پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

395

محمد امجد جروار

جب سے انسانیت کی تخلیق ہوتی ہے تو اسی دن سے صحیح ‘ غلط‘ جھوٹ‘ سچ اور حق و باطل کا معرکہ شروع ہوگیا۔ جو تاقیامت جاری رہے گا‘ حق ‘ سچ اورصحیح اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ تریجاً پھلتا اور پھولتا ہے۔ لیکن باطل‘ جھوٹ او رغلط کے حامل لوگ خوشنما نعروں کا سہارا لے کر دھوکہ اور لفظی دلیل کو ملمہ سازی کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ بظاہر یہ دلائل اور نعرے اس قدر خوشنما ہوتے ہیں کہ سیدھے سادے مسلمان نہ صرف ان نعروں سے متاثر ہیں بلکہ ان کی پیروی شروع کردیتے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو ملائکہ کو سجدے کا حکم دیا‘ سب نے سجدہ کرلیا لیکن ابلیس نے انکار کردیا اور حکم عدولی کی عقلی دلیل یوں پیش کی کہ میں تو آگر سے بنا ہوں‘ جس کی فطرت میں بلندی ہے او ریہ آدم تو مٹی سے بنا ہے اور مٹی کی فطرت میںپستی ہے لہٰذا میں اس آدم کو سجدہ نہیں کروں گا۔
عقلی دلیل کے ذریعے حکم خداوندی کی نافرمانی کی یہ ابتدا تھی اور اگریوں کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگاکہ یہ لبرازم اور سیکولر ازم کی ابتدا تھی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نمرود کے دربار میں موجود تھے‘ توحید خداوندی پر دلائل دیتے ہوئے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور موت بھی دیتا ہے۔
اس بات کا جواب دینے کے لیے جب نمرود کے پاس کچھ بھی نہ رہا تو عقلی دلیل کا سہارا لے کر کہنے لگاکہ یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں‘ قید خانے سے سزائے موت کے ایک قیدی کو رہائی کا حکم دیا او رایک ایسا قیدی جو رہا ہونے کے قریب تھا اسے تختہ دار پر پھانسی دلوا کر کہنے لگا کہ لو! میں نے بھی مردہ کو زندہ اور زندہ کو مردہ کردیا۔
لیکن جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا میرا رب تو مشرق سے سورج طلوع کرتا ہے او رمغرب میں غروب… اگر تم رب ہو تو مغرب سے طلوع کرکے دکھائو… اس سوال کے جواب میں نمرود بے بس ہوگیا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ کون ہے جو اللہ کو قرضہ دے گا‘ بس اللہ اسے اس کا دگنا عطا فرمائیں گے۔
ابھی یہ آیت اتری ہی تھی کہ اس آیت کو لے کر ایک شور بپا ہوا‘ مکہ کے گلیوں‘ بازاروں میں یہ بات دھرائی جانے ُگی کہ محمد کا رب اب اس قدر غریب ہوچکاہے کہ لوگوں سے قرضہ مانگ رہا ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس بے سروپا دلیل کا کوئی جواب دیا جاسکتا تھا لیکن اللہ نے فرمایا ہم ان کی ہر بات لکھ کر محفوظ کررہے ہیں۔
معراج کی شب جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفر فرما کر واپس تشریف لائے تو صبح اپنے سفر کی روداد مکہ کے لوگوں کو سنائی تو اس وقت کا سیکولر طبقہ پھر میدان میں اتر چکا تھا یہ کیسے ممکن ہے‘ اس طرح کا سفر کیسے ہوسکتا ہے‘ اعتراضات کی ایک طویل فہرست تھی لیکن جب مقابلہ مادیت اور روحانیت کا ہو تو بلاشبہ روحانیت ہی کی فاتح ہوا کرتی ہے۔
جب اہل ایمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کردی تو معترضین کے اعتراضات خوبخود مٹی میں دفن ہوگئے۔
صرف یہی نہیں بلکہ جب مشرکین مکہ کے سامنے عذاب قبر اور محشر کے میدان میں دوبارہ اٹھنے کے بارے میں باتیں سامنے آئیں تو وہ طعنہ زنی کے انداز میں کہہ رہے تھے کہ کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں گے تو ہمیں دوبارہ بنایا جائے گا۔
اس طرح موجودہ زمانے میں بھی اسلام پر اعتراضات کی بارش ہے‘ ہم ان سوالات کے جوابات دینے سے پہلے یہ بات ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کس چیز کا نام ہے۔
اسلام سلامتی سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے ماننا‘ اطاعت کرنا‘ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
او رجب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی بات کا حتمی فیصلہ کردیں تو نہ کسی مومن مرد کے لیے یہ گنجائش ہے نہ کسی مومن عورت کے لیے کہ ان کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی ہے (سورہ احزاب آیت 36 )
سورہ حشر کی آیت نمبر 7 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اور رسول تمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو‘ اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جائو۔
سورہ نور میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ان سے کہہ دیجیے کہ اللہ کا حکم مانو اور رسول کے فرما نبردار بنو‘ (سورہ نور آیت 54 )
یہ تو صرف چند آیات تھیں جس میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔
اسی طرح احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اطاعت رسول کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ جس کا مفہوم ہے کہ
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو اس کے تابع نہ کردے جو میں لے کر آیاہوں (دارمی)
بخاری و مسلم میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ
کوئی شخص اس وقت تک ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والد‘ اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ (بخاری)
یہ آیات اور احادیث بتارہی ہیں دین اسلام میں کوئی اپنی مرضی کا مالک نہیں‘ اسلام تو نام ہی اطاعت کا ہے جو احکامات بارگاہ رب ذوالجلال سے طے ہوچکے ‘ ان پر عمل ضروری ہے۔
اسلامی احکامات کو عقل کے ترازوں میں تولنے والوں کے لیے حضرت علیؓ کا مشہورمقتولہ ہے کہ فرمایا: اسلام کا تعلق عقل سے نہیں ہے کیونکہ اگر عقل سے ہوتا تو ہم موزوں پر مسح نچلے حصے پر کرتے کیونکہ موزوں کا نچلا حصہ زمین پر لگتاہے جب اسلام کا حکم ہے کہ مسح موزوں کے اوپر کیا جائے۔ تو پتہ چلا اسلامی احکام کو عقل کے ترازوں میں نہیں تولا جاسکتا ہے۔
اسی طرح قربانی کا مشہور مسئلہ ہے کہ اگر غریب آدمی جس پر قربانی واجب نہیں اور وہ قربانی کا جانور خرید لے بعد ازاں وہ جانور گم ہوجائے تو اس غریب پر واجب ہے کہ یہ دوسری قربانی کرے۔
اور اگر یہی صورتحال مالدار آدمی پر پیش آئے تو اس پر قربانی ساقط ہوجاتی ہے۔
اب عقل کا تقاضا تو یہ تھاکہ غریب آدمی پر ساقط ہوجانی چاہیے لیکن اسلامی حکم کے سامنے عقل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ایک مرتبہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی تو اس کے قبیلہ کے افراد نے حضرت اسامہ کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سفارش کروائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’اگر یہ جرم فاطمہ بنت محمد سے بھی ہوتا تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘
اس ارشاد نبوی سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ اسلامی حدود وقوانین کی زد میں اگر فاطمہ بنت محمد بھی آتی تو بھی انہیں ان ہی اصول و قوانین کے تحت سزا دی جاتی۔
آج ایک با پھر اسلامی احکامات کو عقل کے ترازوں میں تولا جارہا ہے‘ ہر طرف لبرازم اور سیکولر ازم کے بچاری اپنے عقلی دلائل اور پروپیگنڈے کے ذریعے شعائر اسلام کا نہ صرف مذاق اڑاتے نظر آرہے ہیں بلکہ علی الاعلان ان احکامات کی دھجیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔
چند دن پہلے عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں صف اول میں خواتین کا آکر کھڑا ہوجانا او رپھر ببانگ دھل یہ کہنا کہ ’’کہاں لکھا ہے کہ جنازے میں خواتین شرکت نہیں کرسکتیں۔‘‘
پھر یہی بحث چینل پر بیٹھ کر نام نہاد اسکالر نے شروع کردی اور اس پر دلائل دیتے نظر آرہے تھے۔
ہم ان حضرات سے قرآن و سنت کے دلائل کے ذریعے گفتگو کرنے کے بجائے یہ ضرور عرض کریں گے کہ ہوسکتا ہے جنازے میں خواتین کی شرکت کی ممانعت نہ ہو لیکن صفوں کی ترتیب جو آپ نے قائم فرمائی وہ کہاں سے ثابت ہے؟
فرض نمازوں میں خواتین کی جگہ جو بالکل آخر میں ہوا کرتی ہے لیکن ان کو پہلی صف میں لاکر کھڑا کردینا اس بات کی کس مذہب نے اجازت دی ہے؟
پھر جن صاحب نے جنازہ پڑھایااور خواتین کی شرکت پر زور دیتے نظر آرہے تھے ان سے دست بستہ عرض کریں گے کہ جناب قرآن و سنت کے بجائے آپ یہ وصیت کرجائیں کہ آپ کے جنازے میں صف اول میں خواتین ہی ہوں تو ہمیشہ خوشی ہوگی۔
ابھی یہ مسئلہ لوگوں کے اذھان و قلوب میں تھا کہ اسلام آباد میں خواتین نے ایک مظاہرہ کیا اور انہوں نے مختلف پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے مثلاً میرا جسم میری مرضی‘عورت ادھوری نہیں مکمل‘ اپنا سالن خود گرم کرلو‘ اب ملائوں سے کھلی جنگ ہے‘’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا جواب ہم یہی دے سکتے ہیں کہ آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ یہ جسم آپ کا ہے اور آپ کی ملکیت ہے۔ یہ جسم آپ کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے دی ہوئی امانت ہے۔ او رجسم میں اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اس لیے تو اگر کوئی شخص اپنی مرضی کرتے ہوئے خودکشی کرے یا اپنے جسم پر خود ہی حملہ کرکے موت کے منہ میں چلا جائے تو ایسی موت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
اس لیے اس نعرہ کی بنیاد ہی غلط ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نعرے کی آڑ میں صرف فحاشی و عریانی کا فروغ ہے۔
اسلام نے عورت کے جسم کو مکمل تحفظ و تقدس فراہم کرتے ہوئے اسے گھر کی چار دیواری میں عزت و عفت فراہم کی ہے اسے اپنے شوہرکی خدمت پر بے مثال اجر و ثواب کے وعدے بھی کیے گئے ہیں۔ لیکن مغرب کی پیروی نے ان کے دل و دماغ میں یہ بات بھردی ہے کہ چادر اور چار دیواری ایک قید ہے اور شوہر کی خدمت کو غلامی سے تعبیر کیا ہے۔
حیرت اور تعجب ہے ان کی سوچ پر کہ ایک شوہر سے شریعت نے یہ مقام دیا جس کی خدمت پر اجر و ثواب کی امید ہے‘ اس کے لیے سالن گرم کرنے پر تو اعتراض ہے لیکن دفترمیں باس کے لیے چائے کافی یا کھانا بنانا کوئی عیب نہیں۔
ایئرہوسٹس بن کر دوسوآدمیوں کو ہر ایک کی سیٹ پر کھانا پہنچانے میں کوئی عیب نہیں اگر کوئی سواری یہ کہہ دے کہ یہ کھانا ٹھنڈا ہے تو نہ صرف اس کے حکم کی تعمیل کی جاتی ہے بلکہ تعمیل کے لیے چہرے پر مسکراہٹ سجانا ضروری ہے۔
رہی بات کہ ’’عورت ادھوری نہیں‘ مکمل‘‘
اگر عورت کو ناقص العقل والدین کسی مولوی نے کہا ہوتا تو پھر اعتراض کا حق بھی تھا لیکن عورت کو صنف نازک اللہ تعالیٰ نے ہی بنایا ہے اور ان کو گھر بیٹھے اجر و ثواب میں برابر کا حصہ دار بھی بنایا ہے۔ اللہ نے عورت کو کمزور پیدا کیا تو اس پر ذمہ داری بھی ہلکی پھلکی رکھی ہیں بھاری ذمہ داری مثلاً روزگار‘ گھریلو امور ‘ امامت وحکومت جسے مناصب مرد کے لیے مقرر کردیے ہیں جبکہ بچوں کی پیدائش‘ امور خانہ داری اور شوہر کی خدمت جیسے اہم کام عورت کے سپرد کرکے ماں کے قدموں تلے جنت بھی رکھ دی گئی ہے یہ وہ مقام ہے جو کسی مرد کو نہیں ملا۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سائل کے جواب میں تین مرتبہ والدہ کے حق کو بیان کیا اور چوتھی مرتبہ والد کے حق کو بیان فرمایا ہے۔
اس مقام او رمرتبے کو ٹھکرا کر کوئی اور مقام حاصل کرنے والے ناقص العقل نہ کہا جائے تو او رکیا نام دیا جائے گا۔
ایک پلے کارڈ پر درج تھاکہ اب ’’ہماری ملائوں سے کھلی جنگ‘‘ ہے ہر لبرل اور سیکولر طبقے کی تان ’’مولوی‘ ملا‘‘ پر آکر ہی ٹوٹتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مولوی او رملا کا قصور کیا ہے؟ یہ تو صرف احکام خداوندی اور فرمان رسول اور مسائل بتانے کے مکلف ہیں کوئی حکم ان کا اپنا بنایا ہوا نہیں ہے۔
جب حقیقت یہ ہے کہ مولوی او رملا جن کا معاشرے میں شایدکوئی مقام نہیں لیکن یہ اسلام کے ٹھیکیدار نہیں بلکہ پہرے دار ضرور ہیں اور رہزنوں کو پتہ ہے کہ پہلے ان پہرے داروں پر حملہ ضروری ہے تب ہی جاکر اسلامی قلعے میں شگاف بنا کر قلعے کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جائے گا۔
اس لیے ان پہرے داروں کی چوکیداری کو مشکوک بنانے کا عمل جاری ہے تاکہ لوگوں کا اعتماد ان پر ختم ہوجائے اور پھر ہم جیسے چاہیں اسلامی احکامات کی تشریح کریںاور جیسے چاہیں اسلامی احکام کا مذاق اڑائیں۔
ظاہر ہے کہ یہ کام مولوی اور ملا کی موجودگی میں نہیں ہوسکتا۔
لبرل ہو یا سیکولر‘ اسلامی طبقے کی جنگ جاری رہے گی اور ہمیں چڑھتے سورج کی طرح یقین ہے فتح و کامرانی اسلام میں ہی ہے اس لیے کہ کسی نے بھی اس دنیا میں نہیں رہنا‘ جب موت کا فرشتہ روح کھینچتے گا اور ہمارے جسم قبر کی پاتال میں اتارے جائیں گے تب جاکر پتہ چلے گا کہ کامیابی لبر ازم ‘سیکولر ازم میں ہے یا اسلام میں؟ اب چاہے جو چینل پر بیٹھ کرشعائر اسلام کا مذاق اڑائے یا کسی اور فورم پر لیکن غلبہ اسلام ہی کا ہوگا کیونکہ یہ میرے رب کا وعدہ ہے۔
نور خدا ہے کفر کی پیشانی پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

حصہ