محمد انور
بیرسٹر خواجہ نوید احمد ملک کے چند بڑے قانون دانوں اور آئینی ماہرین میں سے ایک ہیں۔ خواجہ نوید ایڈووکیٹ اس لحاظ سے بھی بڑا نام ہے کہ وہ سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کے مقبول اور مشہور وکیل ہیں۔ ہائی کورٹ کے جج اور ایڈووکیٹ جنرل رہنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں، جبکہ ان کی شخصیت اس لیے بھی منفرد حیثیت کی حامل ہے کہ وہ نہ صرف ڈراما نگار، سوشل ورکر و ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ بلکہ ملک کے سب سے بڑے اخبار کے کالم نویس بھی ہیں۔ خواجہ نوید نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین، اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں نوازشریف سمیت ملک کی تقریباً تمام جماعتوں کے مقدمات بھی لڑے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بھی وکیل رہے۔ اس لیے وہ سیاست دانوں میں بھی خاصے مقبول ہیں۔ بیرسٹرخواجہ نوید احمد، انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن برطانیہ اور انٹرنیشنل لا ایسوسی ایشن کے رکن ہیں، اور ایشین فورم پاکستان کے وائس چیئرمین بھی ہیں۔آپ انتہائی خوش اخلاق ہونے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ جسارت سنڈے میگزین نے اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے ملک کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے بیرسٹر خواجہ نوید احمد سے خصوصی گفتگو کی۔ امید ہے سب کو یہ بات چیت پسند آئے گی۔
جسارت میگزین: جمہوریت کے تسلسل میں آپ کیا سمجھتے ہیں ملک ترقی کررہا ہے یا تنزلی کی طرف جارہا ہے؟
بیرسٹر خواجہ نوید احمد: اس وقت جو حالات ہیں اُس سے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ملک پیچھے کی طرف یعنی تنزلی کی طرف جارہا ہے۔ اس لیے کہ جو دو جمہوری حکومتیں مسلسل جاری جمہوری ادوار میں آئی ہیں، انہوں نے تو صرف لوٹ مار کی ہے اور خزانہ خالی کیا ہے۔ دونوں حکومتوں نے دس سال میں ملک میں ایک ڈیم بھی نہیں بنایا جبکہ ہر سال سیلاب آتا ہے اور پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ اگر یہ حکومتیں شہروں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بنا دیتیں تو پانی جمع ہوجاتا۔ نوشہروفیروز، سکھر، نواب شاہ، بدین میں ڈیم بنادیتے تو سیلاب کا پانی یہاں جمع ہوتا جسے سارا سال کھیتی باڑی وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ ضروری نہیں کہ بہت بڑا ڈیم ہی بنایا جائے، چھوٹے ڈیم بھی تو بنائے جاسکتے ہیں۔ آنے والے برسوں میں پانی کے بحران کی اطلاعات ہیں۔ اگر اب بھی ڈیم نہیں بنائے گئے تو صورتِ حال خراب ہوسکتی ہے۔
جسارت میگزین: مسلم لیگ نواز کے رہنما یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت نے ملک کے سب سے بڑے شہر میں امن و امان کی تباہ شدہ صورتِ حال پر نہ صرف قابو پایا بلکہ شہر کو مکمل پُرامن بھی کردیا، کیا آپ بھی اس بات سے متفق ہیں؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: میں اس بات سے کیسے اتفاق کرسکتا ہوں! کراچی شہر میں آج دوبارہ امن و امان بحال ہوچکا اور شہر پھر سے جاگنے لگا ہے تو اس میں کمال تو رینجرز کا ہے، جس کے جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر شہریوں کی جانیں محفوظ بنائیں۔ حکومت مسلم لیگ نواز کی ہے تو اس کا کریڈٹ مسلم لیگی لینا چاہتے ہیں، مگر اصل کام تو رینجرز نے کیا اور کررہے ہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم کی طاقت کو توڑا ہے، امن کمیٹی کو ختم کیا ہے، امن کمیٹی کے دفتر کو توڑ کر مٹا دیا۔ رینجرز کا کہنا تھا کہ اسی جگہ پر لوگوں کو اغوا کرکے لایا جاتا تھا۔ یہیں پر چرس اور دیگر منشیات فروخت ہوا کرتی تھیں۔ اب صورتِ حال تبدیل ہوچکی ہے، پورا شہر امن و امان کا گہوارہ بن چکا ہے، کرکٹ میچ ہورہا ہے اور لوگ سکون سے اپنے گھروں اور اسٹیڈیم میں جاکر میچ کے مزے لے رہے ہیں۔
جسارت میگزین: خواجہ صاحب، آپ آصف علی زرداری اور نوازشریف دونوں ہی کے وکیل رہے ہیں، آپ نے انہیں قریب سے دیکھا ہے، عام لوگوں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں سے بہتر تو آمر ہی ہوتے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں ان کے بارے میں؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: ماضی میں آمروں کا جو کرپشن ریٹ، بھائو جو تھا ناں، وہ خاصا کم تھا۔ حالانکہ حالیہ آمر پرویزمشرف کے دور میں بھی جتنی جمہوریت تھی، پریس کو آزادی تھی، آزاد الیکٹرونک میڈیا کی شروعات ہوئی، لوگوں کو غیر معمولی روزگار ملا، ملک ترقی کرگیا، لیکن چونکہ انہوں نے وردی پہنی ہوئی تھی وہ آمر ہوگئے۔ حالانکہ عوام اُس دور میں آج سے زیادہ خوش اور خوشحال تھے۔ پرویزمشرف نے پریس میڈیا کو جتنی آزادی دی اور روزگار کے ذرائع پیدا کیے، اس کے طفیل آج ٹی وی کے اینکرز 28 اور 20، 20 لاکھ روپے تنخواہیں لے رہے ہیں، ان کو اخبارات کے مالکان 28 سو روپے بھی نہیں دیتے تھے۔کل تک جو اینکر چپل پہن کر آیا کرتے تھے اب ٹی وی پر سوٹ پہن کر بیٹھتے ہیں، صحافی مالدار ہوگئے ہیں۔ اس سب کا پرویزمشرف کو ہی کریڈٹ جاتا ہے۔
جسارت میگزین: خارجہ پالیسی بھی کیا آمریت میں بہتر تھی؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: خارجہ پالیسی کا معاملہ تھوڑا الگ ہے، چونکہ پرویزمشرف امریکن بلاک میں تھے تو سب کچھ ہرا ہرا ہی تھا، آپ کی پذیرائی بھی ہورہی تھی۔ اب چائنا کے بلاک اور روس کے بغل میں آجائیں گے تو ظاہر ہے یورپی ممالک کی بلیک لسٹ میں آجائیں گے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کے دور میں اچھی خارجہ پالیسی تھی یا نہیں، بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ امریکی بلاک میں تھے اور یہ چائنیز بلاک میں ہیں۔
جسارت میگزین: جمہوریت سے تنگ عام لوگ چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر آمریت آجائے تاکہ ملک پھر ترقی کرے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: میں بھی یہ کہتا ہوں کہ ’’غنچہ اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں‘‘
جسارت میگزین : ملک میں سیاست دانوں نے جو اتنی کرپشن کی ہے، کیا اس کی مثال پہلے بھی کبھی ملتی ہے؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: پارٹیوں نے کرپشن دل کھول کر کی ہے، اور دن دونی رات چوگنی ترقی کی ہے۔ سیاست دان اب خودکفیل ہوگیا ہے اور اپنی دس نسلوں کے لیے کما گیا ہے۔
جسارت میگزین: کراچی کی سیاسی صورتِ حال کو اب آپ کیسا دیکھ رہے ہیں؟ کیا ایم کیو ایم اور دیگر متنازع پارٹیاں وقتی طور پر ختم کردی گئی ہیں، یا ہوگئی ہیں؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: ابھی یہ وقتی طور پر ہی ختم ہوئی ہیں، جڑ سے اکھاڑی نہیں جاسکیں۔ جڑ سے تو نازی پارٹی بھی آج تک نہیں اکھاڑی جاسکی۔ اکا دکا کہیں نہ کہیں اس کا بھی ممبر مل جاتا ہے۔ تو یہ کہنا کہ کوئی پولیٹکل پارٹی یا نظریہ اکھاڑ پھینک دیا جائے گا، تو ایسا نہیں ہے۔ اخوان المسلمون بھی ہیں حالانکہ انہیں کرینوں سے کچل دیا گیا، پھانسیاں لگائی گئیں، مگر وہ ختم نہیں ہوئے۔ اس لیے یہاں جو پارٹیاں ہیں اُن کے زیرزمین کارکن جو ہیں وہ رہیں گے، وہ ختم نہیں ہوئے اور نہ ہی ہوں گے۔
جسارت میگزین: عدالتی مارشل لا کیا ہوتا ہے، یہ شوشا کیا ہے، کیوں چھوڑا گیا؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: خیال ہے کہ یہ شوشا شیخ رشید نے عوام کا ردعمل معلوم کرنے کے لیے چھوڑا تھا۔ یہ انہوں نے بہت بھونڈی حرکت کی تھی، مگر اس کے ردعمل کے طور پر چیف جسٹس پہلے خود بول پڑے اور عوام نے بعد میں بولا، اور بابا رحمتے چیختے ہوئے باہر نکل آیا کہ میری لاش پر سے ہی چل کر مارشل لا آئے گا۔
جسارت میگزین: اس عوامی تاثر کے بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ جو کچھ عدالتوں میں ہورہا ہے اور جو فیصلے کیے جارہے ہیں وہ کسی جانب سے اشارے کے باعث ہی ہورہے ہیں؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: نہیں ایسا نہیں ہے، یہ الزام بھی لگ جاتے ہیں، اور عدالتیں تو کہہ رہی ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔ ویسے بھی کسی بڑے کیس کا فیصلہ تو ابھی آیا ہی نہیں۔ کیس چلانے میں کسی کا ہاتھ ہوتا نہیں۔
جسارت میگزین: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگئی؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: کتابوں میں یہی لکھا ہوا ہے اور ظاہری طور پر بھی یہی نظر آتا ہے کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہے، اور یہاں وزیر قانون بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ افغانستان میں ریلوے کا وزیر نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں وزیر قانون ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: قانون پر عمل درآمد ہورہا ہے؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: عمل تو ہورہا ہے، جو غریب آدمی پکڑا جاتا ہے اُسے ہتھکڑیاں لگادی جاتی ہیں اور رائو انوار کھلے ہاتھوں گھوم رہا ہے اور ریمانڈ پر ایسٹر کی چھٹیاں منارہا ہے۔
جسارت میگزین: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کے حوالے سے آپ کا کیا تبصرہ ہے؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: یہ تاثر غلط ہے کہ یہ ملاقات نوازشریف کی ہدایت پر وزیراعظم نے کی، میرا خیال ہے کہ یہ بات غلط ہے۔ وہ ایسا کیوں کریں گے! نوازشریف کو ملک چھوڑ کر جانے کے لیے کوئی رکاوٹ ابھی نہیں ہے، وہ چاہیں تو ملک سے جا بھی سکتے ہیں اور مریم بھی جاسکتی ہیں۔ اگر وہ جانا چاہیں تو حکومت انہیں جانے دے گی۔ لیکن ان کے جانے کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی ختم اور ان کی سیاست بھی ختم۔
جسارت میگزین : مسلم لیگ نواز کا مستقبل کیا ہے؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: اگر انتخابات وقت پر ہوگئے تو نوازشریف کی پارٹی کا ووٹ بینک بہت اونچا ہے، لیکن ابھی یہ نہیں معلوم کہ انتخابات وقت پر ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔ اگر چھ ماہ بعد الیکشن ہوں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُس وقت کیا حالات ہوں گے۔
جسارت میگزین: کیا انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے امکانات ہیں؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: جی، انتخابات تاخیر کا شکار ہونے کے امکانات واضح ہیں جس کی وجوہات انتخابی حلقوں کی ڈی لمیٹیشن وغیرہ ہے۔
جسارت میگزین: کیا نگراں حکومت کا دور بھی طویل ہوسکتا ہے؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: اس کے بھی امکانات ہیں، لیکن تین سال تک نہیں۔ یہ سب افواہیں ہیں۔
جسارت میگزین: سیاسی جماعتوں میں انتخابات نہیں ہوتے، کیا ان کی پکڑ نہیں کی جاسکتی؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: میں نے تو کبھی پیپلز پارٹی میں انتخابات ہوتے ہوئے نہیں دیکھے، اور مسلم لیگ میں بھی نہیں دیکھے۔ یہ پارٹیاں ون مین شو ہیں۔ عمران خان کی پارٹی میں بھی جہاں انتخابات ہوئے وہاں عمران کے سوا سربراہی کرنے والا دوسرا کوئی ہے ہی نہیں۔ شاہ محمود قریشی اور چودھری سرور طفیلی ہیں، جبکہ جہانگر ترین اے ٹی ایم مشین ہے صرف فنانس کے لیے۔ مسلم لیگ نواز میں ابا، ابا کی بیٹی مریم ہے۔ چاچا بھی سربراہی کے قابل نہیں ہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم الطاف کی تھی، ان کے بعد ٹکڑے ہوگئی، اس کی کرچیاں ہورہی ہیں۔
جسارت میگزین: ملک میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہے؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: جمہوریت کا مستقبل اچھا ہے، کیونکہ جمہوریت سے سب کا کھانا پینا لگا ہوا ہے، یہ اسی طرح لنگڑی لولی چلتی رہے گی۔ نیب کی کارروائیوں سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔ جو لوگ نیب کی گرفت میں آرہے ہیں اُن کا باہر آنا مشکل ہے کیونکہ اب وہاں کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال ہیں جن کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا، وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔
جسارت میگزین: سندھ میں پیپلز پارٹی کو آپ کیسا دیکھ رہے ہیں؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت دوبارہ قائم ہوگی کیونکہ کرپشن سب کو اچھی لگتی ہے، سب کے کام ہوجاتے ہیں۔
جسارت میگزین: نوازشریف اور آصف زرداری کس حد تک جمہوریت پسند ہیں؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: جب یہ لوگ جیل میں ہوتے ہیں تو ان سے بڑا جمہوری کوئی نہیں ہوتا، اور جب یہ باہر ہوں تو دوسرے بے بس ہوتے ہیں۔ عوام بھی بے بس ہوتے ہیں۔
جسارت میگزین: نگراں وزیراعظم کون ہوگا؟
بیرسٹر خواجہ نویداحمد: آئین کے تحت حکومت اور اپوزیشن کے مشورے سے الیکشن کمیشن نگراں وزیراعظم کا تقرر کرے گا۔ اگر ان دونوں جماعتوں نے کسی نام پر اتفاق نہیں کیا تو سینیٹ کے چیئرمین کی طرح کی کوئی شخصیت وزیراعظم بن جائے گی۔ اور امکان ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔