ماں

254

شاہجہاں رشید
گزشتہ دنوں ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا‘ ویسے میں اب تقریبات میں جاتی نہیں ہوں کیوں کہ میں کافی عرصے سے بیمار ہوں‘ وقت پر دوا کھانی ہوتی ہے اور پرہیزی کھانا اور سونا بھی جلدی ہوتا ہے۔
جو وقت میرے سونے کا ہوتا ہے‘ اس وقت لوگ ہال میں آنا شروع ہوتے ہیں‘ گیارہ سے بارہ کے درمیان مہمان آتے ہیں‘ پھر کھانا شروع ہوتا ہے اور قریبی عزیز ہوں تو رخصتی تک رکنا بھی ضروری پھر گھر آکر چینج کرنا۔
ایک رات کی بے ترتیبی کئی دن تکلیف دیتی ہے‘ مجھے ہی نہیں بچوں کو بھی کوفت ہوتی ہے بس اس لیے میں نہیںجاتی۔ لیکن یہ میرے بھائی کے گھر کی آخری شادی تھی لہٰذا بھائی نے کہہ دیا تھا کہ آپ کو ضرور آنا ہے ورنہ رخصتی نہیں ہوگی۔
خیر میرا جانا اس لحاظ سے اچھا رہا کہ بہت سارے دور کے رشتے دار جو اب کم ہی بلائے جاتے ہیں‘ وہ بھی آئے تھے اس طرح سب سے ملاقات ہوئی‘ انہی میں میری ایک کزن تھیں جو عمر میں مجھ سے کچھ بڑی تھیں مگر ہماری دوستی ہمیشہ رہی تھی کیوں کہ ہم بہت عرصے پڑوسی بھی رہے تھے۔
وہ اپنے سب بچوں کی شادیوں سے فارغ ہو چکی تھیں مگر ان کے دوسرے نمبر کی بیٹی غیر شادی تھی اور تقریباً اس وقت 47 سال کی تھی۔ ایک جگہ منگنی ہوئی تھی کافی عرصے پہلے مگر کسی وجہ سے شادی نہ ہوسکی اس نے ایم اے‘ ایل ایل بی کیا تھا مگر والد اور بھائیوں نے جاب نہیں کرنے دی اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دوسروں کی بیٹیوں کو جاب کی وجہ سے بہت برا سمجھتے تھے اور برے برے نام دیتے تھے۔
والد کے انتقال کے بعد اگرچہ ایک بہو بھی جاب کرنے والی لو میرج کرکے آئی تھی مگر بہن کے لیے ان کے اصول نہ بدلے ایک ایک کرکے پانچ بھائیوں اور ایک بہن کی شادی ہو گئی مگر اس کے نصیب نہ کھلے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ذہنی مریضہ بن گئی گھر میں چیخ پکار‘ لڑائی جھگڑا‘ رونا چلانا سب کچھ چلتا تھا۔ کھانا کھاتی اور اپنے کمرے میں بند ہو جاتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایک کرکے سارے بھائی الگ ہوگئے۔ ایک بھائی ساتھ ہے مگر اس کی بیوی صبح میاں کے جانے کے بعد کمرہ بند کرکے بیٹھتی ہے پھر شام کو میاں کے آنے پر ہی باہر نکلتی ہے۔
بوڑھی ماں سدا کی مریض بن گئی ہیں رات بھر جاگتی اور آدھا دن سوتی ہیں مگر جب بھی اٹھتی ہیں انہیں ناشتا بنا کر دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بہو اور بیٹی دونوں کمرہ بند کرکے بیٹھی رہتی ہیں وہ خود ہی ہمت کرکے باورچی خانے میں جاتی ہیں اپنے لیے چائے بناتی ہیں‘ سالن رات کا ہوتا ہے دوپہر کو اپنے لیے اور اپنی بیٹی کے لیے روٹی بناتی ہیں۔
بیٹی اٹھتی ہے اپنے لیے چائے بناتی ہے‘ کمرے میں لے جاتی ہے۔ بھوک لگے تو کھانا گرم کرکے لے جاتی ہے نہ ماں کو پوچھتی ہے نہ دیتی ہے۔ یہی حال بہو کا ہے بھولے بھٹکے کوئی ملنے والا آجائے تو دو باتیں کر لیتی ہیں ورنہ بغیر بولے کئی کئی دن ہو جاتے ہیں۔ بیٹا بھی رات کو دیر سے آتا ہے اور سیدھا کمرے میں جاتا ہے بہو اس وقت کھانا پکاتی ہے اور کمرے میں لے جاتی ہے نہ بیٹا ماں اور بہن کو پوچھتا ہے نہ بہو۔
تقریب میں انہوں نے رو رو کر یہ کتھا سنائی کیونکہ بہو اپنے میکے والوں کے ساتھ بیٹھی ہنسی مذاق کر رہی تھی اور بیٹی تو آئی ہی نہیں تھی ورنہ شاید وہ اپنے دل کی بات نہ بیان کر پاتیں۔
میں نے انہیں فون نمبر دیا اور ان سے کہا کہ مجھ سے فون پر رابطہ رکھیں کم از کم دل کی بات کرکے دل تو ہلکا کر سکتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کے موبائل میں بیلنس بھی نہیں ہوتا تب میں نے ان کے موبائل میں ان کا نمبر سیف کرکے ان سے کہا کہ میں خود انہیں فون کر لیا کروں گی۔ میر انام دیکھ کر آپ فون ریسیو کر لیا کرنا کیونکہ نامعلوم نمبروں کو رسیو کرتے ہوئے وہ ڈرتی ہیں۔
اب میں سوچ رہی ہوں کہ کس طرح جھوٹی انا کی خاطر ایک پڑھی لکھی ذہین لڑکی برباد ہوگئی والد کی دوسروں کے لیے کی جانے والی نکتہ چینی نے اسے جاب نہیں کرنے دی ان کے انتقال کے بعد ماں نے اسٹینڈ نہیں لیا۔ بھائیوں نے صرف اپنے بارے میں سوچا اور اب اپنی فیملی کے سکون کی خاطر گھر بھی الگ کر لیے۔
آخری بیٹا ساتھ رہتے ہوئے بھی صدیوں کے فاصلے پر ہے شادی تو مقدر سے ہوتی ہے لیکن اگر وہ جاب کر رہی ہوتی تو کم از کم اس کا ذہن بٹا رہتا‘ ہاتھ کشادہ رہتا‘ اپنی ماں کی اور گھر کی سو ضرورتیں پوری کرتی‘ خوش نہیں تو ناخوش بھی نہ رہتی۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ماں کو مضبوط ہونا چاہیے اور بچوں کی خاطر ڈٹ جانا چاہیے تاکہ کوئی بیٹی اس طرح برباد نہ ہو اور ماں بڑھاپے میں یہ دکھ نہ جھیل رہی ہو۔ کیا آپ میری اس بات سے متفق ہیں؟

حصہ