صحیح قائد

260

سیدہ عنبرین عالم
’’چودھری اعجاز نعیم آوے ہی آوے، چودھری اعجاز نعیم آوے ہی آوے…‘‘ بلال اپنی پوری طاقت سے چلاّتا رہا۔ یہ ایک ریلی تھی جس میں کوئی ٹرک پر سوار تھا، کوئی بس میں، کوئی بائیک پر، اور بلال پیدل ہی چل پڑا تھا۔ تھک جاتا تو کسی بس کے پیچھے لٹک جاتا، یا کسی کی گاڑی پر اٹک جاتا، لیکن آواز ایک لمحے کو بند نہ ہوتی۔ کرتے کرتے آخرکار قافلہ جلسہ گاہ پہنچ گیا۔ مغرب کا وقت ہوچلا تھا، بلال نماز پڑھنے کو بے چین تھا، تین نمازیں قضا ہوچکی تھیں۔ بچپن سے ماں باپ نے نماز کا عادی بنایا تھا، بے قراری لازمی تھی۔ کوئی کونہ نہیں مل رہا تھا کہ نماز پڑھتا۔ کھسکتے کھسکتے کچھ جگہ بنائی تو ایک آنٹی سے جا ٹکرایا۔ وہاں پہلے ہی خواتین کے ساتھ ہلڑ بازی چل رہی تھی، پولیس نے جہاں اوروں کو پکڑا، وہاں بلال بھی پکڑا گیا اور ہجوم نے مل کر خوب چھترول کی۔ بھوکا پیاسا صبح کا نکلا ہوا… پٹائی کے بعد حالت مزید خراب ہوگئی۔ ’’نہیں! چودھری اعجاز نعیم کو دیکھے بغیر نہیں جائوں گا‘‘۔ اس نے سوچا اور ہجوم میں دھکے کھاتے ہوئے کھڑا رہا۔
مختلف سیاسی رہنما بونگیاں مارتے رہے۔ رات کے دس بجے چودھری اعجاز نعیم کی تقریر شروع ہوئی۔ بلال کا خوشی سے برا حال تھا، اس کے اپنے شہر میں اس کے سامنے اس کا محبوب قائد بذاتِ خود کھڑا تھا۔ بلال کے زخموں سے ابھی بھی خون رِس رہا تھا، مگر وہ جوش میں آگے بڑھتا چلا گیا تاکہ اپنے قائد کو زیادہ نزدیک سے دیکھ سکے۔ اور ظاہر ہے یہ آگے بڑھنا آسان نہیں تھا۔ رش سے اس کی سانس گھٹ رہی تھی، بالآخر جدوجہد کرکے وہ اسٹیج پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اپنے قائد کو دیکھ رہا تھا، پھر اپنا فون نکال کر تصویریں کھینچنے لگا۔ اچانک درجنوں گارڈ اس پر ٹوٹ پڑے، ایسا اچانک حملہ تھا کہ بلال اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور 22 فٹ اونچے اسٹیج سے گر پڑا۔ ٹی وی کیمروں کی چکاچوند میں صاف نظر آرہا تھا کہ کوئی گر گیا ہے، مگر نہ تقریریں رکیں، نہ ناچ گانا۔ بلال کا سر پھٹ چکا تھا، کمر کی کئی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں اور وہ مکمل بے ہوش تھا، اور ہجوم اسے روندے چلا جارہا تھا۔
’’اماں! جلسہ تو رات کو ختم ہوگیا تھا، ابا کیوں نہیں آئے اب تک؟‘‘ افشاں پریشان سی دروازے میں کھڑی بلال کی راہ دیکھ رہی تھی۔
’’مجھے کیا پتا، سارے محلے والے سمجھاتے ہیں کہ کام دھندا چھوڑ کر ان جھوٹے سیاست دانوں کے پیچھے پاگل مت بنو، مگر تیرا ابا کب کسی کی سنتا ہے!‘‘شائستہ شوہر کی حرکتوں سے بے زار تھی۔ تھوڑی دیر میں ہی افشاں بھاگتی ہوئی اندر آئی ’’اماں اماں! سکندر چچا آئے ہیں، ابا اسپتال میں ہیں، بہت زخمی ہیں، گر گئے تھے کل اسٹیج سے اماں! جلدی چلو۔‘‘ وہ چلاّ رہی تھی۔
شائستہ اور افشاں جب اسپتال پہنچے تو وہی حال پایا جو ایک سرکاری اسپتال کا ہوتا ہے۔ بلال کو راہ داری میں چادر بچھاکر لٹایا گیا تھا اور گلوکوز کی بوتل لگی ہوئی تھی۔ چودھری اعجاز نعیم کا کوئی کارندہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ سکندر چچا نے ایک ڈاکٹر کو پکڑا اور کہا ’’سر جی! یہ بندہ کل رات سے بے ہوش ہے، اس کا کوئی علاج کرو، اس کی ہڈیاں بھی ٹوٹی ہیں، گلوکوز کی بوتل سے کیا ہوگا جی! کچھ تو کرو، ورنہ مر جائے گا۔‘‘
’’میری ڈیوٹی ختم ہوگئی ہے، آپ کسی ڈیوٹی ڈاکٹر سے بات کریں، اور بہتر ہے کہیں اور لے جائیں، نہ یہاں بیڈ خالی ہے نہ آپریشن تھیٹر، اس بندے کو سرجری کی فوری ضرورت ہے ورنہ یہ واقعی مر جائے گا، آگے آپ کی مرضی۔‘‘ ڈاکٹر نے مفت مشورہ دیا۔
’’بھائی جان میری چوڑیاں بیچ دو، پر بلال کو بچا لو‘‘۔ شائستہ نے خرچے کا آسان حل بتایا۔
’’او بھابھی! تیری چوڑیاں تیس، چالیس ہزارکی بک جائیں گی مگر بلال کی سرجری کے لیے لاکھوں چاہئیں، او چل اللہ کا نام لے کر، پرائیویٹ اسپتال… دیکھی جائے گی۔‘‘ سکندر چچا بولے۔
اِدھر اُدھر سے ادھار کرکے ایک لاکھ روپیہ جمع کرایا تو بلال کا آپریشن شروع ہوا، مگر اسپتال والوں نے 12 لاکھ روپے کا خرچا بتایا تھا۔ آٹھ ہڈیاں ٹوٹی تھیں جن میں ریڑھ کی ہڈی بھی شامل تھی، سر پر بھی گہری چوٹ لگی تھی… بیٹھے بیٹھے نہ جانے افشاں کو کیا خیال آیا کہ وہ شائستہ سے دو گھنٹے بعد آنے کا کہہ کر باہر چلی گئی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ چودھری اعجاز نعیم کے بنگلے کے باہر کھڑی تھی۔ اس شخص کا پاکستان کے ہر اہم شہر میں ایک بنگلہ تھا۔ گارڈز کسی طرح اسے اندر بھیجنے پر راضی نہیں تھے، وہ چار گھنٹے گیٹ کے آگے روتی ہوئی بیٹھی رہی، آخرکار اعجاز کا کوئی قریبی دوست باہر نکلا تو وہ افشاں کو اندر لے گیا۔
اندر کا منظر دیکھ کر افشاں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کی مثالیں دینے والا اعجاز نعیم شراب پی رہا تھا، آس پاس پارٹی کی حسینائیں جمع تھیں، تکے اور کباب وافر مقدار میں موجود تھے، گھر کا سامان اس قدر قیمتی تھا کہ افشاں کو یہ آسائشیں دیکھ کر ہی چکر آنے لگے، اور یہ اعجاز نعیم امریکا اور یورپ کے لیڈروں کی سادگی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتا تھا۔ شادیوں پر شادیاں، اوپر سے اتنی خواتین سے دوستی… اور بات کرتے ہیں اسلام اور خواتین کے حقوق کی۔ ’’کاش ابا یہ سب دیکھ لیتے۔‘‘ اس نے سوچا۔
’’ہاں بھئی بڑی خوب صورت لڑکی بیٹھی تھی رات کے 12 بجے گھر کے باہر، میں اندر لے آیا۔ لڑکیوں کا میں بہت خیال کرتا ہوں۔‘‘ اعجاز نعیم کے دوست نے افشاں کا تعارف کرایا۔
’’ہاں ہاں… اچھا کیا… ہوسکتا ہے ہماری پارٹی جوائن کرنا چاہتی ہو، آجائو۔‘‘ اعجاز نعیم نشے میں چُور تھا اور انتہائی بے ہودہ لہجے میں بات کررہا تھا۔
افشاں ہمت سے کھڑی رہی، سب اس پر ہنس رہے تھے۔ ’’آپ شراب بھی پیتے ہیں!‘‘ افشاں نے آخرکار کہا۔ ’’میرے ابا تو سمجھتے ہیں کہ آپ سے زیادہ نیک دنیا میں کوئی نہیں۔‘‘
’’نہ نہ! یہ شراب نہیں ہے، یہ تو شہد ہے۔‘‘ اعجاز نعیم نے کہا اور زور دار قہقہہ لگایا۔
’’میرے ابا کل آپ کے جلسے میں اسٹیج سے گر گئے تھے، ان کے علاج کے لیے 12لاکھ روپیہ چاہیے، میں اس لیے آپ کے پاس آئی ہوں کہ آپ کے کارکن آپ کی ذمے داری ہیں‘‘۔ افشاں نے کہہ ہی ڈالا۔
’’اوئے میں نے تو اسے دھکا نہیں، میں تو کبھی خود پر اپنی پائی بھی خرچ نہیں کرتا، دوسروں کے جہازوں میں اڑتا ہوں، دوسروں کے خرچے پر پلتا ہوں، میں کیا کر سکتا ہوں!‘‘ اعجاز نعیم بولا۔
’’تو میں کیا کروں؟ آپ کے تو ہزاروں کارکن ہیں، مگر میرے تو ایک ہی ابا ہیں، ان کا جو حشر ہوا ہے آپ کی وجہ سے ہوا ہے، آپ کو اُن کا علاج کرانا پڑے گا۔‘‘ افشاں نے بلند آواز سے اسے للکارا۔
’’اوئے بکواس کرتی ہے‘‘۔ ایک خاتون رہنما نے اٹھ کر افشاں کے چہرے پر تھپڑ لگایا، ساتھ ہی کئی گارڈ گنیں تان کر کھڑے ہوگئے۔
’’نہیں نہیں، سوہنی لڑکی ہے، ایسے نہیں مارتے۔ میں تو بے روزگار ہوں، کبھی کھیلا کرتا تھا، اس کے بعد تو کچھ کیا نہیں، اب میرا کوئی ذریعہ آمدن ہی نہیں، گھر تک اُس بیوی نے دیا ہے جسے برسوں سے پہلے طلاق دے چکا ہوں۔‘‘ اعجاز نعیم نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’کروڑوں کا عمرہ کرسکتے ہو، 12 لاکھ نہیں دے سکتے! اللہ کو کیا منہ دکھائو گے! کتنا حرام کھائو گے، کتنے لوگوں کو بے وقوف بنائو گے، کتنے لوگوں کو قتل کرو گے۔‘‘ افشاں چیختی رہی۔ اعجاز نعیم اور اس کے ساتھی ہنستے رہے اور گارڈز نے افشاں کو پھر سے گھر کے باہر لے جاکر چھوڑ دیا۔
11 گھنٹے تک بلال کا آپریشن چلتا رہا، مگر سر سے خون رسنا بند ہی نہیں ہورہا تھا، آخرکار اس کو وینٹی لیٹر میں منتقل کردیا گیا جہاں وہ چھ دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد چل بسا۔ اسپتال انتظامیہ بل کی ادائی کے بغیر میت دینے پر تیار نہ تھے۔ عذاب کے لمحے تھے، جان کنی میں گزر گئے۔
’’اماں! یہ اعجاز نعیم کو اللہ تعالیٰ سزا کیوں نہیں دیتا؟ ہمیں سزا کیوں ملی؟‘‘ افشاں نے پوچھا۔
’’بیٹا سزا تو ہمیں ہی ملے گی، کیونکہ ہم نے اللہ کے فرمان پر عمل کیا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تم میں بہتر وہ ہے جو تقویٰ میں سب سے بہتر ہے، ہم اپنے قائدین کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں، ان کے بیرونی دشمنوں سے رابطے، ان کی کرپشن، ان کی سازشیں، ان کے کردار کی ناپاکیاں… مگر ہم ایک سحر میں گم رہتے ہیں… چند میٹھی باتوں کا سحر، جھوٹ کا سحر، دعووں کا سحر… ہم حق کو حق جانتے ہوئے بھی حق کا ساتھ نہیں دیتے۔‘‘ شائستہ نے افسردہ آواز میں اپنی بیٹی کی بات کا جواب دیا۔
’’اماں! میں سمجھتی تھی کہ ابا دنیا کے عقلمند ترین آدمی ہیں، وہ کہتے تھے کہ اعجاز نعیم ملک کو قرضوں سے نجات دلائے گا، امریکا، یورپ جیسا انتظام لے آئے گا، مگر وہ تو صرف ناچ گانا کراتا تھا۔ ابا کو یہ بات کیوں نظر نہیں آئی کہ جس شخص کی زندگی میں دور دور تک خوفِ الٰہی نہیں، صرف نافرمانی ہی نافرمانی ہے، وہ کیسے حضرت عمرؓ کا نظام لائے گا! ابا بہت ہی بھولے تھے اماں۔‘‘ افشاں نے کہا۔
’’بیٹا تمہارے ابا بے وقوف نہیں تھے، بس اُن کی امیدیں بہت زیادہ اور غلط جگہ تھیں۔ وہ نظام چاہتے تھے حضرت عمرؓ والا، انصاف، امن، مساوات… اور یہ سب وہ اُس شخص سے چاہتے تھے جو مغربی کلچر کا دلدادہ ہے، جس کے اپنے بچے یہودی مذہب پر چل رہے ہیں اور اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ کو سبزی چاہیے تو سبزی والے کے پاس جائو گے، دودھ والے کے پاس نہیں جائو گے، جب کہ الیکشن میں اسلامی نظام کے لیے آپ اُن لوگوں کو ووٹ ڈال رہے ہو جو سڑکوں پر اپنی ماں بیٹیوں کا رقص کرا رہے ہیں۔ اسلامی نظام کے لیے لامحالہ ایسے لوگوں کو ووٹ دینا پڑے گا جو خود اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوں۔‘‘ شائستہ نے کہا۔
’’اصل میں اماں یہ مولوی اگر الیکشن میں جیت کے لیے اکٹھے ہوجائیں تو بھی ان کے آپس کے اختلافات ختم نہیں ہوتے، ہر ایک خود کو ہی اصلی مسلمان سمجھتا ہے۔‘‘ افشاں نے کہا۔
’’بیٹا! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو باتیں تم میں مشترک ہیں ان پر اکٹھے ہوجائو۔ اسلام کا کوئی بھی فرقہ ہو، کرپشن، جھوٹ، دھوکا تو حرام ہی رہے گا… رشوت، اقربا پروری، لسانیت وغیرہ کو تو برا ہی سمجھا جائے گا۔ اس طرح انتظام مملکت چلانے میں فرقہ واریت کا کیا کام! البتہ یہ بات آپ کی بالکل ٹھیک ہے کہ مولوی فوراً ہی چراغ پا ہوجاتے ہیں اور لڑ پڑتے ہیں، لیکن جب ذمے داری ہوگی اور علم ہوگا تو یہ فروعی اختلافات ختم ہوجائیں گے۔‘‘ شائستہ نے سمجھایا۔
’’مگر مولوی کتنا ہی اچھا ہو، اُس کا سحر اِس طرح طاری نہیں ہوتا جس طرح اعجاز نعیم کا۔ لوگ دیوانے ہیں اس کے پیچھے، یہ کیا چکر ہے آخر؟‘‘ افشاں نے پوچھا۔
’’بیٹا! ایک صحیح عالمِ دین قوم سے علم و عمل کا مطالبہ کرے گا جو کہ ایک مشکل کام ہے، جب کہ اعجاز نعیم جیسے لوگ صرف گلیمر پیدا کرتے ہیں۔ ہلاّ گلاّ، ناچ گانے، خواب، وعدے، دھوکے… یہ سب شیطان کے جال ہیں، اور اس جال میں لوگ آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔ ایک عالمِ دین اپنا نظریہ رکھتا ہے، اس نظریے پر قوم کو چلانے کی کوشش کرتا ہے، آئندہ نسلوں کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے جیسا کہ مولانا مودودیؒ کی کتابیں باقاعدہ ایک نظریے، ایک تحریک اور ایک پاکیزہ معاشرے کی بنیاد ہیں۔ اس کے مقابلے میں اعجاز نعیم جیسے لوگ کیا ہیں! نہ کوئی نظریہ، نہ کوئی لائحہ عمل… صرف بکواس ہی بکواس۔‘‘ شائستہ نے مثال سے سمجھایا۔
’’کتاب لکھنا تو درکنار، اعجاز نعیم نے تو کبھی کوئی اچھی کتاب پڑھی بھی نہیں ہوگی۔ ‘‘ افشاں نے کہا۔
’’بیٹا! شخصیت پرستی نہیں ہونی چاہیے، آپ ایک اعجاز نعیم کی پوجا کرتے رہو گے تو وہ فانی ہے، مر جائے گا اور اس کے تمام پیروکار گمراہ ہو جائیں گے۔ بیٹا! نظام اور نظریہ اصل چیز ہیں جن کو انسانوں کے پیدا ہونے اور مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور قومیں تسلسل کے ساتھ ترقی کرتی رہتی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کو گزرے ہوئے زمانہ ہوگیا مگر ان کی سوچ زندہ ہے، ان کا قافلہ چل رہا ہے، کیونکہ وہ نظریہ دے کر گئے ہیں۔ یہ جدوجہد اقتدار کی نہیں، صحیح نظام لانے کی ہے۔ جب تک نظریہ باقی ہے، قافلہ چلتا رہے گا۔ کوئی مرے، کوئی جیے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوچ بلند ہونی چاہیے، فتح کبھی نہ کبھی مل جائے گی۔‘‘ شائستہ نے سمجھایا۔
’’ہمارے پاس بہت کم نظریاتی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ نہ کوئی لائحہ عمل، نہ منصوبہ، نہ اخلاص۔ حتیٰ کہ یہ تک نہیں سوچتے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تو کچھ نہ کچھ تو اسلام نظر آنا چاہیے۔ مولوی کو ہی ڈر کا نشان سمجھتے ہیں، پیچھے سے اعجاز نعیم جیسے لوگ جو مرضی نقصان پہنچا لیں، ڈر صرف اسلام سے ہے۔‘‘ افشاں نے کہا۔
’’ڈر اسلام سے نہیں اسلام پر عمل کرنے سے ہے۔ وہی ڈر جو مکہ کے کافروں کو تھا۔ ہم صرف دوسروں کو ایماندار اور نیک دیکھنا چاہتے ہیں، خود ہر آزادی چاہیے، اس لیے اسلام کو کبھی اپنے ملک پر نافذ نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ شائستہ نے کہا۔

حصہ