مشق کے بنا جواب

430

تنویر اللہ خان
ہم ریاضی کو صرف اعداد و شمار اور جمع تفریق کا گورکھ دھندہ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ مضمون ہماری عام زندگی سے بھی بہت تعلق رکھتا ہے۔ وہ کیسے؟ ریاضی جاننے والے یہ بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ اس مضمون میں جتنی اہمیت جواب کی ہے اتنی یا اُس سے بھی زیادہ اہمیت مشق کی ہے، ممتحن کے لیے سوال کا جواب مشق کے بغیر قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ سوال کا جواب دینے والا اگرمشق کو چھوڑ کر جواب لکھ دے تو ایسے جواب کو درست تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ درست مشق کرے اور جواب لکھنے میں غلطی کردے تو اس کی یہ غلطی نظرانداز کی جاسکتی ہے اور پورے نمبر بھی مل سکتے ہیں۔
اللہ کو بھی ہم سے نتیجہ مطلوب نہیں، بلکہ وہ صرف مشق کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن ہم انفرادی، جماعتی، مذہبی، سیاسی، معاشرتی، تجارتی غرض ہر حوالے سے مشق سے بچ کر نتیجہ نکالنے کی غفلت میں گم ہیں۔
مثلاً ہمارے سرکاری ملازمین کی اکثریت چاہتی ہے کہ اُنہیں ڈیوٹی انجام دیئے بغیر گھر بیٹھے تنخواہ مل جائے۔ سرکاری ملازمت کے شوقین لوگوں سے پوچھو کہ تم سرکاری نوکری کے انتظار میں کیوں اپنا وقت برباد کررہے ہو؟ تو جواب ملتا ہے کہ صرف حاضری لگانے جانا پڑتا ہے، یا بعض محکموں میں تو روزانہ جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی اور مہینے کے آخر میں تنخواہ مل جاتی ہے۔ یعنی بنا مشق کے نتیجہ۔ طلبہ کی اکثریت بھی ایسا ہی چاہتی ہے کہ کلاس میں حاضر ہوئے بغیر اُن کی حاضری لگ جائے اور پڑھے بغیر وہ امتحان میںکامیاب ہوجائیں۔ اردو کی کہاوت ہے کہ ’’پوت کے پائوں پالنے میں نظر آجاتے ہیں‘‘ لہٰذا یہی پوت جہاں بھی جاتے ہیں مشق کے بغیر نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
مثلاً قومی اسمبلی کے ارکان اجلاس میں شریک ہوئے بغیر چاہتے ہیں کہ اُن کی حاضری لگ جائے تاکہ وہ اجلاس میں شریک ہونے کی تکلیف اٹھائے بغیر معاوضہ وصول کرلیں۔ اسمبلی میں بننے والی کمیٹیوں کے ارکان کو کمیٹی کے اجلاس میں ایک وقت کی حاضری کے 70 ہزار روپے ملتے ہیں، لہٰذا ہمارے معزز ارکانِِ اسبملی اجلاس سے غیر حاضر رہ کر بھی اپنے ساتھیوں سے حاضری لگواتے ہیں تاکہ اُنھیں اجلاس میں شریک ہوکر ایجنڈے پر مشق کیے بغیر نتیجے میں کامیابی یعنی معاوضہ مل جائے۔
کاروبار کا مطلب ہے کچھ خریدنا اور بیچنا، یا بنانا اور بیچنا… اس مشق اور مشقت کے بدلے نفع کمانا۔ لیکن ہمارے کاروباری حضرات چاہتے ہیں کہ وہ کاروبار کی مشق کیے بنا نفع حاصل کرلیں۔
محکمہ ریلوے میں لائن کی ٹوٹ پھوٹ چیک کرنے کے لیے ٹرالی پر ٹیکنیکل عملہ گشت کرتا ہے۔ اس ٹرالی کو قلی مزدور کچھ دور تک دھکا لگاتے ہیں اور پھر اچھل کر اس پر سوار ہوجاتے ہیں۔ ان مزدوروں نے اگر آدھا میل دھکا لگایا ہوتا ہے تو اس دھکے کے زور پر ٹرالی دو تین میل چل جاتی ہے۔ کاروبار یا کسی بھی اور کام میں یہ دھکا مشق ہے، اور اس کے بعد دیر تک کا سفر نتیجہ ہے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ کاروبار کرنے نکلیں اور پیسے کی ریل پیل شروع ہوجائے۔ یہ بے صبرا پن اکثر بددیانتی کی طرف لے جاتا ہے۔
ٹھیکے دار چاہتا ہے کہ اُسے کچھ تعمیر کیے بغیر بل ادا ہوجائے، استاد چاہتا ہے کہ اُسے پڑھائے بِنا تنخواہ مل جائے، شاگرد چاہتا ہے کہ اُسے پڑھے بغیر کامیابی مل جائے، والدین چاہتے ہیں کہ تربیت کیے بغیر اُنھیں نیک، سعادت مند، کمائو پوت مل جائے، اکثر بیویاں چاہتی ہیں کہ بغیر ایثار اُنھیں گھر کی حکمرانی مل جائے، شوہر چاہتا ہے کہ عزت دئیے بغیر بیوی اس کے بچوں کی اچھی اتالیق بن جائے… یعنی مشق غائب، صرف نتیجہ چاہیے۔
یہی حال ہماری سیاسی جماعتوں کا ہے۔ پیپلز پارٹی کچھ نہ کرکے بھی چاہتی ہے کہ اُسے بہت کام کا سمجھا اور کہا جائے۔ اس جماعت نے کراچی کو کچرا گھر، پانی سے محروم، کھنڈر سڑکوں کا شاہکار بنادیا لیکن زبردستی ہے کہ اُنھی کو ووٹ دیا جائے۔ اسی طرح ایم کیوایم نے کراچی کے تیس سال ایسے برباد کیے کہ آئندہ تیس سال بھی کراچی سنبھل نہیں پائے گا، لیکن اُن کا دعویٰ اب بھی یہی ہے کہ اُنھیں کراچی کا مسیحا، خیرخواہ سمجھ کر ووٹ دیا جائے۔
حال ہی میں چودھری شجاعت حسین کی کتاب ’’ سچ تو یہ ہے‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں چودھری صاحب نے نوازشریف اور اُن کے والد صاحب سے متعلق کئی قصّے تحریر کیے ہیں۔ ان واقعات کے مطابق سارے میاں صاحبان جھوٹے، وعدہ خلاف، احسان فراموش، موقع پرست، چاپلوس ثابت ہوئے ہیں، لیکن جناب نوازشریف چاہتے ہیں کہ اُنھیں جمہوریت کا صلاح الدین ایوبی سمجھا جائے، اُن کی دیانت داری کی داستانیں نصاب میں شامل کی جائیں۔
مذہب کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، اللہ نے ہمیں آخرت میں کامیابی کا سوال حل کرنے کو دیا اور حل کرنے کی مشق بھی بتا دی، اور ساتھ یہ بڑی رعایت بھی دی کہ سوال کا جواب حاصل کرنے کی مشق کرو، جواب اگر نہیں بھی آیا تو بھی مشق کرنے پر ہی تمہیں کامیاب قرار دے دیا جائے گا، لیکن ہم یہاں بھی چھلانگ لگاکر مشق کیے بِنا کامیاب نتیجہ چاہتے ہیں، یعنی نماز، روزہ، دیانت داری، حُسنِ سلوک، اخلاق، ایفائے عہد، دعوت، نصحیت کی مشق کیے بغیر دُنیا میں متقی و پرہیزگار کا خطاب مل جائے اور بغیر حساب کتاب جنت کے مستحق قرار پائیں۔
کچھ کیے بغیرکامیاب نتیجہ پانے کی عادت کام چوری، ہڈ حرامی، منافقت، جھوٹ، بددیانتی میں مبتلا کردیتی ہے، لہٰذا آج ہمارے معاشرے میں یہ خرابیاں خوبیاں شمار کی جاتی ہیں، لیکن دعویٰ ہمارا اب بھی یہی ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں، ہم بہت باصلاحیت ہیں، دشمن ہمیں میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔ اسی لیے ہماری اکثریت نے دو اور دو چار کے میتھ کو غیر واضع میتھ بنادیا ہے۔ بہنو اور بھائیو! جواب کی فکر سے آزاد ہوکر مشق کا راستہ اپنائو، یقین ہے کہ منزل پا لوگے۔

حصہ