بنتِ نور
محبت بہت ہی خوب صورت جذبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر محبت کا جذبہ رکھا ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ محبت کرے اور بدلے میں اس سے محبت کی جائے۔ محبت کیا ہوتی ہے‘ یہ دل میں کیسا جذبہ‘ کیسی کیفیت پیدا کرتی ہے؟ ہزروں کتابیں اس پر لکھی جا چکی ہیں۔
جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو اسے دنیا کی کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی۔ اسے پروا ہوتی ہے تو صرف اس بات کی کہ اس کا محبوب اس سے خوش رہے۔ محبت انسان کے ہر ہر انداز سے چھلکتی ہے۔ اس کے اخلاق‘ اس کے لہجے‘ اس کے کردار ہر چیز سے محبت کا عکس نمایاں ہوتا ہے۔ اس کو صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ وہ کچھ ایسا کرے کہ اس کا محبوب بھی اس سے محبت کرے‘ اس کی پروا کرے‘ اس کے بارے میں سوچے… لیکن ایک منٹ ٹھہریے… ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے جو ذات ہم سے اتنی محبت کرتی ہے‘ ہماری اتنی پروا کرتی ہے‘ ہمارا ہر لمحہ خیال کرتی ہے… ہم اس کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ ہم اس سے کیسی محبت کرتے ہیں؟ ہم زبان سے اس سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں پر اس کی کسی بات کا خیال نہیں رکھتے اور نہ اس کی پروا کرتے ہیں۔ ہمارا اخلاق ہمارا کردار‘ ہمارا لہجہ ہر چیز اللہ کی پسند کے برعکس ہے۔ ہم لوگ خوب صورت ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا یہ خوب صورتی ہمیں اللہ سبحان و تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا کردہ ہے۔ ہم کسی کا مذاق اڑانے اور کسی کو نیچا دکھانے میں ایک لمحہ نہیں لگاتے‘ ہم نے کبھی غور کیا کہ یہ اختیار تو صرف اللہ سبحان تعالیٰ کے پاس ہے کہ کس کو بلندی عطا کرے اور کس کو نیچا کر دے۔
اللہ سبحان تعالیٰ تو اپنے بندے کے بڑے سے بڑا گنا بھی معاف کر دیتے ہیں اور ہم ایک دوسرے کی چھوٹی سی چھوٹی بات بھی معاف نہیں کر پاتے۔ انسان جو خطا کا پتلا ہے‘ ہر کسی کے بارے میں باتیں کرنے‘ لوگوں کی برائیاں کرنے سے باز نہیں آتے بلکہ اس کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ہم اللہ کی پسندیدہ مخلوق ہیں لیکن ہم ہی سب سے زیادہ نافرمان بھی ہیں جس نے اپنا مقصدِ حیات کو بھلا دیا ہے۔
ہم ایک طرف نمازیں‘ روزے‘ زکوٰۃ‘ خیرات‘ صدقات اور نیکیوں کے انبار لگا دیتے ہیں اور دوسری طرف غیبت‘ چغلی‘ جھوٹ اور اللہ کے ناپسندیدہ کام کرکے اپنے اچھے اعمال ضائع کر دیتے ہیں حالانکہ اللہ نیکی کرنے سے اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا گناہ کرنے سے ناراض ہوتا ہے اور گناہ کو چھوڑ دینے سے خوش ہوتا ہے۔
جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب بھی اس سے محبت کرے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ایسی کوئی شرط نہیں رکھتا کیوں کہ اللہ کو انسان کی محبت کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ ہماری ضرورت ہے کہ ہم اللہ سے محبت کریں۔ ایک انسانی ضرورت۔ اللہ اس شخص کو ضرور نوازتا ہے ہے جو اس سے محبت کرتا ہے‘ اس کی تعریف کرتا ہے‘ اس کا شکر ادا کرتا ہے‘ صرف اسی پر بھروسہ کرتا ہے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے۔
سورہ آل ِ عمران کی آیت نمبر 31 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’کہہ دیجیے (اے محمدؐ) اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
پس اگر ہمیں اللہ سے محبت ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کے پسند کے کام کریں‘ ایک دوسرے سے محبت کریں‘ ایک دوسرے کی مدد کریں اور ایک دسرے کو نیکی کی تلقین کرتے رہیں اور برائی سے روکتے رہیں اور اس کام میں جو تکلیفیں آئیں انہیں اللہ کی رضا کے لیے برداشت کریں اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جن سے وہ محبت کرتا ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث کا مفہوم ہے ’’جب اللہ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو کہتا ہے میں اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں‘ تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیںاور جنت کے باقی فرشتوںکو بھی کہتے ہیں کہ اللہ اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو تم بھی اس سے محبت کرو تو جنت کے فرشتے بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں پھر اس بندے کی محبت دنیا میں پھیلا دی جاتی ہے۔
آیئے آج اللہ سے سچی توبہ کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ہم اللہ سبحان و تعالیٰ سے خالص محبت کریں گے تاکہ ہم پھر سے اللہ کی پسندیدہ مخلوق بن سکیں اور اس کی رضا حاصل کرسکیں اور بدلے میں اللہ سبحان و تعالیٰ کی اور فرشتوں کی محبت پاسکیں اور قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق قرار پائے‘ آمین۔