ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کا 36واں سالانہ یکجہتی ظہرانہ

274

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ وہ نقاد ہیں‘ محقق ہیں‘ ادیب ہیں اور طنز و مزاح نگار بھی۔ا ردو ادب کے معتبر قلم کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے متعدد کتابوں کے خالق ہیں پاکستان او ربیرون پاکستان کے ادبی رسائل میں ان کے مضامین شائع ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کالم نگاری بھی کر رہے ہیں۔ مجلسی آدمی ہیں جس محفل میں جتے ہیں ’’شمع محفل‘‘ بن جاتے ہیں۔ اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہیں انہوں نے آج سے 35 سال پہلے ڈاکٹر فاطمہ حسن اور انور بیگ کے ساتھ سالانہ مذاکرے اور مشاعرے کا پروگرام شروع کیا تھا جس میں مہمانوں کی تواضع کے لیے بڑے پائے پکائے جاتے تھے اس سلسلے کا 36 واں پروگرام 14 جنوری 2018ء بروز اتوار برمکان ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی منعقد ہوا۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے پہلے دور میں مشاعرہ ہوا جس کی صدارت محمو شام نے کی ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر صاحب صدر اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ پروفیسر سحر انصاری‘ ظفر محمد خان ظفر‘ انور شعور‘ حیات رضوی امروہوی‘ عبدالحسیب خان‘ ثروت سلطانہ ثروت‘ فیروز ناطق خسرو‘ فراست رضوی‘ راشد نور‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ اختر سعیدی‘ نسیم نازش‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ راقم الحروف‘ سلیم فوز‘ قادر بخش سومرو اور محمد سلیم قریشی نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ پروگرام کا آغاز مقررہ وقت پر ہوا۔ معین قریشیکے نواسے حافظ اثر ضیا نے تلاوتِ کلامِ مجید کا شرف حاصل کیا جب کہ کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے نعت گو شاعر بشیر بھٹی نے اپنی تحریر کردہ نعت پیش کی۔
ڈاکٹر معین ریشی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ وہ ہر سال یہ محفل منعقد کرتے ہیں جس میں کراچی اور دیگر شہروں کی اہم ادبی شخصیات شرکت کرتی ہیں اس پروگرام کی ترتیب میں ہر سال کچھ نئے لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے جب کہ کچھ لوگ اس تقریب کے مستقل ممبرز ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے اور مذاکرے ہماری تہذیب و تمدن کے آئنہ دار ہیں۔ مشاعرے اردو ادب کے فروغ میں اہم کردار کے حامل ہیں ہر دور میں مشاعرے جاری رہتے ہیں تاہم وقت و حالات کے باعث ادبی تقریبات میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ ان دنوں کراچی کے حالات بہتر ہو رہے ہیں تو تقریبات کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے مذاکرے کا موضوع ’’یک جہتی‘‘ ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب تک مسلمان متحد رہے‘ کامیابیوں نے ان کے قدم چومے‘ اتحاد میں بڑی برکت ہے قوموں کے عروج و زوال میں یک جہتی کا اہم کردار ہوتا ہے ہمارے دین اسلام میں اتفاق اور اتحاد پر زور دیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں خصوصی ہدایات دی ہیں لہٰذا بحیثیت مسلمان ہمیں متحد ہونا ضروری ہے ایک پاکستانی ہونے کے ناتے بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم متحد ہو جائیں پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں کہ ہم نفاق کا شکار ہو جائیں تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں اس وقت پاکستان شدید بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی خاطر تمام اختلافات بھلا کر متحد ہو جائیں۔
اس پروگرام کے دوسرے دور میں مذاکرے کا آغاز ہوا جس کی مجلسی صدارت میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر سردار یاسین ملک‘ عبدالحسیب خان اور میاں زاہد حسین شامل تھے اس موقع پر سردار ملک نے کہا کہ میں ادبی محفلوں میں شریک ہوتا ہوں تاکہ میری معلومات میں اضافہ ہوتا رہے۔ ڈاکٹر معین قریشی ہر سال ایک اچھی محفل سجاتے ہیں جس میں مختلف شعبوں کے اہم افراد شرکت کرتے ہیں یہاں آکر بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے سچ تو یہ ہے کہ ہمیں پورے سال اس محفل کا انتظار رہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یک جہتی کی ضرورت ہر قوم کی ہے جو قومیں نفاق و انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دی جاتی ہیں۔ مسلمانان ہند جب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے تو ہم نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کی اب اس آزادی کی حفاظت کے لیے ہمیں متحد ہونا لازمی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان میں قومی یک جہتی کا فقدان ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے ہمارا ملک دہشت گردی کا شکار ہے۔ آج کے حالات میں ہمارا متحد ہونا بہت ضروری ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کا طبقہ ہمارے لیے اس حوالے سے بھی قابل تعظیم ہے کہ وہ معاشرتی برائیوں کے خلاف قلمی جہاد کرتے ہیں معین قریشی کا یہ اجلاس قابل ستائش ہے کہ جس کے ذریعے ہم امن وامان اور قومی یک جہتی کے موضوع پر بات کر رہے ہیں یقینا ہم سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے تاکہ اپنے دشمن سے محفوظ رہ سکیں۔ عبدالحسیب خان نے کہا کہ پاکستان کے پاس خدا کا دیا ہو ابہت کچھ ہے آج ہم ایٹمی طاقت ہیں ہمارا سر بلند ہے ہمارے حوصلے بلند ہیں دشمن ہماری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تاہم یک جہتی ہماری ضرورت ہے کہ اس کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ پاکستان قائم ہے اور قائم رہے گا۔ معین الدین حیدر نے کہا کہ ڈاکٹر معین قریشی قابل مبارک باد ہیں کہ وہ ہر سال ایک اچھا پروگرام ترتیب دیتے ہیں آج کی محفل میں بہت اچھی شاعری سامنے آئی ہے انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے عوام باشعور ہیں آج ہم دیکھتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے‘ جمہوریت فروغ پا رہی ہے ابھی کل کی بات ہے کہ بلوچستان میں جمہوری طریقے سے حکومت تبدیل ہوئی یہ ایک خوش آئند بات ہے اگر جمہوری قوتوں کو پروان چڑھایا جائے تو پاکستان ترقی کرے گا۔ آج ہمارے ملک میں کئی اہم پراجیکٹ شروع ہو رہے ہیں چین کے تعاون سے پاکستان میں اہم تبدیلیوں کا آغاز ہونے جارہا ہے جہاں تک قومی یک جہتی کا بات ہے تو امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات نے تمام پاکستانیوں کو متحد کر دیا ہے اب ہم اپنے اختلافات بھلا کر پاکستان کی حفاظت کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ ہماری عزت پاکستان کی آزادی سے مشروط ہے۔ بھارت ہمارا دشمن ہے‘ افغانستان میں بھارتی عمل دخل بڑھ رہا ہے جس کے باعث امریکی پالیسیاں تبدیل ہو رہی ہیں تاہم پاکستان اب اکیلا نہیں ہے پاکستان کے ساتھ کئی ممالک کھڑے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ محمود شام نے کہا کہ آج کی شعری نشست ایک کامیاب اور یادگار محفل ہے آج بہت اچھے اشعار سننے کو ملے ہیں غزل کے تمام محاسن بیان ہوئے ہیں اس قسم کی تقریبات ادبی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے مذاکرے کا موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
اس پروگرام میں ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر احتشام الحق نے ضیاء محی الدین کی آواز میں ایک مضمون سنایا اور کافی داد وصول کی۔ اس موقع پر ’’عالمی اردو تنظیم شمالی امریکا‘‘ کی جانب سے شبیر بھٹی نے ڈاکٹر دائود عثمانی پروفیسر آفلیاری کالج کی علمی خدمات کے اعتراف کے طور پر پچاس ہزار روپے نقد‘ شیلڈ اور سرٹیفکیٹ پیش کیا۔ اس سلسلے کا یہ دوسرا ایوارڈ تھا جب کہ پہلا ایوارڈ انور شعور کو پیش کیا گیا تھا۔ پروگرام کے اختتام پر بڑے پائے کی دعوت کا اہتمام تھا۔ بلاشبہ یہ ایک کامیاب اور یادگار تقریب تھی جس کی گونج اگلے برس تک سنی جاتی رہے گی۔

ذکیہ غزل کے اعزاز میں تقریب پزیرائی

ذکیہ غزل اپنے نام کی طرح غزل ہیں‘ ان کا ترنم اور شاعری دونوں سحر طاری کر دیتے ہیں‘ ان کے اشعار میں غزل کے تمام رنگ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے معاشرتی رویوں پر قلم اٹھایا ہے اور اپنے تجربات و مشاہدات کو بھی شاعری میں پیش کیا ہے ان خیالات کا اظہار معین الدین حیدر نے ذکیہ غزل کے اعزاز میں سجائی جانے والی تقریب پزیرائی کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کی کتابیں شائع کرنے کے ریکارڈ ہوتے ہیں اور میرا ریکارڈ یہ ہے کہ میں نے سب سے زیادہ کتابوں کی تقریب رونمائی کی صدارت کی ہے۔ ذکیہ غزل کی کتاب کی رونمائی بھی انہوں نے ہی کی ہے۔ تحریک نفاذِ اردو کے زیر اہتمام کینیڈا سے تشریف لانے والی ممتاز شاعرہ ذکیہ غزل کے اعزاز میں سجائی جانے والی تقریب کے دیگر مقررین میں حاذق الخیری‘ ڈاکٹر عالیہ امام‘ پروفیسر رضیہ سبحان‘ رفیع الدین راز‘ ریحانہ رومی‘ پروفیسر اوجِ کمال اور ڈاکٹر نزہت عباسی شامل تھے۔ سلیم احمد نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حال کی۔ قندیل جعفری نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نسیم شاہ ایڈووکیٹ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحریک نفاذِ اردو ادیبوں اور شعرا کی تکریم و پزیرائی کے لیے تقریبات کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔ اردو ادب کی ترویج و اشاعت ہمارے ادارے کے منشور کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذکیہ غزل ایک بین الاقوامی شاعرہ ہیں وہ بنیادی طور پر کراچی کی رہائشی ہیں تاہم ان دنوں کینیڈا میں مقیم ہیں یہ کراچی میں اپنی ادبی تنظیم ’’اظہار‘‘ کے پلیٹ فارم سے ادبی محافل منعقد کراتی رہتی تھیں اب کینیڈا میں اردو ادب کی آبیاری میں مصروف ہیں ان کا شعری مجموعہ ’’بادل‘ گیت‘ ہوا‘‘ ادبی حلقوں میں اپنی جگہ بنائے گا۔ ان کی شاعری روح کے اندر اتر جاتی ہے ان کا ترنم بھی قابل ستائش ہے یہ مشاعرہ لوٹ شاعرہ ہیں۔حاذق الخیری نے کہا کہ ذکیہ غزل کی سچائی میں سچائی ہے انہوں نے حالاتِ حاضرہ کا مطالعہ کیا ہے انہوں نے معاشرتی ظلم و زیادتیوں پر بھی اشعار کہے ہیں اور وگوں کو سنہرے خواب دکھائے ہیں وہ پاکستانی ہیں ان کے یہاں وطن کی محبت بھی نمایاں ہے۔ ڈاکٹر عالیہ امام نے کہا کہ ذکیہ غزل سنجیدہ اور باشعور شاعرہ ہیں ان کے یہاں غنائیت کے ساتھ ساتھ مقصدیت بھی ہے انہوں نے لفظوں کی نشست و برخواست کا سلیقہ آتا ہے۔ پروفیسر رضیہ سبحان نے کہا کہ ذکیہ غزل سے میری پہلی ملاقات تابش دہلوی کے گھر ہوئی تھی اس کے بعد میں نے انہیں متعدد مشاعروں میں سنا‘ یہ اردو ادب کی فعال کارکن ہیں انہوں نے اردو کے لیے عالمی اردو سروس کے پروگرام بھی کیے ہیں اب کینیڈا میں ریڈیو ٹی وی پر مشاعروں کے انٹرویوز نشر کر رہی ہیں۔ سلیم احمد نے کہا کہ ذکیہ غزل زمانۂ طالب علمی ہی سے اشعار کہہ رہی ہیں انہوں نے شاعری کے کئی مقابلے جیتے ہیں انہوں نے اردو ادب میں اپنی شناخت بنا لی ہے۔ رفیع الدین راز نے ذکیہ غزل کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ ریحانہ رومی نے کہا کہ ذکیہ غزل بہت حساس طبع خاتون ہیں سوچ سمجھ کر لفظوں کااستعمال کرتی ہیں ان کے اشعار بھی اچھے ہوتے ہیں۔انہوں نے کراچی میں بھی اپنی پہچان بنا لی تھی اب کینیڈا کے ادبئی منظر نامے میں جلوہ گر ہیں۔ پروفیسر اوجِ کمال نے کہا کہ ذکیہ غزل مشاعروں کی شاعرہ ہیں ان کا نام مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے انہوں نے بیرون ملک بھی مشاعرے پڑھے ہیں اور بہت سے ایوارڈز حاصل کیے ہیں۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ ذکیہ غزل اپنے وطن سے دور ہونے کے باوجود پاکستان سے باخبر رہتی ہیں خاص طور پر کراچی کے واقعات و حالات پر کھل کر اظہار کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں سماجیات‘ اخلاقیات‘ تہذیب‘ انسانی اقدار‘ سیاست اور معاشرتی ناہمواریوں کی گونج ہے ان کے دوہے بھی بہت مشہور ہیں۔ صاحبِ اعزاز ذکیہ غزل نے کہا کہ وہ تحریکِ نفاذ اردو کی ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔کراچی علم دوست شخصیات کا شہر ہے۔ دبستان کراچی میں اچھے اور نئے شعرا کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان اب عالمی زبان بن چکی ہے۔ امریکا‘ کینیڈا کے علاوہ عرب امارات میں بھی اردو بولی جارہی ہے اور وہاں اردو کے مشاعرے ہو رہے ہیں۔ ہماری ادبی تنظیم ’’اظہار‘‘ بھی کینیڈا میں بہت فعال ہے ہم اس تنظیم کے تحت مذاکرے اور مشاعروں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان تقریبات میں عالمی مشاعرہ بھی شامل ہے۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے لیکن میں اپنے بچوں کے خوش حال مستقبل کی خاطر کینیڈا شفٹ ہوگئی ہوں میرا دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ وطن کی محبت میرے خون میں شامل ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ترقی‘ عزت اور شہرت عطا فرمائے۔

٭در برگِ لالہ و گل کی تقریب اجرا

محبانِ بھوپال اور بقائی میڈیکل کے زیر اہتمام یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا کراچی چیپٹر کے تعاون سے آسٹریلیا میں رہائش پذیر پاکستانی نژاد افضل رضوی کی کتاب ’’در برگِ لالہ و گل‘‘ کی تقریب اجرا منعقد کی گئی۔ اس پروگرام کی صدارت حاذق الخیری نے کی جنہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ افضل رضوی کی کتاب میں علامہ اقبال کے فن و شخصیت کے بارے میں بہت اچھا مواد ہے اس کتاب کے مطالعہ سے انسانی ذہن میں نئے ابواب روشن ہوں گے‘ کتاب کی تخلیق ایک عظیم کارنامہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیلط نے کہا کہ اس کتاب کا مطالعہ میرے ایک خوش گوار تجربہ ہے افضل رضوی سائنس کے شعبے میں تدریسی امور انجام دیتے ہیں لیکن انہوں نے علامہ اقبال کے افکار و خیالات پر سیر حاصل بحث کی یہ کتاب اردو ادب میں گراںقدر اضافہ ہے انہوں نے اقبال کے ذہن و فکر کو دل چسپ پیرائے میں بیان کیا ہے اس طرح علامہ اقبال کی تعلیمات دوسروں تک پہنچ رہی ہیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ افضل رضوی نے کلام اقبال کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر وہ مباک باد کے حق دار ہیں۔ پروفیسر یونس حسنی نے کہا کہ افضل رضوی سائنس کے آدمی ہیں‘ وہ نباتات سے اورخواصِ نباتات سے خوب وقف ہیں اس واقفیت کے سبب انہوں نے کلامِ اقبال میں نباتات کی معنویت تلاش کرکے اپنے الفاظ میں ڈھالا ہے ان کی کتاب میں 26 نباتات کا تذکرہ ہے ان سب کو انہوں نے ایک ادیب اور سائنس دان کی حیثیت سے پرکھا ہے۔ علامہ اقبال نے جن پھولوں کا تذکرہ بار بار کیا ہے وہ سب سرخ رنگ کے ہیں یہ سرخی و خوں آشامی جدجہد کی علامت ہے اور جہد مسلسل کی داستان بھی۔ علامہ اقبال کا رویہ یہ رہا ہے کہ وہ پھولوں اور کلیوں کے ذریعے بھی اپنے فلسفے کی نمو کرتے نظر آتے ہیں۔ در برگِ لالہ و گل ایک محنت طلب مطالعہ تھا جس کو تحقیق کے تقاضوں اور تنقیدی شعور کے ساتھ خوب صورتی سے انجام دیا گیا ہے جس پر افضل رضوی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر جمیل نے کہا کہ افضل رضوی نے تحقیق کے ساتھ ساتھ قلم کا حق بھی ادا کر دیا ہے یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز بن گئی ہے۔ رضوان صدیقی نے کہا کہ انہوں نے افضل رضوی کی کتاب کا حرف حرف مطالعہ کیا ہے یہ کتاب اچھی کاوش ہے جس پر صاحبِ کتاب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹر شاہد ضمیر اور ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب ادب کے طلباء و طالبات کے لیے اہم تحفہ ہے۔ شگفتہ فرحت نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اردو ادب کی ترقی کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہم قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی پروگرام مرتب کرتے رہتے ہیں۔ پروفیسر انیس جعفری اور سہیل ادیب انصاری نے بالترتیب نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سلمیٰ خانم نے کلماتِ تشکر پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تنظیم پر ادارے کے ساتھ مل کر ادب کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ اس موقع پر مہمانوں کو پھولوں کے تحائف بھی پیش کیے گئے۔

حصہ