رسا چغتائی کی رحلت پر اہلِ ادب کے تاثرات

502

سیمان کی ڈائری
(دوسرا حصہ)
شکیل عادل زادہ
رساچغتائی باوضع،بامروت آدمی تھے۔وہ شاعر کے علاوہ آدمی بہت اچھے تھے۔میرا اُن سے بہت اچھا تعلق تھا۔رساچغتائی ایک عرصے تک سب رنگ کی نشستوں میں بیٹھتے تھے،بے پناہ آدمی تھے۔کبھی ملاقات کو زیادہ وقت گزر جائے تو ان کا فون آجاتا تھاکہ پیارے صاحب سب خیریت سے ہے؟؟تو اس طرح کا ہمارا تعلق تھا۔’’پیارے صاحب‘‘کا لفظ یا جملہ شاید انہی کا وضع کردہ تھا۔وہ مجھے پیارے صاحب کہہ کر مخاطب ہوا کرتے تھے۔رساچغتائی کی شناخت شاعری تھی لیکن میرے نزدیک وہ آدمی بہت بڑے تھے۔میری اُن سے پہلی ملاقات 1957میں ہوئی جب وہ چیف کمشنر الطاف گوہر کے عملے میں تعینات تھے۔میں رئیس امروہی اور سید محمد تقی کے ہمراہ چیف کمشنر کے ہاں ڈکلیریشن کے لیے پہنچے تووہاں ہماری ملاقات اُن سے ہوئی اور انھوں نے ڈکلیریشن کروا کر دی۔پھر یہ ملاقاتیں بڑھتی چلی گئیں۔ ہر ماہ ماہنامہ ’انشا‘ کے لیے رسابھائی کی غزلیں لینے اُن کے ہاں جایا کرتا تھا۔اکثر وہ میرے لیے پلاؤ اور ایک خاص قسم کی چٹنی بناکر لاتے تھے۔باتیں تو بہت سی ہیں اُن کے لیے لیکن اب کیا کہا جائے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین
خواجہ رضی حیدر
قیام پاکستان کے بعد کی پہلی دہائی میں جو شعرا اپنے اظہاروبیان کے حوالے سے نمایاں ہوئے،اُن میں رساچغتائی بہت اہم ہیں۔بلکہ یوں کہا جائے کہ رسا چغتا ئی قیام پاکستان کے بعد پروان چڑھنے والی نسل کے ایک نمائندہ اور معتبر شاعر تھے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات زیادہ اہم ہے کہ پاکستان کی پہلی شعری نسل سے تعلق رکھنے والے ایک شاعرنے ستر سال قبل سنجیدگی اور تازہ کاری کے ساتھ شعر لکھنے کا آغاز کیا تھا۔وہ آخری دم تک اسی تخلیق بصیرت اور تازہ کاری اور سنجیدگی کے ساتھ شعر لکھتے رہے۔رسا چغتائی کے معاصر شعرا اور ان کے بعد آنے والی تین نسلوں نے ان کی شاعری کو پسندیدگی اور رشک کی نگاہ سے دیکھااور آج بھی نئی نسل ان کے شعری رویے کو اپنے شعری سفر کے لیے مثالیہ تصور کرتی ہے۔
احمد شاہ
رسا چغتائی اردو غزل کا اعتبار تھے میرا آرٹ اور ادب کے جن بزرگوں سے مستقل رابطہ رہتا ہے اُن میں سے ایک رسا چغتائی بھی تھے۔ جیسے اُن کی شاعری میں سادگی اور پُرکاری ہے ویسے ہی ان کی شخصیت بھی تھی۔ آرٹس کونسل آف پاکستان نے ان کی شاعری کے مجموعے کی دو بار اشاعت کی اور اب اُن کی شعری کلیات تیاری کے مراحل میں ہے۔
لوگ مل کر بچھڑ بھی جاتے ہیں
اور یہ رائیگاں بھی ہوتا ہے
اجمل سراج
سمجھ میں نہیں آتا کہاں سے بات شروع کی جائے ۔آج رسا بھائی کو رخصت ہوئے پندرہ سولہ دن ہو گئے۔گھر سے نکلتاہوں تو جیسے پہلے ہوتا تھا جب ایک دو روز گزر جاتے تھے تو خیال آتا تھا تورسا بھائی سے ملنے چلاجاتا تھا اُن کی خیریت معلوم کرنے کے لیے اوراس خیال سے بھی ورنہ وہ آ جائیں گے۔اُن کے آنے سے مجھے خوشی بھی ہوتی تھی اور دکھ بھی ہوتا تھا ۔مجھے اچھا نہیں لگتا تھا کہ وہ آئیں ،انھیں زحمت ہومگراُن کازندگی گزارنے کا انداز ہی کچھ ایسا تھا جیسے کوئی زحمت ہی نہیں ہوئی ۔وہ بالکل اسی طرح سے رہتے تھے۔باقی تو دنیا جانتی ہے وہ شاعر کیسے تھے۔ میں کیا بتاؤں۔بس ابھی تو یہ ہے کہ عادت سی پڑی ہوئی تھی اُن سے ملاقات کی تو مجھے یقین ہی نہیں آتا کہ وہ نہیں ہیں۔جب ایسا محسوس ہونے لگے گا تو شاید رسا بھائی کے لیے کچھ لکھنے کے قابل بھی ہو جاؤں۔
اطہر عباسی(جدہ)
سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے ہنر سے آشنا، سہلِ ممتنع کے بادشاہ رسا بھائی کلاسیکل غزل میں منفرد لب و لہجے کے ایک بڑے اور صاحب اسلوب شاعر تھے۔دنیائے شعر و ادب نے ان کی شعری عظمت کا اعتراف ایک بڑے اور معتبر شاعر کی حیثیت سے کیا۔وہ دنیائے شعر و ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔عالمی اردو مرکز جدّہ کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے دو بین الاقوامی مشاعروں میں ان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ انتہائی سادہ، منکسر المزاج اور درویش صفت انسان پایا۔مشاعرے میں ہر شاعر کا اکرام ملحوظ رکھتے۔کبھی کوئی شکایت نہیں کی، عاجزی اور انکساری کا پیکر واقعی عظیم انسان اور بلاشبہ اس دور میں غزل کا عظیم شاعر تھا۔اللہ رب العزت ان کی کوتاہیوں کو در گزر فرماتے ہوئے ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
حنیف عابد
رسا چغتائی اردو غزل کی شناخت کا معتبر حوالہ ہیں۔انہوں نے غزل کو جس انداز میں برتا ہے اس سے معنی کی نئی جہتیں وا ہوتی ہیں۔اپنے مزاج اور ساخت کے اعتبار سے غزل میں جو تنوع،بے ساختگی،اثر آفرینی،نغمگی اور رمزیت پنہاں ہے رسا چغتائی نے ان تمام کو ان کی جزئیات کی تہہ در تہہ نزاکتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جس انداز میں اپنی شاعری ما دربار سجایا ہے وہ ان کی انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
رساچغتائی کی رگوں میں مغل خون دوڑ رہا تھا جس کی وجہ سے طبعیت میں تیزی اور حاکمیت کی خو بو مزاج کا حصہ تھی۔اپنی اس حیثیت کا انہوں نے اپنی شاعری میں جا بہ جا اظہار بھی کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اردو شاعری کی اقلیم میں اگرچہ رسا چغتائی کی حکومت ان کی رحلت کی وجہ سے ان معنوں میں ختم ہو چکی ہے کہ ان کا کوئی نیا فرمان شعری قالب میں ظہور نہ پائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اردو شاعری میں ان کا سکہ جاری و ساری رہے گا۔
تسنیم عابدی
دبستانِ کراچی ویران ہوگیا ۔رسا نام کا روشن چراغ گُل ہوگیا مگر رسا چغتائی کسی شخصیت کا نام تو نہیں کہ موت جس کا چراغ گُل کرکے فتح مندی سے مسکرائے رسا تو کلاسیکل غزل کا وہ توانا لہجہ ہے جو ادب کی تاریخ کو اعتبار بخشتا رہے گا ۔
پاس اپنے ایک جان ہے سائیں
باقی یہ دیوان ہے سائیں
رسا بھائی غزل کی تہذیب میں ڈھلے ہوئے وہ فرد ہیں جو اپنی ذات میں انجمن بلکہ ادارہ ہوتے ہیں سہلِ ممتنع کا دشوار پتھر آسانی سے اٹھا لیتے ہیں اور چھوٹی بحر میں بڑی بات کہہ کر سامع اور قاری کو عالمِ تحیر میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ واقعی ان ہی کو یہ دعوی زیب دیتا ہے۔
ہم نے اس شہرِ سخن آباد میں
گھر بنایا میرؔ کے گھر کی طرف
سالم سلیم(نئی دہلی)
رسا چغتائی کی شاعری سوندھی مٹی کی شاعری ہے۔تخلیق کار اگر پورے شعور کے ساتھ بھاشا کا استعمال کرتا ہے تو وہ اپنے ٹھیٹھ پن میں بھی تخلیق کا کوئی نیا جوہر ضرور دکھا جاتی ہے۔مجھے کہنے دیجیے کہ سوندھی مٹی کی شاعری کو رسا چغتائی نے کمال تک پہنچا دیا ہے کہ ان کے ہم عصروں کے لیے یہ چیلینج بھی ہے کہ آسان اوربہ ظاہر سادہ لفظیات کے سہارے معنی کی روشن گہرائیوں میں اتر کر شعر کی بنت کی جائے۔
گرمی اس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
یہ بیانیہ بہ ظاہر ایک صاف منظر پیش کرتا ہے۔مگر کیا وہ اتنا ہی سادہ ہے جتنا سمجھ لیا گیا ہے۔زبان اور اس کے کمال پر قادر ہوئے بغیر اس طرح کے شعر نہیں کہے جا سکتے۔رسا چغتائی نے خصوصاً چھوٹی بحر میں سہل ممتنع کے بیسیوں ایسے شعر نکالے ہیں کہ وہ ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ ہو گئے۔
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
یہ اور اس طرح کے کتنے ہی شعر رسا چغتائی کو عوام کے درمیان زندہ و تابندہ رکھیں گے۔
سحرتاب رومانی
نہ جانے کیوں یہ سانسیں چل رہی ہیں
میں اپنی زندگی تو جی چکا ہوں
رسابھائی کی وفات کسی سانحہ عظیم سے کم نہیں ۔یوں لگتا ہے اردو غزل ایک بار پھریتیم ہوگئی ہے۔وہ صحیح معانوں میں ایک صاحب اسلوب اور عہد ساز شاعر تھے ۔رسا چغتائی نے اردو غزل کو اپنی علامتوں،تشبیہوں،استعاروں کے ذریعے ایک نیا اسلوب،نیاذائقہ دیا۔لوگ میرؔ اور غالب ؔ کوپڑھ کر شعرکہنے کا سلیقہ اور ڈھنگ سیکھتے ہیں۔میں نے رسا بھائی کو پڑھ کرشعرکہنا سیکھا اور ایک عرصے تک انہی کے حصار میں رہا۔ رساچغتائی بہت شفیق انسان تھے ۔کہیں ملتے تو نہایت محبت اور شفقت سے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر حال احوال دریافت کرتے۔اب ایسے لوگ کہاں…خد انھیں غریق رحمت کرے۔اردو غزل کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
شکیل احمد صبرحدی (بانی مجلس فخر بحرین برائے فروغ اردو)
رسا چغتائی منفرد لہجے اور چھوٹی بحر میں شعر کہنے والے درویش شاعر تھے ،آپ کا کلام اور خیال دونوں ہی سلگتے اور لو دیتے ہوئے محسوس ہوتے تھے اور ادبی دنیا میں نمایاں مقام رکھتے تھے ،مجلس فخرِ بحرین کے تمام ارکان، اس نقصان پر اردو زبان کے شیدائیوں سے تعزیت کرتے ہیں .
ہنسنا تہذیب ہے جلنا تقدیر ہے روشنی شمع کی خود گلو گیر ہے
ہاں مگر قطرہ اشک شبنم جسے صبح کی سب سے پہلی کرن پائے گی
خرم عباسی
وفا کے رستے میں دیے جلانے والے رسا بھائی ہم سے رخصت ہو گئے۔دل گرفتہ ہے ان کے وصال پر لیکن ہم وہی کریں گے جس کا حکم اللہ اور اس کے نبی صل اللہ علیہ والہ و سلم نے ہمیں دیا ہے ۔یعنی ان کے لئے دعا اور صبر۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔محترم رسا چغتائی کے ساتھ ایک یادگار شام،اکتوبر 2012، میرے غریب خانہ پر عالمی مشاعرہ منعقد کیا گیا تھا۔اس کی صدارت جناب رساچغتائی نے فرمائی۔ مہمان خصوصی انور شعور صاحب تھے۔مہمان شعرا کرام میں،محترم عابد علی بیگ (ہانگ کانگ ) محترم انور انصاری (سعودی عرب)محترم ساقی اندوری (ہندوستان) سے اور سعید آغا،راشد نور،لیاقت علی عاصم،اجمل سراج،اختر سعیدی، ڈاکٹر عبدل مختار،شہاب اقتدار قدر،جاذب ضیائی،اختر شیخ،عمران شمشاد نے کراچی سے شرکت فرمائی۔
طاہر عظیم
رسا چغتائی صاحب 2013 میں انجمن فروغ ِادب بحرین کی دعوت پر بحرین تشریف لائے ۔ہمیں ان کی میزبانی کا شرف حاصل رہا۔وہ جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بڑے آدمی بھی تھے۔نفیس اور محبت کرنے والے۔مشاعرے کے بعد وہ کمرے میں آئے جہاں میں شاہد ذکی۔سید زوار۔رخسار ناظم آبادی بیٹھے تھے۔انہوں نے ایک غزل سنائی۔مجھے یاد نہیں کونسی غزل تھی۔پھر انہوں نے کہا کہ آپ لوگ اس پر بات کریں۔ایسے شعرااورو شخصیات کا ادب میں فقدان ہے۔ ان کے انتقال سے ادب کے ایک باوقار عہد کا اختتام ہوا۔
سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا
خوف یہ عمربھر رہے گا کیا

نذرِ رسا چغتائی

اطہرعباسی

آنسوؤں کی کتاب آنکھوں میں
بن گئی ہے شراب آنکھوں میں
حُسن کو دیکھ کر حجاب میں خود
مُسکرایا حجاب آنکھوں میں
کتنا روشن ہے درد کی صورت
زیست کا انتساب آنکھوں میں
ہے شفق روشنی محبت کی
سُرخ دل کا گلاب آنکھوں میں
جاگتے ہیں ترے شبستاں میں
روشنی بن کے خواب آنکھوں میں
دل کی دنیا جو دیکھنا چا ہو
دیکھنا ان سراب آنکھوں میں
اک جہانِ خراب کیا کہیے
ہائے خانہ خراب آنکھوں میں
بندگی میں کروں رقم یارب
ر ت جگے بے حساب آنکھوں میں
لوحِ دل پر دیے جلاتے ہیں
ظلمتوں کے عذاب آنکھوں میں
یاد میں آپ کی رسا بھائی
اشک ہیں بے حساب آنکھوں میں
غم کی صورت سجا لیے اطہر
ہم نے تازہ گلاب آنکھوں میں

احمد امیر پاشا

دل رُبا تھا اداؤں والا تھا
صبحِ نو کی دعاؤں والا تھا
چل پڑا ہے وفا کے رستوں پر
وہ تو نازک سے پاؤں والا تھا
وہ شجر پھل بھی ڈھیروں دیتا تھا
اور محبت کی چھاؤں والا تھا
یاد ہے اس کے ہجر کا موسم
سرد کتنا ہواؤں والا تھا
جاں بھی دیتا تھا ہم نشینوں پر
جگمگاتی وفاؤں والا تھا
اس کو کھو کر میں یوں بھی رویا امیر
میرے اپنے ہی گاؤں والا تھا

حصہ