ڈاکٹر نثار احمد نثار
20 مارچ 2018ء بروز منگل بزم یارانِ سخن کراچی نے PMA ہائوس کراچی میں رونق حیات کی صدارت میں ذکیہ غزل کے اعزاز میں پروگرام ترتیب دیا جس کی نظامت نجیب ایوبی نے کی۔ الحاج یوسف اسماعیل نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ ذکیہ غزل نے نعت رسولؐ پیش کی۔ ڈاکٹر نثار نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنظیم اپنے پروگرام مقررہ وقت پر شروع کرتی ہے۔ شعرا کرام وقت پر آجاتے ہیں جس کے باعث مشاعرہ بروقت ختم ہوجاتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں ہیٔ کہ ہم ایک ہی وقت میں کراچی کے تمام شعرا کو مشاعرے کی دعوت دیں‘ ہم اپنے شیڈول کے مطابق کام کرتے ہیں ہمارا مقصد مالی مفادات حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ ہم اپنے مدد آپ کے تحت پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ صدر مشاعرہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ کربِ آگہی‘ شعرا برداشت کرتے ہیں یہ طبقہ بھی قوموں کے عروج و زوال کا ذمے دار ہے۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ حکومتی ادارے قلم کاروں کے مسائل سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ اردو ادب کی ترویج و ترقی میں ان شعرا کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جو ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے یہ لوگ اپنے ساتھ دبستانِ لکھنو‘ دبستانِ دہلی کی شعری روایات ساتھ لائے اور انہوں نے شاعری میں نئی جہتیں‘ نئے استعارے وضع کیے۔ انہوں نے ذکیہ غزل کے بارے میں کہا کہ یہ اب بین الاقوامی شاعرہ بن چکی ہیں ان کے کلام میں زندگی کے تمام رویے نظر آتے ہیں۔ ان کے دوہے اپنی مثال آپ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اب کراچی دوبارہ سے روشنیوں کا شہر بنتا جارہا ہے۔ ہمارا شہرمحبت آمیز مکالمے کی طرف لوٹ رہا ہے۔ ڈاکٹر اوجِ کمال نے کہا کہ ذکیہ غزل مقبولیت‘ قبولیت اور محبوبیت کی منزل پر فائز ہیں۔ ان کے اشعار حالتِ سفر میں ہیں۔ انہوں نے لوگوں کے دلوں میں گھر بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے سامعین وقارئین بنائے ہیں یہ جب بھی کراچی آتی ہیں ان کے لیے تقریبات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ایک جینوئن شاعرہ ہیں ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ منصۂ شہود پر آچکا ہے جب کہ دوسرا زیرِ طبع ہے۔ اختر سعیدی نے کہا کہ ذکیہ غزل صاحبِ اسلوب شاعرہ ہیں وہ طویل عرصے سے شعر و سخن کے محفلوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ ان کی ادبی تنظیم اظہار نے نہ صرف ادبی تقریبات کا انعقاد کیا ہے بلکہ شعرا کی مالی معاونت بھی کی ہے اب یہ ادارہ کینیڈا میں بے حد فعال ہے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ ذکیہ غزل نے اپنی شاعرانہ پہچان بنائی ہے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے جب انہوں نے مشاعرے پڑھنے شروع کیے تو لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری یہ ان کے جملوں سے دل برداشتہ نہیں ہوئیں‘ یہ محنت کرتی رہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ان کا طوطی بول رہا ہے۔ خالدہ عظمیٰ نے کہا کہ ذکیہ غزل کا ظاہر و باطن یکساں ہے یہ کسی کی برائی نہیں کرتیں اور اچھائیوں کی سفیر ہیں ان کی شاعری میں کلاسیکیت کے ساتھ ساتھ غزل کے روایتی مضامین بھی ہیں اور نسائی مسائل کی گونج بھی۔ ان کے دوہے پڑھنے کا انداز جمیل الدین عالی جیسا ہے یہ جب تک دوہے پڑھتی رہیں گی عالی جی یاد آتے رہیں گے۔ عالی جی نے انہیں اجازت دی تھی کہ یہ ان کے ترنم کو Follow کریں۔ بزمِ یاران سخن کراچی کے سرپرست اعلیٰ نے اپنے اشعار سنانے سے قبل کہا کہ ان کی ادبی تنظیم بلا تفریق رنگ و نسل ادبی کام کر رہی ہے۔ ہم ہر ماہ ایک پروگرام ترتیب دیتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مشاعرے ہماری تہذیبی روایات کے علمبردار ہیں ہم عنقریب کُل سندھ مشاعرہ بھی کرنے جارہے ہیں۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں ڈاکٹر اکرام الحق شوق‘ محسن اسرار‘ مختار حیات‘ کوثر نقوی‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ ڈاکٹر نثار‘ حامد علی سید‘ سعدالدین سعد‘ وقار زیدی‘ خالدہ عظمیٰ‘ صفدر علی انشاء‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ محسن سلیم‘ شگفتہ شفیق‘ تنویر سخن‘ فاروق بٹ‘ شاہدہ عروج‘ حمیرا گل‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ ڈاکٹر مرزا علی اظہر‘ ڈاکٹر اقبال ہاشمانی‘ عرفان پیرزادی‘ مہر جمالی‘ عاشق شوکی اور علی کوثر شامل تھے۔ اس موقع پر بزمِ یارانِ سخن کراچی کی جانب سے ذکیہ غزل کی خدمت میں لوحِ سپاس پیش کی گئی۔