فرحت ندیم
اسلام نے ہمیں خوشی اور غمی کے آداب سکھائے ہیں‘ پوری دنیا میں مختلف اقوام اپنے نئے سال کا آغاز مختلف تقریبات سے کرتی ہیں‘ نوروز اور مہرجان وغیرہ جاہلیت کے دور میں عربوں کے تہوار تھے اسی طرح ایک تہوار ہیپی نیو ایئر بھی ہے۔ نیا سال شروع ہونے پر ایک جشن منایا جاتا ہے۔ 31 دسمبر کو لوگ رات دیر تک جاگتے رہتے ہیں اور نیا سال آنے کی خوشی میں جشن کی تیاری کرتے رہتے ہیں۔ جیسے ہی گھڑی کی سوئی 12 بجاتی ہے‘ لوگ گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ تفریحی مقامات پر چہل شروع ہوجاتی ہے‘ ہوٹل بک ہوتے ہیں‘ رقص و سرود کے پروگرام ہوتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا فحاشی اور بے باکی سے نئے سال کی خوشی کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اس طرح آنے والے سال کو گویا خوش آمدید کہا جاتا ہے اور جانے والے سال کو رخصت کیا جاتا ہے۔
ہیپی نیو ایئر جو عیسائیون کی اک رسم ہے‘ جو اب مسلمانوں میں بھی مقبول ہوچکی ہے‘ سردی میں بھی منچلے روڈ پر رقص کرتے نظر آتے ہیں آتش بازی ہوتی ہے‘ مختلف پوش علاقوں میں خوب رش ہوتا ہے‘ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خاموش تماشائی بنے نظر آتے ہیں جیسے نعوذ باللہ یہ اس کے منانے کا قرآن و سنت حکم دیتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم خوشی کس چیز کی منا رہے ہیں‘ اپنی زندگی کا ایک قیمتی سال کم ہونے کی؟ موت کا دن قریب آنے کی‘ بے حیائی‘ بے باکی کا عروج پر ہونا۔ بے ہودہ اور غیر اخلاقی پروگراموں کا انعقاد سرکاری سطح پر ہونا‘ ہر طرف ایکا انجوائمنٹ کا سماں ہوتا ہے مگر یہ تہوار ہر لحاظ سے غیر شرعی ہے۔ اقس کا ہماری ثقافت اور ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہماری اقدار کے بھی منافی ہے۔ ہمارا اصل سال تو محرم سے شروع ہونے والا ہجری سال ہے ہمیں نئے سال کا استقبال محرم الحرام کے آغاز پر کرنا چاہیے۔ محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جب کہ ذی الحجہ آخری مہینہ۔ دونوں ماہ حرام ہیں‘ یہ امن کے مہینے ہیں۔ ان میں لڑائی جھگڑا اور قتل غارت گری حرام کر دیے گئے ہیں۔ اسلام امن ہی امن ہے اور امن کا پیغام عام کرنے کی تاکید کرتا ہے اس طرح اسلامی سال کاآغاز بھی امن سے ہوتا ہے اور انجام بھی امن سے ہوتا ہے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے ہمارے دین میں بدعتوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ نئے سال کا تہوار منانا بت پرستوں کی شرکیہ رسم ہے اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں اللہ نے بے حیائی و فحاشی کو فروغ دینے سے منع فرمایا ہے جب کہ ہیپی نیو ایئر فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کا بڑا ذریعہ ہے یہ غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت ہے جس سے ہمیں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہے۔‘‘
وقت اور مال اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں جو غیر اسلامی تہواروں میں پڑتا ہے وہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے نہ شکری کرکے شیطان کا بھائی بن جاتا ہے تو دوسری طرف اپنی زندگی کے قیمتی لمحات اللہ کی نافرمانی میں گزار دیتا ہے پھر ہم شکوہ کرتے ہیں کہ وقت میں برکت نہیں ہے‘ برکت اسی گھر میں آتی ہے جو اپنے وقت کو سوچ سمجھ کر استعمال کرتا ہے اور سے روپے پیسے سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہے بحیثیت مسلمان ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ زندگی بہت قیمتی ہے اس کو اللہ کی مرضی کے مطابق گزاریں۔