افروز عنایت
رمضان میں دورۂ قرآن کے اختتام پر دعائے قرآن کا انعقاد رکھا گیا دعا کے آخر میں خواتین سے پوچھا گیا کہ اس مبارک سلسلے کے بارے آپ خواتین کی کیا رائے ہے یعنی دورۂ قرآن کا یہ سلسلہ آپ کے لیے کیسا رہا ہم چند خواتین نے اپنی رائے کا اظہار کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’یہ ناممکن ہے کہ ایک مہینے کے اس درس سے آپ میں کوئی مثبت تبدیلی رونما نہ ہوئی ہو ضروری نہیں کہ آپ کو اس ماہانہ کلاس نے مکمل تبدیل کیا ہو لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ یہ دورانیہ بالکل بیکار گیا ہو ایک نہ ایک خصوصیت تو ضرور آپ کی شخصیت میں رونما ہوئی ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ اس قسم کی محفلوں سے انسان کے اندر مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے محمدؐ لوگوں کو سمجھاتے رہو کیونکہ سمجھانا ایمان والوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس ارشاد ربانی سے واضح ہے کہ تبلیغ یا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا انعقاد مومنین کے لیے مفید ہے۔ یعنی اللہ کے بندوں کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کی اصلاح کے لیے اور انہیں جھنجھوڑنے کے لیے ایک جماعت مخصوص ہو ایسی ہی جماعت کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی ضروری ہے جوکہ خیر کی طرف بلائے اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کرے اور برے کاموں سے روکا کرے اور ایسے لوگ ضرور کامیاب ہوں گے۔ (سبحان اللہ)
جب دعائے قرآن کے اختتام پر معلمہ لے ہم خواتین سے اپنی رائے کے اظہار کے لیے کہا تو یک لخت مجھے اپنے بچپن کا وہ زمانہ یاد آگیا جب استاد محترم ہمیں قرآن کا ترجمہ اور مختصر تفسیر سمجھاتے تو اپنی آواز کو اونچا کر لیتے تاکہ دوسرے کمروں میں موجود افراد خانہ کے کانوں میں ان کی آواز پہنچ پائے (ہمارا خاندان مشترکہ تھا) اکثر ایک بات ہم بہن بھائیوں سے فرماتے کہ جو اللہ کا علم سیکھو اسے دوسروں تک ضرور پہنچائو چاہے سامنے آپ کے سننے والا ایک فرد ہو یا سینکڑوں اگر ایک بھی مستفید ہو رہا ہے تو یہ کامیابی ہے جہاں میں ان سطور کے ذریعے اس بات کا اعتراف کرتی ہوں کہ باوجود صوم وصلوٰۃ کی پابندی کے میرے کنبے کے افراد بہت سی بدعتوں میں مبتلا تھے مولانا صاحب کی تعلیمات کی بدولت رب العزت نے ہمیں ان بدعات سے بچایا اللہ تعالیٰ استاد محترم کے درجات بلند فرمائے (آمین)۔
اس مثال سے یہ واضح ہے کہ جس طرح ایک پتھر پر مسلسل پانی کے قطرے پڑنے سے جھونک یا دراڑ آسکتی ہے اسی طرح تبلیغ و نصیحت کا اثر بھی انسان پر ہو سکتا ہے اب یہ اس بندے کے اختیار میں ہے کہ وہ ہر عمل پیرا ہو کر اپنی ذات کو منور کرے اور رب کی رضا حاصل کرے۔
میری زندگی میں بارہا ایسے لوگ سامنے آئے جو خدا کے در پر دو سجدے کرنے سے بھی قاصر تھے لیکن اللہ نے انہیں ہدایات حاصل کرنے کے لیے ان محفلوں کے دروں پر پہنچایا تو ان کی کایا پلٹ گئی اور وہ رب کی بارگاہ میں سر بسجود ہو گئے انہوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری کو اپنا شیوہ بنا لیا اور اپنے آپ کو دین کے لیے مخصوص کر دیا۔ یہ سب اس نصیحت و تبلیغ و امربالمعروف و نہی عن المنکر کی بدولت رونما ہو سکا۔ اسی لیے دین اسلام میں اس فریضے یعنی تبلیغ و امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت ہے۔ آج ہمارے چاروں طرف فرزندان توحید اسی کام کی انجام دہی میں سرگرم نظر آتے ہیں۔
شرو ظلم اور بے حیائی و طاغوتی طاقتوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں لیکن افسوس ان کی تعداد کم ہے۔
ارشاد نبویؐ ہے کہ جو شخص کسی ناجائز امر کو ہوتے ہوئے دیکھے اگر اس پر قدرت (طاقت) ہو تو اس کو ہاتھ سے بند کر سکے تو اسے بند کر دے اگر اس کی قدرت نہ ہو تو زباں سے اس پر انکار کر دے اگر اتنی بھی قدرت نہ ہو تو دل سے اس کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا بہت ہی کم درجہ ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث مبارکہ ہے کہ اگر اس کو زبان سے بند کرنے کی طاقت ہو تو بند کردے ورنہ دل سے اس کو برا سمجھے اس صورت میں بھی وہ بری الزمہ ہے۔‘‘
آج ہمارے چاروں طرف طاغوتی طاقتیں سرگرم عمل ہیں بندوں کو گمراہی کے گڑھے کی طرف دھکیل رہیں ہیں بہت سے لوگ اس برائی کو دیکھ رہے ہیں برا بھی سمجھ رہے ہیں اپنے آپ کو اس سے بچانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن اس غلط روش کے آگے لب کشائی سے محروم ہیں یہ خاموشی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہے جس کی تپش ہم سب تک پہنچ سکتی ہے۔ بلکہ آس پاس کے لوگوں کو جھلسا سکتی ہے۔ مذکورہ بالا صورت حال خصوصاً رشتے، ناطوں، تعلقات کو قائم رکھنے یا معاشرے میں اپنے آپ کو ہر دل عزیز رکھنے کے لیے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ کہ کہیں میرے اس طرح کی روک ٹوک یا ہدایت کرنے سے سامنے والا میرا مخالف نہ ہو جائے اور مجھ سے تعلقات قطع نہ کرلے یعنی دوسروں کے ڈرو خوف کی وجہ سے حق بات کہنے سے گزیز کر تا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ اولاد کی نا راضگی کی وجہ سے ماتحت افسر بالا کی ناراضگی کی وجہ سے، دوست وغزیز واقارب تعلقات اور ناطے توٹنے کے ڈر سے غلط اور بے حیائی کو بھی برداشت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، لیکن جنہیں اپنی اور دوسروں کی آخرت کی فکر ہوں گی وہ دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتا ہے اور میدان اصلاحات میں کود پڑتا ہے اور اپنے قول و عمال کے ذریعے راہ ہدایت دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ہدایت کرنے والے کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو یعنی واعظ و تبلیغ اور نصیحت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے خود ان احکامات الٰہی پر عمل پیرا ہو۔ آپؐ نے شب معراج میں ایک جماعت کو دیکھا جن کے ہونٹ آگ کی قبنچیوں سے کترے جاتے تھے آپؐ نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں جبرائیلؑ نے عرض کیا کہ یہ لوگ آپؐ کی امت کے واعظ و مقرر ہیں جو دوسروں کو نصیحت کرتے تھے اور خود ا س پر عمل نہیں کرتے تھے (مشکوٰۃ شریف)
ایسے بے عمل عالموں کے لیے ایک دوسری حدیث مبارکہ اس طرح ہے کہ ’’اہل جنت کے چند لوگ بعض اہلِ جہنم سے جا کر پوچھیں گے کہ تم یہاں کیسے پہنچ گئے ہم تو جنت میں تمہاری بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی وجہ سے پہنچیں ہیں وہ کہیں گے کہ ہم تم کو تو بتاتھے تھے مگر خود عمل نہیں کرتے تھے‘‘
ایک اور بات جو قابل غور ہے اور آپ کے مشاہدے میں بھی ہو گی اسے مقرر اور نصیحت کرنے والے جو خود بے عمل ہوں ان کی نصیحت کا سامنے والے پر کم ہی اثر ہوتا ہے ایک چھوٹی سی مثال لے لیں اسکول و کالجوں میں اساتذہ کرام جب بچوں کو کسی سلسلے میں نصیحت کرتے ہیں مثلاً بچیوں سے کہا جاتا ہے کہ ناخن نہ بڑھائیں بھنویں نہ تراشیں تو وہ پہلے استانی کے سراپے کا بغور جائزہ لیتی ہیں کہ استانی خود عمل سے خالی ہو تو بچیاں منہ بناتی ہیں کہ محترمہ خود تو عمل کر نہیں رہیں اور ہمیں نصیحت کرنے چلی ہے۔ یعنی ان کی نصیحت بے کار جاتی ہے شاید چند دن استاد سے خوف سے عمل پیرا ہو بھی جائے لیکن دل سے اس نصیحت کو قبول نہیں کر پاتیں اس چیز کا مشاہدہ مجھے اپنی ملازمت (درس و تدریس) کے دوران بار ہاہوا اور عمل بھی ایسا ہو جو ریا کاری سے پاک ہو یعنی تبلیغ و نصیحت کے لیے علم و عمل کے ساتھ ریاکاری و نمود و نمائش سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ خالص اللہ کی رضا کے لیے عمل ہونا ضروری ہے تبلیغ و نصیحت کے لیے محتاط طریقہ، نرمی پیار و محبت کا طریقہ اپنانا چاہیے۔ آپؐ کے اسی طرز عمل سے دین ہم تک پہنچا آپ کے قول و عمل کی جانشنی سے کٹر سے کٹر (سخت) مخالف بھی آپؐ کی نرم جوئی پیار و محبت کے آگے بے بس ہو جاتا ہے نرمی محبت حسنِ اخلاق، درگزر آپ کی شخصیت کے گوہر نایاب تھے ہم سب بھی دین حق کے مبلغ ہو سکتے ہیں مذکورہ بالا تمام اصولوں پر کار فرما ہو کر، یعنی خلوص، علم کے ساتھ عمل، نرم گوئی، حسنِ اخلاق کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ان خصوصیات سے مزین ہو کر ہم اس اہم فریضے کو انجام دینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ آج کے معاشرے کے لیے انتہائی اہم ہے کہ ہم ان طاغوتی طاقتوں کو بے اثر اور ناکام کرنے کے لیے ایسے مقرر بن جائیں جو لوگوں کو سیدھی راہ کی طرف بلائیں اور گناہ کے کاموں سے روکیں قرآن جو ایک نصیحت ہے ا س کی تعلیمات عام لوگوں تک پہنچائیں۔ یہی لوگ اللہ کے مقرب اور پسندیدہ بندے ہیں۔
ایسے لوگوں کی صحبت انسان کو دین کی خوشیوں سے معطر و منور کر دیتی ہے۔ اور ضرور کبھی نہ کبھی دلوں کو اللہ کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ جیسا کہ آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ علماء کی خدمت میں بیٹھنے کو ضروری سمجھو اور حکماء امت کے ارشادات کو غور سے سنا کرو، حق تعالیٰ مردہ دلوں کو زندہ فرماتے ہیں کہ جیسے مردہ زمین کو موسلا دھار بارش سے (سبحان اللہ) آخر میں معلمہ عائشہ کی بات ضرور شیئر کروں گی۔
گزشتہ سال رمضان میں معلمہ عائشہ نے دعائے قرآن کے موقعے پر ایک بات بلکہ نصیحت کی کہ نصیحت و تبلیغ کو اپنے گھر سے شروع کریں آپ کا گھر آگ میں جلے آپ کو ناگوار گزرے گا لہٰذا اپنے گھرانے کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے تبلیغ کی ابتداء اپنے گھر اور آس پاس سے شروع کریں۔ تاکہ آپ کا اپنا دامن بھی بچ سکے۔
رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کو بھی ایسی ہدایت فرمائے کہ ہم دین کے لیے اپنے آپ کو منتخب کرلیں اور ایسی محفلوں میں شرکت کرکے فیضیاب ہو جائیں ان سطور کے ذریعے میں درسگاہ کی تمام علماء کرام کی مشکور ہوں کہ ان سے ہم سب خواتین کو کچھ سیکھنے کا موقع ملا اللہ اساتذہ کنیز فاطمہ، فرحت اور سلمیٰ کو اجر عظیم عطا فرمائے (آمین) اور ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ جو سیکھا اس پر عمل پیرا ہو سکیں اور اسے کم از کم اپنے گھروالوں تک ضرور پہنچائیں (آمین)