وقت کا سفر

621

تلخیص و تحقیق؍ خرم عباسی
واقعہ معراج کے علاوہ بھی سپیس ٹائم فولڈ ہونے کے کئی واقعات ہیں۔ جن میں اصحاب ِ کھف کا واقعہ، حضرت عزیز علیہ السلام کا واقعہ وغیرہ اسلامی عقائد کا حصہ ہیں۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی سپیس ٹائم فولڈ ہوجانے کے بے شمار واقعات کا ذکر ہے۔ صرف سامی مذاہب ہی نہیں ، سناتن دھرم جس کو ہم ھندو مت کہتے ہیں اس میں بھی ٹائم اینڈ سپیس ٹریول کا ذکر ملتا ہے۔ ھندو دھرم کے مطابق تین ازمنہ ہیں۔ بھوت کال ، ورتمان اور بھاوِش کال ، مہابھارت کے ساتھ ساتھ ھندوو?ں کے چار میں سے تین ویدوں ( رِگ وید ، سام وید اور یج?ر وید ،چوتھا وید اتھروا وید ہے جو مختلف تاریک شکتیوں کو جگانے کے لئے جاپے جانے والے شلوکوں پر مبنی ہے ) میں ٹائم ٹریول کا ذکر اس شدت سے کیا گیا ہے کہ ٹائم ٹریول سے متعلق اشلوکوں کو ویدوں سے نکال دیا جائے تو ان شلوکوں کے بغیر اگلی بات بالکل بلائنڈ ہو جائے گی۔ اس کے بعد زرتشتیوں کی مقدس کتاب یاشنا میں پہلے باب کا 46 واں بند ’’اوستا‘‘ کے متعلق ہے جس میں زرتشت زمانہ ماقبل تاریخ میں جا کر اہورا مزدا کے ساتھ مل کر کچھ ایڈجسٹمنٹس کر کے زمانہء￿ حال میں واپس آتے ہیں۔ بدھ مت کی مقدس کتاب تری پتیکا میں بدھ کے 1000 نوری سال کے سفر کا روشنی کی رفتار پر سفر کرنے کا قصہ بیان کیا گیا ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ ان تمام مذاہب میں کسی بھی مشین یا اوزار کے استعمال کا ذکر نہیں ہے سوائے اسلام میں برّاق کی سواری کے ، چلیں یہاں ایک منطقی بات تو کی گئی کہ آقا کریم نے ایک سواری کو استعمال کیا ، مگر عقل انسانی دلیل مانگتی ہے کہ وہ سواری جسے براق کہا گیا وہ ایک معجزاتی سواری ہے یا اصل میں بھی کہیں موجود ہے. آج جب کائنات کی قدامت، زمان و مکاں کا مطلق ہونا یہ سب نظریات ، قدیم سائنس بن گئے۔جبکہ مذہب کے ساتھ ملتی جلتی باتیں کرنے والی نئی سائنس ماڈرن سائنس بن کر راج کرنے لگی۔ ناسا کے زیرِ انتظام ایک مشین (شِپ) بنانے کی کوشش کی جارہے ہی جس کا نام ہے، ’’سپیس ٹائم ورپ ڈرائیو‘‘۔ یہ شِپ سپیس ٹائم میں فولڈ پیدا کردے گی، جس سے سپیس ٹائم میں روشنی کی رفتار سے کہیں زیادہ تیزسفر ممکن ہوسکے گا۔ چونکہ گریوٹیشنل ویو کی اپنی رفتار ہی روشنی کے برابر ہے اس لیے اس شِپ کا سفرآئن سٹائن کے قانون کی وائلیشن بھی نہ کریگا کہ کوئی شئے روشنی کی رفتار پر یا اس سے زیادہ پر سفر نہیں کرسکتی اور یہ شِپ روشنی کی رفتار سے کئی گنا زیادہ رفتار پر سفر بھی کریگا۔ ’’سپیس ٹائم ورپ ڈرائیو‘‘ خود سپیس ٹائم کی موج پر سوار ہو کر چلیگا اس لیے قانون کی وائیلیشن نہیں ہوسکتی۔اس کو ’’الک?و بیرے ڈرائیو‘‘ بھی کہتے ہیں۔ الک?وبیرے اُس سائنسدان کا نام ہے جس نے اس مشین کو ڈیزائن کیا۔
اگر یہ شِپ کامیابی سے بنا لی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ’’البراق‘‘ کی قدرے کمزور قسم وجود میں آ جائے گی۔
رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ معراج کے دوران سالہال گزارے ہیں اور احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ماضی کی بجائے مستقبل میں سفرکرتے ہوئے آگے بڑھے ہیں کیونکہ آپ نے جنت میں اُن لوگوں کو دیکھاہے جو ابھی زمین پر موجود تھے اور بقید ِ حیات تھے، جس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل دیکھا ہے۔ آپ نے بہت آگے تک کا مستقبل دیکھاہے اور یقیناً سارے مستقبل کو عبور کرکے آپ ’’ابدی حال‘‘ کے دروازے پر پہنچے ہیں جسے سدرہ المنتہیٰ کہا جاتاہے۔ایک حدیث کے مطابق خدا خود زمانہ ہے، چنانچہ آپ سدرہ المنتہیٰ کے بعد ’’حال‘‘ میں داخل ہوئے ہیں۔ اصلی حال، خالص حال ، ابدی حال۔ اسی لیے فلسفی، خدا کے ٹائم کو ’’پیورٹائم‘‘ قراردیتے ہیں، جو خود حال ہے لیکن اس سے کتنے ہی بِگ بینگز کے پھول کھلتے اور نئی نئی کائناتوں کے س?وتے پھوٹتے ہیں۔ جو خود ہرطرح کے دورانیے سے پاک ہے لیکن اسی حال کے نقطہ مرکزی سے مستقبل اور ماضی تخلیق ہوتے ہیں۔ ان بے شمار جہانوں میں اس کی شان مختلف ہے۔ ہر کائنات اُس کے اُسی ایک پَل میں ایسے موجود ہے جیسے روشنی کی موج میں ایک فوٹان۔ وہ حال ہے، یعنی ماضی اور مستقبل کا نقطہ?اتصال۔ وہ دائم ہے لیکن غیر فعال نہیں۔ کْلّْ یَوم ?ْوَ فِ? شَاُن کے مصداق وہ اپنے زمانے میں دائم رہتے ہوئے بھی ایک سکینڈ کے دس کی طاقت مائنس بتیسویں حصے میں کائناتوں کی کائناتیں تخلیق کرسکتاہے اور کرررہاہے۔ رسول اطہر صلی اللہ وعلیہ وسلم، اُس حال میں داخل ہوئے۔ آپ کے لیے مستقبل سے گزر کرنا لازمی تھا ،چنانچہ آپ مستقبل سے گزرے۔ آپ ساتویں صدی عیسویں، اُٹھویں صدی عیسوی، نوی، دسویں، گیارہویں، بارہویں ، علی ھذالقیاس، ہرصدی سے گزرے۔ آپ کا گزر ہرصدی کے ہرسال کے ہردن میں سے تھا۔ آپ ہردن کو انسانوں کی طرح گزارتے ہوئے گزرے۔آپ نیاپنے عہد کے سامنے بچھا سارا مستقبل دیکھا۔ آپ قیامت تک کے حال سے واقف ہوگئے۔ آپ نیکائنات کے خاتمے کے بعد کا مستقبل دیکھا۔ غرض وہ مقام جہاں سب سے طاقتور فرشتے کے پر جلتے تھے، جسے ہر ہر بِگ بینگ کے ابتدائی ذرّے کی سپر پوزیشن کو کولیپس کرنے والے شاہد کا مقام کہا جانا چاہیے۔ وہ مقام جہاں لامتناہی ڈائمیشنز میں بیک وقت رہنے والا سب سے بڑا ذہن (ذاتِ حق) موجود ہے۔وہ مقام جو ابدی حال ہے اور جہاں سے کروڑوں نئے نئے بگ بینگز کے شگوفے پھوٹتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بھی پہنچے۔ یہ سارا سفر مکمل کرکے واپس لوٹے تو ابھی دروازے کی ک?نڈی ویسے کی ویسے ہِل رہی تھی۔ پانی ویسے کا ویسے بہہ رہا تھا۔یہ سپیشل تھیوری آف ریلیوٹی کا ٹائم ڈائلیشن نہیں ہے۔ یہ فقط سپیس ٹائم فیبرک کا’’ فولڈ‘‘ نہیں ہے۔ یہ روشنی ضرب روشنی کی رفتار کا مقام ہے۔ یہ کسی ایک بگ بینگ سے بنائی گئی کائنات کا مکمل سفر نہیں جو انچاس سال میں کوئی بھی انسان کرسکتاہے۔ جب کبھی بھی واقعہ معراج کا ذکر ایسے احباب کے سامنے ہو جو سائنسی طرز فکر کو ہرشئے پر ترجیح دیتے ہیں تو ان کا پہلا اور آخری سوال ایک ہی ہوتاہے کہ کسی انسان کے پاس بغیر مشین یا ٹیکنالوجی کے اتنی زیادہ توانائی کیسے آ سکتی ہے کہ وہ روشنی کی رفتار ہی حاصل کرسکے کجا کے ن?ورعلی ن?ور کی رفتار کا حاصل کرنا۔ لیکن حقیقت میں یہ وہ مقام ہے جہاں سائنس سے زیادہ فلسفہ ، نفسیات اور پیراسکالوجی کا جہان شروع ہوتاہے۔ عام طور پر اکیڈمکس کے نزدیک پیراسائیکالوجی ہومیو پتھک کی طرح بے بنیاد چیز ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ سائیکالوجی میں انسان کی علمی کاوشیں ابھی کسی انقلاب کی منتظر و محتاج ہیں۔ جبکہ پیرا سائیکالوجی کا تو نام ہی جادوگروں جیسا ہے۔کسی انسان کے پاس مشین کے بغیر اتنی توانائی کہاں سے آ سکتی ہے کہ وہ معراج جیسی طاقت حاصل کرلے. اس سوال کا جواب ہے، استحکام ِ خودی سے۔ یہی وہ استحکام ِ خودی ہے جس کا استعمال کرکے نیٹشے اپنے رجعتِ ابدی سے پیدا ہونے حَبس کو توڑتا،ایک سپرمین کو تخلیق کرتا اور کائنات کو اسکے سامنے بے بس قراردینے کے لیے تیار ہوجاتاہے۔ استحکام ِ خودی کا نظریہ فزکس، حیاتیات اور شعور کی سائنس کو یکجا کرکے توانائی کے مراکز تک رسائی حاصل کرنے کا نام ہے۔ جب یورینیم کا ایٹم ، پھاڑا نہیں گیا تھا تب تک انسان کو معلوم نہیں تھا کہ محض ایک چمچ مادہ سے اتنی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے جو لاکھوں کی آبادی کے شہروں کو اُن ِ واحد میں تباہ کردے۔ ایٹم کے نیوکلیس کی یہ عظیم ترین توانائی کل تک غیب تھی۔ آج ہمارے قابوں میں ہے۔ ہم فزکس کے مطالعہ کے دوران جانتے ہیں کہ توانائی کی کچھ ایسی قسمیں بھی ہیں جن کا راز ابھی تک صرف اور صرف راز ہے۔ جیسا کہ کائنات کی تہتر فیصد توانائی کو ’’ڈارک انرجی‘‘ کہا جاتاہے اور اس کی کسی بھی صفت سے انسان ابھی تک واقف نہیں کہ ڈارک انرجی کیا ہے اور کیسی ہے؟ اسی طرح اینٹی میٹر کہاں ملیگا؟ جس کا ایک گرام اگر ہمارے پاس ہو تو ہم ایک کار کے ذریعے خط اُستوا پر سفر کرتے ہوئے زمین کے دس ہزار چکر لگا سکتے ہیں یا اپالو ففٹین جیسا ایک راکٹ خلا میں بھیج سکتے ہیں۔ یا انفلشین کے وقت اتنی توانائی کہاں سے آئی جس نے ایک نہایت باریک ذرّے سے جو یقیناً خود بھی سپرپوزیشن پر ہوگا، ایک سیکنڈ کے دس کی طاقت مائنس بتیسویں حصے میں کائنات کا سارا مادہ پیدا کردیایا کشش ثقل کی عظیم ترین توانائی کہاں غائب ہو جاتی ہے کہ جب محسوس کرنے لگو تو ایک تنکے برابر نہیں اور د?ور سے دیکھو تو اس نے پوری کائنات کو پکڑ رکھاہے۔یا ڈارک میٹر کیا ہے اور اس کے پارٹکلز کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض توانائی اور ریڈی ایشنز کی ابھی لامحدود قسمیں اَن ایکسپلورڈ ہیں۔ سو جیسے اِن توانائیوں کے راز پنہاں ہیں ویسے اور بھی کچھ توانائیاں ہیں جو ابھی تک فزکس اور نفسیات کی نظروں سے بالکل پوشیدہ ہیں۔ ان میں سے بعض ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں ہم بھی اوراہل ِ سائنس بھی تجسس کا ایک شائبہ سا رکھتے ہیں لیکن جانتا کوئی نہیں کہ وہ کیا ہے۔رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کا رہن سہن، کھانا پینا، کردار کی پختگی،صداقت، امانت ، تکالیف کو سہنا اور دوسروں کے لیے عمر بھر تگ و دو، ایسے عناصر ہیں جن سے بقول قران،ایسی ہی توانائیاں حاصل ہوتی ہیں جن کی پیمائش شاید فزکس کے بس میں ہی نہ ہو لیکن جو بقول قران ’’سلطان‘‘ ہیں اور جن کی مدد سے ہم کائنات کے کناروں سے نکل کر صاحب ِ لولاک بن سکتے ہیں۔ یہ یقیناً نفسیات کی ڈومین ہوسکتی ہے لیکن نفسیات ابھی بچی ہے۔ انسان کو کتنے رازوں کا مجموعہ بنایا گیا ہے اس پر تو کبھی کسی نے نگاہ ہی نہیں کی۔ کائنات میں کتنے راز ہیں ابھی تک انسان اِس مخمصے کو سلجھانے میں لگا ہوا ہے۔
( جاری ہے)

حصہ