سید مغیرہ ابراہیم
ایک فرم کا مالک اپنے دو ماتحتوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے نکلا۔ راستے میں انھیں ایک بوتل پڑی نظر آئی۔ ایک ماتحت نے بوتل اٹھائی‘ اس پر ڈھکنا لگا ہوا تھا اور اندر کوئی دودھیا سی چیز نظر آرہی تھی۔ ماتحت نے آن کی آن میں ڈھکنا کھولا، اس دھوئیں نے ایک جن کی صورت اختیار کر لی۔ساتھ ہی جن اپنی خوف ناک آواز میں بولا ’’تم لوگوں نے مجھے اس بوتل سے نجات دلائی میں تم تینوں کی ایک ایک خواہش پوری کروں گا۔بولو تمہاری کیا کیا خواہش ہے۔‘‘
اس پر فرم کے مالک نے کہنا چاہا ’’میری خواہش ہے کہ…‘‘
اس وقت اس کا ایک ماتحت بول پڑا ’’سر مہربانی کر کے پہلے مجھے اپنی خواہش کا اظہار کرنے دیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے پہلے تم خواہش بیان کر لو۔‘‘
اس نے جن سے کہا ’’آپ مجھے ایک جزیرے پر بھیج دیں جہاں ضرورت کی ہر چیز موجود ہو… بس میں کھاؤں پیوں ، عیش کروں۔۔۔کوئی کام نہ کروں اور میرے علاوہ وہاں کوئی نہ ہو۔‘‘
’’اچھی بات ہے…‘‘ یہ کہہ کر جن نے چٹکی بجائی۔ اور وہ ماتحت غائب ہو گیا۔
اب پھر مالک نے کہنا چاہا’’میری خواہش یہ ہے کہ…‘‘
ایسے میں دوسرا ماتحت بولا ’’سر ! مہر بانی فرما کر مجھے خواہش بیان کرنے کی اجازت دیں ۔‘‘
’’اچھی بات ہے… تم پہلے بیان کر لو۔‘‘
’’مجھے ساحلِ سمندر پر بھیج دو… جہاں میرا خوب صورت بنگلہ ہو۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘ جن نے کہا اور چٹکی بجائی اور وہ بھی غائب ہوگیا۔
اب مالک کی باری تھی… اس نے جن سے کہا ’’یہ دونوں میری فرم میں کام کرتے تھے‘ میری خواہش ہے کہ ان دونوں کو واپس لے آؤ۔‘‘
جن نے چٹکی بجائی اور وہ دونوں واپس آگئے۔
سبق : اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ پہلے بڑوں کو بات کرنے کا موقع دینا چاہیے۔