۔برصغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحریکیں ( آٹھواں حصہ قسط نمبر130 )۔

403

سازشوں کا تسلسل ۔ ایوب خان کا مارشل لاء
شوق مہم جوئی ،جنگ ستمبر 1965 اور آپریشن جبرالٹر

پاکستان میں ایوب خان کی صدارت کے خلاف شدید ترین ردعمل دیکھنے میں آیا، خاص طور پر مشرقی پاکستان میں تو کھلے عام ایوب خان کی صدارت کے خلاف آوازیں اٹھائی جانے لگیں۔ ان آوازوں میں متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ہندو الحاق پسند اور علیحدگی تحریک کی آوازیں بھی شامل ہوچکی تھیں۔ چنانچہ موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہ کہیں ایوب مخالف تحریک سے ہندوستان فائدہ نہ اٹھا لے، متحدہ اپوزیشن نے محترمہ فاطمہ جناح کو متوازی حکومت بنانے کے ارادے سے باز رہنے کا مشورہ دیا، جسے محترمہ فاطمہ جناح نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں قبول کرتے ہوئے جمہوری جدوجہد کے ذریعے اپنے مؤقف کو آگے بڑھانے پر اکتفا کیا۔
یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں بھی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو اندرونی حمایت درکار تھی، کیونکہ ایک سال کے اندر اندر وہاں بھی عام انتخابات ہونے والے تھے۔ بدقسمتی سے دونوں ممالک کی سیاست اور انتخابی مہم سرحدی صورتِ حال، بڑھک بازی اور سرحدی مہم جوئی کے اردگرد گھومتی تھی۔ کشمیر کے حوالے سے پنڈت جواہر لال نہرو اور کانگریس اپنے مؤقف میں ایک انچ بھی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اور کانگریس اگلے انتخابات میں کشمیر کو بطور انتخابی نعرہ استعمال کرنا چاہتی تھی۔
گویا صاف لگ رہا تھا کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان اور پاکستان عوام کی توجہ ہٹانے اور عوامی ہمدردی سمیٹنے کے لیے سرحد پر کسی نہ کسی ایڈونچر کا آغاز کرنے والے ہیں۔
امریکا گندم کی امداد کے بہانے ایوب خان کو مکمل طور پر اپنے زیرِ اثر لے ہی چکا تھا، چنانچہ ایوب خان امریکی تہذیب اور امریکی دوستی کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔ تاہم 1965ء کی جنگ کے بعد ایوب خان کی آنکھوں سے امریکا دوستی کی پٹی اتر چکی تھی، جب عین جنگ کے دوران امریکا نے پاکستان کو ہر قسم کی فوجی مدد دینے سے انکار کردیا تھا۔ بالآخر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو امریکا کے ’’حُسنِ سلوک‘‘ پر کتابfriends not masters لکھنی پڑی۔ یہ وہی امریکا ہے جس کے بارے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ’’سفید ہاتھی میرے خون کا پیاسا ہے۔‘‘
پاکستان کی نسبت ہندوستان کے پنڈت جواہر لال نہرو نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوویت یونین کا انتخاب کیا اور آپس میں اقتصادی و دفاعی معاہدے کیے۔
ایسے حالات میں اچانک 6 ستمبر 1965ء کو ہندوستان نے تین طرف سے پاکستان پر حملہ کردیا۔ کہنے کو تو ہندوستان کا پاکستان کی سرحد پر یہ جارحانہ قدم اچانک حملہ تھا، مگر حقیقتِ حال اس کے برخلاف ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ پاکستان کی سرحدوں پر اپریل 1965ء سے ہی جنگی بادل منڈلانا شروع ہوگئے تھے، اور جنگ 1965ء کی پہلی گولی ’’رن آف کچھ‘‘ کے ویران علاقے میں ہندوستانی فوجی دستے کی جانب سے فائر کی جا چکی تھی، جب وہاں کی سرحدی چوکی پر ایک معمولی جھڑپ ہوئی۔ ’’رن آف کچھ‘‘ کا علاقہ ایک لق و دق صحرا تھا، جہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی، البتہ کہیں کہیں کچھ قبیلے آباد تھے اور چرواہے کبھی کبھار اپنی بھیڑ بکریاں چَرانے صحرا کی جانب جا نکلتے۔ اس علاقے میں پٹرولنگ برائے نام تھی اور کبھی کبھی پولیس والوں کا دستہ معمول کی گشت کرلیا کرتا تھا۔
پاکستان کا بدین ریلوے اسٹیشن’’رن آف کچھ‘‘ سے محض 26 میل کے فاصلے پر تھا۔ یہاںسے کراچی کا فاصلہ ریل کے راستے سے صرف ایک 113 میل تھا۔ بدین کے قریب ہی پاکستان آرمی کی آٹھویں ڈویژن تعینات تھی۔ ہمارے مقابلے پر ہندوستان کے لیے یہ ایک دشوار ترین محاذ تھا۔ ہندوستان کی سب سے قریبی 31 ویں بریگیڈ تھی جو احمد آباد میں تعینات تھی۔ احمد آباد ہندوستان کا بڑا شہر تھا اور اس کا قریب ترین ریلوے اسٹیشن ’’بھوج‘‘ بھی 180 کلومیٹر دور تھا۔ ’’بھوج‘‘ سے پاکستان کی سرحد 110 میل کی دوری پر تھی۔ اس طرح (لاجسٹک) فوجی نقل و حرکت کے اعتبار سے ہندوستان کے لیے پاکستانی علاقے میں آکر مہم جوئی کرنا ایک دشوار کام تھا۔ ہندوستان کی انٹیلی جنس کی جانب سے بار بار رپورٹیں آرہی تھیں کہ پاکستان نے ڈینگ اور سرائی کو آپس میں ملانے کے لیے 18 میل طویل ایک کچی راہداری بنا لی ہے۔ یہ راہداری کئی مقامات پر بھارتی سرحدی حدود کے اندر ڈیڑھ میل تک چلی جاتی تھی۔ ہندوستان نے مارچ 1965ء میں انٹیلی جنس کی اطلاع اور ہائی کمان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہندوستانی علاقے ’’کجرکوٹ‘‘ میں آدھا کلومیٹر جنوب میں چوکی بنالی۔ جواب میں حفظِ ماتقدم کے طور پر پاکستان کی 51 ویں بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر اظہر کو پاکستان کے کمانڈر میجر جنرل ٹکّا خان کا پیغام ملا کہ ’’علاقے میں گشت بڑھا دیا جائے اور’کجر کوٹ‘ چوکی کی جانب سے ہندوستان کی ممکنہ کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے‘‘۔ اسی رات کجرکوٹ میں ’سردار چوکی‘ سے بھاری گولے داغے گئے۔ پاکستان نے اس کا بھرپور جواب دیا۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں نے اس واقعے کے خلاف اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ اس حملے کے جواب میں کمانڈر میجر جنرل ٹکّا خان نے بریگیڈیئر اظہر کو حکم دیا کہ ایڈوانس کرتے ہوئے ہندوستانی ’سردار چوکی‘ کو تباہ کردیا جائے۔
9 اپریل کی صبح دن نکلنے کا انتظار کیا گیا، نماز ظہر کی ادائیگی کے ساتھ ہی نعرۂ تکبیر کی گونج میں پاکستانی حملہ شروع ہوا۔ اب مزید دباؤ بڑھاتے ہوئے سردار چوکی، جنگل اور شالیمار نام کی دو مزید بھارتی چوکیوں پر قبضہ کرنے کا آرڈر بھی آچکا تھا۔ ہندوستانی اسپیشل دستوں نے زبردست مزاحمت کی مگر پاکستانی یلغار کا سامنا نہیں کرسکے۔ سردار چوکی کی حفاظت پر مامور اہلکار دو میل پیچھے واپس ’وجیو کوٹ‘ نامی چوکی (پرانی پوزیشن) پر چلے آئے۔ یہ جھڑپ 14گھنٹے جاری رہی۔ ہندوستانی اہلکار اپنی پرانی چوکی پر واپس لوٹے تو پاکستانی سپاہی بھی اپنی اصل پوزیشن کی جانب واپس چلے آئے، مگر جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ ’سردار چوکی‘ تو خالی پڑی ہے۔ چنانچہ دوبارہ جاکر سردار چوکی پر اپنا قبضہ مستحکم کیا گیا اور کچھ سپاہی تعینات کیے گئے۔
’رن آف کچھ‘ کی جھڑپ اگرچہ ختم ہوچکی تھی مگر اس کی چنگاریاں اب تک موجود تھیں۔ کچھ ہی دنوں بعد 24 اپریل کو بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ کی قیادت میں پاکستانی فوجیوں نے ’سیرابیت‘ پر قبضہ کرلیا۔ ہندوستان موقع کی سنگینی کو بھانپ چکا تھا۔ اس نے اپنی افواج کو تیار رہنے کا حکم دیا اور ہائی کمان کا اجلاس بمبئی میں طلب کرلیا۔ ادھر پاکستان میں ٹکا خان نے حکم دیا کہ ’’کراچی سے ریزرو جوان فوری طور پر آٹھویں انفنٹری ڈویژن کے ہمراہ حیدرآباد چھاؤنی رپورٹ کریں‘‘۔ بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حمل شروع ہوچکی تھی۔
یہ ہندوستان کو انگیج کرنے کا وقت تھا۔ پاکستانی فوج ہندوستان کو سندھ کے بارڈر سے حملے کا تاثر دینے میں کامیاب ہورہی تھی۔ بمبئی میں موجود ہندوستانی ہائی کمان اس بدلتی ہوئی فوجی نقل و حرکت کو مانیٹر کررہی تھی۔ ہندوستانی بریگیڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سندرجی نے بھیس بدل کر علاقے کا دورہ کیا اور اپنی رپورٹ میں مشورہ دیا کہ فوری طور پر ’کجرکوٹ‘ پر حملہ کردینا چاہیے، لیکن ہندوستانی حکومت نے ان کے مشورے کو ماننے سے انکار کردیا۔ اور اس طرح پاکستان نے ہندوستان کو سندھ بارڈر پر انگیج رکھنے کی جو جنگی چال چلی تھی اس کو ناکام بنادیا گیا۔
اس کارروائی میں دو ٹینک رجمنٹیں اور ہلکے توپ خانے استعمال ہوئے اور ہندوستانی فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس کے بعد کے 48 گھنٹے ہندوستان کے لیے مزید سبکی کا باعث بنے جب ہندوستانی فوج کو ’بیئربیت‘ کی چوکی بھی خالی کرنی پڑی۔ جواہر لال نہرو کی ڈپلومیسی کام آئی اور سرکارِ برطانیہ نے مداخلت کرتے ہوئے دونوں ممالک سے درخواست کی کہ وہ اپنی افواج پرانی پوزیشن پر لے جائیں۔ اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے پاکستانی اور ہندوستانی فوجیں اپنے پرانے محاذ پر واپس چلی گئیں، جس کا نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا اور ہمیں وہ علاقے بھی چھوڑنے پڑے جو تقسیم کے وقت سے ہمارے پاس تھے۔
اس جھڑپ کے نتیجے میں پاکستانی فوج کو کم سے کم محدود سطح پر ہی سہی، بھارتی فوج کی صلاحیت کو آزمانے کا موقع ملا۔ (حوالہ کتاب فرخ باجوہ۔ ’فرام کچھ ٹو تاشقند‘)
ہندوستانی ڈپٹی چیف جنرل کمارمگلم نے اس جھڑپ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ بھارت کے لیے’رن آف کچھ‘ کی لڑائی صحیح دشمن کے ساتھ غلط وقت پر غلط جنگ تھی۔ اس جنگ میں پاکستان ہندوستان پر بھاری پڑا، لیکن اس کی وجہ سے پاکستان کو یہ غلط فہمی بھی ہوگئی کہ کشمیر کی جنگ ان کے لیے کیٹ واک ثابت ہوگی۔‘‘
فیلڈ مارشل ایوب خان نے اس کامیابی کو خوب کیش کروایا اور حکومت مخالف جذبات اس سرحدی چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں یک دم سرد پڑ گئے۔ ابھی ایک مہم جوئی کے اثرات ختم نہیں ہوئے تھے کہ ایوب خان نے مقبوضہ کشمیر کے محاذ پر ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کا آغاز کردیا۔ مقبوضہ وادی کشمیر میں درگاہ حضرت بل میں قابض ہندوستانی حکومت کی جانب سے کی جانے والی بے حرمتی پر پوری وادی ہندوستانی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی تھی اور ہندوستانی پارلیمنٹ میں بھی کشمیری مسلمانوں کے خلاف ایک کالے قانون کی منظوری دی گئی تھی۔ پاکستان نے حالات سازگار جانتے ہوئے مقامی حریت پسندوں کو ساتھ ملاکر صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کے نتائج پاکستان کی توقعات کے برخلاف نکلے جس نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کو جنم دیا۔
(جاری ہے)

حصہ