رمضان اور ہم

1063

افروز عنایت
حصہ دوم
اس مضمون کے پہلے حصے میں مَیں نے رمضان میں چھ امور کا اہتمام کرنے کا ذکر کیا ہے جن پر عمل پیرا ہوکر بندہ ایسے روزے رکھنے کا متحمل ہوپاتا ہے جو بارگاہِ الٰہی میں قابلِ قبول ہوں اور جن کو احادیثِ نبویؐ کی روشنی میں اجر وثواب کا مستحق کہا گیا ہے۔
ان امور کو مدِنظر رکھ کر رمضان سے پہلے ہی اپنے رمضان کے معاملات کے لیے منصوبہ بندی کرنے سے نہ صرف آسانیاں میسر آتی ہین بلکہ منظم طریقے کے ساتھ اپنی عبادات کو سر انجام دے سکتے ہیں۔
عید کی تیاری چاہے اپنے لیے کرنی ہو یا دوسروں کے لیے، عید سے پہلے کرلیں، یہ نہ ہو کہ رمضان کے قیمتی لمحات بازاروں اور شاپنگ کی نذر کردیں، یا ٹیلر کے چکر لگاتے رہیں۔ اسی طرح گھر کے راشن اور اشیاء خور و نوش، سحر و افطاری کے لوازمات کی خریداری بھی رمضان سے پہلے ہوجائے۔ اسی طرح ذہن میں رکھیں کہ آپ کو ٹی وی کی نشریات کا کم از کم ان قیمتی لمحوں میں تو بائیکاٹ کرنا ہے۔ آپ یقین کریں کہ نہ صرف آپ ان لہو و لعب اور فضولیات سے کنارہ کش رہیں گے بلکہ آپ کو عبادت کرنے کے لیے بہترین وقت میسر آجائے گا، سکون سے اپنی تسبیحات اور تلاوتِ قرآن پاک کے لیے وقت مل جائے گا۔ ہم اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کی طرح ایک دن میں دس بارہ پارے گرچہ تلاوت نہ کرپائیں گے، مگر دو تین پارے آسانی سے تلاوت ہوسکتی ہے۔ اس طرح فرض عبادات کے ساتھ نوافل کا اہتمام کرنے کے لیے بھی وافر وقت میسر آسکتا ہے۔ خواتین کی افطار و سحری کی تیاری کے لیے اس سے پہلے بھی میں کئی مرتبہ اپنے مضامین میں لکھ چکی ہوں۔ منصوبہ بندی سے کام لیں، بہت سی اشیاء بآسانی رمضان سے پہلے تیار کرکے فریز کرسکتی ہیں جو زیادہ نہ سہی ایک ہفتے تک آسانی سے کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں مثلاً سموسے، رول، شامی کباب، چھولے ابال کر رکھنا۔ ایک ہفتے کے لیے گوشت خرید کر اسے صاف کرکے الگ الگ تھیلیوں میں فریز کردیں کہ ایک وقت میں ایک تھیلی نکالیں۔ شربت کے لیے شیرہ تو پورے مہینے کے لیے بناکر رکھا جاسکتا ہے۔ لہسن ادرک کا پیسٹ بھی دو ہفتے تک چل جائے گا۔ املی کی چٹنی دو تین دن کے لیے کافی ہوتی ہے۔ غرض ان باتوں کا خیال رکھ کر ہم رمضان میں خاصا وقت اللہ کی حمد و ثنا کے لیے نکال لیتے ہیں، اور جب بھی خواتین گھر کے کام کاج میں مصروف ہوں تو باوضو رہیں اور زبان پر کلمۂ طیبہ، استغفار، درود، حمدوثنا کا ورد جاری رکھیں۔ رمضان میں کی گئی اس کوشش سے آپ اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ رمضان گزرنے کے بعد بھی آپ کی زبان پر اللہ کا ذکر جاری رہتا ہے۔ اس مرتبہ میرے اس آزمودہ طریقہ کار پر عمل کرکے دیکھیں، اجر بھی اور دل کا سکون بھی میسر ہوگا۔ اٹھتے بیٹھتے آپ اپنے رب کا ذکر لبوں پر جاری رکھ سکتے ہیں جیسا کہ اللہ کے نبیؐ کا فرمان ہے کہ (حدیث کا ایک حصہ) ’’اور چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھو جن میں دو چیزیں اللہ کی رضا کی خاطر اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تمہیں چارہ کار نہیں، پہلی دو چیزیں کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو‘‘۔
اللہ رب العزت کے ذکر کو معمول بنا لیں کہ آپ کے پاس فضول گفتگو کی سوچ بھی ذہن میں نہ رہے۔ بعض لوگ رمضان میں وقت گزاری کے لیے دوستوں و عزیزوں سے فون پر فضول باتوں میں دو دو گھنٹے صرف کرلیتے ہیں، پھر زبان ایسی چل پڑتی ہے کہ جھوٹ، غیبت، چغلی جیسی برائیاں اس زبان سے سرزد ہوجاتی ہیں۔ بے شک دوست و احباب کا حال احوال معلوم کرنا بھی اچھی بات ہے لیکن محدود… اعتدال کے ساتھ، فضول گفتگو سے پرہیز کرکے، تاکہ نہ سننے والا گنہگار ہو اور نہ آپ۔ بیشک روزہ آپ کے تمام اعضاء کو برائیوں سے بچانے کا نام ہے۔ آپ نے اگر اپنے آپ کو ان فضولیات سے بچایا تو یقینا آپ اجرو ثواب کے مستحق ہیں۔ دینِ اسلام ہمیں حرام و حلال سے روشناس کراتا ہے۔ حرام سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ انسان اپنے اندر رمضان میں تمام خوبیاں پیدا کرلے یعنی صبر و تحمل، حقوق العباد کا خیال، فضولیات سے بچنا۔ لیکن اگر ایک نوالہ بھی حرام کا افطار و سحری میں لے لیا تو اجر سے دامن خالی رہے گا۔ رزقِ حلال کی دین اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔ حلال رزق میں چاہے آپ کا پیٹ پورا نہ بھرے پھر بھی سکون ہے، اجر ہے، برکت ہے۔ مجھے آج سے کئی سال پہلے کسی بندے نے (قریبی عزیز) کہا کہ آپ اپنے شوہر کی طرح کمانے میں سر کھپاتی ہیں، دوسروں کے بچوں پر وقت صرف کردیتی ہیں، گھر سے نکلنا پڑتا ہے، آپ کے شوہر کی ملازمت ایسی ہے کہ گھر بیٹھے آپ ’’عیش‘‘ کرسکتی ہیں‘‘۔ میں نے بڑے تحمل سے اس عزیز سے کہا کہ یہ رزق حلال حکم الٰہی ہے، میرے دنیا میں سکون کی وجہ بھی ہے۔ بیشک اس بات کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں، میں اپنے رب کے کرم و انعامات کی برکھا سے فیض یاب نہ صرف خود ہورہی ہوں بلکہ میری اولاد بھی… کیونکہ رزقِ حلال سے پلنے والی اولاد نہ صرف نیک و صالح ہوتی ہے بلکہ بندے کے لیے صدقۂ جاریہ بھی ثابت ہوتی ہے، اور سبحان اللہ ماہ رمضان میں اس امر کا اہتمام کیا جائے تو کیا کہنے۔ انعامات و اکرام کی اپنے رب کی طرف سے بارش ہی بارش ہے۔ پھر اس رزقِ حلال سے اللہ کے بندوں پر خرچ کریں تو یہ آپ کا اُن پر احسان نہ ہوگا بلکہ رب کریم نے آپ کو امین بناکر اُن کا کچھ حصہ آپ کی تحویل میں دیا ہے کہ اب یہ امانت ان مستحقین تک پہنچائیں (سبحان اللہ)۔ اس ماہ مبارک میں اپنا دامن دنیا و آخرت کی خوشیوں سے بھرنا چاہتے ہیں تو بغیر نمود و نمائش و ریا کاری کے دل کھول کر خرچ کریں۔ ایک ہاتھ سے دیں گے تو اللہ نہ صرف اس نیکی کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ دے گا بلکہ ستّر گنا رزق میں اضافہ کرے گا۔ وہ ایسے ایسے دروازے آپ پر وا کرے گا کہ آپ خود حیران ہوجائیں گے۔ وہ بڑا کارساز ہے، مسبب الاسباب ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ ماہِ رمضان میں عام دنوں کی نسبت خوب صدقات و خیرات، ہدیہ اور زکوٰۃ کا اہتمام کرتے تھے۔ اپنے ماتحتوں، غلاموں سے نرمی برتتے، ان کے کاموں کا بوجھ ہلکا کرتے۔ دینِ اسلام دوسروں کے ساتھ بھلائی و احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔ زمین والوں پر رحم کرنے سے اوپر والا آپ پر رحم فرمائے گا، آپ کے راستے کے کانٹے اور تکلیفیں ہٹائے گا اور پھر آخرت کے اجرِ عظیم کا تو وعدہ ہے اس ذاتِ کریم کا۔ یہی عادت اپنے بچوں میں بھی شروع سے ہی پیدا کریں کہ اُن کا ہاتھ دینے والا بنے، لینے والا نہیں۔ خصوصاً عید و رمضان وغیرہ پر اپنے بچوں کے ہاتھوں سے ملازمین کے بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے تحفے دینے کی عادت بنائیں۔ عدینہ (میری سات سالہ پوتی) تین سال سے ماسی کی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے عید پر چوڑیوں اور بالوں کے کلپ وغیرہ کے تحفے دیتی ہے۔ شروع میں مَیں نے اُسے اس بات کی ترغیب دلائی، اب وہ خود سے ہی رمضان سے پہلے یاددہانی کرواتی ہے۔
دینِ اسلام میں افطاری کروانے کی بھی بڑی فضیلت ہے چاہے آپ ایک کھجور سے ہی کسی کا روزہ کھلوائیں۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اس مہینے میں کسی روزے دار کو افطار کرائے گا اس کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا روزہ دار کو ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہو۔ (سبحان اللہ)
یعنی اس ماہِ مبارک میں اجرو ثواب کی برکھا برس رہی ہے، بدنصیب ہے وہ شخص جو اس ماہِ مبارک کی برکتوں سے اپنا دامن نہ بھر سکا۔ مجھے اپنے بچپن کی ایک بات یاد آگئی کہ آس پڑوس سے تقریباً ہر دوسرے دن افطاری آتی اور اماں بھی اس کا اہتمام کرتیں کہ پڑوسیوں کو افطاری بھیجیں۔ بلکہ بابا کے گارمنٹ کے کارخانے میں دو تین لڑکے گائوں کے بھی تھے جو رمضان میں روزہ رکھتے لیکن باہر کا کھانا (ہوٹلوں کا کھانا) ان کا پیٹ خراب کرتا تھا، لہٰذا اماں کا پورے رمضان میں یہ معمول تھا کہ ان کے افطار اور کھانے کا سامان بڑی چاہت سے کارخانے بھجواتیں۔ پڑوس میں رہنے والا ایک صاحبِ حیثیت گھرانہ تھا، وہ کسی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے تھے لیکن ان کے یہاں افطار پر بڑا اہتمام ہوتا۔ آس پڑوس میں سبھی روزہ دار تھے۔ روز چند گھروں میں ان کے گھر سے افطاری ضرور جاتی تھی۔ آج ہمیں اپنے آس پاس یہ چیز بہت کم نظر آتی ہے۔
رمضان کا ذکر ہو اور شبِ قدر کا ذکر نہ ہو یہ ناممکن ہے۔ رمضان کی راتوں میں سے ایک افضل رات شبِ قدر ہے۔ اللہ نے کلام پاک میں اس رات کو ہزاروں راتوں سے افضل بتایا ہے۔ جس شخص کو اس رات میں عبادت کی سعادت نصیب ہوگئی، گویا اس نے تراسی برس چار ماہ عبادت میں گزار دیے، سبحان اللہ۔ اس رات کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو اُس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے‘‘۔ ایک اور جگہ آپؐ نے اس رات کی فضیلت و برکت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا سارے ہی خیر سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے‘‘۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ان راتوں میں اللہ کے حضور گڑگڑاتے تھے۔ آنسوئوں کی ایسی برکھا برستی کہ ریشِ مبارک تک تر ہوجاتی، پائوں ورم کرجاتے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں جنت کی بشارت تھی۔ ہم گنہگاروں کے لیے تو اس رات کی بڑی اہمیت ہے کہ رب کے آگے سربسجود ہوکر توبہ استغفار کریں، اس طرح کہ آئندہ یہ رات نصیب ہو یا نہ ہو۔ رمضان کی عبادت خیر و صدقات و زکوٰۃ ہی قابلِ تحریر نہیں بلکہ روزہ دار کی دعائیں بھی بارگاہِ الٰہی میں قبولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ افطار کے وقت روزہ دار رب کریم کے آگے حاجات کا دامن پھیلاتا ہے تو ضرور اس دن اُس کی کم از کم ایک دعا تو ضرور قبولیت رکھتی ہے۔ اگر کچھ دعا اُس وقت قبول نہیں ہوتی تو رب کی مصلحت ہے کہ وہ اس کے بدلے آپ کی کوئی بڑی مصیبت و تکلیف آپ سے دور کرتا ہے۔
پھر جس نے آخری عشرے میں اعتکاف کیا اس کے لیے آخرت میں اجرِ عظیم ہے۔ اعتکاف میں بندہ دنیا جہاں سے کٹ کر اللہ کے آستانے پر جاکر سربسجود صرف اس کا ہوجاتا ہے۔ یہ بندے کے لیے ایسی منزلت ہے کہ اللہ بھی اس بندے سے راضی ہوجاتا ہے۔ اس لیے جس کو اللہ توفیق عنایت فرمائے وہ ضرور اعتکاف کرے، کیونکہ اس کی لذت و لطف و تسکین روح میں محسوس کرکے بندہ اپنے آپ کو خدا کے قریب محسوس کرتا ہے، اور بہت عرصے تک اس لطف سے سرشار رہتا ہے۔ رمضان کی عنایات و برکات کو ان سطور میں قید کرنا ناممکن ہے۔ اس کی ہر گھڑی، ہر شب بندوں کے لیے اہم ہے، اسے یوں ضائع نہ کیجیے گا۔ عبادات، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں مگن ہوجائیں، پتا نہیں یہ گھڑیاں دوبارہ ملیں یا نہ ملیں۔ رب العزت ہم سب کو رمضان کے ایسے روزے رکھنے کی سعادت عطا فرمائے جو بارگاہ الٰہی میں قابلِ قبول ہوں (آمین)۔
جب بندہ مندرجہ بالا تمام امور کی انجام دہی خلوصِ دل اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرے گا تو یقینا اس کا دل مطمئن ہوپائے گا کہ میرے روزے اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر کوئی کوتاہی رہ گئی خدانخواستہ، آپ خود اپنا محاسبہ کریں کہ ایسے روزے، ایسی عبادت کا کیا درجہ ہوگا بارگاہِ الٰہی میں! سب محنت مشقت دھری کی دھری رہ جائے گی۔ آئیں، سب مسلمان اپنے رمضان کو بہترین طریقے سے گزارنے کے لیے ابھی سے کوشش کریں اور پہلا قدم اٹھائیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرنے والا ہے۔ آمین ثم امین

حصہ