یکم مئی مزدوروں کا یا سیاستدانوں کا دن؟

514

نون الیف
دنیا بھر میں یکم مئی کو مزدوروں کے عا لمی دن کے حوالے سے یاد کیا گیا ہے- اور جس واقعے سے یہ دن جانا پہچانا ہے وہ درحقیقت یکم مئی 1886 امریکا کے شہر شکاگو میں جہاں مزدور اپنے حقوق کے لیے ایک مرکزی شاہراہ پر تقریبا ایک لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں اپنے حقوق کو منوانے کے لیے جمع تھے۔ کہتے ہیں کہ جب مظاہرین کو مزدور رہنماؤں کی جانب سے پر امن طور پر منتشر ہونے کی کال دی گئی اسی وقت کسی ایک بلوائی نے پولیس کی وین پر حملہ کردیا۔اور یوں بظاہر پولیس کو اپنے دفاع میں گولی چلانی پڑی اور کئی مزدور ہلاک ہوگئے۔ اس کے بعد مظاہرین نے اشتعال میں آکر اپنے احتجاج کو ملک بھر میں پھیلا دیا اور مزید ہلاکتیں ہوئیں۔ اس لحاظ سے دنیا بھر میں آج کے دن کو مزدوروں کے حقوق کے دن پر منایا جاتا ہے۔
مگر کیا دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس نے مجھ سمیت شاید بہت سوں کو الجھن میں ڈال رکھا ہو۔
پاکستان کو دنیا بھر میں ممتاز حیثیت اس لحاظ سے حاصل ہے کہ ہمارے دیس میں آج کا دن مزدوروں سے زیادہ سیاست دانوں کی بھڑ کوں ، بلند و بانگ دعوؤں ، سیاسی نعروں ، مذاکروں اور ٹریڈ یونینز کے مظاہروں کے لیے مخصوص ہے۔ جس میں مزدور سے زیادہ سیاسی شعبدہ باز اپنے کرتب دکھا نے کے لیے مزدور کے نام کی ڈگڈگی پر اپنا الو سیدھا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
گزشتہ ستر سالوں سے ملک میں مزدوروں کے نام پر سیاسی و انتخابی نعرے ، مسحور کن منشور اور جاندار تقاریر ہی ہوتی رہیں ہیں مگر آج بھی بندہ مزدور کے روز شب اسی تلخی و تاریکی سے دوچار ہیںجن سے وہ گزشتہ ستر سالوں سے دوچار ہے۔
اس ضمن میں سب سے زیادہ مشہور و معروف سلوگن اسلامی سوشل ازم اور مساوات کا تھا۔ جو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ذہن کی پیداوار تھا۔ اس پارٹی سلوگن کی اصل روح مزدوروں کے نام پر دیا جانے والا ایک نعرہ تھا جس نے پاکستان میں بلامبالغہ ہر امیر و غریب اور چھوٹے بڑے کو یکساں متاثر کیا۔ یہ مشہور و معروف نعرہ تھا۔ ” روٹی ، کپڑا اور مکان ” کا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو صاحب کی طلسماتی شخصیت اور جادوگرانہ تقاریر اور عوامی طرز بود باش نے اس نعرے کو غریبوں اور مزدور کسانوں کے دل کی آواز بنا دیا۔ نعرے کی جاذبیت اور کشش نے لوگوں کے ذہن کو اس حد تک ماؤف کردیا تھا کہ وہ جانتے بوجھتے یہ بھی بھول بیٹھے تھے کہ اس نعرے کے خالق کا جدی پشتی تعلق ایک ایسے جاگیر دار گھرانے سے ہے۔ جس کو خود اپنی جدی پشتی جائداد کی کل مالیت کا اندازہ نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ سندھ میں ان کی زمین اور ایکڑوں کا حساب رکھنے کے لیے سینکڑوں نمبر دار ملازم رکھے جاتے تھے۔ پھر بھی زمین کی اصل حدود کے تعین میں ہمیشہ مبالغہ ہی رہتا۔
اسی سیاسی نعرے کی بنیاد پر بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور پھر 1970 کے عام انتخابات میں مغربی پاکستان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ عوام پر اس نعرے کا نشہ اور سرور ایسا طاری ہوا کہ وہ بھٹو کے دور میں مشرقی پاکستان کی المناک علیحدگی کا غم بھول بیٹھے اور ” روٹی ، کپڑا اور مکان ” کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ کارخانے ، مل اور اسکول سرکاری تحویل میں بینک ، ادارے سب سرکاری ملکیت اور مساوات کا نرالا قانون مزدور کی فلاح و بہبود کے نام پر ملک کو کھوکھلا کرتا رہا۔
غریب مزدور کو روٹی ،کپڑا اور مکان تو کیا ملتا اس کی جگہ روٹی کے نام پر فاقے ، کپڑے کے نام پر کفن اور مکان کے نام پر قبر کا وافر بندوبست تھا-
آج بھی بھٹو زندہ ہے۔اور نہ جانے کب تک زندہ رہے گا۔ آج بھی کفن ، قبر اور فاقے پاکستان کے غریب مزدور کسان اور ہاری کے شب و روز کے ساتھی ر ہیں گے۔ اب صرف بھٹو نہیں ہی نہیں بلاول بھٹو زرداری اور مریم شریف نواز اور عمران ترین گنڈا پور کا ایک ایسا مکسچر وجود میں آچکا ہے جس کے چنگل سے مزدور کا نکلنا محال دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے سیاسی نظام کی مجبوری کہہ لیں یا ” بائی ڈیفالٹ سیٹنگ ” سمجھیں ہر سیاسی جماعت کی یہ مجبوری بن چکی ہے کہ وہ انتخابات کے مواقعوں پر مزدوروں کے حقوق کے نام پر رنگ بازی اور شعبدے بازی کے بغیر کوئی انتخابی مہم نہیں چلا سکتیں۔
آج بھی پاکستان کے دیہاتوں میں غریب کسان کے بیٹی سڑک پر وڈیرے کی میلی نگاہ سے محفوظ نہیں ، سڑک کی بات تو چھوڑیں وہ اپنی جھوپڑی کی چار دیواری میں ان غنڈے بدقماش لوگوں سے محفوظ نہیں۔ چلیں دیہات کو بھی چھوڑیں کیا شہروں میں شریف آدمی اور غریب بندہ اس ظالمانہ وڈیرہ گردی سے بچا ہوا ہے ؟ آئے دن اخبارات کی خبریں بہ زبان حال اور بہ زبان قال اس ظلم و ستم کی منہ بولتی تصویر منظر عام پر لاتے ہیں۔
غریب ماں اپنے شیر خوا روں کے ساتھ دریا میں چھلانگ لگا دیتی ہے۔ پریس کلب پر بچوں کی نیلامی اور برائے فروخت کے بورڈ گلے سے ٹانگے غریب مزدور بے بسی کی تصویر ہے۔ غریب مزدور اپنے گردے اور جگر گوشوں کو خاموشی کے ساتھ فروخت کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے کہ اس کا شمار ممکن نہیں۔ اسکول کالج اور تعلیمی ادارے معاشرتی پامالی اور اخلاقی اقدار کا نت نیا تماشہ دکھانے میں بھی بخالت سے کام نہیں لے ر ہے۔پھر کیوں کسی ارباب اختیار کے کان پر جوں نہیں رینگتی ؟ سوال تو اپنی جگہ موجود ہے !
اصل بات درحقیقت یہی ہے کہ جس معاشرے سے خدا خوفی اور دیانت داری مفقود ہوجائے وہاں پر انسانیت کا جنازہ ایک دن نہیں نکلتا ، بلکہ ہر لمحے ، ہر ساعت اور ہر پل نکلتا ہی رہتا ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مزدوروں کے حوالے سے اس عالمی دن کو مزدورں کے بجائے سیاسی نوسر بازوں کا دن کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔
کسی بھی حکمران سیاسی جماعت نے اب تک غریب مزدور کو کچھ بھی ڈلیور نہیں کیا سوائے نئے نئے انتخابی منشور کے ! اور میں تو کہتا ہوں کہ ان سے اس سے زیادہ کو توقع لگنا بھی عبث ہے۔
ظلم کی حد تو یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق کے نام پر سیاست کرنے والوں نے کراچی کی بلدیہ فیکٹری میں دن دھاڑے 259 کم کرنے والے مزدوروں کو جن میں عورتیں ، لڑکیاں ، اور مرد سب شا مل تھے ، فیکٹری کے درواوں کو بند کرکے آگ لگا دی۔ اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے 259 مزدور آگ میں جل بھن کر راکھ کا ڈھیر ہوگئے۔ یہ اتنا بڑا المیہ اور سانحہ تھا کہ اس پر پاکستان کے ہر باشعور کی آنکھ نم تھی۔ اس سانحے پر اگر کسی کا دل نہیں پسیجا تو وہ تھی ” متحدہ قومی موومنٹ ” جو کراچی کے غریبوں کو حقوق دلوانے کے لیے برسراقتدار آئی تھی۔ اور آج بھی ان ظا لم بد بختوں کو کسی بھی قسم کی کوئی سزا نہیں دی گئی۔ پانچ سالوں سے غریب مزدور خاندان اپنے پیاروں کے قاتلوں کے انجام کو دیکھنے کے لیے زندہ ہیں ،
دن بھر میں درجنوں سوموٹو ایکشن لینی والی عدالت عظمی بھی آنکھوں پر کالا کپڑا لگا کر بیٹھی ہے۔ اسے کراچی کے غریب جلنے والے مزدوروں کا شاید سیاسی فائدہ دکھائی نہیں دے رہا۔
میری خواہش ہے کہ اگر صحیح معنوں میں یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کو منانا چاہیے تو آج کے دن ” سانحہ بلدیہ فیکٹری ” کے مزدورں کے نام منسوب کرکے منانا چاہیے۔ یہ کام شاید کوئی اور نہیں کرے گا۔- یہ کام بھی ہمیں ہی کرنا ہوگا۔!!
آج مزدوروں کے دن کے حوالے اور سانحہ بلدیہ کے تناظر میں نجیب ایوبی کی ایک تاثراتی نظم ملا حظہ کیجئے۔

یوم مزدور کے تناظر میں

شہر مظلوم سن۔۔یہ ھے نوحہ ترا
سن یہ نوحہ کہ تیرا جو مزدور ہے
کتنا بے بس ھے یہ کتنا مجبور ہے
کارخانوں کی رونق ترے دم سے تھی
عظمتِ دوجہاں جس کا منشور ہے

شہر مظلوم سن۔۔۔یہ ھے نوحہ ترا

یوں کہ مسجد تری کارخانے ترے
آج ماتم کدہ ہیں گھرانے ترے
روز آتی ھے اک جان لیوا خبر
کس کو فرصت کہ لکھے فسانے ترے

شہر مظلوم سن۔۔۔یہ ھے نوحہ ترا

ہر طرف آگ ھے ہر طرف الاماں
جاں بچاتے ہوئے بھاگتی بچیاں
بین کرتی ہوء جا بجا بی بیاں
کھل نا پائیں مگر آہنی کھڑکیاں

شہر مظلوم سن۔۔۔یہ نوحہ ترا

گارے مٹی سے لپٹے سنہرے بدن
کوئلہ بن گئے ہنستے بستے بدن
چاند کہہ کر پکارا تھا ماں نے جسے
تھک کے سویا ھے اب کیسے پہنے کفن

شہر مظلوم سن۔۔یہ ھے نوحہ ترا

امن کے دیوتا کچھ تو تو ہی بتا
کارِ تخریب سے کس کو کیا مل گیا
سن یہ نوحہ کہ تیرا جو مزدور تھا
آج روزی کمانے میں مارا گیا

شہر مظلوم سن۔۔۔ یہ ھے نوحہ ترا

کتنے بے حس ہیں یہ کس قدر سنگ دل
جانتے ہیں سبہی پھر بھی انجان ہیں
کون بولے یہاں کون کھولے زباں
سب کے اپنے الگ عہد و پیمان ہیں

شہر مظلوم سن۔۔۔ یہ ھے نوحہ ترا

حصہ