یوم تکبیر، اللہ کا احسان، ایٹمی پاکستان

1094

ابوالہاشم ربانی
بلوچستان کے شمال مغرب میں صحرائے خاران کے پس منظر میں اونچے اونچے سنگلاخ پہاڑ جب 28 مئی 1998 کی سہ پہر سنہری ہونا شروع ہوئے تو فضا تکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھی ۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے اپنے اذلی دشمن انڈیا کا غرور خاک آلود کر دیا، جب تین کروڑ خدائوں کے بچاریوں کے ناپاک عزائم چاغی کے پہاڑوں سے اُٹھنے والی ایٹمی گرد میں دب گئے ۔ جب دنیا بھر کی پیش کشوں کو صحرائے خاران میں دفن کر دیا گیا۔ پوری دنیا ورطہ حیرت میں تھی یہ کیا ہوگیا ۔ جی ہاں یہ وہی ہوگیا جس کی اُمید انڈیا کو کبھی بھی نہ تھی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ۔ ویسے تو ہندوستان ایک گھٹیا ترین ہمسایہ ہے مگر پاکستان کے ساتھ ازل سے جاری اس کا جارہانہ رویہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب طاقت کے نشے میں چور واجپائی حکومت نے گیارہ مئی 1998 کو پوکھران کے مقام پرزیر زمین تین ایٹم بم کے تجربے کر ڈالے۔ جس کے بعد اس نے پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں ، دون کے وقفے کے بعد مزید دو دھماکے کر دیے ۔ اس تمام تر صورتحال کے بعد توانڈیا علی لاعلان پاکستان کو دھمکیاں دینے لگا جس کا جواب دینا ناگزیر تھا۔ واجپائی سرکار کے شاید وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پانچ کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکوں کی صورت میں ان کی عقل ٹھکانے لگادی جائے گی۔
یوں تو بھارت انگریز سے آزادی بعد سے ہی جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے خواب دیکھتا چلا آرہا ہے۔ تعداد کے اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک 1974 میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطّے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا۔ مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کے لئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔ پاکستان کی جانب سے ایٹمی قوت کا حصول اس لیے بھی ضروری تھا کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باعث بھارت کے ساتھ عددی اعتبار سے روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مزید یہ بھی کہ بھارت ایٹمی قوت بننے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کرکے اس کو دولخت کرچکا تھا۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطہ میں طاقت کا توازن تو بری طرح بگڑ ہی گیا۔ اس لئے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔وطن عزیز کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے انہوں نے دنیا کو واضح اور دو ٹوک ، واشگاف الفاظ میں بتلا دیا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ جسے جنرل ضیاء الحق ، غلام اسحاق خان، بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف سمیت تمام سیاسی و عسکری قیادت نے جاری رکھا۔ یہ عمل اس لیے بھی ضروری تھا کہ وطن عزیز پاکستان کی عزت، غیرت اور سالمیت کا سوال تھا۔ اٹل بہاری واجپائی نے اپنی انتخابی مہم میں برملا اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد اکھنڈ بھارت کے لیے ہر حربہ اختیار کرینگے چاہے اس کے لیے ایٹم بم گرانے پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ صد فی صد ایسا ہی ہوا واجپائی نے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے جارحانہ عزائم کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا اور ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ بھارت اپنے جارحانہ عزائم کو کسی بھی وقت عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔دہلی سرکار نے لائین آف کنٹرول پر اپنی فوجوں کو آزاد کشمیر میں داخل ہو کر مجاہدین کشمیر کے کیمپوں پر حملے کا ٹاسک بھی دے دیا۔ اٹل بہاری واجپائی کی یہ جارحیت پاکستان کی سالمیت کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکی تھی۔ پوری قوم کی یہ تمنا تھی کہ بھارتی جارحیت کا بھرپور طریقے سے جواب دیا جائے۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جن پر اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو انڈیا پاکستان کو کھا چکا ہوتا۔ آج سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش، نیپال ہو یا بھوٹان حتیٰ کہ مالدیپ ان سب کو بھارت نے ایٹمی قوت بن کر اپنی طفیلی ریاستیں بنا رکھا ہے۔ یہ ملک اپنی مرضی سے دنیا میں خاص طور پر پاکستان سے اپنے روابط استوار نہیں کر سکتے۔
اپنی آزادی اور اپنے نظریات کا تحفظ صرف وہی قوم کر سکتی ہے جو دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ قوموں کی تاریخ بے بسی کے آنسوئوں سے نہیں لکھی جاتی۔ ملکوں اور قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب ایک صحیح فیصلہ اس کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ایسا ہی وقت پاکستان کی تاریخ میں بھی 28 مئی 1998ء کو آیا جب ایک صحیح اور بروقت فیصلہ نے ایک ایسا معجزہ کردکھایا کہ دنیا حیران و ششدر رہ گئی۔ دنیا کو یہ بتلانا بھی ضروری ہوگیا تھا اگر اُس وقت یہ فیصلہ نہ کیا جاتا تو ہماری آنے والی نسلیں غیر محفوظ ہوتیں اور ہم احساس کمتری کا شکار ہوجاتے۔ اس فیصلے سے حکم الٰہی پر بھی عمل درآمد ہوگیا جس کا ذکر سورۃ انفال میں اللہ رب العزت ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’اور جہاں تک ممکن ہو کافروں کے مقابلہ کے لیے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھوجن سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے دشمنوں کو خائف کر سکوجنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ انہیں جانتا ہے‘‘ ۔ حکم الٰہی پر عمل کرنے کی برکت ہے کہ مئی 1998ء کو پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد تمام مسلم اُمہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دشمنوں سے بغض بھی تھا اور دوستوں کی خوشی بھی جس نے اس ایٹمی قوت کو صرف پاکستان کی جغرافیائی حدود تک محدود نہ رہنے دیا بلکہ یہ اسلامی ایٹم بم کہلایا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔انڈونیشیا سے لے کر شمالی افریقہ کے مسلم ممالک میں چراغاں کیا گیافلسطینوں نے کہا کہ اب ہم یہودیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں۔ پوری مسلم اُمہ نے پاکستان کے ایٹم بم کو اپنا ایٹم بم کہا۔ یوں اس دن کو ’’یوم تکبیر‘‘ سے موسوم کیا گیا۔
تیسری دنیا کا ملک پاکستان جہاں نہ تعلیم عام تھی اور نہ ہی ٹیکنالوجی میسر تھی، وہ ایٹمی قوت بننے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستان بلکہ پوری اُمت مسلمہ کا سر فخر سے بلند کردیا اور دفاع وطن کو بیرونی جارحیت سے مکمل محفوظ بنادیا۔ ناقدین عرصے سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان جو آج بجلی کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور جہاں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے اور جہاں صحت و تعلیم کی سہولیات غریب کے لیے ناپید ہیں اسے نیو کلیئر پروگرام میں قومی وسائل صرف کرنا دانشمندی نہ تھی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ جب سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایٹمی توازن قائم ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان ایٹمی بموں کی تعداد اور کوالٹی میں بھارت پر برتری اور پاکستان کے میزائلوں کے سو فیصد ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت نے بھارت کے مقابلے میں وطن عزیز کو محفوظ بنادیا ہے اور اس حد تک محفوظ بنادیا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، جو کسی کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ پھر بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے اسے بار بار ہندوستان سے جنگیں لڑنا پڑیں۔ پاکستان اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے اور انہیں خوراک، تعلیم اور علاج معالجے سمیت زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کرنے کا شدت سے آرزو مند ہے۔ مگر دشمنوں کی جانب سے مسلط کردہ دہشتگردی اور بیرونی جارحیت کے خطرات کی موجودگی میں اپنے دفاع سے بھی غافل نہیں رہا جاسکتا۔ مختلف اسباب کی بناء پر اس کی سلامتی کے لیے خطرات آج بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی جدوجہد کررہا ہے۔
اگر 28 مئی کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ محنت، لگن اور ایمانداری سے کام لیا جائے تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور مسلمانوں کی حفاظت کا ضامن بھی ہے۔ جس طرح مئی 1998 میں پاکستان نے جرأت کا مظاہرہ کیا تھا اور عالمی دبائو کو خاطر میں نہیں لایا گیا تھا آج بھی اسی امر کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اپنے دفاع اور اُمت مسلمہ کی ترجمانی کے لیے مزید مضبوط فیصلے کرنا ہوں گے۔ ایٹمی صلاحیت کا حامل پاکستان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جو دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوںکے لیے امیدوں کا مرکز و محور ہے۔ اسے کشمیر کو ہندو بنئے سے آزادی کے لیے اپنا بھر پور قردار ہر سطح پر کرنا ادا کرنا ہوگا۔کیونکہ کلمے والا ایٹمی پاکستان کشمیریوں کی اُمیدوں کا مرکز و محور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کشمیریوں نے آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں پاکستانی پرچم لہرانا ، پاکستان زندہ باد اور انڈیا مردہ باد کے نعرے لگانا اپنا معمول بنا لیا ہے۔ سنگ باز کشمیریوں کو اس بات کی یقین دہانی کروانے کی ضرورت ہے کہ پوری پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔ 28 مئی1998 کو ہونے والے ایٹمی دھماکے دراصل امریکہ اور اس کے حواریوں کی غلامی کی نجات کا دن تھا اور اب پاکستان مستحکم،مضبوط ملک ہے۔یوم تکبیر دشمنان اسلام اور پاکستان کے لیے یوم تکلیف ہے۔ پاکستان زندہ باد ایٹمی پاکستان پائندہ باد۔

حصہ