قدسیہ ملک
آن لائن ریڈیو ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیروئن کا اصل نام ڈی اسٹیل مرفین ہے جسے 1874ء میں ایک انگریز کیمیا دان نے دریافت کیا۔ اس دریافت کی اصل وجہ دشمنوں کو نقصان پہنچانا تھا۔ پاکستان میں ہیروئن کا استعمال روس اور افغانستان کی جنگ کے بعد شروع ہوا۔ پاکستان میں 1984ء سے آج تک ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ کے قریب لوگ ہیروئن سے ہلاک ہوچکے ہیں، اور آج بھی 45 لاکھ کے لگ بھگ چھوٹے، بڑے، مرد، عورتیں ہیروئن استعمال کررہے ہیں جن کی اکثریت ہمارا نوجوان طبقہ ہے جو کم عقلی اور مختلف مایوسیوں سے گھبرا کر منشیات کی دنیا میں کود پڑتے ہیں۔
ہیروئن کا عادی ہیروئن کو سگریٹ، بیڑی یا انجکشن کے ذریعے استعمال کرتا ہے۔ دورانِ استعمال اس کی زندگی موت کی دہلیز پر گھٹنے ٹیکے ہوئے ہوتی ہے۔ اگر تھوڑی سی بھی اونچ نیچ ہوجائے تو یہ موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر اسے وقت پر ہیروئن نہ ملے تو اس کی حالت بگڑنے لگتی ہے، آنکھیں ڈبڈبانے لگتی ہیں، ناک سے پانی بہنا شروع ہوجاتا ہے، بھوک کم لگتی ہے، درد اور خوف سے پورے جسم میں جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی جسمانی اور ذہنی حالت بے چینی، بے سکونی اور گھبراہٹ کا شکار ہوتی ہے۔ اس وقت ہیروئن کا عادی اپنے ناخنوں سے اپنے جسم کو کاٹنے لگتا ہے۔ وہ ہیروئن کے لیے دنیا کا کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہوجاتا ہے، کیونکہ اُس وقت اس کی سوچ جواب دے چکی ہوتی ہے، وہ اپنے کنٹرول سے باہر ہوتا ہے، اُسے اپنے پرائے کا خیال نہیں رہتا۔ وہ نہ کمانے کے لائق ہوتا ہے اور نہ کہیں بیٹھنے کے، بلکہ ایسے لوگ اپنے گھر والوں، رشتے داروں اور دوست احباب پر بوجھ بنے رہتے ہیں اور اکثر خاندان انہی کی وجہ سے مختلف مسائل میں گھرے رہتے ہیں، ان کے اہلِ خانہ کی پوری زندگی شرم ساری اور ذلت میں گزرتی ہے، کیونکہ یہ پورے معاشرے میں بدنما داغ ہوتے ہیں، ان کی اپنی زندگی بھی مختلف پریشانیوں، بیماریوں اور دھکوں میں گزرتی ہے۔ لوگ انہیں نہ صرف برا بھلا کہتے ہیں بلکہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ ہر وقت غلیظ حالت میں گندگی کے ڈھیروں پر پڑے رہتے ہیں۔ انہیں نہ اپنی فکر رہتی ہے اور نہ گھر والوں کی عزت کا خیال۔ ان کاہدف صرف ان کا نشہ ہوتا ہے، اور منشیات کے ڈیلر پاکستان میں سالانہ کروڑوں، اربوں روپے منشیات کے ذریعے کماتے ہیں اور اس رقم کا 20 فیصد حصہ کرپٹ قانونی افسران میں تقسیم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی نہیں کی جاتی۔
لیکن آپ صرف ایک منٹ کے لیے اُن ماؤں کے بارے میں سوچیے، جن کے لختِ جگر ان کے سامنے روز تڑپتے اور مرتے ہیں۔ جن کی جوانیاں اجڑ جاتی ہیں۔ جن سے وابستہ درجنوں زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔ یہ مائیں ہاتھ اٹھا کر ان کرپٹ حکمرانوں، کرپٹ افسران اور منشیات فروشوں کو بددعائیں دیتی ہیں۔ آج ہیروئن اور چرس بسوں، ٹرکوں اور دوسری قیمتی گاڑیوں کے خفیہ خانوں، یا پھلوں کے کریٹوں، یا خواتین کے سامان کے ذریعے بآسانی پاکستانی شہروں میں منتقل کی جاتی ہے۔
منشیات کو بین الاقوامی سطح پر انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے، ان کے خلاف سخت سے سخت قوانین بناکر ان پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔ بعض ممالک منشیات کو بہت حد تک کنٹرول کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔ منشیات کے خلاف کئی مہمیں چلی ہوئی ہیں، کچھ ملکوں کے اندر آپریشن بھی ہوئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستانی حکمرانوں نے منشیات کے خلاف سخت ایکشن نہیں لیا۔ یہاں ہیروئن، چرس، افیون اور شراب اتنی تیزی سے پھیل رہی ہیں جس کا آپ اندازہ نہیں لگاسکتے۔ اب ہمارا نوجوان طبقہ سگریٹ، چرس اور شراب کو بطور فیشن استعمال کرتا ہے۔
آپ کو گلی محلّے میں بے شمار چہرے دکھائی دیں گے جو چرس اور شراب استعمال کرتے ہوں گے۔ سگریٹ اور تمباکو تو ہر دوسرے گھر کا حصہ بن چکا ہے، اور پریشان کن بات تو یہ ہے کہ ہماری بیٹھکوں، چوکوں اور میدانوں میں کھلے عام چرس اور شراب پی جاتی ہے، لیکن ڈر اور خوف سے کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ سب انہیں دل میں برا بھلا کہہ کر اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں۔
تمباکو، سگریٹ اور شراب امریکا کی ایجاد ہیں۔ افیون برصغیر میں سکندراعظم نے متعارف کرائی تھی، کیونکہ جب سکندر اعظم کا کوئی بھی سپاہی زخمی ہوجاتا تو اسے افیون کا ٹکڑا دیا جاتا جس سے اُسے درد کی شدت کم محسوس ہوتی۔ اب ہیروئن، چرس افغانستان میں تیار کی جاتی ہیں۔ امریکا نے 1888ء میں اپنی 78 فیصد ادویہ میں افیون کا استعمال کیا تھا، اور 1913ء میں امریکا نے چین میں افیون اتنی عام کی کہ چین کا ہر تیسرا فرد افیونی تھا اور چینی قوم دنیا میں افیونی مشہور تھی۔ لیکن آج چینی قوم دنیا میں کہاں کھڑی ہے، یہ ہمارے لیے ایک عمدہ مثال ہے۔
اسی ضمن میں ویمن ایڈ ٹرسٹ سے10 سے منسلک اور کراچی جیلوں میں درس قرآن دینے والی ممبر صفیہ بانو نے ہم سے یہ قصہ بیان کیا جو ہم معمولی ردوبدل کے ساتھ اپنی قاری کی نذر کررہے ہیں۔
ہمارا یہ معمول ہے کہ ہر ہفتہ جب ہم درس قرآن کا انعقاد کرتے ہیں تو وہاں آنے والی نئی خواتین سے بھی رابطہ کرتے ہیں۔ ان سے بات کرتے ہیں، ان کی کونسلنگ کرتے ہیں۔ یہ دردانہ کی کہانی ہے۔ جب بھی میں قیدی خواتین کو درس قرآن کی دعوت دینے ان کے کمروں میںجاتی، دردانہ اپنے بستر کے نیچے جاکر چھپ جاتی کیونکہ وہ درس میں نہیں آنا چاہتی تھی۔ وہ ہیروئن اسمگلنگ کے الزام میں جیل میں قید تھی۔ اس پر الزام ثابت ہوگیا تھا۔ وہ ہیروئن لے کر مختلف ممالک کا سفر کرتی تھی۔ وہ بنکاک، جرمنی، سنگاپور اور مختلف ممالک کا سفر کرچکی تھی۔کسٹم حکام کی ملی بھگت اور روپے کی فراوانی کے باعث کبھی پکڑی نہ گئی۔ اِس دفعہ جب وہ قانون کے شکنجے میں آئی تو ہیروئن کی اسمگلنگ کروانے والے بڑے بڑے ناموں نے اس سے سارے تعلق توڑ لیے۔ وہ بالکل تنہا ہوگئی تھی۔ ایسے میں جب اسے ’’ویٹ‘‘ کی جانب سے قرآن کی دعوت دی جاتی تو اس کو یہی محسوس ہوتا کہ یہ لوگ بھی اس کا تمسخر اڑانے کی خاطر اس سے تعلق جوڑ رہے ہیں، بعد میں یہ لوگ بھی اس کا مذاق اڑائیں گے۔ وہ اسی لیے سب سے کٹ کر اکیلے اپنے بستر پر بیٹھی کوئی نہ کوئی کڑھائی کرتی رہتی تھی۔ انتہائی خوبرو اور خوددار عورت تھی۔ اپنے گھریلو حالات و پریشانی اور قرآن سے دوری کے باعث وہ اس دھندے میں ملوث ہوئی تھی۔ جب بھی درس کا انعقاد کیا جاتا، وہ اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتی تھی۔ اس کے دو ہی شوق تھے: ٹی وی دیکھنا اور اپنی کڑھائیاں کرنا۔ اس کے سوا وہ کچھ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو بہت گناہ گار عورت کہتی تھی۔ شاید اسی وجہ سے وہ نیک بننے اور اچھے کام کرنے سے کتراتی تھی۔ وہ رب کی رحمت سے بالکل ناامید ہوچکی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ درس قرآن والی باجی کا نام سنتے ہی چادر ڈال کر اپنی مسہری کے نیچے چھپ جاتی تاکہ نہ کوئی اسے دیکھے، نہ اسے بلائے۔
اسی کشمکش میں 6 ماہ گزر گئے لیکن ’’ویٹ‘‘ کی ممبر صفیہ بانو کے بقول ہم نے بھی اسے نہ چھوڑا اور اپنی سی ہر ممکن کوششوں کے ذریعے اسے مختلف طریقوں سے قرآن کی دعوت دیتے رہے، تاکہ وہ اپنے رب کی امید سے مایوس نہ ہو۔ ایک دن جب ویٹ ممبر قرآن کی دعوت دینے کمرے میں آئیں تو اُس نے سورہ الحجر کی آیت کے بارے میں ان سے کوئی سوال کیا۔ ویٹ ممبر نے اگلے ہفتے اسے بتایا کہ یہ آیت سورہ الحجر میں موجود ہے، اور اسے مولانا مودودیؒ کا ترجمۂ قرآن بطور ہدیہ دیا تاکہ وہ خود دیکھ لے۔ اس کے بعد ہر ہفتے وہ درس لینے لگی۔ جیل خانہ جات میں موجود تجوید کی کلاسز کے ذریعے وہ اپنی تجوید بھی ٹھیک کرتی۔ وہ اب ویٹ کی ممبرز کا انتظار کرتی جنہوں نے اس کی قرآن کے ذریعے کونسلنگ کی اور اسے ناامیدیوں سے نکال کر قرآن کے سایۂ رحمت میں آنے کی دعوت دی۔ وہ اپنے گناہوں کو یاد کرکرکے بہت روتی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ بارہا بیرون ملک اورپاکستان میں مختلف ڈسٹری بیوٹرز میں ہیروئن کی فروخت کرتی۔جو اس لعنت کو لیے مختلف اسکولوں،کالجوں،یونیورسٹیوں اور چوراہوں میں اپنیخریداروں کو فروخت کرتے تھے۔اسی طر یقے سے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مختلف غیر سرکاری تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ملک میں نشے کے عادی افراد کی تعداد میں ہر سال چھ لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ ہیروئن کی لعنت پھیلانے والے کوئی اور نہیں یہی ملک دشمن عناصر ہیں جو صرف اور صرف پیسے کے لالچ میں ملک کے نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگارہے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ دردانہ اور نزہت جیسی غریب اور مستحق خواتین کے ذریعے اپنے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں، اور اس کے لیے انہیں رشوت اور سفارش کے ساتھ ساتھ تمام اداروں میں ملک دشمن عناصر کی بھرپور معاونت حاصل ہے۔
دردانہ کو 7 سال کی سزا ہوئی تھی لیکن اس نے ان 7 برسوں میں بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ اب وہ اس حرام کام سے شدید نفرت کرتی تھی جس کے ذریعے معصوم جانیں ضائع اور سینکڑوں زندگیاں مفلوج ہوگئی تھیں۔ ویٹ کی جانب سے اُس کی کونسلنگ کی گئی، اسے مایوسیوں سے نکال کر رب کی رحمت کی امید دلائی گئی، اسے بتایا گیاکہ وہ اب گھر گھر تجوید سے قرآن پڑھاکر بھی اپنا گھر چلاسکتی ہے۔ ویٹ کی انہی کوششوں کے نتیجے میں جیل کی سزا ختم ہونے کے بعد وہ بچوں کو گھر گھر جاکر قرآن پڑھاتی اور اپنے کرائے کے گھر میں بھی اس نے بچوں کو قرآن پڑھانے کا اہتمام کررکھا تھا۔ اللہ ہم سب کو گناہ کے بعد فوری اور مکمل توبہ ’’توبۃ النصوح‘‘ کی توفیق عطافرمائے۔آمین
ہیروئن کے عادی لوگوں کے لیے پاکستان میں نئی زندگی کے نام سے مختلف ہسپتال بن چکے ہیں، لیکن یہ مختلف مسائل کا شکار دکھائی دیتے ہیں، یہاں مریضوں کی صحیح دیکھ بھال نہیں کی جاتی، جس کی بڑی اور اہم وجہ وسائل کی کمی اور حکومتی لاپروائی ہے۔ دنیا کا ہر ملک اپنی نوجوان نسل کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں نوجوان طبقہ زیادہ ہے اور پاکستانی حکمران اپنے نوجوانوں کے لیے کچھ نہیں کررہے۔ اگر ایسی ہی صورتِ حال رہی تو ہمارا نوجوان طبقہ مزید منشیات سے تباہ ہوجائے گا جو زندہ قوموں کے لیے پریشان کن بات ہے۔ اللہ ہم سب کو ہیروئن و منشیات کے حوالے سے لوگوں کو آگہی دینے والا بنائے۔ لوگوں کو رب کی رحمت کی امید و حوصلہ دلانے والا بنائے۔ لوگوں کی اگلی پچھلی کوتاہیوں کو معاف کرنے والا بنائے تاکہ ہمارا رب ہماری بھی کوتاہیوں اور غلطیوں سے صرفِ نظر کردے، آمین۔