جیل کہانی، منگیتر کا قتل

253

قدسیہ ملک
قتل انسانیت کے خلاف کیا جانے والا سب سے بڑا جرم ہے، لیکن یہ جرم کبھی اسباب کے بغیر جنم نہیں لیتا۔ جب کبھی یہ جرم سرزد ہوتا ہے تو اسباب و محرکات کی ایک دنیا اس کے پیچھے موجود ہوتی ہے۔ یہ کبھی غصہ و انتقام سے جنم لیتا ہے، کہیں حرص و ہوس کی آگ اس کا باعث بنتی ہے، اور بسا اوقات مال و زر کی طلب اس کا محرک بن جایا کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے رہنے والے قتل و غارت گری اور خودکشی کی خبروں کے عادی ہوچکے تھے کہ اب باپ کے ہاتھوں اولاد کے قتل کی خبروں نے ہر شخص کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ شہر کراچی میں ماہ اپریل کے دس دنوں میں ایسے تین واقعات ہوئے۔ پہلے واقعے میں ایک اسکول ٹیچر نے اپنے تین بچوں کو ذبح کردیا۔ دوسرے واقعے میں ایک باپ نے اپنی اکلوتی بیٹی کو مار ڈالا۔ اور آخری واقعے میں ایک باپ کے ہاتھوں دو نوعمر بچیاں ذبح ہوگئیں۔ جب کہ ہمارا مذہب اسلام جو سراسر سلامتی اور حُسنِ سلوک کی دعوت دیتا ہے، جہاں جانوروں اور چرند پرند کو بھی بلاوجہ مارنے اور ایذا پہنچانے پر وعید آئی ہے، وہاں ایک قتلِ نفس کا ارتکاب سوچیے تو سہی کتنا بڑا گناہ ہوسکتا ہے! اور پھر اپنے سگے رشتے داروں کو، جن کے ساتھ آپ کے روزمرہ کے معاملات رہتے ہیں۔ اتنے قریبی اور خون کے رشتوں سے انسانی رویہ پل بھر میں اس طرح بدل جائے کہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوجائے! یہ عام اور نارمل انسان کا کام نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمارے معاشرے کا یہ المیہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ میاں بیوی کی باہمی ناچاقی سے نہ صرف لڑائی جھگڑوں اور طلاق کی نوبت آجاتی ہے، بلکہ باہمی قتل و غارت آج کل عام دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کچھ جوڑے تو ایسے بدبخت ہوتے ہیں کہ وہ اپنی لڑائی کی پاداش میں اپنے بچوں اور شریکِ حیات کو بھی قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ پھر مسلمان اورکافر ایک طرح کا عمل کرتے ہیں جو کبھی کبھی انسانیت کے معیار سے بھی گرجاتا ہے۔ ایسی خبریں ہمارے معاشرے میں بھی آئے روزگردش کرتی رہتی ہیں۔ مذہب و اخلاق کی رو سے انسانی جان کو جو حرمت ہمیشہ سے حاصل رہی ہے، یہ اسی کا بیان ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اس کے بارے میں یہی تاکید اس سے پہلے بنی اسرائیل کو کی گئی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے یہ بات ان پر لکھ دی تھی کہ ایک انسان کا قتل درحقیقت پوری انسانیت کا قتل ہے۔ سورہ مائدہ میں قرآن نے اسی کا حوالہ دیا ہے:
’’اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا، اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جس نے کسی انسان کو بچایا، اس نے گویا تمام انسانوں کو بچا لیا۔‘‘
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہوجانا بھی کسی شخص کے قتلِِ ناحق سے ہلکا ہے‘‘۔
قرآن میں ہے: ’’اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہوئی، اور اُس کے لیے اس نے بڑا سخت عذاب تیار کررکھا ہے۔‘‘(سورہ النساء)
اسی طرح یہ بات بھی قرآن نے واضح کردی ہے کہ اس جرم کے مرتکبین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہیں ہے، مقتول کے اولیا کے ساتھ بھی ہے، اور ان کو اللہ نے پورا اختیار دے دیا ہے، لہٰذا دنیا کی کوئی عدالت ان کی مرضی کے بغیر قاتل کو کوئی رعایت نہیں دے سکتی۔ اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اگر قصاص پر اصرار کریں تو ان کی مدد کرے، اور جو کچھ وہ چاہیں، اسے پوری قوت کے ساتھ اور ٹھیک ٹھیک نافذ کردے۔ معاشرے میں پھیلی اس مایوسی کا سبب غربت اور تنگ دستی ہی نہیں، بلکہ منفی اندازِ فکر کا وہ بیج بھی ہے جو عرصے سے قوم کے ذہن میں بویا جارہا ہے۔ کسی معاشرے کے حالات صرف سیاسی قیادت کے اعمال ہی کا نتیجہ نہیں ہوتے، بلکہ فکری اور مذہبی لیڈرشپ بھی معاشرے کے خیر و شر کی ذمے دار ہوتی ہے۔ لیکن اس ناامیدی کو ختم کرنے کے لیے معاشرے میں کچھ طبقے آج بھی زندہ ہیں جن کے دل بلکتی انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے کے خواہاں ہیں، جو معاشرے میں دم توڑتی انسانی روایات و اقدار دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں، جو رب کے پیغام کو رب کے بندوں تک پہنچاکر امید کی کرنیں بکھیر رہے ہیں، جو شہرت کی بھوک سے بے پروا ہوکر انسانیت کے دکھ کو دل سے محسوس کرتے ہیں اور بلکتے انسانوں کو بھی اپنے ہی جیسے انسان سمجھ کر اُن کی ہر ممکن مدد کے خواہاں ہیں، یہ بدلے میں صرف رب کی رضا اور اس کی جنتوں کے طلب گار ہیں۔
جماعت اسلامی اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروفِ عمل ہے۔ اس کے دیگر شعبہ جات بھی یہی مشن آگے بڑھا رہے ہیں، چاہے وہ شعبۂ تعلیم کے تحت چلنے والے اسکول ہوں یا شعبۂ تعلیم کے تحت چلنے والے پراجیکٹس، شعبۂ دیہات ہو یا شعبۂ خواتین کے تحت ہونے والی سرگرمیاں۔ لیگل ایڈ کے تحت ہونے والی تمام سرگرمیاں بھی اسی جماعت کے مشن کو لے کر چل رہی ہیں۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ 1994ء میں اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھاکہ عورتوں کے حقوق کا اسلامی تعلیمات کے مطابق شعور پیدا کیا جائے۔ نپولین نے کہا تھا ’’تم مجھے ایک اچھی عورت دو، میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا‘‘۔ آج اس اسلامی عورت کو اسلام کی راہ سے ہٹانے کے لیے نیوورلڈآرڈر اور تمام باطل قوتیں متحد ہیں۔ بنی نوع انسان کی مجموعی بھلائی کے لیے لازم ہے کہ انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان کی بھلائی، بہتری اور استحکام پر بھرپور توجہ دی جائے جو آج کی طاغوتی قوتوں کا خصوصی ہدف ہے۔ خاندانی نظام کا محور عورت ہی ہے۔ عورت خود بھی اپنے بنیادی حقوق و فرائض سے مکمل آگہی نہیں رکھتی، لہٰذا ضروری ہے کہ عورت کو اس کے بنیادی حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں توازن کی فضاء قائم ہوسکے۔
جیل میں موجود مہوش کی کہانی بھی اپنے حقوق و فرائض کا صحیح ادراک نہ ہونے کے باعث پیش آئی۔ چاہے مرد ہو یا عورت، حقوق و فرائض کی آگہی سب کے لیے یکساں ضروری ہے۔ یہ آگہی نہ ہونے سے معاشرے میں بہت سی پریشانیاں، مایوسیاں، نفرتیں اور خدشات جنم لیتے ہیں۔ یہ واقعہ آج سے 3 سال پہلے پیش آیا جب مہوش 19 سال کی تھی۔ وہ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کے والد کا انتقال ماں کی بھری جوانی ہی میں ہوگیا تھا۔ والدہ نے بڑی تگ و دو سے اپنا پیٹ کاٹ کر ان دونوں بچیوں کو پالا پوسا۔ محنت مزدوری سے، لوگوں کے گھروں کے کام کاج کرکے وہ دونوں بچیوں کو تھوڑا بہت پڑھانے میں بھی کامیاب ہوگئی تھی۔
اب وہ بڑی بیٹی مہوش کے لیے رشتے کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ چھوٹی عمر سے ہی وہ مہوش کو اپنے کام والی باجیوں کے ہاں لے جاتی اور ان سے کسی اچھے رشتے کا پوچھتی۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کی بیٹی سے محبت کرنے والا، اس کی حفاظت کرنے والا شریف خاندان کا اچھا لڑکا مل جائے۔ خاصی تلاش کے بعد اس کی باجی نے اسے ایک رشتے کے بارے میں بتایا۔ اس نے کچھ نہ دیکھا، بس یہ دیکھا کہ وہ اس کی بچی کو خوش دیکھنا چاہتا ہے اور شریف خاندان سے ہے۔ اس نے فوری اپنی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ منگنی میں مہوش بہت پیاری لگ رہی تھی۔ ہر کوئی لڑکے کی قسمت پر رشک کررہا تھا۔ لڑکے والے بھی خوش تھے۔ مہوش کی ماں کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس نے خیروعافیت سے اپنی بیٹی کو معاشرتی گندگیوں سے نکال کر مسنون زندگی کی جانب روانہ کرنے میں پہلا قدم اٹھایا تھا۔ شادی میں ایک سال کا عرصہ باقی تھا۔ مہوش کی ماں نے بچی کا جہیز بنانے اور اسے عزت کے ساتھ رخصت کرنے کے لیے یہ وقت مانگا تھا۔ ابھی منگنی کو چار دن بھی نہ گزرے تھے کہ مہوش کا منگیترآصف اُس سے ملنے آپہنچا۔ خاندانی اقدار میں بندھی مہوش کی ماں کو اپنے ہونے والے داماد کی اس طرح آمد قدرے ناگوار گزری، لیکن وہ چپ ہوگئی۔ مہوش کی ماں نے اپنی بچیوں کی تربیت بھی اپنے انداز سے کی تھی، اسی لیے مہوش بھی پورا وقت اپنے منگیتر آصف سے بات کرنے سے کتراتی رہی۔ اُس دن تو آصف خاموشی کے ساتھ چلاگیا، لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا اس کا آنا معمول بن گیا۔ بغیر اطلاع دیئے بڑے دھڑلے سے وہ آدھمکتا اور رات گئے کھانا کھانے کے کئی گھنٹوں بعد رخصت ہوتا۔ مہوش اور اس کی ماں چھوٹی بستی میں رہتے تھے جہاں گھر کی آوازیں درودیوار کی محتاج نہ تھیں اور بلاروک ٹوک ہر گھر میں جاپہنچتی تھیں۔ ایسے میں مہوش کی ماں اپنی دونوں بچیوں کی آبرو کو بچائے 25 سال سے رہ رہی تھی۔ لیکن اب انہیں اس جگہ رہنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ آصف جب بھی آتا، خوب زور زور سے باتیں کرتا، اور ماں بیٹیاں کھڑکیاں دروازے بند کرتے تو کبھی دروازوں کے نیچے کپڑا لگاتے تاکہ پڑوسی ان کی آوازیں نہ سن لیں۔ اُس دن بھی جب آصف آیا تو علاقے میں بجلی نہ تھی، مہوش برآمدے میں پڑی چارپائی پر سورہی تھی۔ اس نے آتے ہی شور مچانا شروع کیا ’’یہ کیوں سورہی ہے، اسے اٹھاؤ، میں اس سے ملنے آیا ہوں‘‘۔ ماں نے کہا ’’یہ ابھی سوئی ہے، تم بیٹھو، میں روشنی کا انتظام کرکے آتی ہوں‘‘۔ لیکن اس کے اوپر آج غصہ سوار تھا۔ ’’تم ماں بیٹی اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو! خود کو بہت پاک باز سمجھتی ہے تمہاری بیٹی!‘‘ مہوش کی ماں خاموشی سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔ آصف اچانک اٹھا اور اس قدر زور کا دھکا دیا کہ مہوش کی ماں گرگئی اور ٹنکی کے کنارے سے اس کا سر پھٹ گیا۔ شور شرابے سے مہوش کی آنکھ کھل گئی۔ اندھیرے میں اسے صرف ماں کی چیخیں سنائی دیں۔ وہ ماں ماں کہتی آگے بڑھی تو اپنی بہن سے ٹکرا گئی۔ آصف آج غیر معمولی غصے میں تھا۔ مہوش کی ماں کا خون نکلتا دیکھ کر باورچی خانے سے اپنے موبائل کی روشنی میں بڑا چاقو اٹھا لایا اور انہیں دیتے ہوئے بولا ’’مجھے بھی مار دو، میں زندہ رہنا نہیں چاہتا، میں تمہاری بیٹی سے شدید محبت کرتا ہوں‘‘۔ پھر ٹارچ کی روشنی اپنے ہاتھ پر مارکر مہوش سے بولا ’’دیکھ تیری وجہ سے میں نے خود کو کتنی اذیتیں دی ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر خنجر مہوش کو دے کر بولا ’’مجھے اس سے مار دے‘‘۔ مہوش کو اس اندھیرے میں کچھ نظرنہیں آرہا تھا، وہ اپنی ماں کا خون روکنے کی ناکام کوشش کررہی تھی جو مسلسل بہے جارہا تھا۔ اب آصف اچھل اچھل کر باتیں کررہا تھا۔ مہوش کا ہاتھ پکڑ کر بولا ’’لے مجھ سے بدلہ لے لے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے مہوش کا ہاتھ اپنی گردن پر رکھ دیا جس میں خنجر تھا۔ مہوش نے ہاتھ پیچھے کیا لیکن اس نے اپنے سینے پر چاقو روک لیا اور اسی اندھیرے اور افراتفری میں خنجر آصف کے سینے میں اتر گیا۔ ماں بیٹی کو فوری گرفتار کرلیا گیا۔ آصف کے مرنے کے بعد دونوں کو سزا ہوگئی جو 25 سال کی ہے۔ ایک بہن جیل سے باہر اپنی ماں بہن کی راہ تک رہی ہے۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جانب سے مہوش نے کمپیوٹر کورس بھی کرلیا ہے اور سیکنڈ پوزیشن حاصل کی ہے۔
اللہ تعالیٰ دلوں کے حال سے واقف ہے، لیکن ان دونوں کا کہنا ہے کہ قتل انہوں نے نہیں کیا۔ اس لیے اب ان کا کیس کرمنل کورٹ میں دوبارہ سماعت کے لیے تیار ہے۔ یہ دونوں پُرامید ہیں کہ ان کو جلد از جلد رہائی مل جائے گی۔

حصہ