ڈاکٹر نثار احمد نثار
محسن بھوپالی اردو ادب کا ایک اہم نام ہے۔ وہ قادرالکلام شاعر تھے‘ ان کا شمار اساتذہ فن میں ہوتا تھا ان کے کئی اشعار حالتِ سفر میں ہیں اور زبان زدِ عام ہیں ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں حال ہی میں راشد محسن اور شاہانہ جاوید نے محسن بھوپالی کی شاعری کو کلیات محسن بھوپالی کے تحت یکجا کرکے اشاعت کا اہتمام کیا جس کی تقریب اجراء آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام عمل میں آئی اس پروگرام کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مہمان خصوصی تھے جب کہ مقررین میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ احمد شاہ‘ عقیل عباسی جعفری‘ شاہانہ جاوید اور عبدالحسیب خان تھے۔ تقریب اجراء آرٹس کونسل کے نئے اے سی آڈیٹوریم میں منعقد کی گئی۔ علی اصغر نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ شاہانہ جاوید نے اپنے والد محسن بھوپالی کے فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد ایک عظیم انسان تھے انہوں نے ہماری تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے والد نے ایک نئی صنفِ سخن ’’نظمانے‘‘ متعارف کرایا تھا۔ عقیل عباس جعفری نے کہا کہ محسن بھوپالی کی شاعری میں جدیدیت ہے وہ ایک عظیم المرتبت شاعر تھے انہوں نے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ان کا سارا کلام ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ تحسین بھوپالی نے واکا اور ہائیکو کے ترجمے پیش کیے اور کہا کہ اس صنف سخن کو فروغ دینے میں محسن بھوپالی کا اہم کردار ہے۔ عبدالحسیب خان نے کہا کہ اچھے اچھے شعرا کا کلام الماریوں میں بند ہے انہیں شائع کرنے والے بہت کم ہیں اس سلسلے میں کوئی ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ قادر الکلام شعرا کی شاعری کو کتابی شکل دے کر قارئین ادب تک پہنچایا جائے۔ محمد احمد شاہ صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے کہا کہ راشد میرا ساتھی ہے بچپن میں ہم ایک ہی تعلیمی ادارے میں پڑھے ہیں یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ جب محسن بھوپالی پولیس کے شعبۂ تعمیرات میں تھے میں ایک طرح سے ان کی فیملی کا حصہ ہوں۔ محسن بھوپالی مقبول ترین شعرا کی صف میں شامل تھے ان کی شاعری ہر زمانے مین زندہ رہے گی کیونکہ انہوں نے معاشرتی رویوں کو برتا ہے۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں کمال کی شاعری کی ہے ان کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے خالد علیگ‘ اجمل سراج‘ سرور جاوید اور دیگر اہم قلم کاروں کے مسودوں کو کتابی شکل دے کر عوام الناس تک پہنچایا ہے ہم اس کام کو مزید بہتر بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں تاکہ معیاری شعر و ادبا کے کلام کو شائع کیا جاسکے۔ انہوں نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ پورے عالم اسلام کے ہیرو ہیں۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا کہ جب جب انہیں مواقع ملے انہوں نے ڈاکٹر قدیر کی محفل میں بیٹھنے پر فخر محسوس کیا بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قائداعظم کے بعد پاکستان میں مقبول ترین شخصیت ہیں۔ ان کی ادب دوستی بڑی اہمیت کی حامل ہے ایسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ محسن بھوپالی کا مجموعہ کلام ’’شکست شب‘‘ 1961ء میں شائع ہوا تھا جس کے اثرات آج تک قائم ہیں اس مجموعے کی شاعری ایک استعارہ بن گئی ہے اس زمانے میں محسن بھوپالی لاڑکانہ میں تھے لیکن انہوں نے شاعری کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ وہ ایک کامیاب انسان تھے ان کی شاعر میں زندگی کے تمام عنوانات پائے جاتے ہیں ان کی وفات سے ہم ایک عظیم شاعر سے محروم ہوگئے ہیں۔ سحر انصاری نے کہا کہ محسن بھوپالی نے سیاسی‘ سماجی اور معاشرے کے اجتماعی مسائل پر قلم اٹھایا اور لوگوں کو بتایا کہ انہیں کس طرح اپنے مسائل سے نجات پانی ہے‘ انہیں اس بات کا بہت غم تھا کہ مسلمان قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہو پارہی ان کا کہنا تھا کہ مسلمان جدید سائنسی علوم حاصل کریں وہ اردو زبان و ادب کے عظیم رہنما بھی تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ کراچی محبتوں کا شہر ہے یہاں ادبی و علمی محافل ہوتی رہتی ہیں ایک زمانہ تھا کہ جب یہاں کے لوگ انتہائی شائستہ اردو بولتے تھے انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اعزاز حاصل ہے کہ محسن بھوپالی نے انہیں منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا۔ ان کی شاعری کی کلیات کا شائع ہونا نیک شگون ہے آرٹس کونسل نے ان کے لیے تقریب اجرا کا اہتمام کیا جو کہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ آرٹس کونسل کے ذریعے کلیات محسن بھوپالی کی تشہیر کی جائے اور ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں اس کلیات کو شامل کرایا جائے۔ انہوں نے دعا کی اللہ تعالیٰ محسن بھوپالی کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اس شاندار تقریب کی نظامت راشد نور نے کی جو کہ ایک مستند شاعر و تجربہ کار صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین نظامت کار بھی ہیں۔ وہ اپنے الفاظ سے قارئین کے دلوں کو گرماتے رہتے ہیں وہ پاکستان اور بیرون پاکستان اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہر عطا فرمائے‘ آمین۔
ادارہ فکر و فن کا پہلا مشاعرہ
کورنگی ٹائون کراچی میں ایک نئی ادبی تنظیم ادارۂ فکر و فن کے نام سے تشکیل پائی ہے جس کے سرپرست اعلیٰ واجد علی صدیقی اور صدر غلام علی وفا ہیں۔ اس ادارے کی جانب سے گزشتہ اتوار کو کورنگی نمبر ایک کے میں ایک محفل مشاعرہ سجائی گئی جس میں صاحب صدر سرور جاوید‘ مہمان خصوصی منیف اشعر‘ مہمان اعزازی پروین حیدر اور مشاعرے کی ناظمہ آئرین فرحت کے علاوہ غلام علی وفا‘ اختر سعیدی‘ علی اوسط جعفری‘ انورانصاری‘ عظمیٰ جون‘ سلیم فور‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ سیف الرحمن سیفی‘ بشیر نازش‘ سخاوت علی نادر‘ عارف شیخ‘ کاشف علی ہاشمی‘ عادل شاہ جہاں پوری‘ تاج علی رانا‘ عاشق شوکی اور علی کوثر نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ مشاعرے میں علاقے کے لوگوں نے شرکت کی اور ہر شاعر کو بھرپور داد و تحسین سے نوازا۔ یہ مشاعرہ اس اعتبار سے بہت اچھا تھا کہ سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی لیکن راقم الحروف نے کئی شعرا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ پانچ بجے کا وقت دے کر 8 بجے شب مشاعرہ شروع کیا گیا اس کے علاوہ مشاعرہ گاہ کے ساتھ مسجد کی دیواریں لگی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے نماز عشا کے وقت بیس منٹ تک مشاعرہ تعطل کا شکار ہوا‘ لہٰذا مشاعرہ اب کسی اور مقام پر کرایا جائے یا پھر نمازِ عشاء بعد شروع کیا جائے نیز وقت کا خیال بھی رکھا جائے۔ اختتامِ مشاعرے پر بریانی کے پیکٹ تقسیم کیے گئے۔ غلام علی وفا نے مشاعرے میں متعدد بار اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ ان کا علاقہ تعلیمی اعتبار سے پس ماندہ ہے لیکن یہاں کے لوگ بہت مال دار ہیں وہ بیرون ملک بھی روزگار کے لیے جاتے ہیں اور ڈیفنس کراچی میں بھی کوٹھیاں بناتے ہیں اب انہوں نے لوگوں میں علمی وادبی شعور پیدا کرنے کے لیے ایک ادارہ بنایا ہے جس کا سلوگن ہے ’’آئو کامیابی کی طرف‘‘ اس ادارے کے تعاون سے آج کا مشاعرہ ترتیب دیا گیا ہے۔ اس مشاعرے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں ادبی ذوق پروان چڑھایا جائے۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ تقریب میں ادارۂ فکر و فن کے کئی نمائندوں نے تقاریر کیں جس کا لب و لباب یہ تھا کہ اس علاقے میں کراچی کے اہم شعرائے کرام تشریف لائے ہیں وہ ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس علاقے کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں کیونکہ یہ دور حاضر کی ضرورت ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات بھی حاصل کیجیے کیونکہ اسلام ہمارا دین ہے جو ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی کے ذرائع بتاتا ہے۔ صاحب صدر سرور جاوید نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج کے مشاعرے میں سامعین کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگ علم دوست اور سخن فہم ہیں اس اجتماع کا کریڈٹ غلام علی وفا اور ان کے رفقائے کار کو جاتا ہے کہ انہوں نے ایک شان دار مشاعرہ منعقد کیا۔ میں ان تمام حضرات کو مبارک باد پیش کرتا ہوں امید ہے کہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ہانی ویلفیئر ٹرسٹ کا سمندری مشاعرہ
ہانی ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام رشید خان رشید کے اعزاز میں 25 جون 2018 کو سمندری مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت اختر سعیدی نے کی۔ محمود احمد خان مہمان خصوصی تھے۔ آفتاب عالم قریشی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوت کلامِ مجید کی سعادت عاشق شوکی نے حاصل کی‘ محمد علی گوہر نے نعت رسولؐ پیش کی۔ صاحب صدر نے کہا کہ رشید خان شاعر و صحافی کے علاوہ اسکائوٹ لیڈر بھی ہیں ان کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ وہ بہت اچھے نظامت کار ہیں۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’اعتبار کا موسم‘‘ منصۂ شہود پر آچکا ہے۔ ادارۂ فکر نو کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات قابل ستائش ہیں انہوں نے اسکائوٹنگ کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں انہوں نے اپنی شاعری میں زندگی کی حقیقتوں کو اپنے تجربات و احساسات میں بیان کیا ہے ان کے یہاں خوش رنگ استعارے اور تشبیہات پائی جاتی ہیں انہوں نے سماجی اقدار و معاشرتی کرب کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے ان کی شاعری وارداتِ قلبی کا عکاس اور انسانی جذبات و محسوسات کی آئینہ دار ہے۔ صاحب صدر نے مزید کہا کہ رشید خاں سے ان کی رفاقت کا دورانیہ چالیس برسوں پر محیط ہے مجھے ان کی دوستی پر ناز ہے وہ میری زندگی کے تمام نشیب و فراز سے واقف ہیں اور میں بھی ان کے روز و شب سے آشنا ہوں۔ رشید خان ہر محفل میں رنگ بھرنے کا ہنر جانتے ہیں‘ محفل میلاد ہو‘ نعت خوانی ہو‘ محفل چہار بیت ہو یا جشن آزادی کی تقریب‘ غزل گانے کی محفل ہو یا پکنک‘ یہ ہر ماحول میں اپنے آپ کو سمو لیتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیتے ہیں۔ ہانی ویلفیئر ٹرسٹ کے اراکین و عہدیداران قابل مبارک باد ہیں کہ وہ سمندری مشاعرے کے تحت ایک خوب صورت محفل سجا رہے ہیں اس طرح لوگوں کو سمندر کی سیر بھی ہو رہی ہے اور بہترین اشعار بھی سننے کو مل رہے ہیں۔ مہمان خصوصی محمود احمدخان نے کہا کہ وہ رشید خاں رشید کی شخصیت سے متاثر ہیں انہوں نے بڑی محبت سے زندگی کا سفر طے کیا ہے۔ وہ ایک بلند مقام پر فائز ہیں‘ وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ہر جگہ ان کی پزیرائی ہو رہی ہے آج کی محفل ان کے اعزاز میں سجائی گئی ہے‘ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید کامیابیاں عطا فرمائے۔ میزبان تقریب مظہر ہانی نے کہا کہ شاعروں‘ ادیبوں اور فنون لطیفہ کے لوگوں کی خدمات ہمارا منشور ہے جس کے تحت ہم مختلف اوقات میں پروگرام ترتیب دیتے رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہم سماجی خدمات بھی مصروف عمل ہیں۔ ہم نے ریڑھی میاں گوٹھ لانڈھی میں ایک رفاعی اسپتال قائم کیا ہے جہاں بیس روپے میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں اسی گوٹھ میں ہم نے ایک مدرسہ قائم کیا ہے جس میں دین اسلام کی تعلیمات دی جاتی ہیں جہاں تین سو طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں ہمارے اسکول میں تیس روپے ماہانہ فیس لی جاتی ہے جہاں اس وقت 490 طلبا و طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں اس کے علاوہ ہم سندھ کے پس ماندہ علاقوں میں بھی زندگی کے مسائل حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اختر سعیدی ایک قابل فخر شاعر و صحافی ہونے کے علاوہ ایک بہترین انسان ہیں انہوں نے اردو ادب کی بہت خدمت کی ہے اللہ تعالیٰ انہیں اس کا صلہ دے گا۔ ان کے رفیق کار رشید خان بھی ایک اچھے انسان ہیں ہم ان کی بھی قدر کرتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ سمندری مشاعروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اب ڈاکٹر نثار اور سلمان صدیقی کے لیے سمندری مشاعرے ہوں گے اس سے قبل ہم اختر سعیدی اور اسحاق خان اسحاق کے لیے اس قسم کی تقریبات سجا چکے ہیں۔ صاحب اعزاز رشید خان کو جب مائیک پر بلایا گیا تو وہ شدت جذبات سے آبدیدہ ہو گئے انہوں نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا اس موقع پر انہوں نے ترنم سے غزلیں اور گیت سنا کر خوب داد وصول کی۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ غلام علی وفا‘ محمد علی گوہر‘ مظہر ہانی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ گل انور‘ شاہد اقبال‘ احمد خیال‘ عاشق بلوچ‘ اسحاق خان اسحاق ‘ عاشق شوکی‘ شاہدہ عروج اور مہر جمالی نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرے کے دوران کشتی میں تیا رکردہ ریفریشمنٹ سے شعرا و سامعین کی تواضع کی گئی‘ دو گھنٹے تک سمندر کی سیر کرائی گئی اور بیچ سمندر میں کشتی لنگر انداز کرکے مشاعرہ منعقد کیا گیا یہ تجربہ بہت خوش گوار تھا۔ اس موقع پر رشید خان رشید کو اجرک اور شیلڈ پیش کی گئی۔