اللہ کا دوست

295

محمد شاہد حفیظ
میں ایک استادہوں اور میرا مضمون اسلامیات ہے۔ نئے اسکول میں آج میراپہلا دن تھا۔ اسی وجہ سے خوشی بھی تھی اور ڈر بھی۔ اس خوشی میں ، میں نے ناشتا بھی برائے نام کیااور وقت سے کچھ دیرپہلے ہی اسکول پہنچ گیا۔
پرنسپل صاحب سے ملنے کے بعد مجھے ایک کلاس میں بھیج دیاگیا۔ کلاس روم میں خوب شور ہورہاتھا۔ تمام بچے اپنی عادت وفطرت کے مطابق زور زور سے باتیں کررہے تھے۔ میں نے کمرے میں قدم رکھاتوسب کوسانپ سونگھ گیا۔ سب کے سب خاموشی سے سیدھے بیٹھ گئے۔
پھر اچانک کلاس کی دائیں جانب سے’’کلاس اسٹینڈ‘‘ کی آواز گونجی۔ یہ یقینا کلاس مانیٹر تھا۔ اس کی آواز سن کرسب بچے باادب کھڑے ہوگے۔
سِٹ ڈاؤن پلیز۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
سب بیٹھ گئے۔
شاید آپ جانتے ہوں کہ اب ، میں آپ کواسلامیات پڑھایاکروں گا۔
یس سر! چند بچوں کی آواز آئی۔
آج پہلی بار آپ کی کلاس لے رہاہوں ، اسی لیے آج کچھ نہیں پڑھاؤں گا۔ پہلے میں اپنا تعارف کراؤں گا، پھر ایک ایک کر کے آپ سب کے بارے میں جاننا چاہوں گا۔
استاد کاشاگردوں سے بڑا گہرا تعلق ہوتاہے۔
استادمعلم ہے اور اس کاکام علم وآگہی دینا ہے۔ یہی کام گھرمیں ماں باپ بھی کرتے ہیں۔ اسی لحاظ سے کہاجاتا ہے کہ استاد باپ کی جگہ ہوتا ہے، لیکن میرے نزدیک استاد ہی بہترین دوست ہے۔ شاگردوں کااستاد کا احترام کرتے ہوئے اس سے بے تکلف بھی ہوناچاہیے، تاکہ وہ اپنے مسائل پر استاد سے بات کرسکیں۔
اس سے مشورہ کرسکیں اور استاد ان کی راہنمائی کرسکے۔
چند لمحے کلاس میں خاموشی چھائی رہی پھر کچھ ملی جلی آوازیں اْبھریں۔
تھینک یوسر!
اب میں اپنا تعارف کرا دوں۔ میرا نام شہاب حیدر ہے۔ صحافت میں ایم۔ اے کیا ہے، مگر عملی طور پر تدریسی میدان میں آگیا۔
پڑھانا میراشوق ہی نہیں، بلکہ اس سے مجھے دلی اطمینان ہوتا ہے۔ میں نے اسلامیات کامضمون اس لیے منتخب کیاہے کہ آپ کوحقیقی اسلام سے آگاہ کروں اور آپ کومحب وطن شہری بناؤں۔ اب آپ لوگ باری باری اپنا تعارف کرادیں۔ میں نے پہلی قطار میں داھنی جانب بیٹھے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔
سر! میرانام عمراحمد ہے۔ میرے ابوکانام حیات احمد ہے۔ وہ ایک بینک منیجر ہیں۔
اس کے والدکاسن کرساری کلاس پر رعب طاری ہوگیا۔ اتنے میں دوسرا لڑکاکھڑا ہوگیا۔
سر! میرانام حمزہ ہے۔ میرے ابوایک پرائیوٹ فرم میں جنرل منیجر ہیں۔
’’ اوہ… یہ بھی منیجر… میرے منہ سے نکلا۔
اس کے بعدد تیسرا لڑکا کھڑاہوا۔ وہ بھی پہلے دونوں سے کم نظر نہیں آرہاتھا۔
مجھے ذیشان کہتے ہیں۔ میرے ابو ایک تاجرہیں ان کاکپڑے کاکاروبار ہے۔
ان سب کے تعارف میں حیران کن بات ان کاخاندانی پس منظر تھا، جسے وہ فخریہ انداز میں بیان کررہے تھے۔
یہ بات مجھے اچھی نہ لگی۔ آگے بھی تعارف ہوا تو تمام لڑکے اعلیٰ اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم وچراغ ثابت ہوئے ، کیوں کہ یہ ایک منہگا اورمعیاری اسکول تھا۔ غریب لوگوں کے بچے تو اس کاصرف سوچ سکتے تھے۔
ابھی انھی خیالوں میں مگن تھا کہ ایک لڑکا جولائن کے آخری ڈیسک پر بیٹھا تھا، اْٹھ کھڑا ہوا۔
اس کاچہرہ اعتماد سے خالی نظر آرہاتھا۔ میں نے اس سے تعارف کے لیے کہا تو وہ قدرے ہچکچاتے ہوئے بولا سر! میرانام محمد علی ہے۔ میرا تعلق ایک عام سے گھرانے سے ہے۔ کلاس کے تمام لڑکے اسکی طرف دیکھنے لگے تو وہ شرمندہ ساہوگیا۔
آپ کے ابوکیا کام کرتے ہیں؟ میں نے تجس سے پوچھا۔
جی… جی… وہ… اللہ کے دوست ہیں۔
اس کاجواب سن کرکلاس میں قہقہے گونجنے لگے، مگر میری سنجیدگی دیکھ کر خاموش ہوگئے۔
اللہ کے دوست… وہ کیسے کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے۔
جی وہ محنت مزدوری کرتے ہیں۔
ہمارے نبی کریم ؐ کاارشاد ہے کہ ہاتھ سے کمانے والا اللہ کادوست ہے تومیرے ابو بھی اللہ کے دوست ہوئے، کیوں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کماتے ہیں۔ وہ سارا دن محنت مزدوری کرتے ہیں، تاکہ میری فیس ادا کر سکیں اور مجھے بہتر سے بہترتعلیم دلوا سکیں۔
وہ کہتے ہیں تم خوب محنت کرو اور بڑے آدمی بننا۔
اس کاجواب سن کرمیں حیران رہ گیا۔ اس قدر پختہ یقین کابچہ دیکھ کردل کوسکون ملا۔ میں نے اسے شاباش دی اورپوری کلاس سے مخاطب ہوا: واقعی ہاتھ سے کمانے والا اللہ کادوست ہوتا ہے۔
محنت کی عظمت اوربرکت سے کون واقف نہیں ہے۔ آپ کے ابو کامقام بہت بلند ہے۔ آپ کواس پر فخر ہونا چاہیے۔ کئی انبیائے کرام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے۔
میں نے محسوس کیاکہ میری بات کوپوری کلاس پر اثر ہورہاہے اور مجھے خوشی تھی کہ میں پوری کلاس کومحنت کی عظمت سمجھانے میں کام یاب ہوا۔

حصہ