نجیب ایوبی
( قسط نمبر:134 )
(بارہواں حصہ)
جیسا کہ ان مضامین کی ابتدا میں لکھ چکا ہوں کہ ہندوستان کی فضائی اور زمینی فوج پاکستان کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی، جس کے نتیجے میں ہندوستان کے اچانک زمینی حملے اور لاہور کی جانب پیش قدمی نے پاکستان کی ہائی کمانڈ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
اس موقع پر مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہورہا کہ پاکستان آپریشن جبرالٹر (کشمیر کے محاذ) کے تحت اپنی فوج کو مقبوضہ علاقوں میں آگے بڑھاکر یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ ہندوستان کو وہاں پر الجھا دے گا۔ اگرچہ یہ بات بہت حد تک درست بھی ثابت ہورہی تھی، خاص کر جب پاکستان کی افواج اکھنور کے محاذ پر صرف چند میل دوری پر تھیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت اپنے نابالغ سیاسی مشیروں کے کہنے میں آگئی تھی۔
دفاعی مبصرین اور فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کے بیانات جو کتابی شکل میں بھی موجود ہیں، ان میں سے ایک تحریر بطور حوالہ پیش خدمت ہے:
’’وسط 1965ء میں پاکستانی فوج نے رن آف کچھ میں تیز رفتار کارروائی کی، جس سے ہندوستانی سپاہ پریشان ہوکر اور جانی نقصان سے گھبرا کر پسپا ہونے پر مجبور ہوئیں جس کے نتیجے میں ایوب خان کے حوصلے بلند ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے 12 مئی 1965ء کے خط کے ذریعے صدر ایوب خان کو توجہ دلائی کہ ہندوستان بہت بڑی تعداد میں مغرب سے فوجی امداد حاصل کررہا ہے جس سے علاقے میں طاقت کا توازن ہندوستان کے حق میں جاسکتا ہے۔ اپنی اس سطحی منطق (لاجک) کا سہارا لیتے ہوئے بھٹو نے ایوب خان سے سفارش کی کہ ایک دلیرانہ اور جرأت مندانہ قدم اٹھاکر کشمیرکے محاذ پر ہندوستان کو پھنسا دیا جائے۔ ایوب خان بھٹو کی اس تجویز سے متاثر ہوا اور اس نے عزیز احمد کے ماتحت جلد بازی میں قائم کیے گئے کشمیر سیل کو ہدایت کی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گڑبڑ پیدا کرنے کی کوئی سبیل نکالی جائے، جس سے محدود فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہوسکے۔ کشمیر سیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا، جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیش رفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمے داری بارہویں ڈویژ ن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کردی۔ جموں وکشمیر میں ساری جنگ بندی لائن کا دفاع اس ڈویژ ن کی ذمے داری تھی۔ آپریشن جبرالٹر کا جو خاکہ جنرل اختر ملک نے بناکر ایوب خان سے منظور کرایا وہ یہ تھا کہ مسلح آدمی جنگ بندی لائن سے پار مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخل کیے جائیں۔ پھر بعد میں اچانک اِنفنٹری اور آرمرڈ کمک کے ساتھ جنوبی علاقے میں جموں سری نگر روڈ پر واقع ’اکھنور‘ پر ایک زوردار حملہ کیا جائے۔ اس طرح ہندوستان کے لیے کشمیر کو جانے والا واحد راستہ کٹ جائے گا اور وہاں موجود ہندوستانی فوج محصور ہوجائے گی۔ اس طرح کشمیر کے مسئلے کے حل کے کئی راستے نکل آئیں گے۔ کوئی ریزرو نہ ہونے کے باعث جنرل اختر ملک نے فیصلہ کیا کہ آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں کو تربیت دے کر ایک مجاہد فورس تیار کی جائے۔ ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ اگست 1965ء کے پہلے ہفتے میں شروع ہوا اور مجوزہ لوگ بغیر ہندوستانیوں کو خبر ہوئے جنگ بندی لائن عبور کرگئے۔ پاکستان کے حامی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا، جس کا نقصان یہ ہوا کہ اُن کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی۔ پھر بھی اس آپریشن نے ہندوستانی حکومت کو وقتی طور پر خاصا پریشان کردیا۔ 8 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے مارشل لا لگانے کی تجویز دے دی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہندوستان کی اس پریشانی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت آپریشن کے دوسرے حصے پر عمل کرکے بڑا حملہ کردیا جاتا، لیکن جنرل اختر کا خیال تھا کہ حملہ اُس وقت کیا جائے جب ہندوستان اپنی ریزرو فوج مقبوضہ جموں وکشمیر کے داخلی راستوں پر لگا دے۔
24 اگست کو ہندوستان نے حاجی پیر کے علاقے میں، جہاں سے آزاد جموں وکشمیر کی مجاہد فورس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھی، اپنی ساری فوج لگادی۔ یکم ستمبر کو دوپہر کے فوراً بعد اس علاقے میں مجاہد فورس اور ہندوستانی فوج میں گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی اور ہندوستانی فوج پسپا ہونے لگی، یہاں تک کہ ’اکھنور‘ کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں رہی۔ (اس وقت ہندوستان کے دفاعی مبصر اور اخبارات چیخ پڑے کہ کسی بھی صورت میں ’’ہندوستانیو! کشمیر چھوڑو، پنجاب بچاؤ۔‘‘)
عین اُس وقت صدرِ پاکستان کی جانب سے پاکستانی کمانڈ بدلنے کا حکم صادر ہوا جس میں تین قیمتی دن ضائع ہوئے، اور اس طرح ہندوستان کو اپنے آپ کو مستحکم کرنے اور ’اکھنور‘ بچانے کا موقع مل گیا، جس کے جواب میں ہندوستان نے 6 ستمبر کو اّس وقت پاکستان پر حملہ کردیا جب پاکستانی فوج اکھنور سے تین میل دور رہ گئی تھی۔‘‘ (حوالہ: امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون میں ریسرچ فیلو اور ٹَفٹس یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی، سابق آفیسر پاکستان پولیس کی کتاب ’’پاکستان کا انتہا پسندی کی طرف بہاؤ۔ اللہ۔ فوج، اور امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘)
ایک اور دفاعی مبصر کے مطابق ’’جب اسپیشل سروسز گروپ کو اعتماد میں لیا گیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمان صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ ردِعمل کے طور پر ہندوستانی فوج کے اُن پر ظلم سے اُن کی حفاظت ممکن ہو۔ لیکن جب اُنہیں محسوس ہوا کہ پلان بنانے والے اپنی کامیابی کا مکمل یقین رکھتے ہیں تو اسپیشل سروسز گروپ نے لکھ کر بھیجا کہ یہ پلان (آپریشن جبرالٹر) پاکستان کے لیے ’’بے آف پگز‘‘ ثابت ہوگا۔
1965ء میں 5 اور 6 اگست کی درمیانی رات 5000 مسلح آدمی ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ مختلف مقامات سے جنگ بندی لائن کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ لوگ انتہائی عجلت میں بھرتی کیے گئے، جن کی تربیت بھی مکمل نہ تھی۔ یہ آزاد جموں وکشمیر کے مقامی دیہاتی تھے، ہرچند کہ ان میں کچھ پاکستانی فوجی بھی شامل کروا دیے گئے تھے۔ یہ تھی ہماری ’’جبرالٹر فورس۔‘‘
ابتدا میں جب تک معاملہ اچانک یلغار کا تھا، تب تک ہمارے چھاپے کامیاب رہے جس سے بھارتی فوج کی ہائی کمان میں کھلبلی مچ گئی۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے دیہاتوں میں مسلمانوں کے خلاف ہندوستانی افواج کا انتقام بے رحمانہ تھا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں نے نہ صرف جبرالٹر فورس کی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیے بلکہ ہندوستانی افواج کے لیے مخبری کا کام بھی انجام دینا شروع کردیا، اور پھر اس طرح ہمارے فوجی اور مجاہدین ان کا شکار ہوتے چلے گئے۔ اس پر مزید ظلم یہ ہوا کہ ہندوستانی فوج نے حملہ کرکے کارگل، درّہ حاجی پیر اور ٹھٹھوال پر قبضہ کرلیا اور پاکستانی علاقے مظفر آباد کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
اس ناگہانی صورتِ حال کے نتیجے میں’جبرالٹر فورس‘ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کے تین ہفتے کے اندر منتشر ہوکر بکھرنے لگی اور اس میں سے چند بچنے والے بھوکے، تھکے ہارے، شکست خوردہ آزاد جموں وکشمیر میں واپس پہنچے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پلان کے پہلے حصے کا حشر یہ تھا‘‘۔
(حوالہ: سابق بریگیڈیئر جاوید حسین کا مضمون)
جبکہ ایک اور جنرل عتیق الرحمن اپنی کتاب ’’بیک ٹو پویلین‘‘ میں اس طرح لکھتے ہیں: ’’جب پاکستانی فوج نے کئی محاذوں پر ہندوستانی فوج کو پسپائی پر مجبور کردیا۔ لاہور محاذ سے ہندوستانی فوج بیاس جانے کی منصوبہ بندی کرچکی تھی اور سیالکوٹ محاذ پر ہندوستانی افواج بعض مقامات پر کئی کئی میل پیچھے دھکیل دی گئی تھیں۔ ان خالی جگہوں کے راستے پاکستانی فوج نے بھرپور جوابی حملے کی منصوبہ بندی کرلی۔ ہم جوابی حملے کی تیاریاں کررہے تھے کہ عین اُس وقت جنگ بندی کرو ا دی گئی۔ یہ جنگ بندی امریکا اور روس کے دباؤ کے تحت ہوئی تھی‘‘۔
میں لکھ چکا ہوں کہ اس کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا تھا۔ (ان شاء اللہ اگلے مضامین میں ہندوستان اور پاکستان کے نقصانات اور حاصل کردہ زمینی علاقوں کی تفصیلات پر بھی لکھا جائے گا) (جاری ہے)