مریم شہزاد
گو کہ بے مقصد لکھنا میرے مزاج کے خلاف ہے، اور نہ میں چاہتی تھی کہ ایسا کچھ لکھوں، مگر جب ایسی تحریریں پڑھ کر لوگوں کے چہروں پر چند لمحوں کی مسکراہٹ دیکھی تو لگا شاید یہ بھی اچھا ہے، تو آگے ہمت بڑھائی کہ چلو کسی کی مسکراہٹ کے لیے ہی سہی، لکھ دوں۔ مگر صاحب، ادیب یا شاعر بننا بھی آسان کام نہیں۔ اس کا اندازہ اب اس لیے ہورہا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کچھ کچھ ادیب سمجھنے لگے ہیں۔
پتا نہیں سب ادیبوں کے ساتھ ہی ایسا ہوتا ہے یا صرف ہمارے ساتھ ہی یہ ہورہا ہے کہ جب کوئی تحریر قلم بند کرلیتے ہیں تو اس کی نوک پلک سنوار کر دل چاہتا ہے کہ اسے جلد ازجلد سپردِ ڈاک کردیں اور وہ جلدی شائع بھی ہوجائے۔ مگر ایسا ہوتا نہیں۔ کم از کم تین سے چھ اور کبھی کبھی سال بھر بھی انتظار کرنا پڑجاتا ہے، اور جب ہماری تحریر کسی رسالے کی زینت بن جاتی ہے توگویا ہماری گردن میں خودبخود کلف لگ جاتا ہے کہ کوئی بات تو ہے ہم میں۔ مگر پھر یہ دل اسی پہ بس نہیں کرتا کہ شائع ہوگئی، بس کافی ہے خوش ہوجاؤ۔ نہیں جی، اب سب کو پڑھوانی بھی لازمی ہے۔ ہر آئے گئے کو کہانی پڑھائی جاتی ہے اور خدانخواستہ اگر کوئی تنقید کردے تو ہمارا منہ اندر تک کڑوا ہوجاتا ہے ’’ہونہہ، تمیز ہے نہیں اور چلے ہیں تنقید کرنے‘‘۔ اور رسالہ جھٹ ہاتھ سے جھپٹ لیتے ہیں۔ اور اگر تعریف کردے تو اس سے اچھا قاری کوئی نہیں۔
مگر ایک دن یہ شوق مہنگا پڑگیا، بلکہ مہنگا کیا پڑا یہ کہیں کہ خون کے آنسو رلا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ہمارے ہاں دعوت تھی، بات چل نکلی ہماری تحریروں کی۔ کسی نے کہا ’’لائو پڑھیں تو سہی، تمہاری کوئی نئی تحریر‘‘۔ اور ہم شامت کے مارے، جوشِ جذبات میں اپنا پورا پلندہ اٹھا لائے اور سب کے ہاتھوں میں پکڑا دیے۔ اتنے میں کسی نے آواز دی، ہم اس کی بات سن کر شاید 10 منٹ میں ہی واپس آگئے ہوں گے، مگر ایسا لگا کہ چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی، ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی یا آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا… کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے؟
اکثریت نے ہماری متاعِ حیات پڑھنے کے بعد یا پتا نہیں پڑھی بھی یا نہیں، اپنے بچوں کے حوالے کردی، بیچارے معصوم بچے… اب ان کو کیا کہتی! بڑی مشکل سے مسکرا، مسکرا کر کسی بچے کے پیمپر سے برآمد کی تو کہیں اڑتا ہوا جہاز ہائی جیک کیا، کسی بچے کی اماں نے فیڈر اس پر رکھ دی تھی جس میں سے دودھ کا دریا بہہ رہا تھا اور ہماری کہانی دودھوں نہاؤ، پوتوں پھلو کی عملی تصویر پیش کررہی تھی۔ بہت مشکل سے حلق میں پھنستے آنسوؤں کے گولوں کے ساتھ پرزے پرزے جمع کیے اور بعد میں ردی والے کو بھی دینے کے قابل نہ جان کر ردی کی ٹوکری کے حوالے کردیے۔
ہم جو اپنی لائبریری بنانے کے شوق میں تھے کہ جس میں صرف اور صرف ہماری نگارشات ہوں، ہوائی قلعہ بن کر رہ گئی… بس اس کے بعد ہم نے توبہ کرلی کہ اب کوئی کہے گا بھی تو اس کو ہرگز ہرگز نہیں دکھائیں گے۔ اگر بہت ہوا، تو فوٹو اسٹیٹ دیا کریں گے، ٹھیک ہے ناں۔