صلہ کیوں ڈرتی ہے

318

عشرت زاہد
ہم ٹی وی سے ایک ڈرامہ آ رہا ہے۔’’ڈر سی جاتی ہے ‘‘۔۔۔۔ یہ ایک جوائنٹ فیملی ، بڑے خاندان کی کہانی ہے۔جس میں بڑے سے گھر میں دو خاندان رہ رہے ہیں۔ اور پڑوس میں بہن کا گھر ہے۔ اس کہانی میں محرم نامحرم کا کوء۔تصور نہیں ہے۔ بغیر کسی روک ٹوکایک دوسرے کے گھر میں آنا جانادکھایا گیا ہے۔بڑے بھاء کے خاندان کے ساتھ بیوی کا بھاء جوء ماما بھی رہتا ہے۔جو بڑی عمر کا غیر شادی شدہ مرد ہے۔بظاہر گھر بھر کا خیرخواہ اور ہر ایک کے کام آنے والا ہے۔لیکن دراصل وہ ایک ایسے جانور کی طرح ہے جو بغیر کسی لگام کے، گھر کے کمرے، کونے ہوں یا چھت، ہر جگہ دندناتا ہوا پھر رہا ہوتا ہے۔اس میں اس کا شکار اسکی بہن کی دیورانی اور اس کی جوان بیٹی ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں مجبور اور بیبس ہیں۔کیوں کہ ان کا محرم اور سرپرست یعنی چھوٹا بھاء دور دراز ملک کینڈا میں ڈالر کمانے کے چکر میں ہے۔ اور اپنی اصل ذمہداری دوسروں کے سر ڈال کر راہ فرار اختیار کیا ہوا ہے۔ تھوڑا بہت خرچہ بھیج دیتا ہے۔۔کبھی کبھار چکر بیزاری کے ساتھ لگاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بیوی اور بچوں کے ساتھ لگاؤ، محبت اور اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہو پاتا۔اور بیوی بچے مزید عدم تحفظ محسوس کرتے ہیں۔ ان حالات کا جوء ماما خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور سب کی نظر بچا کر اپنی شیطانی حرکتیں جاری رکھتے ہیں۔
یہ بات تو ٹھیک ہے کہ غیر مردوں پر انھا اعتماد کرتے ہوئے مکمل آزادی کے ساتھ گھروں میں گومنے پھرنے کی اجازت ہو تو اس طرح کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اور ہر گھر میں اس کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ اس طرح کے شیطان نما انسانوں سے صرف خواتین ہی نہیں بلکہ کمسن بچے بھی غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ سب اتنے کھلے انداز میں دکھایا جا رہا ہے۔کہ کسی کے ساتھ بیٹھ کر تو کیا اکیلے میں بھی دیکھ نہیں سکتے۔ اس قدر بے باک بیحیاء کے ساتھ یہ ڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں ، یقینا اس کے برے اثرات معاشرے پر اثر انداز ہونگے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے ڈراموں میں کچھ اسی طرح کا ماحول بتایا جا رہا ہے۔ نا محرم کا کوء لحاظ نہیں کیا جاتا۔تعلیمی ادارے ہوں یا آفس کا ماحول ، اس طرح بے راہروی عام ہے یہ باور کرایا جا رہا ہے۔شادی سے پہلے کسی سے افیئر چلانا ، اس کے ساتھ اکثر ہوٹل یا ریسترانوں میں جوس وغیرہ پیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ ( بلکہ یوں کہنا چاہے کہ جوس وغیرہ سامنے رکھا ہوا دکھایا جاتا ہے، اور پھر گفتگو کے دوران اکثر کسی بات پر فریقین میں اختیلاف ہو جاتا ہے اور وہ جوس کو ہاتھ لگا? بغیر ہی وہاں سے چل پڑتے ہیں۔ ) یہ بہت دل فریب انداز میں دکھا کر ہماری نوجوان نسل کا برین واش کیا جا رہا ہے۔ کہ تم اگر کسی کو پسند کرتے ہو تو اس سے اس طرح ملاقاتیں کی جا سکتی ہیں۔ اس میں کوء معیوب بات نہیں۔ اور اگر اس سے شادی نہیں بھی ہو سکی تو کوئی حرج نہیں۔ شادی کے بعد بھی اس سے تعالق رکھا جا سکتا ہے۔ یا پھر اپنے شوہر کو اس کے جائز حق سے محروم رکھ کر پرانے عاشق سے محبت کا بیشرمی سے اظہار کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات مختلف خوبصورت انداز سے اس طرح دکھاء جاتی ہے کہ آہستہ آہستہ اس سے کراہیت ختم ہو جائے۔
ہم ٹی وی کا ایک ڈرامہ’’ یقین کا سفر‘‘ بھی تھا. اس میںخواتین کے کپڑے زیادہ تر مشرقی طرز،کے تھے اور اس میں دپٹہ بھی نظر آیا جو آجکل کے دیگر ڈراموں میں ندارد ہے۔ اور شمالی علاقہ جات میں عکسبندی کی گء ہے، وہ بھی بہت خوبصورت تھا۔ اسی کی طرح کا ایک اور ڈرامہ ’’نیلم کنارے‘‘ آ رہا ہے۔ اس میں کشمیری خاندان اور ویسے ہی گھر اور ماحول دکھایا گیا ہے۔ خوبصورت عکاسی اور حسین نظارے سب اچھا ہے، لیکن اس ڈرامے میں بھی وہی نامحرم سے آزادانہ میل جول دکھایا گیا ہے۔ ایک نامحرم جو شوہر کا دوست ہے، وہ آرام سے گھر میں رہتا ہے اور شوہر کی غیر موجودگی میں لڑکی کو پڑھانے اور کالج کی لانے لے جانے کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ پھر جب الزام لگا کر گھر سے نکال دکا جاتا ہے تب بھی کوء غیر آدمی کا گھر ہی لڑکی کی پناحگاہ بن جاتا ہے۔ یہ سب ہماری تہزیب و روایت اور دین کا طریقہ تو نہیں ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ دین سے دوری کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ دین کا صحیع شعور ہی پردہ اور محرم و نامحرم کی تمیز سکھاتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پیمرا کا ادارہ اسی مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر ان چینلز کو بر وقت روکا جائے اور ان کے لیے ضابطہ اخلاق پر عمل کرنا لازمی قرار دیا جائے، تو معاشرتی بگاڑ کا موجب بننے والے یہ ڈرامے درست سمت اختیار کر سکتے ہیں۔ ماضی میں بنائے جانے والے معیاری ڈرامے اس کی بہترین مثال ہیں۔ان ڈراموں میں مہزب زبان استعمال کی جاتی تھی اور رشتوں کا احترام دکھایا جاتا تھا۔۔۔ اور لباس کا خصوصی طور،پر خیا ل رکھا جاتا تھا۔ یہ ڈرامے دنیا بھر میں بہت شوق سے دیکھے جاتے تھے۔خصوصاً پڑوسی ملک میں ان کی بہت مانگ تھی۔۔۔ انھوں نے ان ڈراموں سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ہمارے ملک میں ویسے ہی معیاری اور یادگار ڈرامیاب بھی دوبارہ بنائے جا سکتے ہیں۔

حصہ