو اپنے دوستوں یا ساتھ بیٹھے لوگوں سے ضرور پوچھیں اور ان کے ساتھ کھانا کھائیں۔
تھوڑی دیر بعد ثمن جماعت میں موجود تھی،وہ بھی مزے کے سموسوں کے ساتھ۔اسے خوش دیکھ کر مجھے بہت سکون ملا تھا۔اگلے دن معمول کے مطابق سب کام ہوتے رہے،ثمن چونکہ پڑھائی میں اچھی تھی ،اس لیے سب اس کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتے،اس کے ساتھ مشورہ بھی کیا کرتے تھے اور وہ سب کی مدد کرنے کو ہر دم تیار رہتی تھی۔۔پر آج میں نے ثمن سے کہا :ثمن! آپ کسی کو کچھ نہیں بتائیں گی۔نا ہی آپ کسی سے بات کریں گی۔جب یہ آپ کی دوست نہیں ہے تو پھر آپ اس سے بات کیوں کریں گے؟سارے بچے میرا منہ تکنے لگے کہ ٹیچر کیا کہہ رہی ہیں۔جی ،بالکل درست سنا ہے آپ نے۔جب آپ لوگوں کو ایک دوسرے کا احساس نہیں تو پھر بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔آپ صرف مطلب کے لیے بات کرتے ہیں ،جیسے مطلب پورا ہو جاتا ہے اس کے بعد کوئی کسی کو پوچھتا ہی نہیں۔میں نے ذرا غصے سے کہا۔سارے بچے ایک دم خا موش ہوگئے تھے۔ان سب کو بھی محسوس ہوگیا تھا کہ وہ غلط کرتے ہیں یہ کوئی اچھی عادت تو نہیں۔
میں نے کہا:پیارے بچوں!بھوکے انسان کو کھانا کھلانے کا بہت اجر ملتا ہے۔اگر آپ اپنے سارے دوستوں کے ساتھ کھانا مل بانٹ کر کھائیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ سب سے خوش ہوگے اور آپ کے کھانے میں برکت بھی ہوگی۔جماعت میں سکوت طاری تھا۔بچے تو معصوم ہوتے ہیں ،جس راستے پر چلانا چاہو راضی ہو جاتے ہیں ۔اب میری ذمہ داری یہی تھی کہ میں ان کو سمجھاتی اور صحیح اور غلط راستے کا بتا تی اور میں نے ایسا ہی کیا تھا۔تھوڑی دیر بعد سب بچے ایک ساتھ بولے: سوری ٹیچر ،آج سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم سب مل جل کر رہا کریں گے۔کسی ایک کو خود سے الگ نہیں کیا کریں گے۔ہم بہت اچھی دوست بن کر رہیں گی۔ان کے وعدوں کا مجھے اعتبار تھا کہ جو یہ کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔

مسکرائیے

ایک استاد بچّوں کو پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے بچّوں سے پوچھا۔ ’’تم میں سے کس بچّے نے اردو کی کتاب کا نواں باب پڑھ لیا ہے؟‘‘
یہ سن کر کلاس کے تمام بچّوں نے ہاتھ اٹھا دیئے۔ استاد بولے۔ ’’نالائقو! کیوں جھوٹ بولتے ہو؟اردو کی کتاب میں تو صرف 8باب ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
ایک استانی بچّوں کو کہانی سنا رہی تھیں۔ ’’ایک بکرا بہت شریر تھا، ایک دن وہ اپنے ساتھیوں سے دور چلا گیا، ایک بھیڑیا آیا اور اسے کھا گیا۔ اگر وہ اپنے بڑوں کا کہنا مانتا تو بھیڑیا اسے نہ کھا سکتا تھا۔ میں نے ٹھیک کہا نا بچّو!‘‘
’’نہیں مس!‘‘ایک بچّی نے ہاتھ اٹھا کر جواب دیا۔ ’’اگر اسے بھیڑیا نہ کھاتا تو ہم اسے ذبح کر کے کھا جاتے۔‘‘
٭…٭…٭
بچّہ:’’امّی آپ کے پاس دس روپے ہیں؟‘‘
ماں:’’نہیں بیٹا، اپنے ابّو سے لے لو۔‘‘
بچّہ:’’پاپا!آپ کے پاس دس روپے ہیں؟‘‘
باپ:’’بیٹا کھلّے نہیں ہیں اس وقت، اپنے چاچو سے لے لو۔‘‘
بچّہ:’’چاچو!آپ کے پاس دس روپے ہیں کیا؟‘‘
چاچو:’’نہیں بیٹا! اس وقت تو نہیں ہیں، جائو اپنی چاچی سے لے لو‘‘
بچّہ:’’چچی!آپ کے پاس دس روپے ہیں۔‘‘
چچی:’’ہاں بیٹا ہیں، دوں کیا؟‘‘
بچّہ:’’نہیں رہنے دیں۔ ظالمو!قلفی والا چلا گیا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
ایک بچّہ روتا ہوا اسکول سے گھر آیا تو ماں نے پوچھا۔’’کیوں رو رہے ہو بیٹا ،کیا ہوا؟‘‘
’’ماسٹر صاحب نے مارا ہے، اس لیے رو رہا ہوں۔‘‘ بچّے نے کہا۔
ماں نے پوچھا۔ ’’بیٹا تم نے پھر کوئی غلط حرکت کی ہو گی؟‘‘
بچّہ اور زیادہ روتے ہوئے بولا۔’’ماسٹر صاحب مجھے ڈانٹ رہے تھے تو میں نے کہہ دیا کہ جو گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں بس پھر…‘‘
گاہک… ! ’’میں نے ایک گھنٹہ پہلے مرغ کا آرڈر دیا تھا، کیا ابھی تیار نہیں ہوا؟‘‘
ویٹر: ’’جناب پڑوسیوں کا مرغ پکڑنا، کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔‘‘

حصہ