فرحت طاہر
یہ بات طے شدہ ہے کہ ادب جذبوں کی افزائش ، معاشرتی اصلاح اور قانونی معاملات میں بھی عمل انگیز ( (catalyst کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس نظریے کو جانچنے کے لیے ہمارے پاس کرب آگہی ہے ۔کرب آگہی مصنفہ محتر مہ آسیہ بنت عبداللہ کی تازہ ترین کتاب ہے جو شائع تو 2017 ء کی آخری دہائی میںہوئی ہے مگر یہ دراصل بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں اور اکیسویں صدی کی اول دہائی کا احاطہ کرتی ہے ۔ اس کتاب میں ۴۵ کے قریب کہانیاںاتنے ہی گھرانوں سے دابستہ مسائل اور ان کی روشنی میں اپنے معاملات سلجھانے کی نوید دیتے نظر آتے ہیں ۔
انتساب: اللہ کے بعد ان سب کے نام جنہوں نے اس قلمی کام میں میری معاونت کی ۔مصنفہ نے اپنے آپ کو قلم کی عدالت میں پیش کیا ہے کہ۔۔۔میں حاضر ہوں ۔چاہے بری کریں یا فرد جرم عائد کردیں ؟ اظہار رائے کی آ زادی ہے !۔۔۔
ابتدائی طور پر کسی خیال کو عملی جامہ تو قلم کار ہی پہناتا ہے مگران الفاظ کوکاغذ کے ذریعے کتابی شکل میں ڈھالاجائے یا ہوا کے دوش پر سوار کر کے بکھیرا جائے بہرحال ایک طویل سفر سے گزرتی ہیں جس میں ایک کثیر تعداد کی معاونت ہوتی ہے ۔ آگہی کے سفر کے نام سے راقمہ فرحت طاہرکا تبصرہ کتاب میں موجود ہے جبکہ اس کے علاوہ معروف مصنفہ اور افسانہ نگار قانتہ رابعہ اور حریم ادب کراچی کی صدر عقیلہ اظہر نے بھی قلم کے پھول کے نام سے’’ کرب آگہی ‘‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔
نائن الیون کے اثرات جہاں دفاعی، سیاسی، اور جغرافیائی خدشات اور خطرات لے کر آئے وہاں تہذیبی، معاشرتی اور معاشی اضطراب کا باعث بھی بنے ۔دنیا کے گلوبل ولیج بننے سے جو اخلاقی اور روحانی بحران پیدا ہوئے ،میڈیا کی چکاچوند اور یلغار نے جس طرح انسانی زندگی کو بے چین کیا ،نظر یات میں انتشار پیدا کیا، مسائل کی نوعیت تبدیل کی ،قاری ان سب کی جھلک واضح طور پراس کتاب کے مطالعے سے محسوس کرتا ہے ۔ یہ بات راقمہ نے آگہی کے سفر کے عنوان سے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھی ہے :
’’ان کہانیوں کی ترتیب، حال سے ماضی کی طرف لے جاتی ہے۔ گویا قاری ٹائم مشین میں بیٹھ کر پچھلی صدی کی طرف سفر کرتا ہے جہاں آسیہ بنت عبداللہ کی کہا نیاں بیسویں صدی کے آخری تین عشروں کی داستان بیان کرتی ہیں! وہ معاشرے کے خد و خال دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے! اپنی گم گشتہ روایات کو پہچان کر احساس زیاں کا شکار ہوتا ہے! گویا یہ کہانیاں تاریخ کا قیمتی سرمایہ ہیں جو عمومی رہن سہن، معاشرتی رکھ رکھاؤ، تہذیب کی روایتوں اور اس وقت کے معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔بحیثیت ایک قلم کار مصنفہ تاریخ کا قرض اداکرتی نظر آتی ہیں کہ عمومی معاشرے میں در آنے والی تبدیلیوں کو قلم بند کیا۔ یہ تبدیلی صرف مادی نہیں بلکہ روحانی اور جذباتی بھی ہے۔
ان کے کردار زندگی کے ہر شعبے اور عمر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک معصوم بچے سے لے کر پختہ عمر دادا جی کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تعلیم سے محروم، روزگار کے لیے بے چین نوجوان ہیں تو دوسری طرف مناسب رشتوں کی منتظر کم عمر لڑکیاں، معاشی جدوجہد میں مصروف صاحب خانہ ہیں تو بجٹ کو متوازن بنانے میں سرگرداں خاتونِ خانہ! سسرال کے ظلم سہتی بہو ہے تو دوسری طرف شوہر کی نظر انداز کی گئی بیوی! کہیں بہن بھائی کی نوک جھونک ہے تو کہیں منگیتر کی شوخیاں! کہیں عزت بچانے کی خاطر خودکشی کرتی لڑکی ہے تو کہیں وطن پر جان قربان کرتا فوجی! کہیں حیا کے مظاہر ہیں تو کہیں بے حیائی پر مائل کرتے عناصر! وطن سے دور مشقتوں میں گِھرے شوہر ہیں تو جدائی کے نوحے پڑھتی بیویاں! کہیں تعمیر کرتا مزدور ہے تو کہیں جسمانی اور ذہنی عوارض کے مسیحا! معاشرے کے ان تمام کرداروں کے پیچھے سے مصنفہ کا حساس ذہن اور مشاہدہ جھلک دکھاتا ہے۔ یہ تمام کردار حب الوطنی اور مشقت کا سبق دیتے اور امید کا رنگ بھرتے نظر آتے ہیں۔ گویا ایک گلدستہ ہے جس میں ہر رنگ، شکل اور خوشبو کے پھول سجائے گئے ہیں ۔
کرب آگہی میں موجود تمام تر کہانیاں چونکہ اخبارات کے لیے تحریر کی گئی تھیں جہاں جگہ محدود ہونے کے باعث اختصار سے کام لینا پڑتا ہے اور یہ ہی ان کی تحریر کی خوبی اور صلاحیت بن گئی کہ کم الفاظ میں جذبات کو انگیز کرنا ! پھر اخبارات کی کہانیاں مختلف مواقعوں اور حالات حاضرہ کو مد نظر رکھ کر تحریر کی جاتی ہیں لہذا ہمیں اکثر کہانیوں میں عیدین، رمضان المبارک ، یوم دفاع، یو م آزادی کی جھلک بھی نظر آتی ہے مگر موضوع کی تکرار نہیں بلکہ ہر کہانی میں ایک نیا زاویہ پیش کیا جا تا ہے ۔موسمی تبدیلیاں ہوں یا صحت کے بنیادی اصول ان کہانیوں میں کرداروں کی زبانی بڑے فطری انداز میں بیان کردیے جاتے ہیں اطلاعاتی دھماکے کے دور سے پہلے لکھی گئی کہانیوں کے موضوعات بھی مقامی ہیں جن میں ازدواجی ناہمواریاں ہیںوطن میں عدم خوشحالی ِ ِہے ، گھر یلو ناچاقیاں اور معاشتی بگاڑ وغیرہ ہیں ۔۔جبکہ بعد کے دور میں لکھی گئی کہانیوں میں واضح طور پر بدلتے حالات کی جھلک ملتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی کہانیوں میں مذہبی مظاہر بین السطورمیں توضرور موجود ہیں مگرباقاعدہ درس و نصیحت کے انداز میں نہیں ملتے ۔معلوم نہیں یہ طریقہ کار بڑھتی عمر کے ساتھ قلب ماہیت ہے یا پھرادبی لٹریچر میںدر آنے والی تبدیلی کا شاخسانہ!
معروف افسانہ نگار قانتہ رابعہ اپنے تبصرے میں رقم طراز ہیں :
’’کرب آگہی کے افسانوں کی زبان شستہ اور اپنے اندر جہاں معنی آباد کیے ہوئے ہے ۔چھوٹی چھوٹی باتوں میں تہذیب سکھانے اور اخلاق کی بہتری کے ہزار گر چھپے ہوئے ہیں ۔۔۔۔‘‘
حریم ادب کراچی کی صدر عقیلہ اظہر اپنے تبصرے بعنوان ’’ قلم کے پھول ‘‘ میں لکھتی ہیں :
’’۔۔کم الفاظ اور مختصر جملے ان کی گرفت میں رہتے ہیں اور وہ پھر انہیں استعمال کر کے کیا خوب عکاسی کرتی ہیں ۔۔۔۔۔ان کے افسانے مختصر ہوتے ہیں لیکن بہت چابکدستی سے اپنا پیغام اس میں پرو دیتی ہیں ۔۔۔‘‘
کتاب کے مجموعے میںپہلی کہانی ’’مثال ‘‘کے نام سے ہے جس میں مارننگ شو میں دکھائی جانے والی شادی کی رسومات میں ایک نعتیہ منقبت پر نازیبا حرکات دکھائے جانے پر اینکر اور ٹی وی چینل کو سخت اقدامات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔اس کے پس منظر میں بنت رسولﷺ کی شادی کا منظر بیان کیا جا تا ہے اور پھر جس کی روشنی میں سادگی سے شادی کی مثال قائم کی جاتی ہے ۔کسی منظر سے اپنے مطلب کی بات کشید کرکے قاری کو عمل کی راہ دکھائی جارہی ہے ۔ یہ کہانی ایک بیدار ذہن کی علامت ہے۔
’’زبان شیریں ‘‘ اور ’’ فرصت نہیں ہمیں ‘‘ عنوانات سے ہی موضوع ظاہر ہے۔وعظ اور نصیحت کے بجائے مکالمے اور منظر نگاری کے ذریعے قاری تک اپنا پیغام بھر پور انداز میں پہنچا یا گیا ہے ۔جدید دور میں ڈیجیٹل دنیا سے جڑی نئی نسل کو برتنے اور نمٹنے کے لیے اصول بھی صحابہ ؓ سے اخذ کیا گیا ہے ۔ ’’ نا سمجھ ‘‘ میں موبائیل فون نئی نسل میں جس طرح بے راہ روی کا زہر گھول رہا ہے اور لڑکیوں کو گھر سے فرار ، پسند کی شادی پر اکسانے میں اپنا کردار ا دا کر رہا ہے ۔ مصنفہ نے کالج کی لڑکیوں کے ذریعے نئی نسل تک آگہی پہنچانے کاکام اس کہانی میں کیا ہے
’’ کریں تو کیا کریں ؟ ‘‘ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے معاشرے کے ہر طبقے کی سوچ کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اختتامیہ کلمات ایک حل کے ساتھ قاری کے سامنے آتے ہیں کہ جو کر سکتے ہیں وہ تو کر لیں ! ایک دوسرے کی خیر خواہی تو کر لیں ! سماجی رویوں کی ایک جھلک ’’ پھوہڑ ‘‘ اور ’’ تم نہ مانو مگر حقیقت ہے ‘‘ جن میں معاشی کشمکش اور صحت کے حوالے سے موضوعات کے ساتھ بہو او ر بیٹی میں فرق کو بھی دکھا یا گیا ہے ۔
’’ فیصلے کی صلیب ‘‘ مرد کی بے وفائی کی کہانی ہے جو عورت کو ہی نڈھا ل نہیں کر تی بلکہ گھروں کو توڑ ڈالتی ہے اور بچوں میں ذہنی نتشار کا باعث بنتی ہے ۔
’’عمل سے زندگی بنتی ہے ‘‘ ’’ جب عشق سکھاتا ہے آ داب خود آگہی ‘‘ ’’ وہ صبح ہمی سے آئے گی ‘‘ ’’ ایک نور ہے چھا یا ہوا ‘‘ کے عنوان سے کہانیاں حب الوطنی کا درس منفرد انداز میں دیتی نظر آتی ہیں ۔ ’’پروانہ حضوری ‘‘ ایک خوشگوار گھریلو ماحول کی تصویر دکھاتی ہے جہاں بہن بھائی کی چھیڑچھاڑاورعید الاضحی کی خوشیاں اور مسرتیں ہیں اور قربان گاہ میں نیتوں کو خالص کرنے والی نصیحت ہے اور دعا بھی
’’ ۔۔۔بس اس کی راہ میں نکلنے کا ارادہ کرو مگر پہلے اس سے تعلق استوار کرو ! ایسا گہرا تعلق جو صرف تمہارے اور اس کے بیچ ہو ۔کسی اور کا عمل دخل نہ ہو ۔راتوں کو اٹھ کراس سے توفیق مانگو ، آنسو بہائو ۔پھر وہ راستے بھی بنائے گا اور اپنے حضور باریابی کا پروا نہ جاری کرے گا ۔اللہ تعالی امت مسلمہ کو سرخ رو کرے۔۔۔‘‘
’’ ہم نے رسم محبت کو زندہ کیا ‘‘ میں فلسفہ قربانی کی بہترین تشریح سامنے آتی ہے ۔ اسوہ ابراہیمی ؑ کی ادائیگی کی تڑپ کو مصنفہ نے اپنی جذبات نگاری کے ذریعے امر کردیا جب قربانی کی رقم ڈاکوئوں سے چھینتے ہوئے وہ خود شہید ہوجاتا ہے۔
’’گلزار جلتے ہیں ‘‘ رمضان المبارک میں غزہ پر ہونے والی قیامت کے حوالے سے ہے ۔ وہی تصویریں جو سوشل میڈیا پر گردش کرکے جہاں لوگوں کو افسردہ کرتی ہیںاور ایک حساس قلم کار امت مسلمہ پر ٹوٹنے والی قیامت کو اپنے الفاظ میں سمو کرقارئین کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔اسی طرح ’’ یہ منظر بہار ہے ! ‘‘ قومی اور بین الاقوامی حالات پرتفکر کا احساس دلاتی ہیں۔
’’سر حقیقت ‘‘ او ر ’’ نصیب زیست تیرا انتظار رہے گا ! ‘‘ میں حصول رزق کے لیے زوجین کی دوری کے کرب کو بڑی خوبصورتی سے قرطاس پر پھیرا گیا ہے ۔’’ افسانہ زندگی کا ‘‘ ، ’’ زیست مشکل ہے ! ‘‘ ، ’’خواہشات کے بت ‘‘ یہ ان کہانیوں کے عنوان ہیں جن میں عورت کی معاشرتی زندگی کے کرب کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ ’’ کرشمہ ‘‘ ، ’’ فاصلہ ‘‘ ، ’’ بالی ‘‘ ، ’’ انتظار کر ‘‘ ’’ مہر بہ لب ‘‘ انسانی نفسیات کی بہترین عکاسی کرتی نظر آتی ہیں ۔کچھ کہانیاںقاری پر بہت امید افزا اور خوشگوار تاثر چھوڑتی ہیں جو ان کے عنوان سے بھی ظاہر ہے یعنی’’ مسکراتی آنکھوں کا خواب ‘‘ ’’ نہاں کچھ ایسے طوفان بھی چشم تر میں ہیں ‘‘ ’’ راہ طلب میں۔۔۔‘‘
مصنفہ کی پسندیدہ ترین کہانی کا عنوان ہے ’’ مٹی کا آب خورہ ‘‘ اور بلا شبہ یہ اس مجموعہ کی شاہکار کہانی ہے جو سیرت رسول ﷺ کی زندگی کی وہ جھلک دکھاتی ہیں جو مادی دوڑ میں غلطاں اور پیچاں امت کو حقیقی ٹھکانے کے عیش و نشاط کے سرور میں مبتلا کرتی نظر آتی ہے اور عسرت میں بھی آسودگی پیدا کرتی ہے ۔
اس تبصرے کو تحریر کرتے ہوئے الفاظ کی تعداد مطلوبہ حدسے بھی آگے بڑھ گئی جبکہ ہنوز کہانیوں کے نام ادھورے ہیں اور ہر کہانی کا احاطہ ممکن بھی نہیںکہ تیس ،پینتس سال کے اس سفر کو پڑھ کر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے ذوق مطالعہ رکھنے والوں کے لیے یہ مجموعہ بہترین تحفہ ہے جو لائبریری کے شیلف میں ضرور موجود ہونی چاہیے ۔
کتاب مکتبہ الکوثر ،ارقم سنٹر گلستان جوہر ، ادارہ نور حق اور معارف اکیڈمی میں دستیاب ہے ۔اس کے علاوہ آن لائن بھی طلب کیا جا سکتا ہے
https://www.facebook.com/asiabnteabdullah/