حبیب جالب مزاحمتی شاعری کا اہم نام ہے‘ میر حاصل بزنجو

823

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ممتاز سیاست دان میر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جدوجہد کرنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اگرچہ وہ ظاہری طور پر دنیائے فانی سے چلے جاتے ہیں ان کے کارنامے‘ ان کی خدمات ہمارے ذہن و دل پر نقش ہو جاتی ہیں اور تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے حبیب جالب کی 26ویں برسی کے موقع پر منعقدہ جلسے کے دوران بحیثیت مہمان خصوصی اپنے خطاب میں کیا جس کی صدارت جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کی اور نظامت کے فرائض سعید پرویز نے انجام دیے۔ دیگر مقررین میں مسلم شمیم ایڈووکیٹ‘ ڈاکٹر جبار خٹک‘ عقیل عباس جعفری‘ رمضان میمن‘ کرامت علی‘ فیصل ایدھی‘ ناصر منصور‘ عمر بلوچ‘ منظور رضی‘ توقیر چغتائی‘ ناصر جالب اور شیخ مجید شامل تھے۔ اس موقع پر 12 واں حبیب جالب امن ایوارڈ کامریڈ جام ساقی (مرحوم) کے لیے تھا جو کہ ان کے صاحبزادے سجاد ظہیر نے وصول کیا۔ میر حاصل بزنجو نے مزید کہا کہ حبیب جالب ایک نظریاتی آدمی تھے انہوں نے سرمایہ داروں‘ وڈیروں‘ نوکر شاہی اور جاگیرداروں کے خلاف آواز بلند کی انہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو منظوم کیا۔ حبیب جالب کے بارے میں تمام مقررین کی متفقہ رائے یہ تھی کہ وہ استحصالی قوتوں کے خلاف نبرد آزما رہے ان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی وہ مظلوموں کی آواز تھے انہوں نے معاشرے کی طبقاتی کشمکش پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے مزدوروں کے حقوق کی بات کی۔ انہوں نے اربابِ اقتدار کے منافقانہ روّیوں کو بے نقاب کیا‘ وہ اصول پسند تھے اور میرٹ کی بنیاد پر لوگوں کو بڑھانا چاہتے تھے۔ وہ انجمن ستائش باہمی کے مخالف تھے‘ وہ حکامِ وقت کو آئینہ دکھاتے تھے‘ ان کی شاعری مزاحمتی شاعری تھی انہوں نے اپنے قلم سے تلوار کا کام لیا انہوں نے حقائق بیان کیے وہ معاشرے میں امن وامان کے حامی تھے وہ پاکستان میں ایک فلاحی مملکت بنانا چاہتے وہ ایسے معاشرے کے طلب گار تھے جہاں ہر شخص کو جینے کا حق حاصل ہو۔ وہ آج ہم میں نہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

حصہ