ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد
ثروت حسین جدید تر عہد کا وہ سحر کار شاعر ہے جس نے غزل کے قالب میں اپنے عہد کی حساسیت کو متشکل کرنے کے لیے قدیم تلمیحاتی رنگوں کو فن کارانہ ہْنر مندی سے استعمال کیا ہے۔ ان کے ہاں تلمیحات کے استعمال نے شعر کی تہ داری اور رمزیت میں اضافہ بھی کیا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ شعر میں مفاہیم کی کئی پرتوں کو بھی ابھارا ہے۔ تلمیحات کے ذریعے ثروت حسین نے حال اور ماضی کے زمانوں کو ہم آہنگ کر کے انسانی سائیکی کے بدلتے ہوئے رنگوں کی تاریخ مرتب کی ہے۔ ذیل کے چند اشعار دیکھیے:
فراتِ فاصلہ سے دجلہء دعا سے اْدھر
کوئی پْکارتا ہے دشتِ نینوا سے اْدھر (آدھے سیارے پر )
چہرہ بلقیس پر آنکھ ٹھہرتی نہیں
صبحِ یمن کا سماں خوب ہے اپنی جگہ
اک روز میں بھی باغِ عدن کو نکل گیا
توڑی جو شاخِ رنگ فشاں ، ہاتھ جل گیا
کبھی بلقیس کبھی شہرِ صبا لگتی ہے
شاعری تختِ سلیماں سے سوا لگتی ہے
جتنے تراشیدہ پیکر تھے ابراہیم نے توڑ دیئے
ثروت اس بْت خا نہء شب میں آنکھ لگی جو آزر کی
ثروت حسین کی غزل تکنیکی اور فنی حوالے سے ان کی پْختہ کاری کی عکاس ہے۔ زبان و بیان کے قرینے، بندشوں کی دل کشی، تراکیب کی جدت اور دیگر تکنیکی عناصر کا حسن کارانہ استعمال ثروت حسین کی غزل کو معاصر شعرا سے ممیز کرتا ہے۔ انہوں نے غزل کے لیے نئی زمینیں وضع کیں جن میں ردیف و قوافی کی جھنکار آہنگ کی نئی اور خوش آیند صورتیں پیدا کرتی ہے۔ ان کی غزل مکمل طور پر کلاسیکی معیارات کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ ان کے اسلوب کی کھنک اور لہجے کی شوکت ان کی غزل کو مجموعی طور پر رجائیت کے احساس سے بہرہ مند کرتی ہے۔ ثروت حسین کے انوکھے طرزِ اظہار نے ان کے اسلوب کو انفرادیت کا وہ ذائقہ عطا کیا ہے جس پر کسی اور غزل گو شاعر کے رنگ سخن کی چھاپ دکھائی نہیں دیتی۔موضوع کا نیا پن اور اظہار کی جدت کا اندازہ ذیل کے اشعار سے کیا جا سکتا ہے:
زمیں ہم سے تری بے رونقی دیکھی نہیں جاتی
کہیں دریا بہائیں گے، کہیں باغات رکھیں گے
موجہ ئآبِ رواں کہتی ہے
مجھ پہ بنیادِ مکاں رکھیو مت
قندیلِ مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا
کْچھ اس سے زیادہ ہے مرا خاک پہ ہونا
جلیل عالی جدید تر غزل کے اہم شاعروں میں شامل ہیں۔ انہوں نے غزل کی روایت کو پورے تخلیقی رچاؤ کے ساتھ اپنایا اور اس کی تابانی میں اپنے زمانے کے رنگ رس کو شامل کرنے کی کوشش کی۔ عالی کی غزل فنی اور تکنیکی حوالوں سے بھی کلاسیکی معیارات پر پوری اترتی ہے۔ لفظیات کے چناؤ اور مصرعے کی بْنت میں انہوں نے ہْنر مندی کا جادو جگایا ہے۔ صناعانہ عناصر کے مؤثر استعمال نے ان کی غزل کو دل کشی اور خوش رنگی عطا کی ہے۔جلیل عالی کی غزل میں غیر اضافتی تراکیب کا استعمال ایک رجحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ ان کے معاصر شعرا کے ہاں بھی ترکیب مقلوبی کے استعمال کی عمدہ مثالیں دکھائی دیتی ہیں مگر عالی نے جس تواتر اور تسلسل کے ساتھ ترکیبِ مقلوبی کے ذریعے نئے معنوی آفاق روشن کیے ہیں اس میں ان کا کوئی حریف نہیں۔ عالی کے اس رجحان کی ایک جھلک ذیل کے اشعار میں دیکھیے:
شوق سمندر کے ساحل پر دل نے اس موسم
شہر بسائے کتنے ، ہر اک شہر میں گھر کتنے
چمکی یہ کس خیال ستارے کی روشنی
اپنی انا کا چاند بھی بے نور ہو گیا
دل پھر کوئی صلح کی صورت ڈھونڈ رہا ہے
سوچ محاذوں پر شہ مات سے پہلے پہلے
تیری میری آنکھ میں حیراں ایک ہی منظر
ایک ہی روشن خواب دریچہ تیرا میرا
عالی رْتیں بھی بھول گئیں چاند ذائقے
ہم نے بھی من کی موج کا دفتر الٹ دیا
علی اکبر عباس نے جدید تر غزل کو نئی شعریات کے ذائقے سے سرشار کیا ہے۔ ان کے ابتدائی شعری مجموعے ’’بر آبِ نیل‘‘ اور ’’درِ نگاہ سے‘‘غزل کے روایتی تصور کے امین اور پاس دار ہیں، یہ مجموعے موضوعات کی نْدرت کے باوجود علی اکبر عباس کی انفرادیت کا کوئی نقش ابھارنے میں کام یاب نہیں ہوئے۔ ان کی شناخت ان کے منفرد شعری کارنامے ’’رچنا‘‘ کی مرہونِ منت ہے۔’’رچنا‘‘ میں شامل غزلیں اپنے موضوعات ، لفظیات ، اسلوب اور تکنیک کے اعتبار سے ایک مختلف اور منفرد ذائقہ رکھتی ہیں۔ علی اکبر عباس نے اپنے علاقے کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی کے ہمہ رنگ نقوش کو ہْنر مندی اور مہارت کے ساتھ غزل کے آئینے میں سجایا ہے، بہ قول غلام حسین ساجد :
’ ’رچنا‘ اْس کا ایک ایسا شعری کارنامہ ہے جس کے ذریعے علی اکبر عباس نے اْردو غزل کے آوارہ صفت رویّوں کو ایک گھر دیا ہے،جو صرف ایک قطع? ارضی پر کھڑی کی جانے والی بے روح در و دیوار کی تجسیم سے مملو نہیں بلکہ اپنے مکینوں کی دھڑکتی زندگیوں کی امین بھی ہے۔‘‘
’’رچنا ‘‘ میں شامل غزلیں فکری اعتبار سے ایک دوسرے سے جْڑی ہوئی ہیں۔ ہر غزل انفرادی خدوخال رکھنے کے باوجود اس شعری نظام کا حصہ ہے جو تہذیبی عناصر کی پیش کش کے لیے علی اکبر عباس نے تشکیل دیا ہے۔ غزل کی مخصوص لفظیات میں اس معاشرت کی مؤثر تصویریں ابھارنا ممکن نہ تھا اسی لیے علی اکبر عباس نے پنجابی زبان سے بھر پور استفادہ کر کے اپنے لیے نئی شعری زبان وضع کی ہے۔ اس شعری زبان کی تشکیل میں اگرچہ شعوری کوشش کارفرما ہے مگر تکلف اور تصنع کا دور دور تک گزر نہیں البتہ اجنبیت اور نامانوسیت کے باعث یہ زبان مروج شعری لفظیات سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں۔ ’’رچنا ‘‘ میں مستعمل اوزان و بحور منفرد صوتی آہنگ کی فضا پروان چڑھاتے ہیں۔ متدارک اور متقارب کی شانزدہ رکنی بحروں میں موسیقیت کا بہاؤ اپنے جوبن پر ہے۔ ’’رچنا‘‘ کا موضوعاتی، تکنیکی، لسانی اور صوتی سراپا ذیل کی غزل کے آئینے میں پوری طرح جلوہ گر ہے:
دن چڑھا، گلی آباد ہوئی بْڑھیوں کی جمی چوپال بھلا
گودوں میں پوتے پوتیوں کی کبھی ناک بہے کبھی رال بھلا
کوئی چرخا ڈاہ لوگڑ کاتے، کوئی بالوں کی رسی باٹے
کوئی کھیس کے بْمبل باندھے تو کوئی لگ جائے اس کے نال بھلا
کوئی چھاج چنگیز بْنے بیٹھی، یا رنگلی پَنیوں کی پنکھی
کوئی چاول پھٹکے صاف کرے، کوئی چْنے بیٹھ کے دال بھلا
سْن پھیری والے کی گھنٹی، کسی بچے نے جو روں راں کی
چْنی کا کونہ کھول کہا،لو ایک ٹکا میرے لال بھلا
کْچھ دْکھ سْکھ پچھلے ویلے کے،کْچھ یادیں الھڑ عمروں کی
سب اگلی پچھلی باتوں تک پھیلے باتوں کا جال بھلا
کوئی شادی ہے یا گود بھری، کوئی مرا یا مرنے والا ہے
سب اک دوجی کو آن کہیں سارے گاؤں کا حال بھلا
کھڑکی سے بہو آوازیں دے،چل اندر آ جا ہْن بے بے
مجھے ہانڈی روٹی کرنی ہے ، نِکڑے کو آن سنبھال بھلا
کل ان کی کوئی بہو بیٹی یہ سب کْچھ دوہراتی ہو گی
اللہ کرے ان گلیوں کے یونہی بیتیں ماہ و سال بھلا
پروین شاکرجدید تر غزل کی سب سے مقبول شاعرہ کی حیثیت سے سامنے آئیں۔ ان کے اولین مجموعہ کلام ’’خوشبو‘‘ کا پاکستان اور ہندوستان میں والہانہ استقبال ہوا ، نوجوان نسل نے بالخصوص اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یوں اس مجموعے کے باعث بہ قول پروین شاکر ’’محبت کے روایتی تحفوں‘‘ میں اضافہ ہوا۔ ’’خوشبو‘‘ میں جذبے کی شدت اور وارفتگی مخصوص نسوانی لحن میں ڈھلی ہوئی ہے۔ عشق و محبت کی گریز پا کیفیتوں اور جذباتی رویّوں کی ناقابلِ بیاں حالتوں کو پروین شاکر نے ہْنر مندی کے ساتھ شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ چاند ، خوشبو، پھول، بارش، جگنو، تتلی،گلاب، شہر اور چڑیا جیسے مخصوص استعارات و علامات اور ردا، نقاب، آنچل، گھونگھٹ، ساری، دوپٹہ ،دلہن، حنا ، جْوڑا وغیرہ جیسے نسوانی رنگ کے حامل الفاظ کے معنی خیز استعمال سے اظہار کی نئی جہات سامنے آئیں۔ پروین شاکر نے عورتوں کے احساسات، میلانات اور رویّوں کے حامل مضامین کو بے باکی اور جرات کے ساتھ غزل میں شامل کر کے اس کے دائرہ موضوعات کو وسعت بخشی۔ نسوانیت کا یہ مخصوص رنگ اْردو غزل میں پروین سے پہلے بھی کہیں کہیں دکھائی دیتا ہے مگر اس کے نقوش مدھم اور خدوخال بْجھے بْجھے ہیں۔ پروین شاکر نے اس رنگ کو وضاحت اور شوخی سے ہم کنار کیا۔ نسوانی رنگ میں ڈوبے ہوئے ذیل کے اشعار دیکھیے:
میں اس کی دسترس میں ہوں ، مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
اْلجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
میں پھول چْنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا
سوتی رہی آنکھ دن چڑھے تک
ٍدلہن کی طرح تھکن سمیٹے
’’خوشبو‘‘ میں شامل غزلوں میں اگرچہ جذباتی زندگی کی خوش رنگ اور نظر کشا تصویریں ملتی ہیں تاہم موضوعات کا تنوع جیسا کہ جدید تر غزل میں دکھائی دیتا ہے، پروین کے ہاں نہیں ملتا۔ انہوں نے صرف عشق و محبت کے روایتی موضوعات کو نئے نسوانی لحن کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اس تحدید کے باعث ان کے ہاں ایک ہی موضوع ذرا سے لفظی تغیر کے ساتھ بار بارسامنے آتا ہے۔
’’خود کلامی‘‘ اور ’’صد برگ‘‘ کی غزلوں پر ’’خوشبو‘‘ کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے تاہم ان مجموعوں میں شامل غزلیں اس سرشاری سے محروم دکھائی دیتی ہیں جو ’’ خوشبو‘‘ کی غزلوں کا طرہ امتیاز ہے۔فنی اور فکری حوالے سے پروین شاکر کا آخری مجموعہ کلام ’’انکار‘‘ باقی مجموعوں سے ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ یہ مجموعہ موضوعاتی تنوع اور فکری گہرائی کے ساتھ ساتھ قدرتِ فن کا بھی غماز ہے۔ اس مجموعے میں تکنیکی عناصر کے استعمال اور مصرعوں کے درو بست میں حسن جھلکتا ہے۔ ’’انکار‘‘ کی غزلوں میں بھی محبت ایک غالب موضوع کی حیثیت رکھتی ہے تاہم اس میں شدید جذباتی کیفیت اور ہیجانی انداز کی بجائے توازن اور گہرائی دکھائی دیتی ہے:
دل تو اس راہ پہ چلتا ہی نہیں
جو مجھے تْجھ سے جدا کرتی ہے
میں تو تا عمر ترے شہر میں رْکنا چاہوں
کوئی آ کر مرا اسبابِ سفر تو کھولے
غلام حسین ساجد کی غزل منفرد تکنیکی سراپے کے باعث جدید تر غزل میں اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔ انہوں نے عہدِ جدید کے انسانوں کے ذہنی سفر کو مختلف کائناتی مظاہر کے ذریعے آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساجد کے ہاں غزل کی روایتی ڈکشن کے ساتھ ساتھ نئی علامتی معنویت کی حامل لفظیات شعوری کوشش کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ ذوالفقار احمد تابش کے بہ قول:
’’ ساجد کی مخصوص تمثالوں، علامتوں اور استعاروں میں آئینہ، چراغ، پھول، بہار، ستارہ، آمان، مٹی اور ہوا وغیرہ زیادہ اہم ہیں۔ اس نے اپنے شعری نظام کی مدد سے نہ صرف یہ کہ ان لفظوں کے باطنی امکان کو ظاہر کیا ہے بلکہ اپنی شاعری میں بھی ایک ایسی مابعد الطبیعاتی گہرائی پیدا کی ہے جو صرف اسی سے مخصوص ہے۔‘‘
ساجد نے لفظیات کی تشکیل میں داستانی عناصر سے بھی استفادہ کیا ہے ان کی غزلوں میں طلسمی ستارہ، طلسمی نہر، طلسمی خواب، الیاس، ظلِ ہْما، جہانِ غیب، طلسمی شہر، عشتار، سلیمان اور سبا جیسے الفاظ و مرکبات کا استعمال جا بہ جا دکھائی دیتا ہے۔ یہ مخصوص مزاج کی حامل ڈکشن غزل کی فضا میں حیرانی کا عنصر شامل کرتی ہے۔
(جاری ہے)