جنس ، حیا اور بے حیائی

566

(دوسری قسط)
یہ شر پسند، بشمول الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا والے، کوئی بھی ایسا موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس سے فحاشی اور عریانی کو عام کیا جا سکے۔ چند دن قبل ایک بچی “زینب” کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کئے جانے کا لرزہ خیز واقعہ ہوا۔ یہ واقعہ اپنی جگہ خود ایک شرمناک اور کربناک واقعہ تھا لیکن اس واقعہ کو جواز بناکے جو جو ویڈیو وز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور ہمارے چینلوں نے بھی وہ وہ فحش باتیں کیں جس کی نہ کوئی حد تھی اور نہ ہی کوئی حساب۔ ایک غضب یہ بھی ہوا کہ ایک اشتہار بھی چینلوں پر چلایا گیا جس میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں اور بچیوں کو ان کے پوشیدہ مقامات پر باقائدہ ہاتھ لگا لگا کر یہ بتایا گیا کہ اگر کوئی ان ان مقامات کو چھوئے یا ہاتھ لگائے تو انھیں زور زور سے چیخنا چاہیے اور پھر اس چیخنے کی انھیں مشق بھی کرائی گئی۔ گویا کوئی بھی موقعہ فحاشی اور عریانی کو پھیلانے کا ہاتھ لگے یہ شیطانی سوچ رکھنے والے اس کو جانے نہیں دیتے اور برائی کو اچھائی میں لپیٹ کر پیش کرنے سے نہیں چوکتے۔
آجکل جس جنسی تعلیم کو عام کرنے کا بہت شور بلند ہو رہا ہے اس شور میں شیطانیت کا عمل دخل زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے ہوں یا بچیاں، چھوٹے ہوں یا ضعیف العمر افراد، سب کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے جنس کے معاملے میں کیا احکامات ہیں۔ مغربی میڈیا نے جنس کو محض “جنسیت”کی حد تک محدود کرکے رکھ دیا ہے اسی لئے وہ معصوم بچوں اور بچیوں کو صرف یہ بتاتے پھر رہے ہیں کہ تمہارے “پرائیویٹ”پارٹ کیا ہیں۔ اس قسم کی آگاہی ان میں تجسس کو اور بڑھا تو سکتی ہے لیکن ان کو اس بات سے کسی طور بھی نہیں روک سکتی کہ ان پرائیویٹ پارٹس کے ساتھ چھیڑا چھاڑی نہ کی جائے۔ فیصلہ کریں کہ کہ کیا ایسی کوئی بھی تعلیم دنیا کے جانداروں کو دی جاتی ہے جس میں انھیں ان کے اعضائے رئیسہ کے متعلق بتایا جاتا ہو یا اپنے بلوغت تک پہنچنے پر انھیں یہ بتایا جاتا ہو کہ وہ نسل کو بڑھانے کیلئے ایک دوسرے سے کس طرح اختلاط کریں گے؟۔ جواب یقیناً نہیں میں آئے گا تو پھر کوئی یہ بتائے کہ اپنی اپنی عمر کو پہنچ جانے کے بعد وہ سب اپنے جنسی تقاضوں کو کس طرح جان لیتے ہیں؟۔ خاص عمر پر پہنچنے کے بعد ان کے والدین ان کو اپنے سے دور کر دیتے ہیں اور قدرت الگ ہوجانے والوں کو زندگی گزارنے اور نسل کو پروان چڑھانے کے سارے گر از خود سکھادیتی ہے اور اس طرح سلسلہ حیات رواں دواں رہتا ہے۔ وہ کون بچہ یا بچی ایسی ہے جس کو ان باتوں کا علم اپنی چھوٹی عمر میں ہی نہیں ہوجاتا کہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بدن کی ساخت، لڑکا یا لڑکی ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے مختلف بنائی ہے ۔ یہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب نہایت سطحی باتیں ہیں جس کی تعلیم کو عام کرکے کچے ذہنوں میں تجسس کی لہر کو مہمیز دے کر ان کو اس جانب راغب کیا جارہا ہے کہ وہ ہر ایک بات کا خوب خوب جائزہ لیں اور پھر ہر وقت کا یہ جائزہ انھیں غلط راہوں پر لیجانے کا سبب بن جائے۔
عام طور پر شرم و حیا کو محض جنسی معاملات تک ہی محدود سمجھا جاتا ہے جو کسی بھی طرح منا سب نہیں۔ “حیا”کیونکہ ایمان کا جزو ہے اس لئے یہ ہماری پوری زندگی اور زندگی کے ہر ہر پہلو میں لازماً موجود ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنسی معاملات میں یہ دیگر معاملات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہو لیکن یہ بات بھی ناممکن ہے کہ اور معاملات میں اس کی کوئی رمق موجود ہی نہ ہو۔ حیا سے مراد وہ جھجک یا نفسیاتی رکاوٹ نہیں ہے جس کا باعث عام طور پر ہمارا خارج ہوتا ہے، بلکہ حیا انسان کے اندر پائی جانے والی وہ خوبی یا صفت ہے جس کی وجہ سے وہ غیر معروف اعمال سرانجام دینے میں گھٹن محسوس کرتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم ایک جانب تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں لیکن ہم پر اسلامی تعلیمات سے زیادہ معاشرے میں رائج طور طریق اور رسوم و رواج غالب ہیں جس کی وجہ سے ہم وہ بہت ساری باتیں جو قرآن کھول کھول کر بیان کرتا ہے، اسے بیان کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اسے خود باربار دہرائیں تاکہ ہم اپنے آپ کو خوب اچھی طرح سمجھ سکیں بلکہ وہ تمام معاملات جس کا قرآن میں کھل کر تذکرہ کیا گیا ہے، اپنے بچوں کو بھی بتائیں۔ بیشک اس بات کااہتمام کر لیاجائے کہ مائیں اپنی بچیوں کو اور دالد اپنے بچوں کو اللہ کے احکامات سے آگاہ کریں ۔ گوکہ مائیں ہوں یا والد، وہ خود بھی دونوں (بچے بچیوں) کو اللہ کے احکامات کی تعلیم دے سکتے ہیں لیکن اگر معاشرتی حدود زیادہ ہی مانع ہیں تو دونوں اپنے اپنے ہم جنسوں کو الگ الگ سمجھائیں اور ان تک اللہ کے احکامات پہنچائیں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
کسی بھی علم (تعلیم) کو ہم اسی وقت دوسرے تک منتقل کر سکتے ہیں جب از خود اس سے کماحقہ‘ آگاہ ہوں۔ اس لئے اس بات کی بے حد ضرورت ہے کہ ہم اپنا تعلق قرآن سے جوڑ کر رکھیں اور معاشرتی پابندیوں کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیں تو معاشرے میں ایک خوش گوار تبدیلی آسکتی ہے اور ہم اپنے بچوں بچیوں کی بہت ساری نفسیاتی الجھنوں سے نجات دلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
شرم و حیا کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایسے سارے احکامات خدا وندی کی تعلیم دیتے ہوئے جھجکیں یا شرمائیں جسے خود اللہ نے کھول کھول کر بیان کیا ہو بلکہ شاید یہ شرم اور یہ جھجک گناہ کے زمرے میں آتی ہو۔ اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید میں وہ ساری باتیں جو ہمارے جسم اور جنس کے متعلق بیان کی گئیں ہیں ان کا بیان گوکہ ہمارے معاشرے میں بلا کم و کاست اسی طرح ہرچھوٹے بڑے بچوں اور بچیوں یا ہر عمر کے لوگوں کے درمیان کرنا مناسب تصور نہیں کیا جاتا لیکن ان کو بیان کرنا اور اچھی طرح دل و دماغ میں اتار دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا نماز روزہ حج اور زکوٰۃ کے احکامات کا بیان کرنا، اس لئے کہ اگر یہ احکامات کھول کھول کر بیان نہیں کئے جائیں گے تو اس بات کا احتمال ہے کہ اپنی اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ اپنے ہی متعلق تجسس کمسنوں کو گمراہی کی جانب دھکیل دے یا ان کیلئے سخت خجالت باعث بنے۔ اس کی ایک مثال بعض اوقات بچیوں کا اسکول یا کسی اور سفر کے بعد نامناسب حالت میں گھر لوٹنا یا سو کر اٹھنے کے بعد نو عمر بچوں کا پریشان ہوجانا ہے۔ اگر ان کو مناسب انداز میں ان کو اپنے ہی متعلق درست آگاہی دی گئی ہوتی تو وہ خجالت کا شکار کبھی نہیں ہوتے۔
کچھ دیر کیلئے اس بات کو فرض کر لیا جائے کہ ہم سب یا تو “عرب”ہیں یا پھر قرآن ہماری مادری زبان میں نازل ہوا ہے۔ ہم اس کی تلاوت خوش الحانی سے کر رہے ہیں یا نماز تراویح میں قرآن سن رہے ہیں۔ اس قرآن میں وہ سارے احکامات بیان کئے جارہے ہیں جو ہمارے جسم و جنس سے تعلق رکھتے ہیں تو کیا ہر وہ فرد جو شریک نماز ہوگا وہ سارے پوشیدہ و ظاہرہ باتوں سے نا آشنا رہ جائے گا جس کو آج کل کی دنیا میں جنسی تعلیم کہا جاتا ہے؟۔ پھر وہ کم عمر بچے بچیاں جن کو ابھی ان کی پوری سمجھ نہیں ہے لیکن وہ کوئی ایسی بات جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو اور وہ اسے سن بھی رہے ہوں تو کیا وہ اپنے بڑوں سے وضاحت طلب نہیں کریں گی؟۔
قرآن میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں
“پوچھتے ہیں حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو وہ ایک گندگی کی حالت ہے، اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ جب تک کی وہ پاک صاف نہ ہوجائیں، تو ان کے پاس جاؤ اس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ تمہیں اختیار ہے جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ مگر اپنے مستقبل کی فکر کرواور اللہ کی ناراضگی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبی جو تمہاری ہدایات کو مان لیں انھیں (فلاح و سعادت کی) خوش خبری دے دو”۔ (البقرۃ آیات 221-222)۔
بظاہر تو یہ آیات میاں بیوی کو پاکیزہ زندگی گزارنے کا ایک احسن طریقہ بیان کر رہی ہیں لیکن اس میں ان کم عمر بچوں اور بچیوں کیلئے جو بلوغت تک تو نہیں پہنچے ہیں لیکن ان کے ذہن میں بہت سارے فطری تجسسات سر پکڑنے لگے ہیں یا جو بالغ ہو چکے ہیں لیکن ابھی ہر چھپی چیز ان کے سامنے اس طرح بھی عریاں نہیں ہوئی ہے جیسا بڑی عمر والوں پر عیاں ہو چکی ہوتی ہے، ان سب کیلئے اس میں پوچھنے والی یا سوچنے والی کئی باتیں پوشیدہ ہیں جس کا جواب یا تو وہ خود نکالنے کی کوشش کریں گے یا کسی سے پوچھیں گے اور وضاحت طلب کریں گے۔ جب تک ذہن میں پڑجانے والی گرہ کھلے گی نہیں اس وقت تک جو الجھن ان کے دل و دماغ میں جڑ پکڑ چکی ہے وہ اپنی جستجو سے باز نہیں آئیں گے۔ اب اگر گھر یا معاشرے کا ماحول موافق ہوا اور ہر چھوٹا بڑا ہر ابھرنے والے سوال کو دوسرے سے بلاتکلف پوچھ سکتا ہوگا تو الجھن آسانی سے سلجھ جائے گی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو پھر وہ از خود اس کا حل ڈھونڈے گا جس سے اس بات کا قوی امکان پیدا ہوجائے گا کہ وہ غلط راستوں پر چل نکلے۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے
“تمہارے لئے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ اللہ تعلیٰ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے مگر اس نے تمہارا قصور معاف دیا اور تم سے در گزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرواور جو لطف اللہ نے تمہارے لئے جائز کر دیا ہے، اسے حاصل کرو۔ نیز راتوں کو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔ تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔ اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباثرت نہ کرو۔ یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنے احکامات لوگوں کیلئے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے”۔(البقرۃ آیت186)
ایسے بہت سارے احکامات جو بیشمار اذہان کیلئے تشریح طلب ہیں اور متقاضی ہیں کہ ہر بات بہت وضاحت کے ساتھ ان کو سمجھائی جائے۔ سمجھانے والے بھی باکرادر ہونے چاہئیں انھیں پوچھنے والے کو اس انداز میں سمجھانا چاہیے کہ اس میں کوئی لذت کوشی نہیں پائی جاتی ہو۔ جن بے دین لوگوں نے جنسی آگاہی کی تعلیم کو اپنے شیطانی ہاتھوں میں لیا ہوا ہے وہ ان کو جس اندزاز میں آگاہ کرتے ہیں اس میں ایسا انداز اپنایا جاتا ہے کہ تجسس ختم ہونے کی بجائے اس کو عملی طور پر کر گزرے بغیر اس تجسس کی احتیاج پوری ہی نہیں ہوپاتی۔
درج ذیل کچھ اور آیات کے حوالے ہیں جس میں طلاق کے اصول قوائد بیان کئے جا رہے ہیں۔ لیکن اس میں بھی بہت ساری باتیں نو عمروں کیلئے تشریح طلب ہیں جس کو اگر ان کی سوچ اور عمر کے مطابق نہ سمجھایا جائے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اپنے ذہن کو الجھا بیٹھیں۔ یہی سمجھ بوجھ نوعمروں میں پیدا کرنا، ان کو معروف طریقے سے سمجھانا، ان کو اپنے آپ سے آگاہ کرنے کا نام ہی دراصل جنسی آگاہی ہے جس میں ہم بہت کوتاہی کرتے ہیں جس کی ایک وجہ تو یہ ہے ہم از خود قرآن کے احکامات کو نہ تو پڑھتے ہیں اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر پڑھ بھی لیں اور اچھی طرح سمجھ بھی لیں تو صدہا برس کی معاشرتی، سماجی اور ثقافتی پابندیاں ہمارے اور ہم سے چھوٹوں کے بیچ دیوار کی طرح حائل ہو جاتی ہیں۔ قرآن میں بیان کی گئیں اگر ہم ساری ہدایات کو جو کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں، اپنے گھر میں اپنی اپنی اولادوں کو سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں تو ایک جانب انھیں کسی بھی مکتب میں مزید سمجھانے کی ضرورت پیش نہ آئے اور دوئم یہ کہ وہ خباثت جو مغرب زدگان ہمارے معاشرے میں مروج کرنا چاہ رہے ہیں وہ عام نہ ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
“اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں۔ ان کے معاملے میں تم کو اگر کوئی شک لاحق ہے تو ان کی عدت تین ماہ ہے۔ یہی حکم ان کا ہے جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد وضع حمل تک ہے”۔(الطلاق آیت 4)۔
“اور اگر وہ حاملہ ہوں، تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہوجائیـ”۔ (الطلاق آیت 5 )۔
جہاں ان کو آنے والے ایام میں ان کے ساتھ اور کیا ہونے والا ہے؟، سمجھایا جائے وہیں وہ بہت سارے وہ احکامات جن کا تعلق جسمانی پاکی سے ہے، اس کے متعلق بھی خوب اچھی طرح آگاہی دینا بھی بے حد ضروری ہے، وضو کس طرح کرنا چاہیے، وہ کن کن باتوں سے ساقط ہوجاتی ہے، غسل کس طرح کرنا چاہیے اور وہ کن کن حالتوں میں فرض ہو جاتا ہے۔ یہ اور ایسی ہی بہت ساری باتوں سے آگاہی کیلئے “بہشتی زیور”ایک بہت ممد و معاون کتاب ہے جس کو گھروں میں موجود رہنا اچھی بات ہے۔
(جاری ہے)

حصہ