قرآنی آیات سے مزین شعری متن

7330

ڈاکٹر عزیز احسن
(دوسرا اور آخری حصہ)
قرآنِ کریم ،شاعری نہیں ہے۔ لیکن عربوں کے مزاج کے مطابق شعری حسن کا مکمل حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عربوں نے قرآنِ کریم کو شاعری سمجھا جس کی تردید خود قرآن کے ذریعے کردی گئی۔اس تردید کی وجہ یہ تھی کہ شاعری کا مدار تخیل (Imagination) پر ہے جبکہ قرآنِ کریم سراسر بیانِ حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ابتداء ہی میں فرمادیا کہ قرآن ایسی کتاب ہے جو اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے ۔اس کے منزل من اللہ ہونے اور اس میں بیان کردہ حقائق کے مبنی بر حقیقت ہونے کے بارے میں کوئی شک کیا ہی نہیں جاسکتا۔ حضورِ اکرم ﷺ کے شاعر اور قرآن کے شاعری ہونے کی تردید قرآنِ کریم میں متعدد بار کی گئی…مثلاً
٭ وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ ط اِنْ ھُوَ اِلَّاذِکْر’‘ وَّقُرْاٰن’‘ مُّبِیْن’‘ (یٰسٓ ۔آیت ۶۹) ……اور نہیں سکھائی ہم نے اس نبی کو شاعری اور نہیں تھی اس کے شایانِ شان یہ چیز۔نہیں ہے یہ مگر ایک نصیحت اور صاف پڑھی جانے والی کتاب۔
٭(کفار نے کہا)بَلْ ھُوَ شَا عِرٌ ج سورۃ الانبیآء [آیت ۵] بلکہ یہ شخص شاعر ہے۔
٭وَیَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْٓا اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍمَّجْنُوْن……سورۃ الصّٓفّٰت۳۷، آیت ۳۶…اور کہتے تھے کہ کیا ہم چھوڑدیں اپنے معبودوں کو ایک شاعر کی خاطر جو دیوانہ ہے؟
٭اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ …کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص شاعر ہے۔سورۃ الطُّور۵۲…آیت ۳۰
٭وََّمَا ھُوَ بِقُوْلِ شَا عِرٍ ط…سورۃ الحآقَّۃ …۶۹، آیت نمبر:۴۱…اور نہیں یہ کلام کسی شاعر کا ۔
٭وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗن…سورۃ الشعراء، ۲۶، آیت ۲۲۴…اور رہے شعراء تو چلا کرتے ہیں ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ۔
ان آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں یہ وضاحت تو از خود ہوجاتی ہے کہ قرآنِ کریم شاعری نہیں ہے اور صاحبِ قرآن حضرت محمد مصطفی ﷺ شاعر نہیں ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام بھی انتہائی حسین اسلوب میں اپنے بندوں تک پہنچایا ہے…اور جمالِ بیان اور کمالِ اظہار کا معجزہ یہ ہے کہ شعر نہ ہوتے ہوئے بھی اس کلام میں جگہ جگہ ایسی آیات آگئی ہیں جن میں عروضی اوزان کا دربست موجود ہے۔قرآنِ کریم کے زندہ معجزہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قیامت تک اس کے حسنِ صوری اور معنوی پر پڑے ہوئے پردے اٹھتے جائیں گے۔ چناں چہ محمد بشیر رزمی پر ، ان کے دانندہ ٔ عروض ہونے کی وجہ سے ، یہ انکشاف ہوا کہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات ، عروضی اوزان کے مطابق ہیں۔
’’یا اللہ‘‘ محمد بشیررزمی صاحب کا ایسا شعری عمل (Poetic Work) ہے جس میں قرآنی جمالیات کی روشنی سے جگمگاتی ہوئی آیات کے ساتھ ساتھ بندے[شاعر] کی کاوش کے ملفوظاتی اظہارات بھی روشن روشن نظر آرہے ہیں۔
بشیر رزمی صاحب نے ’’یا اللہ‘‘ میں جو قرآنی آیات پیشِ نظر رکھی ہیں ان میں عروضی اوزان کے اعتبار سے ۱۸ بحور آگئی ہیں۔ ان اٹھارہ بحور کے اوزان ۱۲۳ ہیں۔ یہ اوزان صرف سرسری تلاوتِ قرآن سے حاصل نہیں ہوئے بلکہ بڑے غور و خوض کا نتیجہ ہیں۔ پھر وزن کے مطابق کسی آیتِ قرآنی یا اس کے ایک حصے کو،بحر میںپاکر شاعر نے تین تین مصرعے کہے اور صنعتِ اقتباس کی صورت میں ہر قطعے یا رباعی میں‘ ان آیات یا ان آیات کے کسی حصے کو بطور مصرعِ آخر رقم کردیا۔ مثلاً
بس ترے ہی سامنے
ہم جھکاتے ہیں جبین
لاکھ ہم عاصی سہی
اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْن
(تو[ہی ]سب سے بہتر بخشنے والا ہے)
’’اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْن‘‘ سورہء اعراف کی آیت نمبر ۱۵۵ کے آخری الفاظ ہیں، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا حصہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسٰیؑ جب طور پر تشریف لے گئے اور ان کی قوم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی تو موسیٰ علیہ السلام نے واپس آکر ان کی سرزنش کی ۔انھوں نے ندامت کا اظہار کیا تو ان میں سے ستر افراد کو ساتھ لے کر موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور کی جانب تشریف لے گئے اور توبہ کی قبولیت کے لیے دعا کی۔ دعا قبول ہوئی لیکن ان ستر آدمیوں نے اللہ کے دیدار کا مطالبہ کیا تو زلزلہ آگیا جس سے ان کی ہلاکت کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ چناں چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر بخشش کے لیے دعا فرمائی۔
’’اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْن‘‘ کے الفاظ کا یہ پس منظر جاننے کے بعد شاعر نے پہلے دومصرعوں میں یہ اقرار کیا کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں، یعنی ہم سرکش نہیں ہیں۔ پھر کہا ’’ لاکھ ہم عاصی سہی ‘‘… لیکن تو یہودی سرکشوں کو بھی بخش دیتا ہے تو ہمیں بھی بخش دے۔ کیوں کہ تو ہی سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔ اس طرح شاعر نے قرآنِ کریم کی ایک طویل آیت کا صرف ایک حصہ لے کر ، اس کا وزن متعین کیا اور پھر اس کے مفہوم کو پیشِ نظر رکھ کر اس کے گرد شعری متن کا ہالہ بنایا۔ یہی نہیں بلکہ اپنے قارئین کو یہ بھی بتادیا کہ قرآنِ کریم کے یہ الفاظ ’’فاعلاتن فاعلن؍فاعلان‘‘ کے وزن پر پورے اترتے ہیں جسے بحرِ مدید مربع سالم مذال کہتے ہیں۔
اس طرح قراء تِ قرآن کرنے، اس کی طویل طویل آیات میں سے عروضی اوزان کے مطابق الفاظ چننے اور ان کے معانی کا احصا ء کرنے کے بعدشعری متن بُننے سے شاعر کا ایک خاص زاویے سے تدبرِ قرآن کا طریقِ کار بھی نظر آتا ہے اور شاعرانہ مہارت بھی ظاہر ہوتی ہے۔تخلیقی نقش نمبر ۱۲۰ ملاحظہ ہو:
نغمہ سرا ہو جیسے
بادِ صبا کا جھونکا
سینہ کشا صدا ہے
فَا لتّٰلِیٰت، ذِکْرَا
’’فَا لتّٰلِیٰت، ذِکْرَا ‘‘ (پھر قرآن کی تلاوت کرنے والوں کی قسم)سورہء الصّٰٓفّٰ کی مکمل آیت نمبر ۳ ہے۔اللہ تعا لیٰ نے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والوں کی بھی قسم کھائی ہے۔ شاعر نے اپنے تخیل میں اس قسم کے مفاہیم کا ایک دائرہ بنایا اور جان لیا کہ قرآنِ کریم کی تلاوت میں توحیدی نغمے کی سرشاری ہے جو بوقتِ تلاوت ٹھندی ہوا کے جھونکے کی طرح فرحت بخشتی ہے، نتیجتاً شرحِ صدر کا باعث ہوتی ہے۔ یعنی پیغامِ ربانی کے سمجھنے کی صلاحیت عطا کردیتی ہے۔ قرآنِ کریم کی اس آیت کا عروضی وزن بھی شاعر نے بتادیا ہے جو ’’مفعولُ فَاعِ لاتُن‘‘ ہے جس کا عروضی نام ’’بحرِ مضارع مربع اخرب سالم‘‘ ہے۔
جیسا چاہا پہلے پیدا کردیا
اس میں پھر اعمال کا رکھا صلہ
بس یہی ہر فرد کی تقدیر ہے
لَیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی
سورۂ والنجم کی آیت 39 کے الفاظ ہیں ’’ وَاِنَّ لَیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی‘‘ (اور یہ کہ ،انسان کے لیے نہیں لیکن جو اس نے کوشش کی) بحرِ رمل مسدس محذوف کا وزن پیشِ نظر رکھ کا شاعر نے آیتِ کریمہ کے صرف یہ الفاظ لیے’’ لَیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی‘‘۔ قرآنِ کریم کے یہ الفاظ انسان کو اعمال کی ترغیب دے رہے ہیں۔ شاعر نے پہلے تو اللہ کی قدرت کا اعتراف کیا کہ اس نے انسان کو جیسا چاہا پیدا فرمادیا ہے۔ پھر بتایا کہ انسان کی تقدیر کا دارو مدار اس کے اعمال پر ہے جس کا صلہ اللہ تعالیٰ عطا فرمادیتا ہے۔ چناں چہ انسان[صحیح سمت میں] جتنی کوشش کرے گا اس کا اچھا صلہ پالے گا۔
شاعری کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس کا انحصار صرف تخیل پر ہے۔ اس میں متن (Text) کی خوبی یا خرابی کا کوئی دخل نہیں۔شاعر جیسے چاہے شعری متن تخلیق کرے، شرط صرف حسنِ بیان کی ہے۔ بیان میں خوبصورتی ، اسلوب میں دلکشی اور اظہار میں طرفگی ہو تو کلام مقبول ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ عہدِ جاہلیت کے شاعر امراء القیس کے معاملے میں دیکھا گیاکہ اس کے اسلوب کے باعث نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے بھی اسے ’’اشعرا لشعرا ء‘‘ قرار دیا ’’یعنی وہ شاعروں کاسرتاج ہے‘‘ … لیکن اسی شاعر کے متن کی لایعنیت کے حوالے سے اسے’’ و قائد ہم الی النار‘‘’’ اور جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سپہ سالار بھی ‘‘ فرمادیا۔
پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اسی عہدِ جاہلیت کے ایک شاعر عنترہ کا یہ شعر سماعت فرمایا :
و لقد ابیت علی الطویٰ و اظلہ
حتیٰ انال بد کریم الما کل
’’میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں
تاکہ میں اکل حلال کے قابل ہو سکوں‘‘۔
تو ارشاد ہوا:’’کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اس کا شوق ملاقات نہیں پیدا کیا لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس شعرکے نگارندہ کے دیکھنے کو میرا دل ، بے اختیار چاہتا ہے‘‘ ۔
حضورِ اکرم ﷺ نے دو مختلف المزاج شعراء کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار فرماکر شاعری کا جواز پیدا کرتے ہوئے قیامت تک ہونے والی شعری تخلیقات کے لیے ایک منہاج بھی مقرر فرمادیا ۔
علاوہ ازیں حضورِ اکرم ﷺ نے بعض احادیث میں شعری معیارات بھی متعین فرمائے تاکہ امتِ مسلمہ کے شعراء صالح ادب کی تخلیق میں سرگرم رہیں۔
۱۔’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بعض بیان سحر ہوتا ہے‘‘۔۲۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں۔۳۔ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کلام میں مبالغہ کرنے والے ہلاک ہوگئے یہ کلمات تین مرتبہ فرمائے۔روایت کیا اس کو مسلم نے۔۴۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن شخص کفار کے ساتھ اپنی تلوار اور زبان کے ساتھ جہاد کرتا ہے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم کفار کو شعر اس طرح مارتے ہو جس طرح تیر مارا جاتا ہے۔(روایت کیا اس کو شرح السنۃ میں)۔یہ تمام احادیث امام ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب العمری رحمۃ اللہ علیہ نے مشکوٰۃ شریف کے ’’بَابُ الْبَیَانِ وَالشِّعْرِ‘‘(بیان اور شعر کا بیان) کے تحت جمع کی ہیں۔
اشعار میں حکمت کے عنصرکا ذکر حدیث میں بھی ہے اور قرآنِ کریم میں بھی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط ’’[ترجمہ]اور جسے مل گئی حکمت سو درحقیقت مل گئی اسے خیرِ کثیر‘‘[البقرۃ، آیت ۲۶۹]۔
حضورِ اکرم ہی نے ایک اور مقام پر فرمایا:
’’[ترجمہ]کلمہء حکمت تو مومن کی متاعِ گم شدہ ہے جہاں سے بھی اسے ملے وہ اس کا بہتر حقدار ہے‘‘۔
علامہ بشیر رزمی نے بھی حکمتِ قرآنی کی تحصیل اور ترسیل کاطریقہ اپنایا اور قرآنِ کریم کی آیات کو ان کے مفہومیاتی ہالے میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان میں پنہاں عروضی اوزان کی نشاندہی کی۔
علامہ بشیر رزمی، ایک فن آگاہ استاد ہیں ۔انھوں نے رباعیات بھی کہی ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ رباعی جیسی مشکل صنف ِسخن میں کامیابی صرف قادرالکلام شعراء ہی کو حاصل ہوتی ہے۔رباعی کے تخلیقی تقاضے (Requsites of Creativity) پورے کرنا ہر موزوں طبع کے لیے ممکن نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر شعراء اس صنف کی جانب متوجہ نہیں ہوتے۔ رزمی صاحب کی دو نعتیہ باعیات ملاحظہ ہوں:
مبعوث ہوئے رحیم رحمت کے لیے
مقدور اجازت ہے شفاعت کے لیے
قربان محمدؐ پہ کہ وہ حشر کے دن
سجدے میں دعا کریں گے امت کے لیے
اس رباعی میں دو تلمیحاتی حوالے قرآنِ کریم کے ہیں اورایک حوالہ حدیث کا مضمر ہے۔ [۱] وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ o (اور نہیں بھیجا ہم نے تم کو اے نبی مگر رحمت بنا کر جہاں والوں کے لیے…سورۃ الانبیآء ۲۱، آیت ۱۰۷) [۲] مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط(کون ہے جو سفارش کر سکے اس کے پاس بغیر اس کی اجازت کے…سورۃ البقراۃ۲، آیت۲۵۵)۔پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں ’’ اِلَّا بِاِذْنِہٖ‘‘ سے واضح فرمایاکہ وہ محبوب و مقبول بندگانِ خدا ضرورشفاعت کریں گے جن کو ان کے رب نے اجازت مرحمت فرمائی ہوگی۔سب سے پہلے شفاعت کرنے والے اللہ کے محبوب وحبیب محمد مصطفیٰ علیہ افضل التحیۃ و اجمل الثناء ہوں گے جو اس روز مقامِ محمود کے منصب ِ رفیع پرمتمکن ہوں گے۔(ضیاء القراٰن)
جامع ترمذی میں ایک طویل حدیث ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ قیامت میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سب شفاعت طلب لوگوں سے کہہ دیں گے ’اِذْ ھَبُوْا اِلیٰ غَیْرِیْ‘ تم لوگ کسی اورکے پاس جاؤ۔ یہاں تک کہ لوگ آپﷺ کے پاس آکر شفاعت کا سوال کریں گے اور آپﷺ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ پھر آپ ﷺ سے کہا جائے گا ، اے محمد( ﷺ)سر اٹھاؤ اور مانگو،جو مانگو گے عطا کیا جائے گا۔ شفاعت کرو قبول کی جائے گی۔ پھر حضور اپنا سر اٹھائیں گے اور فرمائیں گے اے رب! میں اپنی امت کی نجات اور فلاح کا طلب گار ہوں۔(جامع ترمذی شیرف مترجم، جلد دوم، ص۱۴۳)
اسی طرح درجِ ذیل رباعی میں بھی تلمیحاتی نظام کا پرتو محسوس کیا جاسکتا ہے:
کچھ اور بلندی کو اٹھا کرتے ہیں
طے جادہء محبوبِ خدا کرتے ہیں
پیغمبر و صدیق و شہید و صالح
مر کر بھی نہیں مرتے، جیا کرتے ہیں
یہاں بھی دو تلمیحاتی اشارے ہیں۔ سورۂ النسآء کی آیت نمبر ۶۹ میں اللہ کی طرف سے انعام پانے والوں میں ’’نبیّٖن ،صدیقین، شہداء اور صالحین ‘‘کا ذکر فرمایا گیاہے اور سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۵۴ میں شہداء کے لیے فرمایا ہے کہ وہ زندہ ہیں[لیکن] تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ۔اور چوںکہ شہداء تو خود نبی علیہ السلام کی اتباع کرتے ہوئے شہید ہوئے اور زندگی کا انعام پایا ، اس لیے نبی علیہ السلام ،صدیقین اور آپﷺ کی امت کے صالحین بھی اسی طرح زندہ ہیں۔ یہی خیال درجِ بالا رباعی میں پیش کیا گیا ہے۔ ان دونوں رباعیات کی قراء ت سے بھی یہ اندازہ ہوا کہ بشیر رزمی صاحب شعری متن کو قرآن و حدیث کی روشنی سے منور کرنے کی شعوری کوشش بھی کرتے ہیں۔
سورہء اٰلِ عمران کی آیت نمبر ۱۱۰ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اے مسلمانو!تم،وہ) بہترین امت ہو جسے پیداکیا گیا ہے انسانوں کی [رہنمائی] کے لیے ،حکم دیتے ہو تم اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہوبرے کاموں سے اور ایمان رکھتے ہو اللہ پر …اٰلِ عمران۳، آیت نمبر ۱۱۰) ۔حضور نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو خیرِ امت عطا کی گئی اور بالیقیں یہ کثیر تعداد میں ہے اور ہوگی۔ کیوں کہ قیامت سے قبل ہر انسان کا دین صرف اسلام ہوگا ، اس طرح صرف خیرِ امت کی عددی برتری قائم ہوگی! معانی کے اعتبار سے امت ہی آلِ نبی علیہ السلام ہے۔ رزمی صاحب پر الکوثر کے معنوی ابعاد(Dimensions) اس طرح منکشف ہوئے:
الکوثر کے معنی رزمیؔ
رب نے آخر کھولے مجھ پر
اُمَّت بھی تو آلِ نبیؐ ہے
اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْ ثَرْ
(سورۃ الکوثر آیت ۱…ہم نے بے شک تجھے کثیر تعداد میں امت عطا کی‘‘۔
بعض بحریں بڑی مترنم ہوتی ہیں۔ ایک چھوٹی بحر کی طرفگی ملاحظہ ہو:
جو ہوئے ہیں سر خم
بس وہی ہیں اسلم
کافروں سے کہہ دو
حَسْبُھُمْ جَہَنَّمْ
(ان کے لیے جہنم کافی ہے۔سورۂ المجادلۃ ،آیت نمبر:۸)
اس بحر کا نام ’’بحرِ رزمی‘‘ رکھا گیا ہے کیوں کہ یہ بحر حضرتِ رزمی کی ایجاد ہے۔ (فاعلن فعولن)
فکر و خیال کی پاکیزگی کا جو رویہ علامہ موصوف کی شاعری پر سایہ فگن نظر آتا ہے وہ متنی اور اسلوبی (Textual and Stylistic) دونوں اعتبارات سے وزن و وقار سے ہم کنار ہے۔
میں علامہ محمد بشیر رزمی صاحب کو ان کی شاعری کے ارتفاعی کام یعنی ’’یا اللہ‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد دیتا ہوںاور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے جذبے کو شعراء کے ہر طبقے میں عام کردے تاکہ شاعری سے دینی خدمت کا کام بھی لیا جاسکے!
٭٭٭

حصہ