رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت تاجر

2712

حسنین معاویہ
جب آپؐ جوان ہوئے تو آپ نے تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ اس انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ خاندان بنو ہاشم اور قریش مکہ کا پیشہ تجارت تھا۔ آپؐ کے آباؤ اجداد تجارت کی وجہ سے مشہور ومعروف تھے۔ آپؐ کے والد ماجد حضرت عبداللہ تجارت ہی کی غرض سے شام تشریف لے گئے اور واپسی پر مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور وہیں انتقال ہوا۔
تجارت انسان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرتی ہے۔ بات چیت کا ڈھنگ،معاملہ فہمی، اپنی بات دلائل سے منوانے کا سلیقہ اور مختلف ممالک کے اسفار اس تجارت ہی سے ممکن ہوتے ہیں۔یہ تمام صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہ اولیٰ پیدا کرلیں تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کی غرض سے شام کی طرف دوبار سفر کیا۔پہلا سفر 12 سال کی عمر میں ابو طالب کے ساتھ کیا۔یہ سفر اگرچہ بحیثیت تاجر نہیں تھا مگر اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے اسرارورموز ضرور سیکھے۔ دوسرا سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان تجارت لے کر کیا۔ اس بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم شام کی مشہور منڈی بصرہ تشریف لے گئے اور اجرت میں حضرت خدیجہ نے ایک یا 2اونٹ دیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر بحیثیت تاجر تھا۔ اس تجارتی سفر میں بہت زیادہ منافع ہوا جوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشہ وارانہ مہارت کی دلیل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان تجارت میں خوشبو ئیں،جواہرات اور چمڑے وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تجارتی اخلاق کا ہر کوئی گرویدہ تھا۔صدق و امانت ایسی صفات ہیں جو تاجروں کو اپنی طرف مبذول کرواتی ہیں۔عبداللہ بن ابی الخمسا ء سے مروی ہے کہ میں نے بعثت سے پہلے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاملہ کیا۔میرے ذمہ کچھ دینا باقی تھا،میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا میں ابھی لے کر آتا ہوں۔ اتفاق سے گھر جانے کے بعد میں اپنا وعدہ بھول گیا۔تین روز کے بعد جب یاد آیا کہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واپسی کا وعدہ کر کے آیا تھا۔ یاد آتے ہی فوراً وعدہ گاہ پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی مقام پر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا فرمایا تم نے مجھے زحمت دی۔ میں 3دن سے تمہارا اسی جگہ انتظار کر رہا ہوں۔
تجارتی معاملات میں معاملات کی صفائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرہ امتیاز تھا۔حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر تجارت کی۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی۔ وہ کہنے لگے ’’میں آپ علیہ السلام کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان ہوں آپ میرے شریک تجارت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ معاملہ صاف رکھتے تھے‘‘۔
عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’زمانہ جاہلیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریکِ تجارت تھا۔جب اسلام قبول کرنے کے بعد حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر سوال کیا۔ مجھے پہچانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ آپ تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک تھے۔ نہ کسی بات کو ٹالتے تھے نا ہی تکرار کرتے تھے۔ایک اور صحابی حضرت قیس بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ زمانہ قبل از نبوت میں نے آپؐ کے ساتھ مل کر تجارت کی ، آپؐ بہت ہی اچھے شریک تھے نہ تکرار کرتے اور نہ جھگڑتے تھے۔آمنہ کے دریتیم اور صدق و وفا کے پیکر کا یہ باب امت کے تاجروں کے لیے زریں اصول اور تاجر پیشہ برادری کے لیے اخلاق کریمہ اور اوصاف حمیدہ کے نقوش متعین کرتا ہے۔
مگر افسوس در افسوس کہ آج کے دور میں تاجر ان زریں اصولوں سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ جس سے معاشرے میں باہمی اعتماد،امانت و دیانت، شرافت و اعانت، اخوت و یگانگت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان کمزوریوں کی بدولت ہم نہ صرف اپنی منڈیوں میں بلکہ عالمی منڈیوں میں بھی کوئی قابل ذکر اہمیت نہیں رکھتے۔ امت مسلمہ کو اپنی تجارت و معیشت کو مستحکم اور قابل ذکر بنانے کے لیے مکی تاجر ؐ کے تجارتی اوصاف کو اختیار کرنا لازم اور ضروری ہے۔

حصہ