معروف مصنفہ قانتہ رابعہ سے 101سوالات

547

افشاں نوید
جسارت سنڈے میگزین:آپ کون ہیں؟
قانتہ رابعہ :ابھی معرفت نفس کے مراحل طے کررہی ہوں۔بلھیا کیہہ جاناں میں کون؟
جسارت سنڈے میگزین:کچھ اپنے خاندان کے بارے میں؟
قانتہ رابعہ :حکماء کا خاندان، دین دار اور باعمل ہونے کے علاوہ ادب ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔
جسارت سنڈے میگزین:خود شناسی کے سفر میں کہاں تک پہنچیں؟
قانتہ رابعہ :جب تک خود شناسی کی منزل کا علم نہ ہو تو طے کردہ مسافت کا کیسے بتلایا جائے؟
جسارت سنڈے میگزین:کیوں لکھتی ہیں؟
قانتہ رابعہ :آپ کھانا کھاتے ہیں، سوتے ہیں اس پر تو کیوں کا سوال نہیں اٹھایا جاتا۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کے قارئین کس عمر کے ہیں؟
قانتہ رابعہ :ہر عمر کے۔
جسارت سنڈے میگزین:لکھ کر آپ کو کیا ملا؟
قانتہ رابعہ :ذہنی سکون، اطمینان جیسے قرض کی ادائیگی کے بعد ملتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کے قاری نے کیا پایا؟
قانتہ رابعہ :اس کا جواب میرے قاری سے لیجئے۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا کیا لکھ چکی ہیں؟
قانتہ رابعہ :میرا میدان مختصر افسانہ ہے۔ اس کے علاوہ کالمز، بچوں کی کہانیاں، سفر نامہ حج، کئی موضوعات پر اپنے دروس کو کتابی شکل میں لاچکی ہوں۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کی تصانیف کی تعداد؟
قانتہ رابعہ :انٹرویو کی اشاعت تک افسانوں کا دسواں مجموعہ چھپ چکا ہوگا ان شاء اللہ۔ بچوں کی گیارہ کتب شائع ہوچکی ہیں بارہویں زیر طبع ہے۔ کالمز کے دو مجموعے اور زہے مقدر کے نام سے سفر نامہ حج شائع ہوچکا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:مصنفہ نہ ہوتیں تو کیا ہوتیں؟
قانتہ رابعہ :امکانات کے بجائے حقیقت پر نظر رکھتی ہوں۔
جسارت سنڈے میگزین:کس طرح کے موضاعات پر لکھنے کی مزید خواہش ہے؟
قانتہ رابعہ :کچھ اہم تحقیق طلب موضوعات ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:سماج میں وقت کے ساتھ ساتھ ذاتی ، اجتماعی زندگی کا تعلق مضبوط ہورہا ہے یا کمزور؟
قانتہ رابعہ :عالمگیر تنہائی بڑھ رہی ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:کتاب کے اندر اور کتاب کے باہر کی دنیا کا فاصلہ بڑھا ہے یا گھٹا ہے؟
قانتہ رابعہ :بڑھا ہے فاصلہ۔
جسارت سنڈے میگزین:یہ فاصلہ کیسے کم ہو؟
قانتہ رابعہ :فاصلہ تو ہر صاحب علم اپنا اپنا حصہ ڈال کر کم کرسکتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ہم رویوں میں پس ماندہ ہوتے جارہے ہیں؟
قانتہ رابعہ :حادثے سے بڑے کر سانحہ ہونے والی بات ہے، روئیے تو پس ماندہ ہوتے ہیں مگر پس ماندگی کو برتری ثابت کیا جارہا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:پس ماندہ روئیے ادیب کی تخلیقی صلاحیت کو کس درجہ متاثر کرتے ہیں؟
قانتہ رابعہ :ظاہر ہے ادیب اس سماج کا حصہ ہے، روئیے تخلیقی صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:کبھی سوچا تھا اتنا سارا لکھ لوں گی؟
قانتہ رابعہ :جو لمحہ میری مٹھی میں ہے صرف اس سے فیض حاصل کرنے کا سوچتی ہوں۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ نے اپنے لیے لکھا یا سماج کے لیے؟
قانتہ رابعہ :صرف اپنے اللہ کے لیے۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کی تحریروں کے جواب میں سماج نے آپ کو کیا دیا؟
قانتہ رابعہ :عزت، محبت اور دعائیں جو پڑھنے والوں سے ملیں میرا انمول سرمایہ ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادیب علم کی تخلیق میں حصہ دار ہے؟
قانتہ رابعہ :کسی حد تک ہاں۔
جسارت سنڈے میگزین:علمی خسارے کی تلافی کیسے کی جائے؟
قانتہ رابعہ :علمی خسارہ اگر انفرادی ہے تو اہل علم سے رہنمائی لی جائے، ان کی مجالس میں بیٹھا جائے۔
جسارت سنڈے میگزین:’’ای بک ‘‘ کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟
قانتہ رابعہ :ای بک میرا مزاج نہیں۔ جو ہاتھ میں نہ لی وہ کتاب ہی کیا…!
جسارت سنڈے میگزین:آپ کے پسندیدہ مصنف؟
قانتہ رابعہ :عمر کے ہر دور کی پسند الگ ہوتی ہے۔ کبھی نشاط فاطمہ کی ’’آنسو جو بہہ نہ سکے‘‘ پڑھ کر روتی رہتی تھی۔ مگر اب رونے کے لیے اپنے اعمال کافی ہیں۔نعیم صدیقی، مشفق خواجہ، نیئر بانو، سلیم احمد، یاسمیں نجمی کو جب بھی پڑھا اچھا لگا۔
جسارت سنڈے میگزین:پسندیدگی کی وجہ؟
قانتہ رابعہ :میں نے کئی سال پروفیسر فروغ احمد سے خط وکتابت کے ذریعے رہنمائی لی ان کا کہنا تھا کہ مقصدیت اور کردار کی پختگی کو پسندیدگی میں اولیت دینا ۔ کوئی نوبل پرائز یافتہ بھی اگر کردار کا ناپختہ ہے اور قلم بے مقصد ہے تو سب بے کار۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کے پسندیدہ شاعر؟
قانتہ رابعہ :کچھ بہت بڑے نام ہیں جو میڈیا کے ذریعے مقبول نہیں ہوئے بلکہ شعور اور مقصدنے انہیں دلوں میں جگہ دی۔ نعیم صدیقی، بنتِ مجتبیٰ مینا۔ لاجواب شاعری ہے ان کی۔ سلیم احمد بہت اچھے شاعر تھے۔ اقبال کو پڑھنے کی حسرت ہی رہی کہ کسی ماہر اقبالیات سے پڑھوں۔ اپنے اندران کے اشعار کو سمجھنے کی بصیرت نہیں پاتی۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ہمارے سماج میں ادیب متحرک ہیں؟
قانتہ رابعہ :جی ہاں! متحرک ہیں کہیں دنیا کمانے کے لیے ، کہیں آخرت۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادب روبہ زوال ہوسکتا ہے؟
قانتہ رابعہ :ادیب روبہ زوال ہوسکتا ہے ادب نہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:ادب کا سرچشمہ کہا ہے؟
قانتہ رابعہ :ادب کا سرچشمہ کلام ربانی ہے اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جوامع الکلم ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادیب دانش ور ہوتے ہیں؟
قانتہ رابعہ :نہ ہر دانشور ادیب ہوتا ہے نہ ہر ادیب دانش ور۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کی کون سی کتاب ’’بیسٹ سیلر ‘‘رہی؟
قانتہ رابعہ :کئی کتب الحمد للہ۔ کالمز کا مجموعہ، ’’یہ جو زندگی کی کتاب ہے‘‘ کے چار ایڈیشن نکل چکے ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:کتب خانے کہاں گئے؟
قانتہ رابعہ :پی ڈی ایف فائلز، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر کے غاروں میں گم ہوگئے۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا کتاب اس لیے نہیں خریدی جاتی کہ قاری کی قوت خرید سے باہر ہے؟
قانتہ رابعہ :صرف یہی وجہ نہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کو سماج میں ادب نوازی نظر آتی ہے؟
قانتہ رابعہ :بہت کم۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادب پڑھنے والوں کا دائرہ سمٹتا جارہا ہے؟
قانتہ رابعہ :واقعی سمٹا تو ہے…!
جسارت سنڈے میگزین:ملک میں شائع ہونے والے ادبی رسائل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
قانتہ رابعہ :اچھی لفاظی اور ذہنی عیاشی کو میں ادب میں شمار نہیں کرتی۔ ادب زندگی کے اسرار ورموز ہی نہیں کھلتا قاری کو ادبی زندگی کے لیے بھی تیار کرتا ہے۔ اس معیار پر کتنے جرائد پورے اترتے ہیں؟
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادب کا کام تبلیغ ہے؟
قانتہ رابعہ :ادب ایک اوزار (Tool) کا نام ہے۔ اوزار کا کام کسی تعمیر یا تخریب کے عمل کو آسان بنانا ہوتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادیب مبلغ ہوسکتا ہے؟
قانتہ رابعہ :بالکل، اقبال سے بڑا کون بے لوث مبلغ ہوگا۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ہر ادیب اپنے اندر ’’یوٹوپیا‘‘ رکھتا ہے؟
قانتہ رابعہ :خواہش ہونا الگ بات ہے اور قلم سے ویسی دنیا تخلیق کرنا دوسری بات۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کی تحریر قاری کے لیے کس طرح کے تحرک کا سبب بنتی ہے؟
قانتہ رابعہ :یہ قاری سے پوچھئے میں تو قرآن واحادیث کو روز مرہ زندگی سے گزرتے دیکھتی ہوں اسے قید کرنے کی کوشش کرتی ہوں لفظوں میں۔
جسارت سنڈے میگزین:اچھی تحریر کی خوبی کیا ہے؟
قانتہ رابعہ :قاری محسوس کرے کہ اس کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ ابلاغ بڑی خوبی ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:قلم کی سنگت کیا آپ کی تنہائی کو بزم میں بدل دیتی ہے؟
قانتہ رابعہ :بالکل! لکھتے ہوئے سب کردار میرے دائیں بائیں ہوتے ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:خیر کے فروغ میں ادیبوں کا کیا کردار رہا ہے؟
قانتہ رابعہ :بنت الاسلام، نیئر بانو، حمیدہ بیگم ہزاروں خواتین کے لیے ہدایت کے راستے روشن کرنے کا سبب بنیں۔ سید مودودیؒ کی عطر اور عرق گلاب سے دھلی زبان میں نثر کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔
جسارت سنڈے میگزین:کسی تخلیق کار کی تخلیقی سطح کا تعین کون کرتا ہے؟
قانتہ رابعہ :قارئین اور آنے والا زمانہ۔
جسارت سنڈے میگزین:معاشرے کی تشکیل میں شعراء کا کردار؟
قانتہ رابعہ :شاعری ہم وارث پیغمبر است
جسارت سنڈے میگزین:ماضی کے کن ادیبوں کو پڑھا؟
قانتہ رابعہ :ادب عالیہ کے نام پر بڑے بڑے ادیبوں کو پڑھنا اور زبان وبیان کے سحر میں گرفتار ہونا کافی نہیں۔ پہلے ادیب کے بارے میں علم حاصل کرتی ہوں پھر اس کی تصانیف سے رجوع کرتی ہوں کہ روزِ حشر وقت کے ضیاع کا بھی حساب دینا ہوگا۔
جسارت سنڈے میگزین:کسی معروف ادیب سے متاثر ہوئیں؟
قانتہ رابعہ :بہت سے۔ شفیق الرحمن، ابن انشاء، مشتاق یوسفی، الطاف فاطمہ ہمیشہ پسند رہے۔ بہت سوں کے نام بھی محو ہوگئے ذہن سے۔
جسارت سنڈے میگزین:اس وقت جن ادیبات کو نوجوان نسل پسند کررہی ہے ان میں سے کسی کو پڑھا ہے آپ نے؟
قانتہ رابعہ :تقریباً تمام کو مگر سمیرا احمد کمال کی مصنفہ ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:ہم ادب سے کوئی مطالبہ کرسکتے ہیں کیا؟
قانتہ رابعہ :یہی کہ رائٹ اور لیفٹ کی نہیں رائٹ اور رانگ کی پہچان کرائے۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادب کی مروجہ اصناف میں حقیقت عصر کی لرزش محسوس کرتی ہیں آپ؟
قانتہ رابعہ :کسی حد تک، میں نے تو ہمیشہ اپنے اردگرد کے مسائل پر ہی لکھا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:سماج کی تعمیر میں ادبی نشستوں کا کوئی کردار ہے آج ؟
قانتہ رابعہ :میری والدہ ایک کہاوت کا اکثر استعمال کرتیں ’’مایا تیرے تین نام پر سو پرسا پرس رام‘‘(دولت نہ ہونے سے پرسو کہلایا، دو وقت روٹی ملی تو پرسا بن گیا، دولت کی ریل پیل ہوئی تو پرس رام کہلایا) اب تو میڈیا کا دور ہے، ہر طرف شہرت کا نشہ ہے، ہر ایک کو شارٹ کٹ کی خواہش۔
جسارت سنڈے میگزین:انتظار حسین والی نسل کا تجربہ کھو جانے کا تجربہ تھا ہماری نسل کا تجربہ؟
قانتہ رابعہ :پاکر کھو جانے کا۔
جسارت سنڈے میگزین:ادب کی دائمی قدریں کیا ہیں؟
قانتہ رابعہ :اخلاقیات اور مقصد سامنے رہے۔
جسارت سنڈے میگزین:تخلیقی ادب اگر الہام ہے تو اس میں محنت کا کیا سوال؟
قانتہ رابعہ :اس کا جواب کوئی ماہر نقاد دے سکتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:ادب کا موضوع کیا ہے؟
قانتہ رابعہ :ادب انسانوں کے لیے تخلیق ہوتا ہے تو موضوع بھی انسانی مسائل ہی ہوئے۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کیا سمجھتی ہیں ادب زندگی کا آئینہ ہے یا تعبیر ہے یا تفسیر؟
قانتہ رابعہ :آئینہ
جسارت سنڈے میگزین:کمال کے ادیب کی کیا تعریف ہے؟
قانتہ رابعہ :قاری یہ سمجھے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ ادب برائے ادب کی قائل ہیں؟
قانتہ رابعہ :متضاد سوچوں کا مالک ادب برائے ادب تخلیق کرسکتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادب کا لہجہ بھی عہد کے ساتھ بدل جاتا ہے؟
قانتہ رابعہ :بالکل! فراق گورکھپوری کا شعر ہے ؎ اگن کنڈ ہے سینہ فراقؔ دیہڑ دیہڑ جلتی ہے آگ
اب اس اردو کو کون سمجھتا ہے۔ سو دوسال میں تو زبانیں بھی بڑی حد تک بدل جاتی ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا کسی قوم کو جاننے کے لیے پہلے اس کے ادب کو جاننا ہوگا؟
قانتہ رابعہ :بالکل! اخلاقیات، معاملات کا پتہ ادب سے ہی چلتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:پانچ سو کی تعداد میں شائع ہونے والی کتاب پانچ برس بھی نہیں بک پاتی، کیوں؟
قانتہ رابعہ :ٹی وی چینل کب ادیبوں کو پروموٹ کرتے ہیں۔ ہم کب تحفے میں کتاب دیتے ہیں، ہم سب ذمہ دار ہیں اس کے۔ ہماری گفتگو کتنی مختلف برانڈ کے کپڑوں اور نئی ڈشز کے بارے میں ہوتی ہے اور کتنی کتاب کے بارے میں۔
جسارت سنڈے میگزین:طویل تحریر کے لیے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے یا مختصر تحریر کے لیے؟
قانتہ رابعہ :طویل تحریر میرا میدان نہیں ہے میرے گنتی کے چند ناولٹ ہیں وہ بھی بمشکل ہی لکھے۔ میں نے زندگی بھر جو لکھا ایک ہی نشست میں لکھا۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادیب کے لیے سماج سے گہری وابستگی ضروری ہے؟
قانتہ رابعہ :سماج سے وابستگی کے بغیر کس کی نمائندگی کرے گا۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا آپ کے خیال میں ادب پر جمود طاری ہوگیا ہے؟
قانتہ رابعہ :نہیں! لکھنے والے لکھ رہے ہیں جمود کیسا؟
جسارت سنڈے میگزین:سماج روبوٹ کے سانچوں میں ڈھل رہے ہیں، ادیب کہاں کھڑا ہے؟
قانتہ رابعہ :جب مشین کو کتاب کی جگہ دی تو روبوٹ کی کہانی ہی لکھی اور اس کی زبانی ہی سنی جائے گی۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا انٹرنیٹ سے جڑی یہ نسل بابا فرید، بھلے شاہ، بھٹائی اور سچل سرمست کو سمجھ سکتی ہے؟
قانتہ رابعہ :بہت مشکل، بلکہ سمجھنے کی خواہش بھی نہیں رکھتی۔
جسارت سنڈے میگزین:ایک ادیب کی وفاداری کیا ہے؟
قانتہ رابعہ :شعور دینے والے رب کا وفادار ہو۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادیب کے خواب اور تمنائیں اپنے عہد کی حقیقتوں کے تابع ہوتے ہیں؟
قانتہ رابعہ :کچھ ہاں! کچھ نہیں!
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادب میں بھی دفعات 62 اور 63 ہونی چاہئیں؟
قانتہ رابعہ :اگر مسلمان ہیں تو صادق اور امین ہونا تو شرط ہے ادیب ہو یا نہ ہو۔
جسارت سنڈے میگزین:ہمارے ادیبوں سے حکومتی سلوک کیسا ہے؟
قانتہ رابعہ :حکومت تو اپنے ترجمانوں کو ہی نوازتی ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:ہمارے سماج میں کیا مقام ہے ادیب کا؟
قانتہ رابعہ :سماج کے علمبرداروں سے پوچھئے۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ قاری کے ذہن کو متاثر کرتی ہیں یا جذبات میں ہلچل پیدا کرتی ہیں؟
قانتہ رابعہ :اس کا جواب قاری ہی دے سکتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:خواتین کے ڈائجسٹ ادب کی خدمت کررہے ہیں یا منڈی کا مقابلہ؟
قانتہ رابعہ :ادب میں تو حصہ بہرحال ڈال رہے ہیں ڈائجسٹ بھی۔
جسارت سنڈے میگزین:زندگی میں مطالعے کی کیا اہمیت ہے؟
قانتہ رابعہ :پہلی وحی الٰہی میں علم بالقلم کی بات کی گئی۔ میں کہوں گی کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھئے۔
جسارت سنڈے میگزین:قلم کو جنس ہونے سے کیسے بچایا جائے؟
قانتہ رابعہ :قلم مقدس امانت ہے، جو مال واسباب کے بندے ہیں ان کا قلم تو جنس ہوکر ہی بکے گا۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ہمارے تعلیمی ادارے جینے کا ہنر سکھا رہے ہیں؟
قانتہ رابعہ :افسوس جینے کا ہنر ہمارے نصاب کا حصہ نہیں، بقول اقبالؔ
زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے زندگی سوز جگر ہے علم ہے سوز دماغ
جسارت سنڈے میگزین:تعلیمی اداروں میں استاد فن تحریر کی طرف راغب کرتے ہیں شاگردوں کو؟
قانتہ رابعہ :استاد تب توجہ دلائیں گے جب وہ خود مطالعہ کا ذوق رکھنے والے ہوں۔
جسارت سنڈے میگزین:قلم کی جگہ کی بورڈ لے چکا ہے۔ آنے والی نسلوں کو کہاں دیکھ رہی ہیں آپ؟
قانتہ رابعہ :معجزے کے انتظار میں۔
جسارت سنڈے میگزین:ایک ادیب کا صلہ کیا ہے؟
قانتہ رابعہ :صلہ ادیب رب کی رضا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:جن ہاتھوں میں قلم ہے ان کی ذمہ داری کیا ہے؟
قانتہ رابعہ :قلم جنت عدن۔ آدم علیہ السلام اور عرش کی کرسی کے بعد سب سے عزیز تخلیق ہے خدا کی۔ جس کی اس نے خود قسم کھائی ہے۔ جن ہاتھوں میں قلم ہے وہ سب امین ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:آج کل کن رسائل میں لکھ رہی ہیں آپ؟
قانتہ رابعہ :شعاع، خواتین ڈائجسٹ، کرن، پاکیزہ، بتول، عفت، پکار، خواتین میگزین ان سب ماہناموں میں۔ اس کے علاوہ بچوں کے بھی تین چار ماہنامے ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:خواتین کے رسائل کے موضوعات کیا وہی ہیں رومانوی داستانیں؟
قانتہ رابعہ :یہ پرانے سلسلے تھے اب ان کے موضوعات بدل گئے ہیں۔ قارئین کا حلقہ بھی خاصہ وسیع ہوا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کے لکھنے کے اوقات کیا ہیں؟
قانتہ رابعہ :نماز فجر کے بعد، جب یکسوئی میسر ہو، موضوع زیادہ اودھم مچائے تو کسی بھی وقت ۔
جسارت سنڈے میگزین:خانگی امور میں لکھنے کے لیے وقت نکالنا مشکل نہیں لگتا؟
قانتہ رابعہ :مجھے الحمد للہ صبح جلدی اٹھنے کی عادت ہے۔ کالج میں چھ سال پڑھایا تب بھی نہ خانگی امور متاثر ہوئے نہ لکھنے کی مشق۔ زندگی حسن ترتیب مانگتی ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:کوئی یاد جو قارئین سے شیئر کرنا چاہیں؟
قانتہ رابعہ :میری دادی جنہیں ہم اماجی کہتے تھے بہت اچھا ادبی ذوق رکھتی تھیں۔ صبح تہجد کے وقت اٹھتیں تو قبر اور آخرت سے متعلق کچھ شعر گنگناتیں، جب ان کا مطلب نہیں پتہ تھا مگر اب وہی زبان پر جاری ہوجاتے ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:جنریشن گیپ کیسے کم کیا جائے؟
قانتہ رابعہ :وہ چیزیں پہلے خود اپنے ہاتھ سے رکھ دیجئے جن سے نوجوانوں کو روکتے ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:محبت کے سفر کی پہلی منزل کیا ہے؟
قانتہ رابعہ :آگہی۔
جسارت سنڈے میگزین:آخری منزل؟
قانتہ رابعہ :یہاں کوئی آخری منزل نہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:آدمی کو انسان ہونا چاہیے یا انسان کو آدمی؟
قانتہ رابعہ :آدمی کو انسان ہونا چاہیے۔
جسارت سنڈے میگزین:کہا جاتا ہے ادیب انا پرست ہوتے ہیں؟
قانتہ رابعہ :جس کے مزاج میں انا ہوگی اس کے ادب میں بھی انا ہوگی۔
جسارت سنڈے میگزین:ادیب کے لیے زندگی جذبوں کا دوسرا نام ہے۔ یہ جذباتی پن کمزوری نہیں بن جاتا؟
قانتہ رابعہ :کیا جذبوں سے بھی زیادہ طاقت ور کوئی چیز تخلیق ہوئی ہے؟
جسارت سنڈے میگزین:آپ کو وفور اظہار اتنی مہلت دیتا ہے کہ طرزِ اظہار کو بناسنوار لیں؟
قانتہ رابعہ :مجھے طرزِ اظہار سے غرض نہیں ہوتی جو لکھا جوں کا توں بھیج دیا چھپنے کو۔
جسارت سنڈے میگزین:لفظ کی حرمت کا تعلق کس چیز سے ہے؟
قانتہ رابعہ :پیشی کا احساس ہر احساس پر حاوی ہوجائے تو قلم بطور امانت ہی استعمال ہوگا۔
جسارت سنڈے میگزین:مسلم امہ کے حالات کے حوالے سے کیا کہیں گی؟
قانتہ رابعہ :اللّٰھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذبک من شرورھم
جسارت سنڈے میگزین:قاری کسی متن کو پڑھتا ہی نہیں بلکہ خود تخلیقی عمل سے گزرتا ہے۔ آپ کا قاری مشکل میں تو نہیں پڑجاتا؟
قانتہ رابعہ :قاری سے مزید پوچھ لیجئے مجھے تو ایسا کوئی ریسپانس نہیں ملتا۔
جسارت سنڈے میگزین:زندگی کی کھری اور تلخ سچائیاں اتنی نرمی اور آسانی سے کیسے پیش کردیتی ہیں؟
قانتہ رابعہ :تحریر کی نرمی یا سختی شاید لکھنے والے کے مزاج کا عکس ہوتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:کیا ادب معلوم اور نامعلوم کے درمیان کی کوئی شے ہے؟
قانتہ رابعہ :بس جو پیش کیا قاری تک پہنچ گیا یہ ادیب کا کام ہے۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کو کہانیوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں؟
قانتہ رابعہ :وضو کیا، بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر لکھنا شروع کردیا اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:چلتے چلتے کچھ تعارف آپ کے اہل خانہ کا ہوجائے۔
قانتہ رابعہ :میرے شوہر ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ پانچ بچے ہیں الحمدللہ۔
ایک بیٹی ڈاکٹر ہے، دوسری بائیو کیمسٹری میں ایم فل کررہی ہے باقی تین بچے انڈر گریجویٹ ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین:آپ کا پسندیدہ شعر
قانتہ رابعہ : ناشناسی دہر کی ہمیں تنہا کرتی گئی
ہوتے ہوتے ہم زمانے سے جدا ہوتے گئے
جسارت سنڈے میگزین:کوئی اور بات جو کہنا چاہیں؟
قانتہ رابعہ :کچھ باتیں اَن کہی رہنے دو
کچھ باتیں اَن سنی رہنے دو
جسارت سنڈے میگزین:قانتہ بہت شکریہ اپنا قیمتی وقت دینے کا۔ جسارت کے قارئین کے لیے کوئی پیغام؟
قانتہ رابعہ :پیغام تو وہی ہے جو چودہ سو سال قبل مل گیا ہے اور سب سے محبوب ہستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ ضرورت ہے اس کو سمجھنے اور اس سے جڑنے کی۔

حصہ