توازن

618

حذیفہ عبداللہ
آج اسکول کا آخری دن تھا کل سے سالانہ چھٹیاں ہونے والی تھیں تمام بچے خوش تھے اور کل سے ہونے والی چھٹیوں کے متعلق پروگرام بنا رہے تھے بعضبچوں نے تو پہلے ہی اپنے تفریحی منصوبے بنا لیے تھے۔ انٹرویل میں بچے ایک دوسرے کو اپنے سیر و تفریح کے پروگرامات کے متعلق بتا رہے تھے۔ انٹرویل ختم ہوا۔ بچے اچھی نشستوں پر بیٹھ گئے کلاس ٹیچر انوار صاحب داخل ہوئے اور مسکراتے ہوئے بولے پیارے بچوں آج تو آپ لوگ بہت خوش ہیں کیونکہ کل سے دو ماہ کی چھٹیاں ہیں اور ہم نے بھی ہوم ورک دیتے ہوئے احتیاط کی ہے کہ نہ بہت زیادہ نہ ہی بہت کم۔ زیادہ ہونے کی صورت میں بچوں کو ہوم ورک ایک عذاب لگے اور وہ اپنی چھٹیوں کے دن پریشانی میں گزاریں اور نہ ہی اتنا کم کہ دو دن میں ہوم ورک ختم کرکے آزاد اور پھر صرف اور صرف کھیل کود اور سیر و تفریح بچوں آج ہم چھٹیوں کے متعلق بات کریں گے کہ یہ قیمتی وقت کس طرح گزارا جائے۔ سیر و تفریح بھی ہو اور تعلیم سے رشتہ بھی نہ ٹوٹے انوار صاحب نے ہر بچے سے اس کے چھٹیوں کے پروگرامات معلوم کرنا شروع کیے۔ بچے ذوق و شوق سے اپنے منصوبوں کا اعلان کرتے رہے۔ انوار صاحب نے محمود اور اختر کی طرف دیکھا جو کہ کلاس کے ذہین ترین طالب علم تھے اور کہا کہ آپ دونوں نے کیا منصوبے بنائے ہیں وقت کا استعمال کیسے کریں گے۔
محمود اور اختر نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہمارے منصوبے مشترکہ ہے انوار صاحب نے محمود سے کہا کہ ہمیں بھی پتا چلے کہ آخر مشترکہ منصوبہ کیا ہے۔ محمود نے کہا کہ سر میں نے اور اختر نے ایک ماہ قبل ہی اپنی چھٹیوں کے پروگرام بنا لیے تھے اور ان کی تفصیلات بھی طے کر لیں تاکہ چھٹیوں کے آغاز سے بھی منصوبے پر عمل شروع ہو جائے ہم نے یہ بھی طے کر لیا ہے کہ ہر ہفتے اپنے منصوبے کا جائزہ بھی لیں گے کہ کس قدر عمل ہوا اور کیا کمی رہ گئی ہے۔
انوار صاحب نے کہا بہت اچھے یہ ہوتی ہے کہ بات منصوبہ بنایا جائے اور اس کا جائزہ بھی ہو کہ کتنا کام ہو تو منصوبے کے فوائد حاصل ہو سکتے ورنہ اگر منصوبہ ادھورہ رہ گیا تو کیا فائدہ، ہاں محمود آپ ہمیں تفصیلات سے آگاہ کریں۔ محمود نے کہا کہ سر میں اور اختر قریب ہی رہتے ہیں تعلیم کے میدان سے کھیل کے میدان تک ہم ساتھ ہی ہوتے ہیں ہم نے اپنے پروگرام بھی مشترکہ بنایں اور پوری کوشش کی ہے کہ ہمارے پروگرام میں توازن رہے یعنی پڑھائی بھی ہو اور تفریح بھی ساتھ ہی ساتھ اسلامی معلومات بھی حاصل ہوں ویسے بھی چھٹیوں کا آغاز ماہ رمضان سے ہو رہا ہے ہم نے اپنے ہوم ورک کے لیے وقت کا تعین کیا ہے کہ صبح روزانہ دو گھنٹے پورے رمضان یعنی ایک ماہ دیں اس کے علاوہ ماہ رمضان میں تلاوت کلام پاک احادیث کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ہی سیرت کی کتب اور چھوٹی چھوٹی دعائیں بھی یاد کریں گے عید کے بعد میں پندرہ دن کے لیے شہر سے باہر یعنی میں لاہور جبکہ اختر اسلام آباد اپنی خالہ جان کے یہاں جائے گا وہاں قرب و جوار کے تفریح مقامات اور تاریخی مقامات کی سیر کریں گے اور چھٹیوں کے اختتام سے دس روز سے پہلے واپس اپنے شہر میں ہوں گے اور اپنے منصوبے کا جائزہ لیں گے کہ ہم نے اپنی چھٹیاں کیسے گزاریں اگر کوئی کمی ہو گئی تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔
انوار صاحب نے کہا کہ زندگی میں اصل خوشی توازن سے حاصل ہوتی ہے۔ توازن زندگی میں کامیابی کا زینہ ہے جو زندگی کے معاملات میں توازن رکھتا ہے کبھی ناکام نہیں ہوتا۔

سبق آموز اور سچی باتیں

محمد علیم نظامی
٭ علم حاصل کرنا عبادت ہے اور دوسروں کو سکھانا صدقہ جاریہ ہے۔
٭ اچھا انسان وہ ہے جس کی سوچ تعصب سے بالاتر ہے۔
٭ جو دوسروں کی غلطیوں سے سیکھ جائے وہ سادت مند انسان ہے۔
٭ اگر خوش رہنا چاہتے ہو تو دوسروں کو اپنے دکھ سکھ میں شریک کرو۔
٭ علم ایک ایسا پھول ہے جو جتنا زیادہ کھلتا ہے اتنی ہی زیادہ خوشبو دیتا ہے۔
٭ وہ گھڑی جس میں انصاف کیا جاتا ہے برسوں کی عبادت سے بہتر ہے۔
٭ سماج میں انقلاب لانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فکروعمل میں انقلاب پیدا کیا جائے۔
٭ انسانیت یہ ہے کہ تم دوسروں سے اچھا سلوک کرنا سیکھ جائو۔
٭ ضمیر انسان کے اندر سے آنے والی ایسی آواز ہے جو اسے متنبہ کرتی ہے کہ کوئی دیکھ رہا ہے۔
٭ آزادی صحافت میں جھوٹ بولنے کی آزادی شامل نہیں ہے۔
٭ اچھا اخلاق وہ قوت ہے جس سے بد ترین دشمن بھی زیر ہو جاتا ہے۔
٭ دنیا کی بڑی بڑی عداوتیں الفاظ ہی سے جنم لیتی ہیں۔
٭ بڑا قابل انسان بھی جب غفلت کرنا شروع کر دے تو بہت جلد مصیبتوں میں پھنس جاتا ہے۔
٭ بدگمانی کو اپنی ذات پر غالب نہ آنے دو ورنہ کوئی دوست اور ہمدرد تمہیں نہیں مل سکے گا۔
٭ برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا نتیجہ سوائے رنج و غم کے کچھ نہیں نکلتا۔
٭ چلتی سانسیں نہیں بلکہ مسلسل عمل کا نام زندگی ہے۔
٭ برائی کرکے مایوس ہو جانے والا اور برائی کو معمولی جاننے والا اللہ کی معرفت سے محروم رہے گا۔
٭ جو شخص انتقام لینے کے طریقوں پر غور و فکر کرتا رہتا ہے اس کے زخم تازہ رہتے ہیں۔
٭ سب سے آسان کام دوسروں پر نکتہ چینی کرنا اور سب سے مشکل کام اپنی اصلاح کرنا ہے۔
٭ بدی کے راستے بند کردیے جاتے ہیں تو نیکی کی راہیں آسان ہو جاتی ہیں۔
٭ سستا کام یا سستا انصاف معاشرے کے لیے بہترین انصاف کرنا انعام اور صلہ ہے۔
٭ جس معاشرے میں عدل و انصاف نہ ہو اس میں استحکام نہیں آسکتا۔
٭ قدرت کا قانون اٹل ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی اور برائی کا بدلہ برائی ہے۔
٭ لوگ برائی نہیں بلکہ برائی کے نتائج سے بچنا چاہتے ہیں۔
٭ لوگوں کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

حصہ