افروز عنایت
لوسیل (Lusale) قطر کا یہ نیا شہر اپنی تمام آب و تاب کے ساتھ میرے سامنے موجود تھا‘ ا سکی چکاچوند سے میری آنکھیں چندھیا گئی‘ بلند و بالا حسین و جدید خوب صورت عمارات‘ پاک‘ جدید طرزِ تعمیر سے مزین بڑے بڑے شاپنگ مالز اور ہوٹلز دنیا کی تمام خوب صورتی جیسے یہیں سمٹ آئی ہو‘ لیکن انسانوں سے خالی ہُو کا عالم‘ اتنے وسیع شہر میں ابھی آبادی منتقل نہیں کی گئی کیونکہ تعمیرات کا کچھ کام آخری مرحلوں میں تھا اس لیے دیو مالائی کہانیوں کے کردار کی طرح میں چاروں طرف کے نظارے حیرانی سے دیکھنے میں مگن تھی کہ فرحت نے (بیٹے نے) ایک چوراہے پر گاڑی روک لی۔ پانچ چھ سڑکوں کا جال بچھا ہوا تھا‘ نہ کوئی انسان اور نہ کوئی آس پاس گاڑی لیکن سگنل کی سرخ بتی پر گاڑی رک گئی۔
’’یار نہ کوئی بندہ ہے نہ کوئی گاڑی پھر بھی تم نے گاڑی روک دی۔‘‘
’’ابو ٹریفک قوانین اور پھر سامنے لگا کیمرہ ہماری تمام حرکات و سکنات کو محفوظ کر رہا تھا۔ 500 ریال جرمانہ ہے اس خلاف ورزی پر اور تین خلاف ورزیوں کے بعد لائسنس ضبط۔‘‘
میں دونوں باپ بیٹوں کی گفتگو سن کر اتھاہ گہرائیوں کے سمندر میں ڈوب گئی۔ میرے چاروں بلکہ ہم سب کے چاروں طرف اللہ کے کیمرے نصب ہیں جو ہماری ظاہری و باطنی حرکات و سکنات بلکہ نیت اور سوچ کو بھی محفوظ کر رہے ہیں اور ہم سب ان کیمروں سے غافل بے لگام گھوڑوں کی طرح نفس کے غلام ہو کر خواہشات کے پیچھے سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ نہ ہمیں حدود و احکامات الٰہی کا خیال ہے نہ خوفِ خدا۔ یہ سارے کیمرے قیامت کے دن ہمارے لیے گواہی کا سبب بنیں گے۔ ہمارے تمام اعمال ان کیمروں میں محفوظ ہیں‘ دنیا کے چند روپوں کے جرمانہ سے تو ہم خائف ہیں ان کیمروں کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے حکومت اور محکموں کے عائد کردہ احکامات کی پیروی پر مجبور ہیں۔ یہ زندگی تو چند دن کی ہے لیکن وہ آنے والی زندگی جس میں اللہ کے کیمرے کھلیں گے‘ حساب کتاب کا رجسٹر کھولا جائے گا‘ ان کیمروں میں محفوظ اعمال ہمارے سامنے ہوں گے جس سے انکار ناممکن‘ ساتھ میں ہمارے اپنے ہاتھ پائوں اور تمام اعضاء بھی گواہی دیں گے اور پھر ایسی سزا سنائی جائے گی جس سے بچنا ناممکن۔ اس ابدی زندگی میں اس ابدی سزا سے ہمیں کوئی ڈر نہیں افسوس انسان کتنا غافل ہے آج کی چند دنوں کی عیش و آرام کی زندگی کے لیے اللہ کے رائج کردہ احکامات اور حدود کو پامال کرنا انسان سمجھتا ہے کہ میں نے بہت ترقی کرلی ہے میں نے چاند پر کمند ڈال دی ہے۔ اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں اور غور کریں کہ چند نفوس کے علاوہ اللہ کے ان مخصوص کیمروں کے خوف سے اپنے آپ کو حدود احکامات الٰہی کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے کتنے لوگ کوشش کر رہے ہیں۔ آج کا انسان یوں لگتا ہے کہ اس بات کو فراموش کر بیٹھا ہے کہ اس دنیا میں کیے گئے عمل کے بارے میں مجھ سے پوچھا جائے گا‘ وہ دنیا کے عیش و آرام میں یہ فراموش کر بیٹھا ہے کہ اسے اللہ کے روبرو حاضر ہونا ہے جہاں اسے ایک ایک چیز کا حساب چکانا ہوگا کہاں بسر ہوئے تیرے دن و رات‘ کہاں سے کمایا‘ کہاں لٹایا اور اللہ کے دیے ہوئے اعضا کو کن خرافات کو کرنے میں کام میں لایا۔ رب العزت کی نعمتوں اور احسانات کا کیا شکرانہ بجا لایا۔ اُف خدایا اس لرزہ خیز گھڑی کے لیے ہمارے دامن میں کچھ ہے بھی یا نہیں بے شک ایسا انسان خسارے میں ہے۔ خوف اللہ رب العزت کی قائم کردہ حدود کو پھلانگتا جارہا ہے وہ رب تو ایسے طاقتور کیمروں کا مالک ہے جس کا مقابلہ دنیا کے جدید سے جدید کیِمرے بھی نہیں کرسکتے وہ تو ہمارے دلوں کے رازوںسے بھی واقف ہے ایسے کیمروں سے ہمیں کوئی ڈر نہیں لگتا جس کی گواہی پر سزا بھی نا ختم ہونے والی اور سخت ترین ہوگی جس کی سختی کا کوئی پیمانہ نہیں ہوگا۔
اللہ کے اس ’’مخصوص کیمروں‘‘ کا سامنا کرنے کے لیے اللہ کے احکامات اور قائم کردہ حدود سے تجاوز کرنے سے بچنا بے حد ضروری ہے۔
ایک مرتبہ مجھ سے دہم کلاس کی ایک بچی نے سوال کیا کہ اللہ کی قائم کردہ حدود کی پیری اور پاسداری کرنے سے تو ہم میں سے ہر دوسرا شخص غافل ہے اس کے لیے بندے کو کیاکرنا چاہیے۔
بے شک ہم میں سے اکثر غافل ہیں‘ اس غفلت کی وجہ شیطان کا ہم پر غلبہ ہے۔ شیطان نے ہمیں چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے‘ اس کے وار سے بچنے کے لیے دلوںمیں رب العزت کا خوف اور ڈر و محبت لازمی کہ میرا رب مجھے ’’دیکھ رہا‘‘ ہے۔ میرا ہر عمل اس کے سامنے ہے چاہے میں دس دیواروں میں چھپ کر گناہ کروں بندوں سے تو میرا عمل چھپ سکتا ہے خدا نہیں وہ تو اپنے بندوں سے ان کی شہ رگ سے بھی نزدیک ہے۔ اس احساس کو اپنے اوپر غالب کرلیں ہم دنیا والوں کے ڈر سے تو بہت سی چیزوں اور باتوں سے باز آجاتے ہیں لیکن رب کے خوف سے برائی اور گندگی کو چھوڑنے سے قاصر ہیں۔ پچھلے دنوں ایک تاریخی سچا واقعہ نظروں کے سامنے سے گزرا یقینا آپ سب کی نظروں کے سامنے سے بھی گزرا ہوگا‘ وقعہ کچھ اس طرح تھا کہ بادشاہ وقت جب اپنی خواب گاہ میں داخل ہوا تو ایک خوب صورت خادمہ کو کمرے کی صفائی میں مشغول پایا۔ بادشاہ کی نیت خراب ہوئی‘ شیطان نے اسے بہکایا۔ خادمہ نہایت نیک اور پارسا تھی‘ بے بس ہوگئی کہا ٹھیک ہے میں راضی ہوں لیکن ایسی جگہ چلو جہاں ہم دونوںکی سوا کوئی اور نہ ہو جو ہمیں دیکھے۔ اس حاکم نے کہا یہاں تمہارے اور میرے سوا کوئی نہیں۔
خادمہ نے کہا نہیں ایک ہستی ہے جو موجود ہے تم اسے بھی روکو جو ہمیں دیکھ رہا ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کون ہے وہ جو ہماری خلوت میں موجود ہے۔ خادمہ نے کہا تیرا اور میرا رب جو ہمیں اس فعل میں مبتلادیکھ سکتا ہے۔ مجھے اس کا خوف ہے۔ حاکم پر لرزہ طاری ہوگیا اور خوفِ خدا نے جوش مارا اور شیطانی عمل سے وہ بچ گیا۔ اس نے اللہ کے حضور رو کر اپنے گناہ کی معافی مانگی۔ بے شک دل و ذہنوں میں اللہ کا تصور ہی ہم سب کو شیطانی قوتوں کے وار سے بچا سکتا ہے کہ رب العزت ہم سب کو دیکھ رہا ہے وہ ہمارے ہر عمل اور فعل سے واقف ہے آپ کے ہاتھ خود بخود اس برائی سے رک سکتے ہیں۔ برائی کی طرف بڑھتے قدم تھم سکتے ہیں۔ بچپن میں بچے ماں باپ کے ڈر سے جھوٹ اور چھوٹی موٹی چوری سے باز رہ سکتے ہیں تو کیا ایک باشعور بندہ جسے جنت جہنم‘ سزا جزا‘ دنیا اور آخرت کی حقیقت کی آگاہی ہو تو کی اوہ اپنے رب کے ڈر سے اپنے آپ کو برائی سے روک نہیں سکتا ہے۔ نماز پڑھتے اکثر ذہن میں وسوسے آتے ہیں اس وقت صرف ایک بات ذہن میں لانے سے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے میں اس کی بارگاہ میں سربسجود ہوں فوراًآپ کو شیطانی وسوسوں سے نجات مل جاتی ہے۔ یعنی گناہوں سے بچنے کے لیے اللہ کا قرب ذہن و دماغ میں بس جانا ضرری ہے اس لیے اس قرب کو حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ نماز ہے۔
اس وقت بندہ جب نماز میں سربسجود ہو کر بارگاہ الٰہی میں حاضری دیتا ہے تو اپنے ذہن و دل میں یہی بات رکھتا ہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے میں اس کے حضور سجدہ ریز ہوں۔ آپ یقین رکھیں کہ آپ اپنے آپ کو اللہ کے قریب پائیںگے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو۔‘‘ یہی احساس انسان کو برائیوں اور گناہوںسے بچا سکتا ہے۔
جیسا کہ ارشاد نبی پاک صلی الہ علیہ ہے ’’اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف) ہم دنیاوی سزائوں کے خوف سے کہ کیمرہ میں میرا غلط فعل قانون کی نظر میں آجائے گا‘ مجھے سزا کا حق دار بنایا جائے گا۔ اللہ کی نظر کے خوف سے ہم اپنے آپ کو غلط فعل (گناہ) سے بچا نہیں سکتے۔ اسی خوفِ خدا سے نہ صرف بندہ اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے بلکہ گناہوں کا استیصال ہو جاتا ہے۔
ارشاد نبیؐکا مفہوم ہے کہ جب صرف اللہ کے ڈر سے مومن بندے کے رونگٹے کھڑے ہیں تو اس کے تمام گناہ ایسے جھڑتے ہیں جسے سوکھے درخت سے تمام پتے جھڑ جاتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مومن کی آنکھوں سے محض اللہ کے ڈر سے آنسو نکلے خواہ مکھی کے سر کے برابر ہی ہو‘ اس پر دوزخ کی آگ حرام ہوتی۔‘‘ (ابن ماجہ)
صحابہ کرام اجمعینؓ جن میں کئی کو جنت کی بشارت دنیا میں نصیب ہو چکی تھی (سبحان اللہ) لیکن اس کے باوجود ان کے دل خدا کے خوف و ڈر سے لرزتے رہتے تھے کہ کہیں ہم سے کوئی غلطی نہ سرزد نہ ہو جائے۔ وہ بارگاہ الٰہی میں زاروقطار آنسو بہاتے اگر کہیں غلطی سے یا انجانے میں کسی صحابیؓ سے کوتاہی ہو جاتی تو بڑے نادم ہوتے اور رو رو کر اس کوتاہی کی اللہ سے معافی مانگتے۔ بعض صحابہؓ کے واقعات میں غلطی کا سبب یا کوئی کی وجہ جو شے نظر آتی اس شے کو اللہ کے حضور پیش کر دیتے یا اس شے سے کنارہ کشی کرنا افضل سمجھتے۔ حضرت کعبؓ کے واقعے سے ہم سب مسلمان واقف ہیں۔ جنگ تبوک میں کثیر مال و اسباب کے باوجود شرکت میں سستی سرزد ہوئی تو تمام زندگی اس پرملال و رنج کا اظہار کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کرامؓ کے ساتھ تبوک سے واپس آئے تو حضرت کعبؓ کو بعض رشتے داروں نے مشورہ دیا کہ تبوک میں شرکت نہ کرنے پر کوئی فرضی عذر آپؐ کے سامنے پیش کر دینا لیکن سبحان اللہ‘ اللہ کے ان نیک بندوں پر رشک آتا ہے وہ جانتے تھے کہ اللہ تو حقیقت سے واقف ہے لہٰذا خوفِ خدا کی بدولت سچ فرمایا۔ اس واقعے کے بارے میں حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کہ جب آپؐ نے پوچھا کہ تجھے کس چیز نے روکا تو میں نے جواباً عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں کسی دنیا دار کے پاس اس وقت ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ اس کے غصے سے معقول عذر پیش کرکے خلاصی پا لیتا کیونکہ مجھے بات کرنے کا سلیقہ اللہ نے بخشا ہے لیکن آپؐ کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ اگر آج جھوٹ سے آپ کو راضی کرلوں تو قریب ہے اللہ جل جلالہ مجھ سے ناراض ہوں گے اور اگر آپ سے صاف صاف عرض کردوں تو آپؐ کو غصہ آئے گا لیکن قریب ہے کہ اللہ کی پاک ذات آپؐ کے عتاب کو زائل کردے اس لیے تمام صحیح حقیقت بیان کر دی ہے۔ 50 دن تک جب تک رب الکریم کی طرف سے معافی نہ آئی توبہ قبول نہیں ہوئی حضرت کعبؓ اور دو صحابہ کرامؓ جن کے ساتھ بھی تقریباً ایسے ہی حالات پیش آئے تھے‘ بڑی تنگی اور تکلیف کے دن گزارے کہ اللہ بھی ناراض اور اللہ کا محبوب (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) بھی جب اللہ نے آپؓ تینوں کی توبہ قبول فرمائی اور معاف فرمایا تو حضرت کعبؓ نے اپنا تمام مال و اسباب راہِ خدا میں تقسیم کر دیا کہ اسی زر کی وجہ سے میں اس مصیبت میں مبتلا ہوا۔
آج ہم مسلمان اپنی طرف سے دل میں بہت سے عذر گھڑ لیتے ہیں اور عبادات اور حقوق العباد کی ادائیگی میں حق تلفی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے احکامات پر پابندی سے عمل پیرا ہونے والے ہی دنیا و آخرت کا اجر حاصل کرنے کے مستحق ہوتے ہیں۔
اپنی اولاد کی تربیت میں اسی امر کو لازمی بنائیں کہ ’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘ ہمارا عمل اس کے سامنے کھلی کتاب ہے اس کے کیمرہ کی آنکھ سے ہمارا ظاہر و باطن کچھ بھی پوشیدہ نہیں وہ ان کیمروں میں محفوظ ہماری کارکردگی کے مطابق سزا دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ یقینا جب بچوں کی تربیت میں یہ شے بار بار ذہن نشین ہوگی تو آنے والے وقت میں وہ بھی اس بات کا خیال رکھیں گے پوری کوشش کریں گے کہ رب کے احکامات کی حدود کو پار نہ کریں اور جس نے اس بات کے مطابق زندگی کو گزارنے کی کوشش کی تو یقینا اس کی دنیا و آخرت سنور جائے گی‘ اس کا رب اس سے راضی ہو جائے گا۔