ایمان کی حفاظت

846

سیدہ عنبرین عالم
عمران آخرکار اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ روانہ ہوگیا۔ کس طرح وہ اس عیاشی کا متحمل ہوسکا تھا، یہ اس کا دل ہی جانتا تھا۔ وہ تو ایک ریسٹورنٹ میں ڈش کلینر کی ملازمت مل گئی، خرچے پورے ہونے لگے، ورنہ جو رقم ابو پاکستان سے بھیجتے تھے اُس میں صرف پڑھائی کا ہی خرچا پورا ہوتا تھا۔
’’بیٹا! باہر کی ڈگری ہوگی تو اچھی ملازمت مل جائے گی، اپنی چار بہنوں کو بھی تمہیں ہی رخصت کرنا ہے۔‘‘ ابو نے روانگی کے وقت کہا تھا۔
کالج کا ماحول کچھ عجیب سا تھا، جو طالب علم ایشین بیک گرائونڈ کے تھے، وہ بھی عمران سے کتراتے تھے۔ ایک مسلم طالب علم نے بتایا کہ یہ سب تمہارے حلیے کی وجہ سے ہے، سب سے پہلے داڑھی سے جان چھڑائو یا اسٹائلش داڑھی رکھو، پھر سر سے ٹوپی بھی اتار دو۔ عمران کا تعلق دیندار گھرانے سے تھا، وہ ہچکچایا اور اپنے ابو سے مشورہ طلب کیا۔ ابو فون پر بولے ’’بیٹا جیسا دیس ویسا بھیس، اللہ نہ کرے تمہارے حلیے کی وجہ سے تم پر حملے شروع ہوجائیں۔ مغربی ملکوں میں اسلامی حلیہ شامت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔‘‘
گورا چٹا تو عمران پہلے ہی تھا، اب حلیہ بھی مغربی بنا لیا۔ بالکل انگریز لگنے لگا تھا، لیکن جو طور اطوار انگریزوں کے تھے وہ چاہ کر بھی نہ اپنا سکا۔ ہر لڑکی کو بہن کہہ بیٹھتا، بیئر تک نہ پی پاتا۔ پارٹیوں میں جاتا تو کونے میں بیٹھا رہ جاتا، ڈانس کرنا اسے بہت معیوب لگتا، کھانے کی ہر چیز پر شک کرتا کہ جانے حلال ہے یا حرام۔ یوں وہ کوشش کے باوجود گھل مل نہ سکا، وہاں کے انڈین اور پاکستانی بھی اتنے غیر شرعی کام کرتے تھے کہ عمران اُن کا ساتھ بھی نہ دے سکا۔
عمران ایک دن کینٹین میں بیٹھا کیلے کھا رہا تھا کہ ایک انگریز لڑکا اس کے پاس آیا ’’بُرو! تم یہ روز کیلے اور سیب کیوں لاتے ہو، کینٹین میں بہت کچھ کھانے کو مل جاتا ہے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
عمران صحیح بات بتاتے ہوئے ہچکچایا، پھر بولا ’’بھائی میں مسلم ہوں، کینٹین کا کھانا جانے کیسے بنا ہے، میں صرف حلال کھا سکتا ہوں، اس لیے خود کھانا بناتا ہوں یا پھل کھاتا ہوں۔‘‘
’’مگر یہاں تو بہت سے مسلم ہیں، ان کی غیر مسلم گرل فرینڈز بھی ہیں، وہ ہمارے ساتھ کھاتے پیتے ہیں، ہماری ہی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ تم کیا بہت خاص ہو؟‘‘ اس نے طنزیہ سوال کیا۔
عمران جو انگریزوں سے بات کرتے ہوئے پہلے ہی گھبراتا تھا، اور گھبرایا ’’نہیں میں بھی آپ جیسا انسان ہوں، بس میرے مذہب میں کچھ پابندیاں ہیں‘‘۔ وہ بولا۔
’’تو کیا اگر میں تمہیں دھمکی دوں کہ اگر تم آئندہ کینٹین کے کھانے کے سوا کچھ حلال کھائو، تو میں تمہیں ماروںگا، تو کیا تم حلال فوڈ چھوڑ دو گے؟‘‘ انگریز لڑکا عمران کا گریبان پکڑتے ہوئے بولا۔
عمران جانتا تھا کہ جھگڑا ہوا تو ہر کیس عمران کے خلاف بنے گا۔ ’’جی چھوڑ دوں گا‘‘ وہ منمناتا ہوا بولا اور دل میں سوچا کہ کالج میں کچھ کھائوں گا ہی نہیں۔
انگریز لڑکا زور زور سے قہقہے لگانے لگا ’’ہاں! تم مسلمان انگریزوں کی طرح بننے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہو، ہم کو برا سمجھتے ہو مگر ہماری نقل کرنے، داڑھی ٹوپی سے لے کر حلال کھانے تک کچھ بھی چھوڑ سکتے ہو، تم ایک دن اپنے خدا کو سجدہ کرنا بھی چھوڑ دو گے صرف اس لیے کہ مغربی لوگ خدا کو سجدہ نہیں کرتے، تمہارا ایمان صرف ہماری نقل کرنا ہے۔ میری مانو، یہ اسلام کا لیبل اپنے ماتھے پر سے اتارو اور کھل کر خود کو غلام بولا کرو‘‘۔ وہ ترش لہجے میں کڑوی کسیلی باتیں سناکر اور ایک مُکّا عمران کی ناک پر مار کر چلتا بنا۔
عمران اپنے ساتھ ہونے والے کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع کبھی پاکستان نہیں دیا کرتا تھا، وہ اپنے والدین اور بہنوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا، اس نے تو یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ ریسٹورنٹ میں جھاڑو پونچھے اور باتھ روم دھونے کا کام کرتا ہے۔ عمران نے اس لڑکے کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرلی تھیں، اس کا نام ایرک گرانٹ تھا، وہ عام سا طالب علم تھا، لیکن فٹ بال میں جانا مانا تھا۔ اس کا گھر کسی دوسرے شہر میں تھا، اور وہ لندن میں کسی ہاسٹل میں رہتا تھا۔ اس کے دوستوں کا ایک گروپ تھا جو روز شام میں باقاعدگی سے فٹ بال کھیلتا تھا۔ اب وہ عمران کے پیچھے کیوں پڑ گیا تھا، یہ بات وہ کسی طرح معلوم نہ کرسکا۔
پھر ایک روز عمران لائبریری گیا تو ایرک وہاں پہلے سے موجود تھا، جھٹ اٹھ کر آیا اور عمران کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ’’تمہیں معلوم ہے میں لندن میں پڑھائی کرنے کیوں آیا ہوں؟‘‘ عمران سٹپٹایا کہ پھر مصیبت گلے پڑ گئی۔
’’بھائی آپ کی مرضی، کہیں بھی جائو۔‘‘ وہ بولا۔
ایرک گرانٹ ہنسنے لگا ’’میں اس لیے آیا ہوں تاکہ فزکس میں ریسرچ کرکے اپنے ملک برطانیہ کو فائدہ پہنچائوں، پھر ہم جو چیز ایجاد کریں گے اس سے پوری دنیا فائدہ اٹھائے گی۔‘‘ وہ بولا۔
’’اچھا ارادہ ہے، خدا آپ کو کامیاب کرے، میری نیک خواہشات…‘‘ عمران نے رسمی سا جواب دیا۔
’’اور پتا ہے تم کیوں آئے ہو؟ تاکہ تم پڑھ لکھ کر بہت سارا پیسہ کما سکو، تم تو شاید اپنے ملک واپس بھی نہ جائو، تم جیسے گھٹیا ملک کے رہنے والوں کے تو برطانیہ دیکھ کر ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں تم ہمارے کموڈ دھونے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہو۔ دیکھ لینا تم کبھی واپس نہیں جائو گے، ہمارے جوتے چاٹو گے کیونکہ اسی کام کے تمہیں پیسے ملیں گے اور تم لوگ پیسے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہو، کیونکہ تم مسلمان ہو، وہ مسلمان جو کچھ ایجاد نہیں کرسکتے، وہ مسلمان جو غدار اور کرپٹ ہوتے ہیں،، وہ مسلمان جو مغرب کو خوش کرنے کے لیے اپنے حافظ بچے مار دیتے ہیں۔‘‘ وہ مدھم آواز میں سب کچھ بول گیا اور پھر حسبِ روایت ایک مُکّا عمران کی ناک پر مارکر لائبریری سے چلا گیا۔
عمران اندر ہی اندر غصے سے کھول رہا تھا، اس کا دل کرتا تھا کہ اس ایرک گرانٹ کو اتنا مارے کہ اس کے سارے دانت ٹوٹ جائیں، اس نے کالج کی انتظامیہ سے شکایت کرنے کا سوچا، مگر وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ ایک سیکنڈ کلاس سٹیزن ہے، انگریزوں کے ملک میں انگریز کے بجائے ایک پاکستانی مسلم کی بات نہیں رکھی جائے گی، یہ نہ ہو کہ آتے جاتے ایرک گرانٹ کے سارے دوست مل کر اسے ہی فٹ بال بنا ڈالیں۔ مسلمانوں کی بات بے بات پٹائی کرنا، ہڈیاں توڑنا یہاں معمولی سی بات تھی۔
اس واقعے کے تین دن بعد وہ اپنی کلاس لے کر باہر نکلا تو اسے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا۔ جی، پھر ایرک گرانٹ۔ ’’کیسے ہو دوست؟ کینٹین نہیں جارہے آج کل؟‘‘ وہ خوش گوار لہجے میں بولا۔
عمران کی ناک میں پہلے سے ہی ٹیسیں اٹھنا شروع ہوگئیں ’’تم چاہتے کیا ہو؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ میں تو تمہیں جانتا تک نہیں۔‘‘ عمران نے کہا۔
’’تو کیا تم کو میرا سلوک برا لگتا ہے؟ ہم انگریز تو اپنے غلاموں سے ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ اگر تمہیں اعتراض ہے تو برطانیہ چھوڑ کر چلے کیوں نہیں جاتے؟‘‘ ایرک گرانٹ نے پوچھا۔
عمران کی آنکھوںکے آگے چار بہنوں کی شکل گھوم گئی، ایک ایک کو پانچ پانچ لاکھ روپے کا جہیز دیتا تو بھی 20 لاکھ روپے چاہیے تھے، جو وہ پاکستانی ڈگری کے ساتھ نہیں کما سکتا ہے، ایم بی اے اور ایم ایس سی کرکے بھی لڑکے جوتے چٹخا رہے تھے، وہ کون سا تیر مار لیتا! ورنہ کون کم بخت اپنوں سے دور، پرائے دیس میں یوں غیروں کے ہاتھوں ذلیل ہوتا ہے! ’’تم نہیں جائو گے، کیونکہ تمہیں دولت چاہیے۔‘‘ ایرک گرانٹ نے سفاکی سے دو نوٹ اس کے چہرے پر مارے، پھر ایک مُکّا اس کی ناک پر مارا ۔ ’’روز ایک مکا اپنی ناک پر کھائو اور میں اس کے بدلے 10پائونڈ دوں گا۔ یاد رکھنا کہ میں بغیر پیسے دیے بھی مار سکتا ہوں، لیکن تم جیسے لالچیوں کے لیے یہ آفر ہے۔‘‘ وہ مسکراتا ہوا بولا۔
ایک شام عمران پارک میں بیٹھا تھا، اس کی آنکھوں سے بے بسی کے آنسو بہہ رہے تھے، اس کا بس چلتا تو پَر لگا کر اڑتا اور پاکستان پہنچ جاتا۔ اچانک اس کے سامنے پاپ کارن کا ایک پیکٹ آیا، نظر اٹھاکر دیکھا تو ایرک گرانٹ۔ ’’عمران تم رو کیوں رہے ہو، لو پاپ کارن کھائو۔‘‘ وہ بولا۔ ایرک شکل سے بہت شرمندہ لگا، اس نے جوس کا ایک ڈبا بھی عمران کو دیا۔
’’عمران جب تم پہلی دفعہ کلاس میں آئے، نماز کے لیے بے چین ہوئے، کھانے کو حلال رکھنے کے لیے پریشان ہوئے، ڈینس کی پارٹی میں اسموکنگ اور ڈرنکنگ سے گھبرائے تو میرے ذہن میں مسلمان کا پہلی دفعہ صحیح امیج ابھرا، ورنہ یہاں کے مسلمان بس اسی وقت ایمان دکھاتے ہیں جب ان کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کچھ کہہ دو، ورنہ ہماری طرح ہی ہوتے ہیں، اور عرب تو اتنے ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ 20 گرل فرینڈ رکھی ہوتی ہیں، تم جس طرح لڑکیوں سے دور رہتے، ان کی عزت کرتے، وہ بہت اچھا لگتا تھا۔ ایک دن میں نے سوچا کہ تمہیں دوست بنا لوں، جب میں تمہارے پاس آیا تو تمہاری داڑھی ٹوپی غائب، پھر تم نے ایک لڑکی سے ہاتھ بھی ملایا۔ بس تمہارا جو خاکہ میں نے اپنے ذہن میں بنایا تھا وہ ٹوٹ گیا، تم بھی ویسے ہی مسلمان نکلے جس کا دل صرف پیسے پر دھڑکتا ہے، تمہاری زندگی کا بھی مقصد صرف دولت ہے، میرا دل ٹوٹ گیا۔‘‘ ایرک گرانٹ نے تفصیل سے بتایا۔
’’تم مجھ سے بات تو کرتے، میں تمہیں بتاتا کہ میری کیا مجبوری ہے؟‘‘ عمران نے افسردگی سے کہا۔
’’آیا تھا، میں تم سے اسلام سیکھنا چاہتا تھا، میں نے سنا تھا کہ مسلمان کی کوئی مجبوری نہیں ہوتی، محمد عربیؐ تو بھوک سے بھی مجبور نہیں ہوئے، پیٹ پر پتھر باندھ لیتے، بلال حبشیؓ کو اتنا مارا گیا کہ ان کی چربی نکل آئی، وہ تو مجبور نہیں ہوئے، کئی صحابہؓ کو جان سے مار دیا گیا مگر انہوں نے تو یہ نہیں کہا کہ میں حلال فوڈ چھوڑ دوں گا مجھے مت مارو، یہ بات تم نے کہی تھی جب میں تم سے بات کرنے آیا تھا۔ پھر میں کیا بات کرتا عمران؟ کچھ بچا ہی نہیں تھا۔‘‘ ایرک نے جواب دیا۔
عمران کو ناک پر مُکّا لگنے سے کبھی اتنی بے عزتی محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہورہی تھی۔ ’’ایرک میری چار بہنیں، بوڑھے ماں باپ، کرائے کا گھر…‘‘ وہ اپنی مجبوریاں سنانے لگا۔
’’بکواس بند کرو۔ تم مسلمان بس مجبوریوں کا راگ الاپتے رہو، دراصل تمہارا ایمان کمزور ہے، مجبوری کا نام لے کر ایمان پر ہر قسم کا سمجھوتا کرلیتے ہو، اور یہی تم لوگوں کے زوال کا سبب ہے، تم اپنے نبیؐ کی سنت پر چل ہی نہیں سکتے۔ محمد عربیؐ کی دو بیٹیاں ابولہب کے گھر تھیں جن کو طلاق کا خطرہ تھا، وہ تو اپنے دین سے نہیں ہٹے، طلاقیں ہوگئیں پھر بھی وہ دین پر مستحکم رہے۔ محمد عربیؐ کا طریقہ تو یہ تھا کہ دین کا نفاذ کرنے کے لیے الگ خطۂ زمین پر چلے گئے، کافروں کے ساتھ رہنا ناپسند کیا۔ وہ بھی کافروں سے گھل مل کر امن و عافیت سے رہ سکتے تھے۔ اور تم لوگوں کا طریقہ ہے کہ بہنوں، بیٹیوں کی خاطر کافروں کے پاس دولت کمانے چلے جاتے ہو، جہاں برہنہ عورتیں، شراب، حرام کھانے، ہر چیز سے تمہارا واسطہ پڑتا ہے۔ صحابہؓ نے تو دولت کی خاطر ہجرت نہیں کی، وہ بھوکے رہتے مگر اپنا ایمان کسی قیمت پر بیچنے کو تیار نہیں تھے۔‘‘ ایرک گرانٹ نے کہا۔ یقینا وہ اسلام کا گہرا مطالعہ رکھتا تھا۔
’’میں تو علم کے لیے آیا ہوں، اور میں یہاں کے ماحول کو بالکل قبول نہیں کرتا۔‘‘ عمران نے کہا۔
’’جھوٹ مت بولو، تم دولت کے لیے آئے ہو، تم ماحول کو قبول نہیں کرتے مگر تمہارے بچے کریں گے جب تم یہاں کھونٹا گاڑ کر بیٹھنے کے لیے کسی انگریز عورت سے شادی کرو گے۔ تم کتنا بھی جھوٹ بولو، میں جانتا ہوں کہ تم لوگ دولت کے لیے اپنا ایمان، دین، آخرت تو برباد کرتے ہی ہو، اپنی نسلیں بھی برباد کرلیتے ہو۔ میں نے قسم کھائی ہے کہ ایک مسلمان بھی مجھے بالکل اسلامی تعلیمات والا مل گیا تو میں مسلمان ہوجائوں گا۔ مگر سب ہم سے بھی بدتر ہیں… جھوٹے، دھوکے باز، کاہل، غدار اور ہوس کے مارے ہوئے۔ تمہیں یہ بھروسا ہے کہ دولت ہوئی تو تمہاری بہنیں خوش رہیں گی، مگر اللہ پر بھروسا نہیں ہے جس نے بی بی فاطمہؓ کو شدید غربت میں علی کرارؓ جیسا صالح شوہر دیا۔ تم کیسے مسلمان ہو؟‘‘ ایرک گرانٹ نے جواب دیا، عمران کی ناک پر ایک مُکّا مارا اور پارک سے باہر کی طرف چل پڑا۔
…………
عمران پاکستان واپس آچکا تھا، اس کے ابو سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ’’ابو! میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی کہ مسلمانوں کی الگ بستی میں اسلامی طریقے سے رہیں۔ آپ نے انڈیا سے پاکستان ہجرت کی کہ مسلمانوں کی الگ بستی ہو، کافروں سے پالا نہ پڑے، اُن کی ثقافت ہم سے دور رہے۔ اب میں صرف دولت کے لیے جاکر کافروں کی بستی میں رہوں تو کیا سنت سے انحراف نہ ہوگا؟‘‘ عمران نے پوچھا۔
’’اپنا فلسفہ بند کرو، تمہاری بڑی بہن کی ساس تاریخ مانگ رہی ہیں، انہیں کیا جواب دوں! تمہارا فلسفہ سنا دوں یا تمہاری بہنوں کو سمندر میں دھکا دے دوں؟‘‘ ابو چنگھاڑ کر بولے۔
’’کہہ دیجیے کہ اسلام میں جہیز نہیں ہوتا، حضرت فاطمہؓ کو جو سامان دیا گیا وہ اس لیے تھاکہ حضرت علیؓ کے ولی بھی پاک نبیؐ ہی تھے، ورنہ حضرت علیؓ ہی انتظام کرتے، اور کسی بیٹی کو پیارے نبیؐ نے جہیز نہیں دیا… اپنی حیثیت کے لوگوں میں رشتے کریں، جو ہم دیں، اسی کو قبول کرسکیں۔ مال و دولت خوشی کی ضمانت نہیں ہوتا، بڑے بڑے جہیز لے جانے والیاں بھی لوٹ آتی ہیں، اور دو جوڑوں میں جانے والیاں بھی راج کرتی ہیں۔ اللہ پر بھروسا کریں، اللہ کوئی سبیل نکالے گا۔‘‘ عمران نے اپنے والد کو سمجھایا۔
اپنی مختصر جمع پونجی میں عمران نے اپنی بی کام کی ڈگری سائیڈ میں رکھ کر ڈھنگ کی نوکری ملنے تک ایک مصروف شاہراہ پر بن کباب بیچنے شروع کردیے، جو دیکھتا لعن طعن کرتا کہ لندن پلٹ لڑکا کیا کام کررہا ہے! مگر عمران اپنے ٹھیلے پر لکھوا رکھا تھا کہ’’رزقِِ حلال میں شرم نہیں‘‘۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ برہنہ ٹانگوں، شراب اور دیگر خرافات سے دور اپنے پاک دیس میں ہے، وہ آج دل سے قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کا احسان مند تھا۔

حصہ