پین دی سری

1917

یہ ہفتہ تو بلا شبہ سال 2017کا ’ہفتہ سوشل میڈیا ‘ کہلائے جانے کے قابل تھا، جب ملک بھر کے ٹیلی وژن چینل، کیبل ، لائیو نشریات سب بند کر دی گئیں ۔یہی نہیں پھر فیس بک، یو ٹیوب بند کر دیے گئے ، انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی ،بس پھر کیا تھا وہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ’اظہار آزادی ‘کو جتنا دَباؤ اُتنی ہی پھیلتی چلی جاتی ہے ۔ویسے سابق حکومت نے جو یہ نئی راہ دکھائی تھی کہ ’’سب بند کردو‘‘ اُسے موجودہ اور لگتا ہے کہ آئندہ تمام حکومتیں بھی خوشی سے اپنائیں گی ۔ابھی اطلاع آئی ہے کہ بارہ ربیع الاول کو بھی حکومت یہ پریکٹس کرنے جا رہی ہے ، بہر حال یہ 26,27نومبر والی پابندی تو اس سے بھی ہارڈ ہو گئی تھی ۔ویسے موجودہ نواز لیگ کی حکومت یہ کام پہلے بھی ممتاز قادری شہید کی نماز جنازہ کے موقع پربھی کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس پورے معاملے میں حکومتی اقدامات نہایت عجیب رہے ۔اس کا آغاز ممتاز قادری ؒشہیدکی پھانسی سے کریں یا انتخابی اصلاحات کے بل میں چھیڑ چھاڑ کرنے کے معاملے پر، دھرنے کے معاملے میں کہیں یا دھرنا سمیٹنے کے معاملے پر ، کسی رُخ سے بھی تجزیہ کریں حکومتی پالیسیاں آپ کو ’’اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے ‘‘کی مانند ہی نظر آئیں گی۔بہر حال پابندی لگی تو اُس کا توڑ بھی ہمارے ماہرین کے پاس تھا، واٹس ایپ پر دھڑا دھڑ آئی ٹی ماہرین کی جانب سے مختلف وی پی این کے ایڈریسز اور فیس بک، ٹوئٹر ، یوٹیوب چلانے کے طریقہ کار موصول ہوتے رہے۔ جن کے پاس سہولت اور وقت تھا وہ استفادہ کرتے رہے ۔ دو دن کے اِس وقفے کے بعد دوبارہ فیس بک جوائن کرنے والوں نے اس پابندی پر خوب بھڑاس نکالی ، کچھ نے اس موقع کو سکون کے لمحات قرار دیا۔کراچی سے ہمارے ایک فعال سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ دوست فہیم پٹیل لکھتے ہیں کہ’’ہٹو بچو! پورے 27 گھنٹوں بعد اندر کے تجزیہ کار کو اظہار کا موقع مل رہا ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گا!‘‘ دوسری جانب کراچی سے عالیہ منصور کہتی ہیں کہ ’’مہینے میں ایک بار ذہنی سکون اوراسٹریس سے بچاؤکے لیے PTA سوشل سائیٹس بند کردیا کرے تو کیسا ہو؟۔اس دوران کچھ گھنٹے نیوز چینلز کی بندش سے بولتی زبانوں اور سنتے کانوں کو بھی ریسٹ ملنے کی امید ہے۔‘‘اندرون سندھ سے عبد السمیع کی بے ربط خیالات کے عنوان سے لکھی گئی پوسٹ بھی خاصی مشہور ہوئی کہ ’’اتوار ہے، فیس بک بھی بند ہے، اور تمام چینلز بھی۔ خواتین آج ہی اپنے شوہروں کا درست استعمال کرسکتی ہیں۔گھر کے پنکھے، بجلی کے بورڈ صاف کروالیں، گھر کے جالے اتروالیں اور اگر ممکن ہو تو فریج بھی صاف کروالیں۔‘‘دوسری جانب اسلام آباد سے طارق حبیب نے ’رہے نام مولا کا ‘کے روایتی اسلوب کے ساتھ ایک جامع تبصرہ کیا کہ ’’یاد ماضی عذاب ہے یارب۔بھیانک مناظر بچوں کی نفسیات پربرُا اثر ڈالتے ہیں اور وہ اندھیرے اور تنہائی میں نفسیاتی دبائو کا شکار ہو کر چلّانے لگتے ہیں۔بھوت آیا، بھوت آیا۔کچھ ایسا ہی حال پاکستانی قوم کا ہوگیاہے۔ ماضی کے بھیانک ملکی اَدوار نے اس قوم کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے اور اب اگر لائٹ بند کرکے اندھیرے کردیے جائیں یاسوشل میڈیا ، چینلز وغیرہ بھی بند کرکے سارے رابطے ختم کردئے جائیںتو قوم بھی تنہائی کا شکار ہو جاتی ہے اور گھبرا کر ہزیانی کیفیت میں چلّانا شروع کردیتی ہے۔بوٹ آیا۔ بوٹ آیا۔‘‘
اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک اور مقبول موضوع ’پین دی سری‘ بھی بنا ۔اس کا پس منظر کیا ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں البتہ اس کی شہرت اور سوشل میڈیا پر گونج آپ کو ضرور سناتے ہیں ۔تین الفاظ پر مشتمل اس فقرہ کی مقبولیت ایسی ہوئی کہ اسے پاکستان میں ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔’پین دی سری ‘اور ’ علامہ پین دی سری دامت برکاتہم ‘سمیت کچھ اکاؤنٹس بھی فیس بک پر بنے ، کچھ گروپس بھی بن گئے۔کئی طنز و مزاح پر مبنی ٹوئیٹ بھی چلتے رہے جن میں ایک جوابی ٹوئیٹ کا انتخاب کیا ۔معروف بھارتی اداکار نے لکھا کہ (ترجمہ) ’’ دنیا میں دو طرح کے درد (پین) ہوتے ہیں ۔پین وہ جو آپ کو تکلیف دے اور درد وہ جو آپ کو تبدیل کر دے۔‘‘مہوش اعجاز نے اس ٹوئیٹ کے جواب میں تحریر کیا۔’’ ایک تیسری قسم بھی ہے A pain di Siri‘‘۔اسی طرح یہ ٹوئیٹس بھی خاصی مقبول رہی ۔’’احسن اقبال: ہم 3 گھنٹے میں دھرنا ختم کرا دیں گے۔خادم حسین: تواڈی_پین_دی_سری۔ ‘‘ نواز شریف: مجھے کیوں نکالا؟سپریم کورٹ: تواڈی_پین_دی_سری‘‘
لاہور سے ہمارے دیرینہ دوست ندیم اعوان لکھتے ہیں ،’’کئی روز سے سوشل میڈیا سمیت ہر محفل میں تسلسل کے ساتھ “پین دی سری” کا لفظ سنائی دے رہا ہے۔ میں اسے گالی سمجھتا رہا۔ اپنی لاعلمی کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب لائیو نشریات کے دوران اینکر نے مولانا خادم رضوی سے پوچھا کہ کہا جاتا ہے کہ آپ تقاریر میں گالیاں بہت دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آپ سے منسوب پین دی سری بہت چل رہا ہے۔ جواب میں مولانا رضوی صاحب غصہ کرنے کی بجائے مسکرائے اور فرمایا۔ اول تو میری کسی تقریر میں کوئی گالی ہوتی ہی نہیں اور جہاں تک گالیوں کا تعلق ہے قرآن و حدیث میں 50 سے 60 دلائل موجود ہیں۔ جو علماء عوام کے سامنے پیش نہیں کرتے۔ میں چند آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
لبِ خادم پہ آئی تو گالی نہیں رہی
زبان زدِ عام ہے اب پین دی سری
ویسے یاد آیا یہ لفظ کوئی نیا نہیں۔ پہلے بھی پنجابی تقاریر میں سن چکا ہوں۔ فن خطابت میں مقرر بہت کچھ بول جاتے ہیں۔ ایسے مقررین کو اپنی بریکیں ٹائٹ رکھنی پڑتی ہیں۔ ورنہ کبھی کبھی تقریر مہنگی بھی پڑ جاتی ہے۔فیض آباد دھرنے کا فیض ہے کہ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی سے ستائی قوم کو اپنا غصہ نکالنے کے لیے “حلال گالیاں” معلوم ہوگئی ہیں۔ جو کسی وزیر، سیاست دان یا دشمن کو نکالی جاسکتی ہیں۔”علامہ” صاحب کی پنجابی تقاریر سے متاثر ہوکر میں ’’پین دی سری ‘‘کا پنجابی مطلب تلاش کررہا تھا۔ کسی دوست نے تصویر شیئر کرکے مسئلہ حل کردیا کہ “جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے” کی طرح “پین دی سری” بھی پنجابی نہیں اردو+انگریزی محاورہ ہے۔اُمید ہے آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے۔
سوشل میڈیا پر ’تحریک لبیک یا رسول اللہ ‘ کی انتہائی موثر گرفت پر میں پہلے بھی بات کر چکا ہوں ، اس پابندی اور مجموعی میڈیا کوریج میں کمی کے متبادل کے طور پر دھرنے کی سوشل میڈیا پر بہت موثر ، لمحہ بہ لمحہ کوریج دیکھی گئی ۔ بہ یک وقت کئی کئی پیجز، گروپس، اکاؤنٹس میں مسلسل لائیو کوریج جاری رہی ۔یہی وجہ تھی کہ مولانا صاحب کے جوش خطابت میں ادا ہو جانے والے ہر قسم کے ’تمام ‘الفاظ نشر ہو جاتے ۔یہ ’ پین دی سری‘ اسی بھرپور کوریج ہی کی بدولت نصیب ہوایا ہوئی۔ اسی طرح جب حکومت نے دھرنا ختم کرنے کا انتہائی اقدام اٹھایا تو ٹی وی چینلز ریٹنگ کے چکر میں کود پڑے پھر جو کچھ ہوا وہ تو سب نے دیکھا ۔ اسی طرح دھرنے کے اختتام پر محترم ڈی جی رینجرز پنجاب کی جانب سے مظاہرین میں لفافے کی تقسیم کرتے ہوئے کی ویڈیو بھی خاصی وائرل ہوئی اور دل کھول کر تبصرے ہوئے ۔بہر حال تحریک انصاف کی جانب سے مخصوص نشستوں پر نامزد رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری صاحبہ کی بیٹی ایمان مزاری نے زیادہ جذباتی ہو کر بودے دلائل کے ساتھ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تبصرہ جاری کیا جس میں پاک فوج کے حوالے سے خاصی سخت بات کی گئی ۔ اِن کی اس ویڈیو پر جواب بھی آئے مگر بات یہ تھی سمجھنے کی کہ جناب ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل اظہر نوید کے پاس نہ ہی اس ’اہم کام ‘کے لیے ذیلی اسٹاف کی کمی تھی اور نہ ہی اُن کا یہ کام تھا جو ویڈیو میں دکھایا جا رہا ہے۔ پاک فوج جتنا منظم ادارہ ہے آپ اُس سے یہ توقع کسی طور رکھ ہی نہیں سکتے کہ اُس کا ایک میجر جنرل سڑک پر کھڑے ہو کر مظاہرین کو لفافے بانٹے وہ بھی میڈیا کے سامنے پھریہ بھی بتائے کہ اس میں کیا ہے ۔واضح ہے کہ جو کچھ کیمروں کی موجودگی میں انہوں نے گفتگو فرمائی وہ سب مختلف جگہوں پر ریکارڈ ہو رہی تھی وہ یہ بہ خوبی جانتے تھے اور اس ویڈیو کو بنوانے کا کوئی خاص مقصد تھا ۔یہی وجہ ہے کہ پورے ملک کے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آپ کو صرف یہی ایک ویڈیو نظر آئے گی۔ تو کیا باقی کسی جگہ ، کسی کو لفافے نہیں ملے ، یا ملے تو اُس کی کوریج کیوں نہیں ہوئی؟یہ اور اس جیسے بہت سارے سوالات اس ویڈیو نے جنم دیے ہیں جن کے جوابات گزرتے وقت کے ساتھ سامنے آئیں گے ۔

حصہ